حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ’’کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ اونٹوں کے چرانے والا ایک شخص عظیم الشان بادشاہ بن گیا اور صرف دنیاوی بادشاہ نہیں بنا بلکہ روحانی بھی۔ یہ حضرت عمرؓ تھے جو ابتدائے عمر میں اونٹ چرایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ حج کو گئے تو راستہ میں ایک مقام پر کھڑے ہو گئے۔ دھوپ بہت سخت تھی جس سے لوگوں کو بہت تکلیف ہوئی لیکن کوئی یہ کہنے کی جرأت نہ کرتا کہ آپؓ یہاں کیوں کھڑے ہیں۔ آخر ایک صحابی کو جو حضرت عمرؓ کے بڑے دوست تھے اور جن سے آپ فتنہ کے متعلق پوچھا کرتے تھے لوگوں نے کہا کہ آپ ان سے پوچھیں‘‘ حضرت عمرؓ سے پوچھیں ’’کہ یہاں کیوں کھڑے ہیں؟ انہوں نے حضرت عمرؓ سے عرض کیا کہ آگے چلئے یہاں کیوں کھڑے ہو گئے ہیں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے ’’فرمایا کہ میں یہاں اس لئے کھڑا ہوا ہوں کہ ایک دفعہ میں اونٹ چرانے کی وجہ سے تھک کر اس درخت کے نیچے لیٹ گیا تھا۔ میرا باپ آیا اور اس نے مجھے مارا کہ کیا تجھے اس لئے بھیجا تھا کہ وہاں جا کر سو رہنا۔ تو ایک وقت میں میری یہ حالت تھی لیکن میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کیا تو خدا تعالیٰ نے مجھے یہ درجہ دیا کہ آج اگر لاکھوں آدمیوں کو کہوں تو وہ میری جگہ جان دینے کو تیار ہیں۔ اس واقعہ سے اور نیز اس قسم کے اَور بہت سے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ کس حالت میں تھے اور رسول کریمؐ کی اتباع سے ان کی کیا حالت ہو گئی اور انہوں نے وہ درجہ اور علم پایا جو کسی کو حاصل نہ تھا۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’یہ قصہ میں نے اس لئے سنایا ہے کہ دیکھو ایک اونٹ چرانے والے کو دین اور دنیا کے وہ وہ علم سکھائے گئے جو کسی کو سمجھ نہیں آ سکتے۔ ایک طرف اونٹ یا بکریاں چرانے کی حالت کو دیکھو کیسی علم سے دور معلوم ہوتی ہے اور دوسری طرف اس بات پر غور کرو کہ اب بھی جبکہ یورپ کے لوگ ملک داری کے قوانین سے نہایت واقف اور آگاہ ہیں حضرت عمرؓ کے بنائے ہوئے قانون کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایک اونٹ کا چرواہا اور سلطنت کیا تعلق رکھتے ہیں؟ لیکن دیکھو کہ انہوں نے وہ کچھ کیا کہ آج دنیا ان کے آگے سر جھکاتی ہے اور ان کی سیاست دانی کی تعریف کرتی ہے۔ پھر دیکھو حضرت ابوبکرؓ ایک معمولی تاجر تھے لیکن اب دنیا حیران ہے کہ ان کو یہ فہم، یہ عقل اور یہ فکر کہاں سے مل گیا۔ میں بتاتا ہوں کہ ان کو قرآن شریف سے سب کچھ ملا۔ انہوں نے قرآن شریف پر غور کیا اس لئے ان کو وہ کچھ آ گیا جو تمام دنیا کو نہ آتا تھا کیونکہ قرآن شریف ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جب اس کے ساتھ دل کو صیقل کیا جائے تو ایسا صاف ہو جاتا ہے کہ تمام دنیا کے علوم اس میں نظر آ جاتے ہیں اور انسان پر ایک ایسا دروازہ کھل جاتا ہے کہ پھر کسی کے روکے وہ علوم جو اس کے دل پر نازل کئے جاتے ہیں نہیں رک سکتے۔ پس ہر ایک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کو پڑھنے اور غور کرنے کی کوشش کرے۔‘‘ (انوار خلافت، انوار العلوم جلد۳ صفحہ ۱۳۰-۱۳۱) (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍نومبر ۲۰۲۱ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۳؍دسمبر۲۰۲۱ء) مزید پڑھیں: سورۃ فاتحہ کو بڑے غور سے پڑھنا چاہئے