https://youtu.be/tUatAveQdMM خاکسار کےپڑدادا حضرت میاں صدرالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی صحابہؓ میں شامل تھے۔ آپؓ کے والد کا نام حضرت رحیم بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا۔ حضرت رحیم بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابتدا میں قادیان کے پاس بٹالہ شہر کے ایک قریبی گاؤں میں رہائش پذیر تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ سے قبل حضرت رحیم بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مع اپنے تین بھائیوں کے روزگار کی تلاش میں قادیان آئے تھے۔ خدا تعالیٰ نےفضل فرمایا اور آپ کو جسمانی خوراک کے ساتھ ساتھ روحانی مائدہ کا بھی وارث بنادیا۔ الحمدللہ۔ اور پھر آپ تاحیات قادیان میں ہی رہے۔ اس طرح ہمارے خاندان میں احمدیت کی نعمت آئی جس کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ حضرت رحیم بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چار بیٹے تھے۔ آپؓ نے اپنے تین بڑے بیٹوں حضرت میاں فضل الدین صاحبؓ، حضرت میاں صدرالدین صاحبؓ اور حضرت میاں امام الدین صاحبؓ کے ساتھ اکٹھےحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر ۱۸۹۲ء میں بیعت کی سعادت حاصل کی۔ اور آپ کے چھوٹے بیٹے حضرت میاں مہر دین صاحبؓ پیدائشی احمدی کہلائے۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابہ میں شامل تھے۔ حضرت رحیم بخش صاحبؓ چونکہ نظامِ وصیت کے اعلان سے قبل ہی وفات پاگئے تھے اس لیے اُن کی تدفین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آبائی قبرستان میں ہوئی۔ خاکسار کے پڑدادا حضرت میاں صدرالدین صاحبؓ، حضرت رحیم بخش صاحبؓ کے دوسرے بیٹے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابہ میں شامل تھے۔ اِن کے بارے میں زیادہ تر حضرت میاں صدرالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے ہی ذکر ملتا ہے لیکن بعض جگہ آپ حضرت بابا صدرالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے بھی معروف تھے۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ ہجرت کے وقت اِن کی عمر ستّر سال سے اوپر تھی اور درویشانِ قادیان ۳۱۳؍میں بڑی عمر کےہونےکی وجہ سے لوگ آپ کو حضرت بابا صدرالدین صاحب کہہ کر پکارتے تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مضمون بعنوان ’’قادیان کے تئیس (۲۳) کَس صحابہ‘‘ روزنامہ الفضل ۱۹۵۰ء میں شائع ہوا جس میں آپؓ تحریرفرماتے ہیں: ’’جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے اِس وقت قادیان میں ٹھہرے ہوئے احمدی بھائیوں کی تعداد تین سو تیرہ (۳۱۳) ہےاور حسنِ اتفاق سے یہ وہی تعداد ہے جو بدر کے مشہور و معروف میدان میں آنحضرت ﷺ کے صحابہ کی تھی۔… اِس ۳۱۳ کی تعداد میں اِس وقت ۲۳ دوست صحابی ہیں جن کی فہرست دوستوں کی اطلاع اور دعا کی تحریک کے لیے درج کی جاتی ہے۔ ‘‘ اِس فہرست میں نمبر چار پر خاکسار کے پڑدادا کا نام اس طرح درج ہے۔ (۴) میاں صدرالدین صاحب ولد رحیم بخش سکنہ قادیان۔ تاریخ بیعت تخمیناً ۱۸۹۲ء۔ (روزنامہ الفضل لاہور مورخہ۱۰؍جنوری۱۹۵۰ء) [خاکسار دل کی گہرائیوں سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور انتظامیہ کی ممنون ہے کہ خاکسار کی درخواست پر اب میرے پڑدادا حضرت میاں صدرالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کتبہ پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایات کے مطابق تاریخِ بیعت ۱۸۹۲ء کردی گئی ہے۔] آپؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبر مبارک کھودنے کی بھی توفیق ملی۔ مکرم عبدالرشید صاحب آرکیٹیکٹ اپنی کتاب ’’میری پسندیدہ بستی قادیان دارالامان ‘‘ کے صفحہ نمبر ۲۸۳ پر ایک مستری حضرت میاں مہر دین ولد مستری گوہر دین صاحب کی ایک روایت تحریر کرتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی خبر قادیان پہنچ چکی تھی اس لیے بہشتی مقبرہ میں آپ کی قبر راتوں رات تیار کی گئی۔ قبر کھودنے میں ثواب کی خاطر پانچ ، سات احمدی دوستوں نے حصّہ لیا۔ جن میں امام دین ، میاں فضل دین اور میاں صدرالدین کے نام خاص طور پر یاد ہیں۔ میاں صدرلدین صاحب نے خدا تعالیٰ کے فضل سے لمبی عمر پائی اور تقسیمِ ملک کے بعد وہ قادیان میں ہی بطور درویش مقیم رہے۔ اِن کی اولاد ربوہ میں ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ سے مخلصانہ تعلق رکھتی ہے۔‘‘ (خاکسار کے پڑدادا حضرت میاں صدرالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چھوٹے بیٹے میاں محمد عبداللہ صاحب بطور درویش قادیان میں ہی رہے۔) اخبار ’’البدر‘‘ قادیان ۶؍دسمبر ۱۹۶۲ء میں مکرم چودھری فیض احمد گجراتی درویش قادیان کی طرف سے دوسرے بہت سے درویشان کی سیرت کے ساتھ ساتھ خاکسار کے پڑدادا حضرت بابا صدرالدین صاحبؓ کی سیرت کے بھی واقعات تحریر کیے گئے ہیں جس میں مضمون نگار تحریر کرتے ہیں کہ ’’حضرت بابا صدرالدین رضی اللہ تعا لیٰ قادیانی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابہ میں سے تھے۔ نہایت مخلص، سادہ طبیعت، اور نیک سیرت بزرگ تھے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ حضرت بابا صدرالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر آۓ تو ساتھ ہی ہمیں ان کی دیانت اور امانت کا خیال نہ آۓ جو ان کا طرۂ امتیاز تھا۔یوں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے ہرایک ہی ایمان اور اخلاص کے اعلیٰ مقام پر ہے لیکن بابا صدر الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امانت و دیانت تو گویا ہم معنیٰ الفاظ ہوگئے تھے۔یہ اُن معمارِ احمدیت میں سے تھے جنہوں نے احمدیت کی بنیادوں میں اپنا خون پسینہ لگایا۔ اور اس زمانہ میں ایمان لائے تھے جب ایمان لانے اور مصلوب ہونے کا ایک سا تصور ہوتا تھا اور پھر ایمان لانے کے بعد اپنے اندر ایسا تغیّر پیدا کیا جیسا کہ آسمان چاہتا تھا۔ حضرت بابا صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ شروع ایام میں تو اپنے پیشے کا ہی کام کرتے تھے لیکن بعد میں انہوں نے ریتی چھلّہ میں ایک دوکان آٹے اور دالوں کی کھولی تھی۔ اور ان کی امانت اور دیانت کی وجہ سے یہ کاروبار خوب چلا۔ لیکن تقسیمِ ملک سے کچھ قبل کاروبار میں نقصان ہو گیا۔ بابا جی نے کوئی جنس خریدی اور بھاؤ اچانک گر گئے ابھی اس جنس کی قیمت ادا کرنی تھی۔ چنانچہ مقروض ہو گئے۔ اسی اثناء میں ملک تقسیم ہوگیا اور کاروبار جاتا رہا۔ اور بابا جی محض درویشی کے وظیفہ پر گزارہ کر نے لگے لیکن آفرین ہے اس اسّی سالہ بوڑھے کی جواں ہمتی پر کہ اس نے زمانہ درویشی ہی میں وہ قرض بےباق کیا۔ اس طرح کہ انہوں نے لنگر خانہ کو آٹے اور دالوں کی سپلائی شروع کردی۔ساری اجناس وہ اپنےبوڑھے کمزور ہاتھوں سے صاف کرتے اور خود چکی چلا کر دالیں بناتے اور یوں اس اسّی سالہ پیر فرتوت نے اپنی جھریوں والی کمزور بانہوں کے بَل پر ساراقرض اتاردیا۔بعض قرض خواہ کہتے تھے کہ آپ کے حالات تبدیل ہوگئے ہیں اس لیے قرض معاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن مرحوم کی غیرت نے اسے گوارا نہ کیا اور سب کو یہی جواب دیاکہ میں قرض کا بوجھ سر پر لیے قبر میں نہیں جانا چاہتا۔ چنانچہ یہی عزم تھا جو قرض سے سبکدوشی کا باعث ہوا۔ ایک احمدی کا ذکر ہو رہا ہو تو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ وہ نماز روزہ کا پابند تھا بلکہ ایک عام احمدی کے ذکر میں بھی ایسا کہنے کی ضرورت نہیں لیکن چونکہ ایک خاص بات درمیان میں آگئی ہے اس لیے ذکر کر دیتا ہوں کہ وفات سے چار پانچ سال قبل مرحوم بابا جی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بینائی جاتی رہی۔ لیکن وہ نورِ ایمان کا ہاتھ تھامے مسجد میں برابر پہنچتے تھے تا آنکہ ضعفِ پیری نے منزل کے قریب پہنچ جانے کے باعث قدم بالکل دھیمے اور ماؤف کردیے۔ مرض الموت کوئی خاص تو لاحق نہیں ہوا۔ بس موت خود ہی مرض بن گئی۔ معمولی سا ضعف ہوا۔ حضرت مولوی عبدالرحمٰن صاحب امیر مقامی کو بلوایا وہ تشریف لائے تو فرمایا کہ اب میں محسوس کر رہا ہوں کہ میرا آخری وقت آپہنچا ہے۔ حضرت امیر صاحب بھی خوب سمجھتے تھے کہ اب سانس آمدو شد کے مرحلہ میں ہے تاہم تسلی دیتے رہے۔ اس کے چند گھنٹوں بعد صبح سویرے موت کی ایک ہی ہچکی نے جسم و جاں کا ناطہ توڑ دیا اور ایک نجمِ احمدیت ہم میں سے اُٹھ گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ بابا صاحب مرحوم دراز قد اور خوبصورت خدوخال رکھتے تھے۔ قریباً ۹۱ سال کی عمر میں ۴؍دسمبر ۱۹۶۰ء کو وفات پائی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اور ۱۹۰۱ء سے پہلے کی بیعت کی وجہ سے صحابہ خاص کے قطعہ نمبر ۴ میں سپردِ خاک کئے گئے۔ اے خدا بر تربتِ او بارشِ رحمت ببار‘‘ (اخبار ’’بدر‘‘ ۶؍دسمبر ۱۹۶۲ء) آپؓ کے بارے میں یہی مضمون چودھری فیض احمد گجراتی درویش کی ایک تصنیف ’’گلدستہ درویشان کے وہ پھول جو مرجھاگئے ‘‘حصّہ اوّل صفحہ نمبر ۵۸ پر بھی درج ہے۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ یہ پھول اگرچہ مرجھاگئےہیں لیکن اِن کی خوشبو سے احمدیت کی نسلیں آج بھی مہک رہی ہیں جو ہمارے لیے باعث فخر ہیں۔ اللہ کرے کہ ہماری آج کی نسل اور آنے والی نسلیں بھی اس خوشبو کی مہک سے استفادہ کرنے والی ہوں اور اِن صحابہ کرامؓ اور درویشان عظام کی قربانیوں کی خوشبو رہتی دنیا تک مہکتی رہے۔ آمین آپؓ کی دیانت اور امانت کا ایک اور واقعہ اس طرح ہے کہ آپ جب غلّہ یا کوئی جنس خرید کر لاتے تو پہلے اُس کی صفائی کر کے پھر تیار کرتے تھے۔ ایک دفعہ تول میں جب غلّہ زیادہ نکل آیا تو آپ نے فوراً غلّہ گٹھڑی میں باندھ کر کاندھوں پر اٹھایااور قادیان سے چند کلومیٹر دُور ایک گاؤں ’’کھارا‘‘ میں غیر مسلم زمیندار کو واپس کرنے گئے تو زمیندار بہت حیران ہوئے اور انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں رکھ لیتے لیکن آپ نے واپس کیا جس پر سب غیر مسلم زمیندار آپؓ کے کردار سے بہت متاثر ہوئے۔ اور آپ کی وفات کے بعد بھی یہ غیر مسلم جب قادیان آتے تو حضرت میاں صدرالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اعلیٰ کردار کو ہمیشہ یاد کرتے۔ رسالہ الفرقان (درویشانِ قادیان نمبر۔ اگست۔ ستمبر۔ اکتوبر ۱۹۶۳ء)میں صفحہ نمبر ۸۷ پر ’’صحابہ کرام درویشانہ دور میں‘‘ کے عنوان نمبر ۶ پر حضرت میاں صدرالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہے۔ آپ کی وفات پر صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر اور تعلیمی ادارے بند رہے۔ اخبار ’’بدر‘‘ قادیان ۸؍دسمبر ۱۹۶۰ء میں اِن کی وفات کے بارے میں اعلان شائع ہوا جس میں درج ہے کہ ’’سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابی حضرت میاں صدرالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ وفات پاگئے۔‘‘اِنّا للّٰہ وَاِنّا الیہ راجِعُون قادیان ۴؍دسمبر۔ یہ خبر نہایت رنج اور افسوس کے ساتھ سُنی جائے گی کہ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابی اور بزرگ درویش حضرت میاں صدرالدین صاحب قادیانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ گذشتہ رات بوقت ساڑھے آٹھ بجے بعمر قریباً اکانوے سال وفات پاگئے۔ انّا للّٰہ واِنّا الیہِ راجعون۔ اور گیارہ بجے کے قریب محترم مولوی عبدالرحمٰن صاحب فاضل امیر مقامی قادیان نے درویشان کی جماعت سمیت جنازہ گاہ (واقع بڑا باغ ) میں مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اور قطعہ صحابہ خاص بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔ اورمحترم مولوی صاحب موصوف نے قبر پر دعا کرائی۔ بوجہ پیرانہ سالی کے ایک عرصہ سے مرحوم کی صحت زیادہ ہی خراب ہو چکی تھی۔ تاہم آخر وقت تک اُن کے ہوش و حواس قائم رہے بلکہ وفات سے چند گھنٹے پہلے عصر کی نماز کے بعد آپ نے محترم امیر مقامی سے ملاقات کی خواہش کی۔ جب موصوف آپ کے پاس پہنچے اور بتایا گیا کہ محترم مولوی صاحب تشریف لے آئے ہیں تو بڑی محبت کے ساتھ مصافحہ کیا اور کہا کہ اب میرا آخری وقت ہے میرا دل چاہتا تھا آپ سے ملاقات کرلوں۔ مرحوم کی وفات پر صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر اور تعلیمی ادارے بند رہے۔ آپ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابہ میں سے تھے آپ کی بیعت چاند سورج گرہن ۱۸۹۴ء سے ایک دوسال قبل کی تھی (اصل تاریخِ بیعت۱۸۹۲ء کی ہے )آپ اپنی کاروبار ی امانت و دیانت میں بہت مشہور تھے اس بارہ میں اپنے اور غیر سبھی اُن کے مداح تھے۔ مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بزرگانِ سلسلہ سے بہت اخلاص اور محبت رکھتے تھے۔ آپ کی اولاد میاں عبدالرحمٰن صاحب ربوہ میں اور میاں محمد عبداللہ صاحب معہ بچی کے قادیان میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا کرے اور مرحوم کو اعلیٰ علیّین مقام پر فائز فرمائے۔ آمین ‘‘(اخبار ’’بدر ‘‘قادیان۔ ۸؍دسمبر ۱۹۶۰ء) آپؓ کی اولاد میں ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے۔ بیٹی جن کا نام خدیجہ تھا تا حیات بٹالہ شہر میں رہیں۔ ان کے چھوٹے بیٹے میاں محمد عبداللہ صاحب نے بھی اپنے والد حضرت میاں صدرالدینؓ کے ساتھ درویشی کی زندگی گزاری اور قادیان میں رہنے کو سعادت سمجھی۔ ابتدا سے ہی آپ کے اندر خلافتِ احمدیہ کے لیے بے پناہ محبت ، اطاعت و فرمانبرداری کا اعلیٰ نمونہ، ایمان داری و دیانت داری اور سچائی کو مقدم رکھنے کے اوصاف بہت نمایاں تھے۔ میاں محمد عبداللہ صاحب کے بیٹے عبدالرزاق صاحب قادیان بیان کرتے ہیں کہ والد صاحب مرحوم کا بچوں کی تربیت کا یہ حصّہ تھا کہ آپ ہمیں ہمیشہ دینی کتب پڑھ کر سنانے کو کہتے تھے۔اسی طرح جلسہ سالانہ کے موقع پر آنے والے مہمان رشتہ دار اور غیر رشتہ دار کو بھی اپنے گھر ٹھہراتے اور توفیق کے مطابق ان کی مہمان نوازی فرماتے تھے۔ درویشی کے دوران خلفا ئےکرام سے ملاقات اور جلسہ سالانہ ربوہ میں شمولیت کے علاوہ والد صاحب مرحوم کبھی بھی قادیان سے باہر نہیں گئے۔ آپ کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ اس مقدس بستی قادیان میں گزاریں۔ عبدالرزاق صاحب اپنے والد صاحب کے بارے میں مزید بتاتے ہیں کہ والد صاحب ہمیشہ خلفائےکرام کے واقعات اور خطابات ہمیں سنایا کرتے تھے۔ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واقعات جن میں ہمارے دادا کے واقعات بھی شامل ہوتے سناتے تھے۔ اور ہمیشہ آخر پر جذبات پر قابو نہ رکھ پاتے۔ اُس وقت عاجز اس چیز کو سمجھ نہیں پایا تھا مگر آج جب ہم اپنے والد مرحوم کے اِن واقعات کو یاد کرتے ہیں تو دل بھر آتا ہے اور پھر پتا چلتا ہے کہ والد صاحب مرحوم کے دل میں خلفائےکرام کے لیےکتنا درد تھا۔ والد صاحب نے ہمیں کبھی کوئی دنیاوی کہانی نہیں سنائی۔ ہجرت کے وقت میاں محمد عبداللہ صاحب حسبِ معمول اپنی ڈیوٹی کی بجا آوری میں مصروف تھے کہ آپ کو یہ خبر ملی کہ آپ کی اہلیہ اور بچے ہجرت کر کےپاکستان جارہے ہیں۔ قافلہ کی روانگی سے قبل ایک مرتبہ ان سے ملاقات کرلیں۔ چنانچہ آپ کو صرف اور صرف اپنے بچوں کے سر پر پیار کرتے ہوئے اللہ حافظ کہنے کا ہی موقع ملا اور بعد ازیں آپ حسبِ سابق اپنی ڈیوٹی پر مصروف رہے۔ اس کے بعد آپ کی ملاقات اپنی بیوی بچوں سے کبھی نہ ہوسکی۔ قیام پاکستان کے کچھ عرصہ کے بعد بیوی اور بچوں کی وفات ہوگئی۔ صرف ایک بیٹی ناصرہ بیگم اہلیہ رفیق احمد حیات ہیں۔ مکرمہ ناصرہ بیگم صاحبہ ملکی حالات ٹھیک ہونے کے بعد قادیان تشریف لائیں اور کچھ عرصہ والد صاحب میاں محمد عبداللہ اور دادا جان حضرت میاں صدرالدینؓ کے ساتھ وقت گزارا۔ پھرناصرہ بیگم صاحبہ کی شادی ہوگئی اور حضرت میاں صدرالدینؓ کی وفات کے بعد میاں محمد عبداللہ اکیلے ہو گئے تو میاں محمد عبداللہ صاحب نے دوسری شادی کی، جن سے آپ کے پانچ بچے ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی میں ہی ساری فیملی کی حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروائی اور مع فیملی ربوہ کے آخری جلسہ سالانہ ۱۹۸۳ء میں بھی شمولیت کی توفیق ملی۔ الحمدللہ۔ آخری برسوں میں سانس کی تکلیف ہوگئی تھی ۱۹۸۹ء میں صدسالہ جوبلی کے موقع پر احبابِ قادیان نے اظہارِ تشکر کے طور پر سارے قادیان کا چکر لگایا۔ آپ اپنی بیماری اور تکلیف کے باوجود جوش و خروش سے اِس اظہارِ تشکر میں شامل ہوئے اور پورے قادیان کا چکر بغیر آرام کے لگایا۔ آپ کی وفات ۲۴؍دسمبر ۱۹۸۹ء کو ہوئی۔اور اگلے دن محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظرِ اعلیٰ و امیرِ مقامی نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ تاریخِ احمدیت جلد نمبر ۱۱ میں (جو نئے ایڈیشن کے بعد جلد نمبر ۱۰ بن گئی ) درویشانِ قادیان ۳۱۳ کے ناموں کی فہرست میں صفحہ نمبر ۳۷۴ پرنمبر ۴۴ پر آپ کا نام اس طرح تحریر ہے: ۴۴۔ محمد عبداللہ ولد صدرالدین صاحب۔ سکونت حلقہ مسجد فضل۔وفات۲۴۔۱۲۔۱۹۸۹ء اسی طرح میرے پڑدادا حضرت میاں صدرالدین صاحبؓ کا نام بھی اس طرح صفحہ نمبر ۳۷۸ پر درویشان ۳۱۳کی فہرست میں ۱۱۷ نمبر پر ہے: ۱۱۷۔محترم صدرالدین صاحب ولدیت رحیم بخش صاحب۔ سکونت۔ حلقہ مسجد فضل قادیان۔ وفات ۴؍دسمبر ۱۹۶۰۔ حضرت میاں صدرالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے بیٹے عبدالرحمٰن صاحب مرحوم ہجرت کر کے ربوہ میں رہائش پذیر ہوگئے۔ جو خاکسار کے دادا تھے۔ آپ سادہ مزاج کے تھے اور طبیعت میں مزاح شامل تھا ۔ آپ قادیان کی یادوں کو کبھی نہیں بھلا سکے۔ آپ کے بھتیجےمکرم عبدالرزاق صاحب (قادیان ) بتاتے ہیں کہ جب بھی وہ اپنے والد کے ساتھ ربوہ آتے تو خاکسار کے دادا عبدالرحمٰن مرحوم اپنے بھائی میاں محمد عبداللہ سے مل کر صرف قادیان کی یادوں کا ہی ذکر کرتے اور قادیان کی یادوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ آپ کے آنسو بہتے جاتے۔ ۱۹۸۷ء میں آپ کی وفات ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سات بیٹوں سے نوازا۔اور سب سے بڑے بیٹے عبدالمنان صاحب مرحوم جن کی گولبازار ربوہ میں ’’منان آئس کریم ‘‘ کے نام سے دکان تھی وہ خاکسار کے والد محترم تھے۔ آپ باقاعدگی سے عبادت کرنے والے، تہجد گزار اورروزہ کے پابند تھے۔ خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عقیدت تھی اور خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے بھی آپ کو ہمیشہ محبت ملی۔ الحمدللہ۔ خلافتِ احمدیہ کے لیے دل میں محبت رکھنے والے تھے۔رشتہ داروں سے بہت پیار اور محبت کا سلوک کرتے۔ گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ اور ہماری والدہ کے ساتھ ہمیشہ نرم انداز میں گفتگو کرتے۔ اور ہماری ہر ضرورت کا خیال رکھتے۔ سردیوں میں تہجد اور فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد صحن میں لکڑیوں کا چولہا جلا کر بڑے سے دیگچے میں گرم پانی تیار کرتے کہ بچوں نے اٹھنا ہے تو اُن کے لیے گرم پانی تیار ہو۔ طبیعت میں سادگی تھی۔ چہرے پر مسکراہٹ رہتی۔ عزیز رشتہ داروں کے علاوہ غریبوں کی ضروریات کا بھی بےحد خیال رکھتے اور ضروریات پوری کرنے میں تاخیر نہیں کرتے تھے۔ کئی دفعہ دیکھنے میں آیا کہ کسی عزیز کے گھر گئے ہیں اور گھر والوں نے اپنی ضرورت کا اظہار بھی نہیں کیا لیکن والد صاحب نے خود ہی اُن کی ضرورت کو پورا کردیا۔ درویشانِ قادیان کی ہمیشہ عزت و احترام کرتے اور مالی معاونت میں بھر پور کردار ادا کرتے۔ آپ نے اپنے عزیز درویشان کی بچیوں کی پاکستان میں شادی کے انتظامات اور اخراجات کے ساتھ احسن طریق سے رخصت کیا۔ باقی درویشان کی بھی ہر ممکن مدد کے لیے تیار رہتے۔مکرم عبدالکریم صاحب درویش کے والد صاحب مکرم مولا بخش صاحب ہجرت کے بعدربوہ آگئے اور کسی وجہ سے اُن کا گھر ٹوٹ گیا تو والد صاحب اُن کو اپنے گھر لےآئے اور ہر طرح اُن کا خیال رکھا۔ مہمان نوازی آپ کی خاص صفت تھی۔ عزیز درویشان جب بھی ربوہ آتے تو ہمیشہ انہیں اپنے گھر میں ہی ٹھہراتے تھے اور بہت عزت و احترام سے اُن کا خیال رکھتے۔ درویشانِ قادیان جب بھی آتے اور قادیان کا تبرک ساتھ لاتے تو میری والدہ محترمہ سلیمہ منان صاحبہ مرحومہ سب سے پہلے ہمسایوں کو دیتیں پھر گھر والوں کو دیتیں۔ والدہ مرحومہ کی اس خوبی کو آج بھی ربوہ کی میری والدہ کےدور کی خواتین جب مجھ سے ملتی ہیں تو بڑی محبت سے اِن یادوں کا تذکرہ کرتی ہیں۔ والد صاحب بزرگانِ سلسلہ کی پرخلوص دعوت کا اہتمام کرتے اور آپ کی پرخلوص دعوتوں کو آج بھی لوگ محبت سے یاد کرتے ہیں۔ آپ کو ۱۹۴۸ء میں کشمیر کے لیے فرقان فورس میں بھی خدمات کی توفیق ملی۔ اور آپ کو تمغہ دفاعِ پاکستان سے بھی نوازا گیا۔ الحمدللہ والد صاحب مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے۔ آپ نے ربوہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے خیموں سے لے کر محلّات تک پروان چڑھتے دیکھا اور مساجد کی تعمیر کے لیے صفِ اوّل کے مجاہدوں میں شامل رہے۔ بہت سے لوگ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ میرے والد مکرم عبدالمنان صاحب مرحوم کی دعائیں قبول ہوتی تھیں مکر م عبدالکریم درویش قادیان کی بہو محترمہ فیروزہ بیگم صاحبہ نے خاکسار کے والد کی قبولیتِ دعا کے بارے میں والد صاحب مرحوم کے ماموں مکرم عبدالکریم صاحب درویش قادیان کی روایت بیان کرتے ہوئے خاکسار کو بتایا کہ عبدالمنان ربوہ میں رہتے ہوئے ایک پلاٹ خریدنا چاہتے تھے تاکہ اپنا گھر تعمیر کرسکیں لیکن اس کے ساتھ ہی ان کی دعا اور خواہش تھی کہ میرے گھر کے پاس ہی مسجد بھی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور آپ کی دعا اِس طرح قبول ہوئی کہ مسجد ہمارے گھر کے بالکل سامنے ہے جس کا نام مسجد ’’بیت الحمد ‘‘ہے۔ ہم اپنے گھر کا دروازہ کھولتے ساتھ ہی مسجد میں داخل ہوجاتے ۔الحمدللہ نمازِ تراویح کے وقت جب ہماری مسجد مردوں سے بھر جاتی تھی تو لجنہ ممبرات ہمارے گھر کے صحن میں آکر نمازِتراویح ادا کرتی تھیں۔ باوجود اِس کے کہ اُس وقت کوئی مائیک کا انتظام نہیں ہوتا تھا مگر پھر بھی نمازِ تراویح کی آواز ہمارے صحن میں واضح طور پر آتی تھی۔ والد صاحب نے یہ پلاٹ ناصر آباد ربوہ میں تقریباً ۱۹۷۷ء کے قریب خریدا تھا۔ اُس وقت ناصر آباد میں صرف جھاڑیاں اور کلّر و گرد ہی ہوتا تھا۔ اور کافی عرصہ تک ناصرآباد کی جگہ کو بعض لوگ بھکڑا کالونی کا نام دیتے تھے۔اور اُس وقت صرف پلاٹ کے نشانات لگائے گئے تھے اور دیکھنے سے کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کون سا پلاٹ کس مصرف کے لیے ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سکول سے گھر آتے ہوئے بھکڑے سے بھرے ہوئے جوتوں سے ہم گھر میں داخل ہوتے تھے۔ خاکسار کے والد کے ماموں مکرم ومحترم عبدالکریم صاحب درویش کا نام بھی تاریخِ احمدیت جلد نمبر ۱۱ (نئے ایڈیشن کے مطابق جلد نمبر ۱۰)صفحہ نمبر ۳۸۳ میں ’’مستقل خدام‘‘ کی لسٹ میں ۲۲۷ نمبر پر درج ہے۔ ۲۲۷۔ مکرم عبدالکریم ولد مولا بخش صاحب۔ (رعیہ۔ ضلع گورداسپور ) مکرم عبدالکریم صاحب اپنے علاقہ میں برطانوی فوج کے ملازم تھے لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد پر لبیک کہتے ہوئے قادیان پہنچے اور درویشان میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی اور تا حیات قادیان رہنے کو سعادت سمجھا۔ ان کے دوسرے بیٹے مکرم نذیر احمد صاحب اگرچہ درویش تو نہیں تھے لیکن ہجرت کے وقت اپنی والدہ اور دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ پاکستان چلے گئے آپ اس وقت طفل تھے۔ حالات بہتر ہونے پر آپ والدہ کے ساتھ قادیان واپس آگئے اور تا دمِ تحریر قادیان کے باسی ہیں اور اس طرح یہ ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے تینوں ادوار طفل، خادم اور ناصر قادیان میں گزارے۔ سوائے ربوہ کے جلسوں میں شمولیت کےقادیان سے کہیں باہر نہیں گئے۔ آج کل بوجہ عمر رسیدہ ہونے کے کافی کمزور ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو تندرستی اور صحت والی عمر سے نوازے۔ آمین میرے والدمکرم عبدالمنان صاحب مرحوم کی قبولیتِ دعا کا ایک اور واقعہ اس طرح ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ایک بیٹی کی نعمت سے نوازا لیکن وہ جلد ہی کم سنی میں وفات پاگئی اور اس کے بعد ایک اور بیٹی عطا فرمائی۔ والد صاحب دعا کرتے تھے اور آپ نے بیت الدعا جاکر بھی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے بیٹے کی نعمت سے نواز دے تو میں اپنے بیٹے کو وقف کر دوں گا۔ الحمدللہ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا بھی قبول فرمائی اور آپ کو بیٹے کی نعمت سے نوازا اور آپ نے اُسے وقف کردیا۔ یہ بیٹا آج بھی وقفِ زندگی کے عہدپر بطور مربی سلسلہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق پا رہا ہے۔ الحمدللہ۔ اللہ تعالیٰ تمام واقفینِ زندگی اور مربیان کی کاوشوں میں برکت ڈالے اور ہمیشہ ان کا نگہبان اور مددگار رہے۔ آمین ۱۹۸۹ء میں صد سالہ جوبلی کے موقع پر آپ کو انگلینڈ کے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کی توفیق ملی اور اس کے بعد اِسی سال آپ جرمنی بھی آئے۔ ۱۹۹۴ء میں ایک دفعہ پھر آپ جرمنی آئے اور ہمارے ساتھ خلفائے احمدیت سے وابستہ اپنی یادوں کا بھی ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دوسرے سفروں کے علاوہ ربوہ سے کراچی کے سفروں میں بھی ڈیوٹی دینے کا موقع ملتا اور آپ چلتی ٹرین کے دروازے میں حفاظتی نقطہ نگاہ سے کھڑے رہنے کی ڈیوٹی دیتے۔ اس کے علاوہ ربوہ میں رہتے ہوئے جب بھی آپ کو ڈیوٹیوں کے لیے بلایا جاتا تو آپ فوراً حاضر ہوجاتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ والد صاحب ہمیں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی ملاقات کے لیے لے کرگئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ازراہِ محبت اور شفقت والد صاحب کو فرمایا کہ’’منان !تم سیب لے کر آئے ہو تمہیں تو آئس کریم لانی چاہیے تھی ۔‘‘ اس پر والد صاحب بھی مسکرادیے۔ خلفاء کی طرف سے آپ کو ہمیشہ محبت ، پیار اور توجہ ملتی رہی اور ہم بھی آج تک خلفاء کی طرف سے توجہ، محبت اور پیار کا فیض حاصل کر رہے ہیں۔ الحمدللہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا بھی محترم والد صاحب کے ساتھ شفقت کا تعلق تھا۔ ۱۹۸۳ء میں ربوہ میں خاکسار کی بڑی ہمشیرہ کی شادی تھی۔ والد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں اپنی بیٹی کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کرنے کی درخواست کی جس پر حضورؒ نےبنفسِ نفیس شامل ہو کر دعاؤں کے ساتھ اور قیمتی تحفہ کے ساتھ رخصت فرمایا۔ الحمدللہ اسی طرح ۱۹۸۹ء میں خاکسار بھی دوسرے مہاجرین کی طرح ہجرت کر کے جرمنی پہنچی اور اِسی سال محترم والد صاحب بھی انگلینڈ کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کے بعد جرمنی پہنچے۔ انگلینڈ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے ملاقات کے دوران محترم والد صاحب نے حضورؒ سے درخواست کی کہ آپ جرمنی تشریف لارہے ہیں (ستمبر ۱۹۸۹ء میں جرمنی میں یورپین خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع تھا) تو خواہش ہے کہ میری بیٹی کو اپنی بابرکت دعاؤں سے رخصت کریں۔ حضورؒ نے ازراہِ شفقت محترم والد صاحب کی اس درخواست کو قبول فرمایا اور حضورؒاپنی حرم حضرت سیّدہ آصفہ بیگم صاحبہ کے ساتھ خاکسار کی رخصتی میں شامل ہوکربرکتوں،دعاؤں اور تحائف عنایت فرما کر رخصت فرمایا۔ الحمدللہ اس نعمت پر خاکسار جتنا بھی خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرے کم ہے۔ اخبارِ احمدیہ جرمنی کی رپورٹ میں تحریر ہے: ’’حضور اقدس مسجد نور میں اپنی آمد کے کچھ ہی دیر بعد بونا میس احمدیہ سینٹر ( جو کہ فرینکفرٹ میں ایک بڑا ہال کرایہ پر لیا گیا ہے) تشریف لے گئے۔ جہاں سب سے پہلے حضور اقدس نے دفاتر کا معائنہ کیا جس کے بعد حضور اقدس نے مکرم عبدالمنان صاحب آف گول بازار ربوہ کی بیٹی کی تقریبِ رخصتانہ میں شمولیت فرمائی۔‘‘ (’’ماہانہ اخبارِ احمدیہ ‘‘ مغربی جرمنی۔ ستمبر۔اکتوبر ۱۹۸۹ء۔ صفحہ نمبر ۳۶) ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے بطور خلیفۃ المسیح تو والد صاحب کی ملاقات تونہیں ہو سکی لیکن آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب ربوہ میں ناظراعلیٰ تھے تو اس وقت آپ نے بھی میرے والد صاحب کو ہمیشہ توجہ، محبت ، پیار اور حسنِ سلوک سے نوازا۔ الحمدللہ میرے پڑدادا حضرت بابا صدرالدین صاحبؓ کی امانت داری اور دیانتداری کا وصف خاکسار کے والد مرحوم کو بھی وراثت میں ملا۔ کاروبار کے لین دین کے معاملات میں دیانت داری کو ہمیشہ مقدم رکھا۔ ابتدا میں میرے والد صاحب گھر میں ہی آئس کریم کی تیاری کرتے تھے۔ خاکسار کی والدہ محترمہ سلیمہ منان صاحبہ مرحومہ نے ایک دفعہ بیان کیا کہ والد صاحب ایک دفعہ آئس کریم کے لیے دودھ تیار کررہے تھے کہ ایک بچے سے دودھ میں کوئی چیز گرگئی اور والد صاحب نے وہ سارے کا سارا دودھ گِرادیا۔ مکرم و محترم سیّد غلام احمد فرّخ صاحب کی ایک تصنیف ’’سیرت و سوانح حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ ‘‘ ۲۰۲۳ء میں منظرِعام پر آئی لیکن خاکسار ابھی اس کے بارہ میں لاعلم تھی کہ اس کتاب کے شائع ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد مکرم ومحترم سید کمال یوسف صاحب (سابق مبلغ سلسلہ سکینڈے نیویا ) کا خاکسار کو فون آیا اور انہوں نے خاکسار کو بہت خوشی سے بتایا کہ اس کتاب میں میرے والد صاحب کا ذکر خیر کیا گیا ہے۔ مجھے بھی بہت خوشی ہوئی۔ مکرم ومحترم سیّد غلام احمد فرّخ صاحب اپنی تصنیف میں ذکر کرتے ہیں کہ محترمہ حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ کی گرمیوں میں بعض مہمانوں کی مہمان نوازی کے لیے ’’منان کی آئس کریم ‘‘ ایک لازمی جزو ہوتی تھی۔ آپ مزید تحریر کرتے ہیں کہ ’’اب ربوہ کی اس سوغات کا ذکر ہوا ہے تو مکرم عبدالمنان صاحب کا ذکرِ خیر کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ مجھے یاد ہے کہ مکرم ڈاکٹر عبداللطیف صاحب کی فیملی میں سے کسی نے حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ سے فرمائش کی کہ ہم نے ’’منان کی آئس کریم‘‘ اپنے ساتھ سرگودھا لے کر جانی ہے۔ چنانچہ آپ نے مکرم عبدالمنان صاحب کی دکان پر تھرماس بھجوادی۔ وہ آئس کریم دینے ہی والے تھے کہ کسی طرح انہیں پتہ چل گیا کہ یہ آئس کریم آپ کے گھر سے منگوائی گئی ہے۔ مکرم عبدالمنان صاحب نے آئس کریم دینے سے انکار کردیا۔ بڑا زور لگایا گیا، لیکن وہ نہیں مانے۔ آخر بتایا کہ آج آئس کریم اتنی مزیدار نہیں بنی کہ چھوٹی آپا کے گھر بھجوائی جاسکے۔ مکرم عبدالمنان صاحب نے بڑے اعلیٰ کردار کا مظاہرہ کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔ حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ بھی ہمیشہ اُن کی قدر دان رہیں۔‘‘ (سیرت وسوانح حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ۔ صفحہ نمبر ۴۵۵) مزید تحریر کرتے ہیں کہ ’’آئس کریم آپ کو بہت پسند تھی۔ ربوہ کی مشہور سوغات ’’منان کی آئس کریم ‘‘ تو آپ کو بہت ہی پسند تھی۔ (سیرت و سوانح حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ۔ صفحہ نمبر ۴۸۳) خاکسار کے والد صاحب ذکر کرتے تھے کہ اُن کو آئس کریم کا نسخہ بھی محترمہ حضرت سیّدہ مریم صدیقہ کی طرف سے ملا تھا۔ یہ برکات تھیں جو خاکسار کے والد صاحب مرحوم کے حصّہ میں آئیں۔ الحمدللہ محترم سید کمال یوسف صاحب (سابق مبلغ سلسلہ سکینڈے نیویا) نے خاکسار کے ساتھ میرے والد محترم عبدالمنان صاحب مرحوم کی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ جب پہلی دفعہ انہوں نے ربوہ میں آئس کریم کھائی تو اُن کو یقین نہیں آتا تھا کہ ربوہ میں بھی اتنی مزیدار آئس کریم مل سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مکرم ومحترم سیدکمال یوسف کو صحت والی دراز عمر سے نوازے۔آمین ثم آمین میرے والد صاحب مرحوم صبح سویرے تہجد اور نماز کی ادائیگی کے بعد ہر کام کرتے وقت درود شریف کا وِرد کرتے رہتے۔ صبح سویرے آئس کریم کے اجزا کی اور سردیوں میں شامی کباب کے مصالحہ جات کی تیاری کرتے تو بھی مسلسل آپ درود شریف کا بلند آواز سے وِرد کرتے اور یہ آواز سارے گھر میں سنائی دیتی تھی۔ یہ آواز آج بھی کانوں میں گونجتی ہے اور وہ جگہ جہاں آپ بیٹھ کر درود شریف پڑھتے تھے وہ جگہ بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی۔آپ کی وفات ۲۵؍دسمبر ۲۰۱۲ء کو ہوئی۔ آپ بفضلہ تعالیٰ موصی تھے اور آپ کی تدفین ۲۷؍دسمبر ۲۰۱۲ء کو بہشتی مقبرہ دارالفضل ربوہ میں ہوئی۔ آپ کی چار بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ میرے والدین کی مغفرت فرمائے ان کی نیکیوں اور امانت ودیانت کے ہم بھی وارث بنیں اور اللہ تعالیٰ میرے والدین کی دعاؤں کو ہمارے حق میں قبول فرماتا رہے۔نیز اللہ تعالیٰ سب درویشانِ قادیان کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور اُن کی نسلوں میں بھی قربانیوں کی روح پیدا کرے۔اور اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ صحابہ کرامؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو اعلیٰ پائے کے نقوش چھوڑے ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو اُن نقوش پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ صحابہ کرامؓ کی ہمارے لیےیہی وراثت ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس وراثت کو سمیٹنے کی توفیق دے تاکہ آنے والی نسلوں میں یہ ورثہ وسیع تر وسیع طریقے سے منتقل ہوتا چلا جائے۔ آمین ثم آمین وہ ہے خوش اموال پر، یہ طالبِ دیدار ہے بادشاہوں سے بھی افضل ہے گدائے قادیاں ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: محترم سید میرمحمود احمد ناصر صاحب کا ذکرِ خیر