https://youtu.be/LYgL7s9pyHo (حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI) گائیکم Guaiacum اگر وجع المفاصل اور گنٹھیا کی تکلیف ہو تو گلا خراب ہونے کا رجحان بھی ہو تا ہے۔ گلا خراب ہو تو سارے جسم میں اعصابی اور جوڑوں کے درد ہونے لگتے ہیں۔ دانتوں میں درد کی وجہ سے بھی جسم میں شدید دردیں ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر عموماً مشورہ دیتے ہیں کہ دانت یا ٹانسلز (Tonsils) نکلوا دیں لیکن تکلیف پھر بھی باقی رہتی ہے۔ اگر وقت پر گائیکم دے دی جائے تو آپریشن کی نوبت نہیں آتی۔(صفحہ۴۱۹-۴۲۰) ہیماٹوکسی لون Haematoxylon معدے میں ہوا،درد اور کھرچن کا احساس اُٹھتا ہے جو گلے تک پہنچتا ہے اور دل کے مقام پر درد اور تشنج پیداکرتا ہے۔(صفحہ۴۲۳) ہیپر سلفیورس کلکیریم Hepar Sulphuris Calcareum (Calcium Sulphide) ہیپر سلف روز مرہ کے گلے کی خرابیوں میں بہت مفید ہے۔ گلے میں بلغم چپک جائے اور اسے باہر نکالنا بہت مشکل ہو اور کھانسی کے باوجود بلغم کو اکھیڑنا دشوار ہو تو ہیپرسلف بہت نمایاں کام کرتی ہے۔ ہیپر سلف میں کھانسی عموماً صبح کے وقت زیادہ ہوتی ہے اور سردی سے کھانسی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور کھانسی میں اکثر درد پایا جاتا ہے۔ اس کی ایک اور علامت گلے میں پھانس کا احساس ہونا ہے جیسے کوئی چیز پھنسی ہوئی ہو اور کوشش کے باوجود نکلتی نہ ہو۔ اگر واقعتا ًکوئی چیز پھنسی ہوئی ہو تو ہیپر سلف کی بجائےسلیشیا سے باہر نکلتی ہے۔(صفحہ۴۳۷-۴۳۸) نزلے میں ناک اور گلے کے اندر بلغم سا چپکا رہے اور اس وجہ سے چھینکیں آئیں تو ہیپر سلف ہی دینی چاہیے۔ سردی کی وجہ سے چھینکیں آنا بھی ہیپر سلف کی علامت ہے۔(صفحہ۴۳۹) ہیپرسلف پر انے مسوں میں جو ٹھیک نہ ہوں مفید ہے۔ جلد پر خارش ہوتی ہے اور جسم پر دانے بن جاتے ہیں۔ جلد پر چھلکے اور کھرنڈ بننے لگتے ہیں جو اکثر ایگزیموں میں ملتے ہیں۔ اگر یہ کھرنڈ کان کے پیچھے اور گلے کے ارد گرد ہوں اور ان سے گوند کی طرح کا چپکنے والا مواد رسنے لگے تو گریفائٹس سے آرام آتا ہے۔(صفحہ۴۴۱) ہائیڈروفوبینم Hydrophobinum ہائیڈ روفو بینم کے مریض کو نگلنے میں دقت ہوتی ہے۔ بغیر کچھ کھائے پیئے بھی نگلنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ایسے مریضوں کے منہ میں جھاگ بھی آ جاتی ہے اور مریض مسلسل تھوکتا رہتا ہے۔(صفحہ۴۵۵) ہائیوسمس Hyoscyamus (Henbane) ہائیو سمس کا مریض پانی سے ڈرنے لگتا ہے اور پانی بہنے کی آواز طبیعت میں ہیجان پیدا کر دیتی ہے۔ گلے میں تشنج ہو جاتا ہے اور پانی اندر نہیں جا سکتا۔ ڈاکٹر کینٹ نے لکھا ہے کہ بیلاڈونا، ہائیو سمس، کینتھرس اور ہائیڈ روفو بینم اس مرض کی بہترین دوائیں ہیں۔ میرے تجربہ میں ہے کہ سٹرامونیم اور ہائیڈ روسائینک ایسڈ دونوں اس رجحان کا قلع قمع کرنے والی دوائیں ہیں۔ اگر پانی پیتے ہوئے گلے میں تشنج پیدا ہو جائےتو اس میں یہ بہت مفید ہیں۔(صفحہ۴۵۹) اگنیشیا Ignatia اگنیشیا کے مریض کے گلے میں تکلیف ہو تو نگلنے سے آرام آتا ہے۔ درد میں دباؤ سے آرام محسوس ہوتا ہے۔ جس کروٹ پر تکلیف ہو مریض اسی کروٹ پر لیٹے گا۔(صفحہ۴۶۴) اگر گلے میں خراش کی وجہ سے کھانسی آئے تو کھانسی تکلیف کو کم کرنے کی بجائے بڑھا دیتی ہے اور ایک دفعہ چھڑجائے تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ اگر کھانسی کے عین درمیان اگنیشیا کی ایک خوراک دے دیں تو کھانسی فورا ًبند ہو جائے گی۔(صفحہ۴۶۵) آیوڈم Iodum چونکہ آیوڈم گرم مزاج کی دوا ہے اس لیے اس کی کھانسی بھی گرمی سے بڑھتی ہے چنانچہ گرم کمرے میں جانے سے کھانسی کا دورہ پڑ جاتا ہے مگر آیوڈم کی پہچان کے لیے صرف یہی علامت کافی نہیں۔ باقی علامتیں بھی موجو د ہونا ضروری ہیں۔ اس دوا میں جگر،تلی اور گلے کی سوزش بھی ملتی ہے۔ عموماً ایسی سوزش اور غدودوں کی تکلیف کے نتیجہ میں مریض کو دست لگ جاتے ہیں۔ آیوڈم میں ہر جگہ دھڑکن پائی جاتی ہے۔(صفحہ۴۷۰) اپی کاک Ipecacuanha (Ipecac-Root) اپی کاک کا نزلہ ناک میں جڑ پکڑ جاتا ہے۔ رات کے وقت ناک بند ہو جاتا ہے اور بہت چھینکیں آتی ہیں۔ نزلہ گلے اور چھاتی میں اترتا ہے جس سے سانس گھٹتا ہے اور دردبھی ہو تا ہے۔ دمہ کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں۔ جو نزلہ ناک سے شروع ہو کر گلے اورچھاتی میں اترے اور یوں محسوس ہو کہ دمہ ہو جائے گا تو اپی کاک دینے سے دمہ کا حملہ ٹل سکتا ہے۔ ٹکسالی کے نسخے عموماً نا واقف لوگوں کے لیے ہوتے ہیں لیکن ہر دفعہ علامات کے مطابق نسخہ سوچنا بھی مشکل کام ہوتا ہے۔ دمہ کا ہر حملہ گزر جانے کے بعد بیماری کا مزاج سمجھ کر مستقل علاج کریں۔ دمہ کے مریض کو کھانے پینے میں بہت احتیاط کرنی چاہیے۔ نزلہ اور گلا خراب ہونے سے بچنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔ (صفحہ۴۷۷۔۴۷۸) آئرس ٹینکس Iris tenax آئرس ور سیکولر معدے کی کھٹاس اور تیزابیت کی بہترین دوا ہے جبکہ آئرس ٹینکس میں معدے کی کھٹاس تو پائی جاتی ہے لیکن اس تکلیف کے ساتھ گلے اور منہ میں بھی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔(صفحہ۴۷۹) آئرس ٹینکس میں منہ میں جلن کا احساس ہوتا ہے۔ زبان، گلے اور منہ کی اندرونی جلد متاثر ہوتی ہے۔ گلا خشک ہو جا تا ہے اور ٹھنڈے پانی سے آرام نہیں آتا۔(صفحہ۴۷۹) کالی بائیکروم Kali bichromicum (Bichromate of Potash) کالی بائیکروم خناق (Diphtheria- ڈ فتھیریا) کی بھی اچھی دوا ہے مگر میور یٹک ایسڈ (Muriatic acid) کا مقابلہ نہیں جو خناق کی اولین دوا ہے اور انتہائی کمزوری کو بھی دور کرتی ہے۔(صفحہ۴۸۶) کالی بائیکروم میں ناک کے اندر گہرائی میں ایک خاص مقام ہوتا ہے جہاں سے نزلہ شروع ہو تا ہے۔ گلے اور ناک کے جوڑ کے پاس جراثیم کی کمین گاہ بن جاتی ہے اور پھر ناک اور گلے سے اچانک ناقابل برداشت بدبو کے بھبھکے اٹھتے ہیں۔ ان علامات میں کالی بائیکر وم اور میزیریم مشترک ہیں لیکن میزیریم کا دائرہ اثر محدود ہے۔ وہ اسی حصہ میں رہتی ہے لیکن کالی بائیکروم تمام جسم پر اثر انداز ہوتی ہے۔ میزیریم کے ساتھ گرمی اور سردی کی علامات نہیں ہوتیں۔ (صفحہ۴۸۸) کالی بائیکر وم میں زبان پر تہ سی جم جاتی ہے۔ اگلے حصہ پر سفیدی اور پچھلے حصہ پر زردی پائی جاتی ہے۔ زبان کہیں کہیں سے میلی ہوتی ہے اور اس بیماری کی ایک خاص چمک سی ہوتی ہے جو عام صحت مند زبان پر دکھائی نہیں دیتی۔ بعض دفعہ زبان کے اندر گلے کی نالی کے قریب چھوٹے چھوٹے ابھار بن جاتے ہیں جو سٹرابری (Strawberry)کی طرح کی شکل اور رنگت رکھتے ہیں اور ان کا کھردرا پن گلے کو محسوس ہوتا ہے۔ زبان کے السر میں بھی بہت مفید دوا ہے۔ دانتوں کی جڑوں اور گالوں کے اندرونی حصوں میں بھی السر بننے کا رجحان ہوتا ہے۔ گلے کی سوزش کے ساتھ زخم بن جاتے ہیں اور گلے میں درد ناک کی نالی اور نچلی جھلیوں میں بھی پھیل جاتا ہے۔اس کا درد عموماً ایک جگہ تک ہی محدود ہوتا ہے مگر گلے کی دکھن کا احساس وسیع دائرہ میں پھیل جاتا ہے۔ (صفحہ۴۸۹-۴۹۰) کالی بائیکروم میں السر بننے کا رجحان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ گلے کے غدود پھول جائیں تو درد کے علاوہ اتنے متورم ہوجاتے ہیں کہ گلے کے باہر گردن پر بھی ورم نمایاں ہوجاتی ہے اور سرخی بھی پائی جاتی ہے۔ گلے میں بال کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ ٹیرینٹولا میں بھی ہر جگہ اس قسم کے احساسات پائے جاتے ہیں۔ ہیپر سلف میں کسی چیز کے چپکنے کا احساس پایا جاتا ہے۔ زبان کی جڑ کے قریب علامات سمٹ جاتی ہیں اور بہت شدید درد ہوتا ہے۔ وہاں ایسے زخم ہوتے ہیں جو نظر نہیں آتے۔ (صفحہ۴۹۰) کالی بائیکروم میں کالی کا رب اور اپی کاک کی طرح پیٹھ میں سردی کا احساس ہوتا ہے۔ البتہ کالی کا رب میں سردی کا یہ احساس پیٹھ کے نچلے حصہ تک محدود رہتا ہے جبکہ کالی بائیکروم میں اپی کاک کی طرح گردن تک سردی کی لہریں جاتی ہیں۔ بائی کی دردیں حرکت سے بڑھ جاتی ہیں۔(صفحہ۴۹۳) کالی کارب Kali Carbonicum کالی کارب کے مریضوں کا گلا اکثر خراب رہتا ہے۔ گلے کے گلینڈز سوج کر موٹے ہوجاتے ہیں۔ اگر کان کے پیچھے گلینڈز میں سوزش ہوجائے تو وہ اتنی خطرناک نہیں ہوتی لیکن اگر گلے کے دونوں طرف کی رگیں پھول جائیں تو یہ اچھی علامت نہیں۔ورم بعض اوقات مستقل ٹھہر جاتی ہے۔ غدود پھول کر سخت ہوجاتے ہیں اور کچھ مادے ان میں جم جاتے ہیں جو غدودوں کو سکڑنے نہیں دیتے۔ اگر دیگر علامتیں بھی ہوں تو کالی کارب اس مرض کا مؤثر علاج ہے۔(صفحہ۴۹۹) کالی میور Kali muriaticum (Chloride of Potassium) منہ میں سفید رنگ کے چھالے بنتے ہیں۔ نزلہ جس میں ناک بند رہتا ہے اور سفید رنگ کی رطوبت کثیر مقدار میں بنتی ہے۔ نیز گلے کی تکلیفوں اور ٹانسلز کے متورم ہونے میں بہت مفید ہے لیکن میں اسے اکیلا استعمال نہیں کراتا بلکہ سلیشیا،کلکیریا فلور اور فیرم فاس کے ساتھ6xمیں ملا کر دیتا ہوں۔اکثر گلے کی تکلیفوں میں اس نسخہ سے فوری طور پر فائدہ پہنچتا ہے۔ (صفحہ۵۰۳) کالی میور میں آواز کا بیٹھنا بھی پایا جاتا ہے۔دمہ کی علامتیں اور معدہ کی خرابی کی وجہ سے کھانسی اٹھتی ہے۔ (صفحہ۵۰۴) (نوٹ ان مضامین میں ہو میو پیتھی کے حوالے سے عمومی معلومات دی جاتی ہیں۔قارئین اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر کوئی دوائی لینے سے قبل اپنے معالج سے ضرورمشورہ کرلیں۔) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل(گلے کے متعلق نمبر ۴)(قسط ۱۲۰)