https://youtu.be/5bI3LLOENhQ اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ اسلامی تاریخ کے پانچ اہم مقامات روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ یکم مارچ۲۰۱۴ء میں مکرم راشد محمود منہاس صاحب کے قلم سے اسلام کے پانچ تاریخی مقامات کا تعارف شامل اشاعت ہے۔ مسجد قُبا آنحضرتﷺ جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو ابتدائی ایام میں قبا میں بنوعمروبن عوف قبیلے کے سردار حضرت کلثوم بن ہدمؓ کے گھر میں قیام فرمایا۔ ان کے باڑے (زمین کا ایک ٹکڑا جہاں کھجوریں خشک کی جاتی ہیں) میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی جو مسجد قُبا کہلاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس مسجد کے بارے میں فرماتا ہے: یقیناً وہ مسجد جس کی بنیاد شروع دن سے ہی تقویٰ پر رکھی گئی ہے اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ آپؐ اس میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہوں۔ یہ وہ پہلی مسجد ہے جس میں آپؐ نے اپنے صحابہؓ کو اعلانیہ نماز پڑھائی اور یہ اسلام میں بنائی جانے والی پہلی مسجد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مسجد التقویٰ قرار دیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے اپنے ہاتھوں سے اس کی بنیاد رکھی اور اس کی تعمیر کے لیے صحابہ کے شانہ بشانہ کام کیا۔ خود پتھر اٹھاکر لاتے رہے۔ اس مسجد کا قبلہ ابتدا میں بیت المقدس تھا۔ جب تحویلِ قبلہ کا حکم نازل ہوا تو قبا والوں نے مسجد دوبارہ بنانے کا ارادہ کیا۔ آنحضورﷺ نے تشریف لاکر قبلہ کا خط خود کھینچا اور اس کی دوسری تعمیر میں بھی شرکت فرمائی۔ مختلف ادوار میں اس مسجد کی تعمیرِنَو اور اس میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ ۱۴۰۵ہجری میں اس کی تعمیر ہوئی تو اس کا رقبہ ساڑھے تیرہ ہزار مربع میٹر ہوگیا جس میں بیس ہزار افراد بیک وقت نماز ادا کرسکتے ہیں۔ صحیح بخاری میں آیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہفتے کے دن باقاعدہ اس مسجد میں جاکر نماز ادا کیا کرتے تھے اور فرماتے کہ رسول اللہﷺ بھی ہر ہفتے کو پیدل یا سوار ہوکر مسجد قُبا تشریف لے جاتے اور وہاں دو رکعت نماز ادا کرتے۔ میدانِ بدر مدینہ منورہ سے جنوب مغرب میں ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر مکّہ کے راستے پر واقع ایک مشہور چشمہ بدر ہے۔ یہاں پانچ میل لمبا اور چار میل چوڑا ایک میدان ہے جو چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس کے عین وسط میں سے ایک نالہ گزرتا ہے جس کے کناروں پر لوگوں نے کنویں کھود رکھے تھے۔ مدینہ منورہ، مکّہ مکرمہ اور شام کی شاہراہیں اس جگہ سے گزرتی تھیں۔ قدیم زمانے میں یہاں بازار لگتا تھا۔ اس جگہ داخلے کے تین درّے ہیں۔ اس جگہ کی وجہ تسمیہ میں تین مختلف اشخاص کے نام لیے جاتے ہیں۔ بہرحال غزوۂ بدر کی وجہ سے یہ جگہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بن گئی۔ اُحد کا پہاڑ مدینہ منورہ کے شمال میں قریباً چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع مشہور بلند پہاڑ اُحد تین میل کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے دامن میں وادی قناۃ ہے۔ پہاڑ پر صرف ایک دشوار گزار پگڈنڈی ہے جو نعل کی شکل میں وادی سے ہوکر اس کی بلند چوٹیوں تک چلی گئی ہے۔ وادی میں ایک پہاڑی ٹیلہ ہے جسے چشموں کی وجہ سے جبل عینین کہتے ہیں۔ آنحضورﷺ نے غزوۂ اُحد میں تیراندازوں کا دستہ یہیں متعیّن فرمایا تھا۔ اس پہاڑ کے بارے میں آنحضورﷺ نے فرمایا: اس اُحد پہاڑ کو ہم سے اور ہمیں اس سے محبت ہے۔ تبوک کا مقام وادیٔ القریٰ اور شام کے درمیان واقع ایک بستی تبوک تھی جہاں چشمے اور کھجوروں کے باغ تھے اور ایک قلعہ بھی تھا۔ دمشق سے مدینہ کے راستے حج پر جانے والے اسی راستے سے گزرتے تھے۔ مدینہ سے اس کا فاصلہ ۷۷۸؍کلومیٹر ہے۔ ۹ہجری میں آنحضورﷺ کو اطلاع ملی کہ اہل روم، لخم اور جذام قبیلے جنگ کی تیاری کررہے ہیں تو آپؐ نے پیش قدمی کرتے ہوئے وہاں لشکرکشی کی۔ جب آپؐ وہاں پہنچے تو سب دشمنان بکھر گئے اور لڑائی کی نوبت نہ آئی۔ مسجد اقصیٰ فلسطین میں واقع مشہور عبادت گاہ جو کئی بار تعمیر ہوئی اور کئی بار اس کی بےحرمتی کی گئی اور گرادی گئی۔ حضرت عمرؓ نے جب بیت المقدس کو فتح کیا تو اُس وقت یہاں کوئی معبد نہ تھا۔ آپؓ کے حکم سے ایک سادہ سی عمارت کی مسجد تعمیر کی گئی۔ پھر اموی خلیفہ عبدالملک نے یہاں عالیشان عمارت کی تعمیر شروع کروائی اور مصر کی سات سالہ آمدن اس تعمیر کے لیے وقف کردی۔ اس عمارت کی تکمیل ولید بن عبدالملک کے دَور میں ہوئی۔ صلیبی جنگوں کے زمانے میں عیسائی یہاں قابض ہوگئے۔ اس کے علاوہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کی حکومت قائم رہی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس کو دوبارہ فتح کیا۔ ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ پر یہود نے قبضہ کرلیا۔ وہ مسجد اقصیٰ منہدم کرکے اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا منصوبہ رکھتے ہیں چنانچہ کئی بار مسجد کی نہ صرف بےحرمتی کی گئی بلکہ ایک سازش کے تحت ۲۱؍اگست۱۹۶۹ء کو مسجد اقصیٰ کو آگ بھی لگادی گئی۔ ایک بار کسی نے رسول کریمﷺ سے پوچھا کہ زمین پر سب سے پہلے کونسی مسجد بنائی گئی؟ آپؐ نے فرمایا: مسجد حرام۔ پوچھا گیا کہ پھر کونسی؟ فرمایا: مسجد اقصیٰ۔ معراج کے سفر میں آنحضورﷺ کو مسجد اقصیٰ کی زیارت بھی کروائی گئی۔ ………٭………٭………٭……… مکرم صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۶؍جولائی ۲۰۱۴ء میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے اور حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت اُمّ ناصرؓ کے بیٹے محترم صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب ۱۴؍جولائی۲۰۱۴ء کو بعمر ۸۷؍سال وفات پاگئے۔ آپ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ماموں تھے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:…آپ نے ۱۹۴۴ء میں میٹرک پاس کیا۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ کی خواہش پر ایگریکلچر کالج میں داخل ہوگئے۔ پھر دارالضیافت کی ابتدائی کچی عمارت جو مسجد مبارک کے سامنے تھی اس کا انتظام حضرت مصلح موعودؓنے ان کے سپرد کیا۔ موجودہ دارالضیافت کی ابتدائی تعمیر بھی آپ کے دور میں ہوئی۔ ۸۲ء، ۸۳ء تک افسر لنگر خانہ کی حیثیت سے خدمات بجا لاتے رہے۔ پھر بطور نائب ناظر امور عامہ خدمت کی توفیق ملی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے اپنی زمینوں کی نگرانی بھی ان کے سپرد کی۔ ان کی شادی صاحبزادی صبیحہ بیگم صاحبہ بنت مکرم مرزا رشید احمد صاحب ابن حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے ساتھ ہوئی۔ ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ اپنے جن پوتوں کی شادی میں حضرت امّاں جانؓ نے خود شرکت فرمائی ان میں سے ان کی شادی آخری تھی جس میں حضرت امّاں جان شامل ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر نوری صاحب لکھتے ہیں کہ گذشتہ تین دہائیوں سے مجھے ان کی خدمت کا موقع ملا۔ بہت شریف، مہمان نواز اور پیار کرنے والے وجود تھے۔ مہمان نوازی توآپ کا بڑا اچھا، بڑا نمایاں وصف تھا اور ایک یہ بھی نمایاں خوبی تھی کہ حسّ مزاح بہت تھا اور پریشان مجلس میں بھی اپنے مزاح کی وجہ سے جان پیدا کر دیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر نوری صاحب لکھتے ہیں کہ غریب اور نادار مریضوں کی امداد کے لیے طاہر ہارٹ میں اکثر آتے تھے اور مجھے رقم دے کے جایا کرتے تھے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا کہ مرحوم ہماری والدہ کے بھائی تھے۔ ان کا خاص تعلق تھا۔ ویسے تو ہر بھائی کا ہوتا ہے لیکن ان کا خاص تھا۔ ہمارے گھر میں بہت زیادہ آنا جانا تھا اور اس تعلق کو قائم رکھا اور پھر خلافت کے بعد مجھ سے بھی انہوں نے بڑا تعلق رکھا۔ اکثر یہاں فون کرکے بھی اس تعلق کا اظہار کیا کرتے تھے۔ ………٭………٭………٭……… مکرمہ نصیرہ بیگم صاحبہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۴؍جنوری۲۰۱۴ء میں مکرم فہیم احمد راشد صاحب نے اپنی والدہ محترمہ نصیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم ٹھیکیدار نواب دین صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔ مکرمہ نصیرہ بیگم صاحبہ ۱۹۳۳ء میں قادیان میں محترم سبحان علی صاحب (کاتب روزنامہ الفضل۔ وفات ۱۹۵۲ء) کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اُس وقت وفات پاگئی تھیں جب اُن کی سب سے چھوٹی بیٹی صرف چھ ماہ کی تھی۔ مکرمہ نصیرہ بیگم صاحبہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں چنانچہ آپ نے اپنے بہن بھائیوں کی پرورش میں خاص خدمت کی توفیق پائی۔ آپ نمازوں میں باقاعدہ ہونے کے علاوہ نوافل بھی ادا کرتیں اور تسبیحات بھی کرتیں۔ گھر میں بھی سب کو نماز اور قرآن کریم کی تلاوت کی تلقین کرتیں۔ سب بچوں کو خود قرآن کریم پڑھایا۔ توکّل علی اللہ بہت تھا۔ خداتعالیٰ دعائیں بھی بکثرت قبول فرماتا اور اکثر خوشخبریاں بھی عطا فرماتا جنہیں وہ لکھ لیتیں۔ لوگ خاص معاملات میں دعا کے لیے کہتے تو آپ بارہا دعا کے بعد خوشخبری بھی دے دیتیں۔ آپ مہمان کو اللہ کی رحمت سمجھتیں اور محبت کے ساتھ ہرممکن خدمت کرتیں۔ جب ایم ٹی اے جاری ہوا تو اپنے گھر پر ڈش لگوائی اور خطبہ جمعہ یا دیگر پروگرام دیکھنے کے لیے جو احمدی تشریف لاتے اُن کو حضرت مسیح موعودؑ کا مہمان کہتیں اور اُن کی چائے اور عمدہ قسم کے بسکٹ سے تواضع کرتیں۔ رمضان میں حضورؒ کا درس شام کو آتا تھا تو اس دوران سب آنے والوں کی افطاری بھی کرواتیں۔ آپ روزانہ صدقہ بھی نکالتیں بلکہ ہر مانگنے والے کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی بیماری کا سن کر تو خصوصی صدقہ نکالتی رہیں۔ چند غریب خواتین اکثر آیا کرتی تھیں جن کی بہت مدد کرتی تھیں۔ اگر کسی کے آنے میں زیادہ دنوں کی تاخیر ہوجاتی تو پریشان ہوجاتیں کہ کہیں وہ بیمار تو نہیں ہوگئی۔ کافی عرصہ ذیابیطس میں مبتلا رہیں جس کے نتیجے میں ایک وقت چلنا پھرنا بھی مشکل ہوگیا تھا اور واکر استعمال کرنی پڑتی تھی۔ ۲۵؍اکتوبر۲۰۰۲ء کو ستّر سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی اور اسلام آباد میں ہی تدفین عمل میں آئی۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۴؍نومبر۲۰۱۴ء میں مکرم ابن کریم صاحب کی ایک غزل شامل اشاعت ہے۔ اس غزل میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے: وصلِ حبیبِ جاں کو کئی سال ہو گئےہم یورشِ فراق سے بےحال ہو گئےعشقِ محمدیؐ میں جو ڈوبے ہیں سر تا پاوہ دولتِ ایماں سے مالامال ہو گئےسر کو اٹھائے یوں ہوئے مقتل کو ہم رواںدشمن کے سارے حوصلے پامال ہو گئےاس جرم میں کہ انہوں نے کیوں لٓااِلٰہ کہازنداں میں رہتے اُن کو کئی سال ہو گئےہر ظلم تیرے نام پہ سہتے ہی جائیں گےاس کربلا میں ہم کو بھی سو سال ہو گئےہم نے لیا ہے جب سے خلافت کا ہاتھ تھامسارے ہی اُن کے دعوے قیل و قال ہو گئےاِک دن وہ لَوٹ آئے گا حافظؔ جی دفعتاًجس کو کہ ہم سے بچھڑے بہت سال ہو گئے مزید پڑھیں: الفضل ڈائجسٹ