خلق کی جمع اخلاق ہے جس کے معنی پختہ عادت کے ہیں۔کسی انسان کی وہ کیفیات و عادات جو بغیر غوروفکر اُس سے سرزد ہوں اخلاق کہلاتے ہیں۔ اگر کسی انسان میں عمدہ عادات اور اچھی خصلتیں پائی جائیں تو وہ حسن خلق سے متصف انسان کہلائے گا۔ اس کے برعکس جو انسان سخت کلامی اور بدخلقی کا عادی ہو اُسےبداخلاق کہاجائے گا۔ اگرکوئی شخص اپنی زبان سےہروقت سخت اور ناپسندیدہ الفاظ نکالتا رہے توایک وقت آئے گا کہ اُس کی بات سننے والا کوئی نہ ہوگا۔ لوگ متنفر ہوکر اُس سے دور ہونے لگیں گے اورایک نہ ایک دن وہ تنہائی کا شکار ہوجائے گا۔انسان کے اخلاق کی تعمیر میں اُس کا طرزِ کلام بہت اہمیت رکھتا ہے جبکہ انسان کے اخلاق کی سب سے بڑی گواہ اُس کی اپنی زبان ہے۔ حسن خلق وہ سرمایہ حیات ہے جو انسانی زندگی کو خوشگوار بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سخت کلامی اور بدخلقی کے جواب میں نرمی دکھانا نہایت عمدہ خلق ہے جو جانی دشمن کو یارِ جانی بنا سکتاہے۔ عمدہ اخلاق کے ذریعہ انسانی معاشرے سے تلخیاں دُور ہوتی ہیں اور محبتوں کی کھیتیاں پروان چڑھتی ہیں۔آنحضرت ﷺنے بھلائی کی ہر بات اور ہر نیک کام کو صدقہ قرار دے کر جہاں صدقہ کی تعریف میں وسعت پیدافرمادی ہے وہیں نیکی اور خیر کی باتوں کو معاشرے میں پھیلانے کی طرف متوجہ فرمایاہے تاکہ اس ذریعہ سے معاشرے کی فضا خوشگوار ہو اور محبت واخوت کا ماحول ترقی پذیر ہو۔ اگرہم اپنے ملنے والوں سے ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ ہم کلام ہوں اوراُن کے ساتھ نرم لہجے میں گفتگو کریں تووہ نہ صرف ہماری بات غور اور توجہ سے سنیں گے بلکہ ہمارے قریب ہوں گے۔اسلام امن،سلامتی اوررواداری کادعوےدار مذہب ہے جس کے ماننے والوں کو نہ صرف آپس میں پیار،محبت اور بھائی چارے سے رہنا چاہیے بلکہ اُن کا وجود دنیا کے ہر انسان کے لیے امن،سلامتی اور خیرخواہی کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔کسی انسان کے اسلام میں داخل ہونے کا مطلب ہے کہ وہ سلامتی کے حصار میں داخل ہوگیا ہے۔ اب اسے دوسروں کے لیے بھی امن وسلامتی اور آرام کا موجب بننا ہوگا۔اب اُس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہیں ہونا چاہیے جوکسی کے لیے دکھ یا تکلیف کا موجب ہو۔کہا جاتا ہے کہ نرم بات دلوں کی بیڑی ہے یعنی پیار محبت، عمدہ کلام اورنرم زبان سے دلوں کو قابو کیا جاسکتا ہے۔یہ وہ کارگر ہتھیار ہے جس سے پتھر دل موم بن جاتے ہیں۔ہمارا طرز کلام معاشرے کے ماحول کو بگاڑنے اور اُسے خوشگوار بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ایک عربی محاورہ ہے کہ اَللِّسَانُ مَرْکَبٌ ذَلْولٌ زبان سدھائی ہوئی سواری ہے یعنی ہر انسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ اپنی زبان کو کس طرح استعمال کرنا چاہتا ہے۔آنحضرت ﷺ جس معاشرہ میں پیدا ہوئے وہاں کی اکثریت سخت مزاج اور درشت لہجے والی تھی۔موسم کی سختیوں اور سنگلاخ زمین نے اُن کے دلوں کو سخت کر دیا تھالیکن آنحضرتﷺ کے پاکیزہ اخلاق اور عمدہ طرزِ کلام نے اُس وحشی قوم کے دلوں کو فتح کرلیا اور وہ آپؐ کے عاشق جاں نثار بن گئے۔آنحضرتﷺ سخت کلامی کاجواب نرمی سے اور بدکلامی کا جواب خوش کلامی سے دینے والے بابرکت وجود تھے۔ آپ ؐ لوگوں کو اُن کی غلطیوں پر نادم اور شرمندہ کرنے کی بجائے حکیمانہ طرز عمل اختیار فرماتے اور اپنے عمدہ نمونہ سے اُن کی اصلاح فرماتے۔ پس آپ ؐکے اخلاق کریمانہ سے اُن کے دل نرم ہوگئے اور اُن کی زبانوں پر الٰہی معارف جاری ہونے لگے۔ اللہ تعالی ٰنے فرمایاہے:وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرۃ:۸۴) اورلوگوں سے نیک بات کہا کرو۔ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ وَیُعْطِی عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِی عَلَی الْعُنْفِ وَمَا لَا یُعْطِی عَلَی مَا سِوَاہُ (صحیح مسلم، کتاب البروالصلۃ والآداب، بَاب فَضْلِ الرِّفْقِ حدیث:۴۶۸۳) اللہ رفیق ہے اور رفق کو پسند کرتا ہے اور وہ نرمی پر جو عطا کرتا ہے وہ نہ سختی پر اور نہ اس کے سوا کسی (چیز) پر عطا کرتا ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:”ایک احمدی کی زبان ہمیشہ پاک اور صاف ہونی چاہیے۔ کیونکہ گالی آنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اپنی بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے جس کی وجہ سے غصہ میں آکر گالی گلوچ شروع کردی۔ اس لیے یہ گھٹیا طریق ہے جو کبھی بھی کسی احمدی کو اختیار نہیں کرنا چاہیے اور نوجوانوں کو، بچوں کو خاص طور پرجو نوجوانی کی عمر میں داخل ہورہے ہیں اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔ اور ہر احمدی خادم کواختلاف کی صورت میں، کسی اونچ نیچ کی صورت میں کبھی غلط بات منہ پر نہیں لانی۔ کسی قسم کی گالی اور غلیظ بات اس کے منہ سے نہیں نکلنی چاہیے۔“(مشعل راہ،جلدپنجم،حصہ دوم،صفحہ۱۱۰)حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”تربیت کا دوسرا پہلو نرم اور پاک زبان کا استعمال کرنا اور ایک دوسرے کا ادب کرنا۔ یہ بھی بظاہر چھوٹی سی بات ہے۔ ابتدائی چیز ہے لیکن جہاں تک مَیں نے جائزہ لیا ہے، وہ سارے جھگڑے جو جماعت کے اندر نجی طور پر پیدا ہوتے ہیں یا ایک دوسرے سے تعلقات میں پیدا ہوتے ہیں اُن میں جھوٹ کے بعد سب سے بڑا دخل اس بات کا ہے کہ بعض لوگوں کو نرم خوئی کے ساتھ کلام کرنا نہیں آتا۔ اُن کی زبان میں درشتگی پائی جاتی ہے۔ اُن کی باتوں اور طرز میں تکلیف دینے کاایک رجحان پایا جاتا ہے، جس سے بسا اوقات وہ باخبرہی نہیں ہوتے۔ جس طرح کانٹے دُکھ دیتے ہیں ان کو پتانہیں کہ ہم کیا کررہے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ روحانی طور پر سوکھ کر کانٹے بن جاتے ہیں اور ان کی روز مرہ کی باتیں چاروں طرف دُکھ بکھیر رہی ہوتی ہیں۔ تکلیف دے رہی ہوتی ہیں اور اُن کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ ہم کیا کررہے ہیں۔ ایسے اگر مرد ہوں تو ان کی عورتیں بیچاری ہمیشہ ظلموں کا نشانہ بنی رہتی ہیں اور اگر عورتیں ہوں تو ان کے مردوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ یہ بات بھی ایسی ہے جس کو بچپن سے ہی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ گھر میں بچے جب آپس میں ایک دوسرے سے کلام کرتے ہیں۔اگر وہ آپس میں ادب اور محبت سے کلام نہ کریں۔اگر چھوٹی چھوٹی بات پر تُو تُو، مَیں مَیں اور جھگڑے شروع ہوجائیں تو آپ یقین جانئے کہ آپ ایک گندی نسل پیچھے چھوڑ کر جانے والے ہیں۔ ایک ایسی نسل پیدا کررہے ہیں جو آئندہ زمانوں میں قوم کو تکلیفوں اور دکھوں سے بھر دے گی اور آپ اس بات کے ذمہ دار ہیں ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچوں نے ایک دوسرے سے زیادیتاں کیں، سختیاں کیں اور بدتمیزیاں کیں۔ اور آپ نے ان کو ادب سکھانے کی طرف کوئی توجہ نہ کی اور یہی نہیں ایسے بچے پھر ماں باپ سے بھی بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں۔اور جن ماں باپ کے بچوں کی تعزیر کے لیے جلد ہاتھ اُٹھتے ہیں ان کے بچوں کے پھر اُن پر ہاتھ اٹھنے لگتے ہیں۔ اس لیے روزمرہ کے حسن سلوک اور ادب کی طرف غیر معمولی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہ بھی گھروں میں اگر بچپن ہی میں تربیت دے دی جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی آسانی کے ساتھ یہ کام ہوسکتے ہیں۔“(مشعل راہ،جلد سوم صفحہ ۴۶۲-۴۶۳)حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایاہے: اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْأَمْرِ کُلِّہِ (صحیح البخاری کتاب الادب بَاب الرِّفْقِ فِی الْأَمْرِ کُلِّہِ حدیث:۶۰۲۴) اللہ ہر معاملے میں نرمی پسند کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نےیہ بھی فرمایا ہے: نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اسے زینت بخشتی ہے اور جس چیز سے نرمی نکال دی جائے اُسے بدصورت بنا دیتی ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب البروالصلۃ والآداب، بَاب فَضْلِ الرِّفْقِ حدیث:۴۶۸۴)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بدوی اُٹھا اور اس نے مسجد میں پیشاب کردیا۔ لوگوں نے اُسے بُرا بھلا کہا۔ اس پر نبی ﷺ نے ان سے کہا:اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی کا بہادو۔(نیز فرمایا:) فَاِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُّیَسِّرِیْنَ وَلَمْ تُبْعَثُوْا مُعَسِّرِیْنَ اور تم صرف اس لیے مبعوث کیے گئے ہو کہ آسانی کرنے والے بنو اور تم سختی کرنے کے لیے مبعوث نہیں کیے گئے۔(صحیح البخاری کتاب الوضُوء بَاب صَبُّ الْمَاءِ عَلَی الْبَوْلِ فِی الْمَسْجِدِ حدیث:۲۲۰) شرائط بیعت کی چوتھی شرط یہ ہےکہ:” عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔“(اشتہار تکمیل تبلیغ ۱۲/جنوری ۱۸۸۹ء،مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۲۰۶مطبوعہ مارچ ۲۰۱۹ء)خلاصہ کلام یہ کہ اگر ہم اپنی زندگیاں نبی کریمﷺکے اسوۂ حسنہ کے مطابق گزاریں تو نہ صرف ہماری زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہوں گی بلکہ ہم اپنے عمدہ اخلاق اور اچھے طرز عمل سے معاشر ے کے امن میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین مزید پڑھیں: نرم اور پاک زبان کا استعمال