فرما چکا ہے سیدِ کونین مصطفیٰ ؐ عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا اِلتوا جب آئے گا تو صلح کو وہ ساتھ لائے گا جنگوں کے سلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا یہ حکم سُن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا وہ کافروں سے سخت ہزیمت اُٹھائے گا(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۷۸) ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ بِمَاکَسَبَتۡ اَیۡدِی النَّاسِ لِیُذِیۡقَہُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ عَمِلُوۡا لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ(الروم:۴۲)لوگوں نے جو اپنے ہاتھوں بدیاں کمائیں ان کے نتیجہ میں فساد خشکی پر بھی غالب آ گیا اور تَری پر بھی تاکہ وہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزا چکھائے تاکہ شاید وہ رجوع کریں۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا میں اس وقت بدامنی اور لاقانونیت کا دور دورہ ہے ہر صاحب اختیار اپنے سے کمزور کو دبانا چاہتا ہے اس کی شناخت چھین کر اس کو بے نشان بنانا اور اپنی حیثیت میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ اقتدار کا نشہ، طاقت کا گھمنڈ اور اپنے وسائل کا بے جا استعمال کرنا، جنگی جنون یہ سب نیا ہر گز نہیں ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے ایسے بہت سے صاحب اقتدار ملتے ہیں جنہوں نے یہ سب کیا لیکن اس جنون کا بھی ہمیشہ سے وہی نتیجہ نکلا جو ایسی صورتحال میں نکلتا ہے۔ تباہی، بربادی، نسل کی نسل کا معذور یا معدوم ہو جانا، ملکی وسائل تباہ ہو جانا،انسان اور انسانیت کی تذلیل۔ علاوہ ازیں فاتح کے ہاتھ کچھ خطہ اراضی اور اس خطے میں رہائش پذیر افراد پر حکومت و اختیار۔لیکن ان کے دماغ ہمیشہ اس حکمران کے خلاف ہی رہتے تھے جس نے زور زبردستی سے ان کے گھر پر قبضہ کیا ہوتا تھا نتیجۃً بغاوت کبھی نہ کبھی سر اٹھاتی اور پھر سے وہی سب کہانی دہرائی جاتی۔ وہ حکمران کبھی بھی حاکم نہیں بن پاتا بلکہ ہمیشہ اسے ظالم اور غاصب ہی سمجھا جاتا تھا۔ اب دنیا ترقی کر چکی ہے، گلوبل ولیج بن چکی ہے، ہر قسم کے قوانین موجود ہیں لیکن پھر بھی دنیا کے چند ممالک اسی جنگی جنون کا شکار ہیں وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ ان کو نہ انسان نظر آتے ہیں نہ انسانیت،نہ اس سب کے بعد کے انتہائی خراب حالات۔ اس وقت جب کہ دنیا کا ہر بڑا ملک ایٹمی ہتھیار رکھتا ہے۔ کسی بھی قسم کے نامساعد حالات میں اگر وہ ان ہتھیاروں کا استعمال کرتا ہے تو دنیا کا جو حال ہو گا اسے نئے سرے سے تعمیر کرنے میں کتنا لمبا عرصہ درکار ہو گا حتمی طور پر اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سب حالات کے بارے میں بتاتے ہوئے فرمایا’’اس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرندچرندبھی باہرنہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی…اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیاتو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوحؑ کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوطؑ کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ‘‘۔(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۲۶۸-۲۶۹)دنیا دو عالمگیر جنگوں کا سامنا کر چکی ہے اور اس کے علاوہ کسی نہ کسی ملک میں برسوں سے خانہ جنگی کی جو کیفیت ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ لیکن ان ملکوں کا کیا حال ہے؟ کیا وہ جنگیں انہیں کوئی فائدہ پہنچا رہی ہیں کیا ان کے حق میں یہ فساد بر وبحر بہتر ثابت ہو رہا ہے؟ہرگزنہیں۔اس سے پہلےکہ یہ چنگاریاں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لےلیں ہمیں اس سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ جن میں سب سے بڑا ہتھیار تودعاکاہے۔کیونکہ اس وقت جودنیا کےحالات ہیں ان کوصرف خدا تعالی ہی معجزانہ رنگ میں ٹال سکتا ہے ورنہ بڑی بڑی طاقتیں تو اس وقت صرف فساد چاہتی ہیں۔دنیا کو ایک اور عالمی جنگ سے خبردار کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالی ٰنے فرمایا: ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جب انسانی کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں تب وہ قادر مطلق خدا انسانی قسمتوں کے فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہےتا کہ وہ اپنا فیصلہ ظاہر کرے اور لوگوں کو اس کی طرف جانے اور انسانی حقوق کے ادا کرنے کےلیے مجبور کرے۔ یہ بات بہت بہتر ہے کہ اہل دنیا خودان اہم معاملوں کی طرف دھیان دیں کیونکہ جب اللہ کو ایسی کارروائی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو اس کا غصہ انسان کو نہایت خوفناک ڈھنگ سے پکڑتا ہے۔اس طرح یہ خوفناک پکڑ ایک اور عالمی جنگ کی شکل میں ظاہر ہو سکتی ہے۔اور یہ ایک حقیقت ہےکہ آنے والی عالمی جنگ کے نتائج اور اس کی وسیع تباہ کاریاں صرف اس جنگ تک یا موجودہ نسل تک محدود نہیں رہیں گی بلکہ اس کے خوفناک نتائج آنے والی کئی نسلوں پر اثر انداز ہوں گے۔ پھر ایسی جنگ کے خوفناک نتائج اور اس کےا ثرات نوزائیدہ بچوں پر اور مستقبل میں پید ا ہونے والے بچوں پر بھی پڑیں گے۔موجودہ جدید ہتھیار اس قدر تباہی مچانے والے ہیں کہ مستقبل میں پیدا ہونے والی کئی نسلوں کے جسموں پر ان کے خوفناک نتائج پڑیں گے۔جاپان ایک ایسا ملک ہے جن نے ایٹمی جنگ کے خوفناک نتائج دیکھے ہیں۔آج بھی اگر آپ جاپان جائیں تو اس جنگ سے خوف اور نفرت ان کی آنکھوں میں دیکھیں گے۔حالانکہ وہ ایٹم بم جو اس وقت استعمال کیے گئے تھے وہ آج کے ایٹمی ہتھیاروں، جو اس وقت بہت سے چھوٹے چھوٹے ملکوں کے پاس بھی ہیں، کے مقابلہ میں بہت معمولی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جاپان میں اگر چہ کہ اس واقعہ کو سات دہائیاں گزر چکی ہیں، آج بھی وہ ایٹمی اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ آج بھی وہ ایٹمی ہتھیار نوزائیدہ بچوں پر اپنے بھیانک اثرات دکھا رہے ہیں۔اگر کسی انسان کو گولی ماری جائے تو اس کا بچ جانا تو ممکن ہے لیکن اگر ایٹمی جنگ شروع ہو جاتی ہے تو جو بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گے ان کی ایسی قسمت نہیں ہوگی۔اس کے برعکس ہم دیکھیں گے کہ لوگ اچانک مرنے لگیں گے اور ایک جگہ جم جائیں گے۔ان کی کھالیں پگھلنے لگیں گی۔پینے کا پانی، کھانا اور سبزیاں سب زہر آلود ہو جائیں گی۔ وہ جگہیں جہاں پر سیدھے طور پر جنگ نہ ہوگی وہاں پر بھی اور جہاں جنگ کے اثرات کچھ کم پڑیں گے وہاں پر بھی ایٹمی بیماریوں کے بھیانک نتائج پیدا ہوں گے اور مستقبل کی نسلوں کو کئی طرح کے خطرات سے گزرنا ہوگا۔اس کے باوجود آج کچھ مفاد پرست اور بے وقوف لوگ اپنی ایجادات پر بڑا فخر محسو س کر رہے ہیں اور انہوں نے دنیا کی تباہ کاریوں کےلیے جو کچھ ایجاد کیا ہے اس کو دنیا کےلیے ایک تحفہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ایک اندازہ کے مطابق دوسری عالمی جنگ میں ۶۲ ملین لوگ مارے گئے تھے۔بتایا جاتا ہے کہ مارے گئے لوگوں میں ۴۰ملین عام شہری لوگ تھے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فوج کی نسبت عام آدمی زیادہ مارے جاتے ہیں۔یہ وہ تباہ کاری ہےجوجاپان کےعلاوہ باقی جگہوں پرصرف عام ہتھیاروں کے ساتھ ہوئی تھی۔اس جنگ میں صرف بھارت میں ۱۶ لاکھ لوگ موت کا شکار ہوئے تھے۔ لیکن آج حالات بدل گئے ہیں۔آج جیسا کہ میں نے ذکر کیا کئی چھوٹےچھوٹے ملکوں نے بھی تباہ کار ایٹمی ہتھیار بنا لیے ہیں۔اور سب سے بڑھ کر خوف کی بات یہ ہے کہ ایسے ہتھیار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں بھی آ گئے ہیں جو صحیح شعور نہیں رکھتےیا جو آنے والی تباہی اور بربادی کا صحیح تصور نہیں کر سکتے۔حقیقت میں ایسے لوگ انجام سے اس قدر لا پرواہ ہوتے ہیں کہ ذرا ذرا سی بات پر بندوقیں تان لیتےہیں۔پس اگر بڑی طاقتیں انصاف سے کام نہیں لیتیں اور چھوٹے ممالک کی نا امیدیوں کو ختم نہیں کرتیں اور اس سمت میں ٹھیک کارروائیاں نہیں کرتیں تو حالات ہمارے قبضہ سے باہر ہو جائیں گے۔اور اس کے بعد جو تباہی اور بربادی پھیلے گی ہم اس کا تصور بھی کر نہیں سکتے۔پس دنیا کے ممالک کو ان موجود ہ حالات پر بہت فکر مند ہونا چاہیے۔اسی طرح بعض مسلم ملکوں کے ناانصاف بادشاہ جن کا واحد مقصد کسی بھی قیمت پر اپنے تسلط کو قائم رکھنا ہے، انہیں بھی ہوش میں آنا چاہیے، ورنہ ان کی بد اعمالیاں اور بے وقوفیاں ان کی بد انجامی کی وجہ بن جائیں گی۔ہم جو جماعت احمدیہ کے ممبر ہیں دنیا اور انسانیت کو تباہی سے بچانے کےلیے اپنی انتہائی کوشش کرتے رہیں گے۔ یہ اس لیے کہ ہم نے موجودہ زمانے کے امام کو مانا ہے جسے خد انے مسیح موعودؑ بنا کر بھیجا ہےاور جو خدا کے رسول حضرت محمد ﷺ کا غلام تھا جو دنیا کی بھلائی کےلیےآیا تھا۔(خلاصہ خطاب حضور انور، نویں سالانہ امن کانفرنس بیت الفتوح مارڈن، ۲۴/مارچ ۲۰۱۲ءبحوالہ World Crisis and the Pathway to Peace صفحہ۴۰-۴۵)رسول اللہؐ کے خلق عظیم کاطرّۂامتیازہمیشہ یہ رہاکہ آپؐ ہرامکانی حدتک فسادسےبچتےاورہمیشہ امن کی راہیں اختیار کرتے تھے۔مکہ کا تیرہ سالہ دورِ ابتلا گواہ ہے کہ آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ نےسخت اذیتیں اورتکالیف اٹھائیں لیکن صبرپرصبرکیا۔ جانی اور مالی نقصان ہوئے پر برداشت کیے اور مقابلہ نہ کیا۔اپنے مظلوم ساتھیوں سے بھی یہی فرمایا،اِنِّیْ اُمِرْتُ بِالْعَفْوِ فَلَا تُقَاتِلُوْا مجھے عفو کا حکم ہو اہے۔اس لیے تم لڑائی سے بچو۔ (نسائی کتاب الجہاد باب وجوب الجہاد)حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دنیا میں امن کی موجودہ صورتحال دیکھتے ہوئے بارہابڑے بڑے ممالک کے حکمرانوں کو خطوط تحریر فرمائے۔ پیغامات بھیجے۔ امن کانفرنسزاورپیس سمپوزیمز کا انعقاد کیا۔ ان تمام کاوشوں کا مقصدصرف اورصرف امن عامہ کا قیام تھا اور ہے۔ آپ نے بارہا جنگ کے نقصانات اور اس کی تباہ کاریوں سے صاحب اختیار حکمرانوں کو آگاہ کیا۔ امن کے قیام کے لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے کاوشیں کیں۔ امن عالم کےقیام کےلیے جماعت احمدیہ کو ایک سنہری اصول یہ بھی بتایا کہ احمدی اپنے ملک کا وفادار ر ہے اور اُس کی بہتری اور بہبود کےلیےکوشاں رہے اوراپنے ملک کی حکومت کےخلاف کسی بغاوت، فسادیامظاہرےمیں حصہ نہ لے۔ ہاں قانونی اوراخلاقی ذرائع اختیار کرتا رہے۔دنیا کےکئی ممالک میں جماعت احمدیہ کو عوامی مخالفت کے علاوہ حکومتی جبر کا بھی سامنا ہے۔ جماعت کو ہر قسم کے انسانی اورشہری حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔ جبرواستبداد، قیدوبند،قتل وغارت اورتشدد معمول ہے مگر جماعت کی تاریخ کسی بھی قسم کے فساد سے مبرا ہے۔ ہم احمدی اگر حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائے احمدیت کی امن کی تعلیمات پر عمل نہ کرتے تو یہ کبھی بھی ممکن نہیں تھا۔اسی وجہ سے جماعت احمدیہ بطور امن پسند جماعت کے دنیا بھر میں مشہور ہے۔قیام امن کے لیے دنیا بھر میں جاری جماعتی کاوشوں کو بھی تشکر اورقدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور جماعت کے سلوگن Love for All Hatred for none کی بہت تعریف کی جاتی ہے یعنی محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں۔ یہ نعرۂ امن و سلامتی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی زبان مبارک سے ہی ادا ہوا تھا۔ جو حضورؒ نے ۱۹۸۰ء میں سپین کی سرزمین پہ فرمایا۔نفرتوں سے بھری دنیا میں محبت کا یہ اعلان عام تھا جس کے سبب مغرب نے حضورؒ کو سفیرِ محبت کے نام سے یاد کیا۔پھر اسی ضمن میں ہمارے موجودہ امام جماعت حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:” وقت کی اہم ضرورت ہے کہ عالمی امن اور ہم آہنگی کے قیام کی کوشش میں سب لوگ ایک دوسرے کا اور تمام مذاہب کا احترام قائم کریں بصورت دیگر خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے۔ لہٰذا باہمی احترام کے فقدان اور امن کے فروغ کے لیے باہمی اتحاد پیدا نہ ہونے کی صورت میں صرف مقامی آبادی یا شہریا کسی ایک ملک کو نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ در حقیقت یہ تمام دنیا کی تباہی پر منتج ہوگا۔ ہم سبھی پچھلی دو عالمی جنگوں کی ہولناک تباہیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ بعض ممالک کی پالیسیوں کی وجہ سے ایک اَور عالمی جنگ کے آثار دنیا کے اُفق پر نمودار ہو رہے ہیں۔ اگر عالمی جنگ چھڑ گئی تو مغربی دنیا بھی اس کے دیر تک رہنے والے تباہ کن نتائج سے متأثر ہو گی۔ آئیں خود کو اس تباہی سے بچا لیں آئیں اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو جنگ کے مہلک اور تباہ کن نتائج سے محفوظ کر لیں کیونکہ یہ مہلک جنگ ایٹمی جنگ ہی ہو گی اور دنیا جس طرف جا رہی ہے اس میں یقینی طور پر ایک ایسی جنگ چھڑنے کا خطرہ ہے۔ اِن ہولناک نتائج سے بچنے کے لیے انصاف، دیانتداری اور ایمانداری کو اپنانا ہو گا اور وہ طبقے جو نفرتوں کو ہوا دے کر امنِ عالم کو تباہ کرنے کے درپے ہیں ان کے خلاف متحد ہو کر اُنہیں روکنا ہو گا۔میری خواہش اور دلی دعا ہے کہ خدا تعالیٰ بڑی طاقتوں کو اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں اور فرائض انتہائی منصفانہ اور درست طریق پر نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ “(خطاب فرمودہ۱۱ /جون ۲۰۱۳ء،بمقام پارلیمنٹ ہاؤس لندن، الفضل انٹرنیشنل،۹/جولائی ۲۰۱۹ء)دنیا پہلے ہی آئے دن قدرتی آفات کا شکار ہورہی ہے۔ بہت سے ملکوں میں لوگ غربت کی انتہا سے بھی نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بھوک، افلاس، بنیادی سہولیات کا فقدان،جرائم، لاقانونیت انسان کو ایسی ہی ان گنت مشکلات کا سامنا ہے اور اس پر جنگ کی ہولناک تباہیاں سہنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔ اس دنیاکو،یہاں بسنے والے انسانوں کو امن کی ضرورت ہے، محبت کی ضرورت ہے، ہم بطور احمدی اپنی دعاؤں کے ذریعے،اپنی کوششوں کےذریعے،اپنے قلم کی طاقت کے ذریعےاپنے امام وقت کے سلطان نصیر بن سکتے ہیں۔ خود کو اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو اس ہولناکی اور تباہی سے دور رکھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اس عافیت کے حصار میں صدق کے ساتھ رہنا نصیب کرے۔ آمین اللھم آمین اب چھوڑ دو جہاد کا اَے دوستو خیالدِیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتالاب آ گیا مسیح جو دیں کا امام ہےدیں کی تمام جنگوں کا اب اِختتام ہے(درثمین) مزید پڑھیں:ویٹو پاور۔ امن عالم اور انصاف میں ایک ناقابل عبور رکاوٹ