https://youtu.be/cUPDq4nj9gY ان شاءاللہ تعالیٰ جولائی کے آخر پر جلسہ سالانہ کا نوروں بھرا سورج ایک دفعہ پھر اپنی تمام تر برکات اور شان و شوكت لیے ہوئے طلوع ہونے کو ہے۔وہ جلسہ كہ جس كے لیے ہم سب سال بھر بڑی بے چینی سے منتظر رہتے ہیں تم چلے آئے میں نے جو آواز دی، تم کو مولیٰ نے توفیقِ پرواز دی سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ كے قلبِ صافی كی اتھاہ گہرایوں سے نكلے ہوئےیہ الفاظ جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کے ساتھ خلیفہ وقت کے اُس جذبہ عقیدت و محبت اور چاہت کا آئینہ دار ہیں کہ جو امامِ وقت کو اپنے ان پیاروں کے ساتھ ہوتا ہے کہ جو دُور دراز کے دیسوں سے سفر کے بڑے کٹھن مراحل سے گزر کر مامورِ زمانہ کے قابلِ صد احترم خلیفہ کی بابرکت صحبت سے فیض یاب ہونے کے لیے آتے ہیں۔ اس عشق ووفا اور صدق وصفا میں ڈوبے ہوئے جذبات کا اظہار یک طرفہ نہیں ہورہا ہوتا بلکہ جلسہ سالانہ میں شریک ہر ایک احمدی اپنے پیارے عزیز ترین آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی محبت میں اُسی طرح سے سرشار ہوتا ہے۔ اور نُورِخلافت کی کرنوں کو اپنے اندر جذب کرنے کے لیے بے تاب ہوا جاتا ہے اور خلیفہ وقت کی دید کے ہر ایک لمحہ کو اپنی آنکھوں کے ذریعہ دل و دماغ میں محفوظ کرتا چلا جاتا ہے۔ حضور انورکو دیکھ کران کی بھیگی ہوئی آنکھیں اُن کی دلی کیفیات کا کُھل کر اظہار کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ سب اپنی خوش قسمتی اور خوش بختی پر شاداں ہوئے جاتے ہیں۔ دوسری طرف ہماری جان سے پیارے آقا بھی تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ان اشعار کی مکمل تصویر دکھائی دیتے ہیں کہ پھول تم پر فرشتے نچھاور کریں ، اور کشادہ ترقی کی راہیں کریں آرزوئیں میری جو دُعائیں کریں ، رنگ لائیں میرے مہماں کے لئے میرے آنسو تمہیں دیں رَمِ زندگی ، دُور تم سے کریں ہر غمِ زندگی مہماں کو ملے جو دمِ زندگی ، وہی امرت بنے میزباں کے لئے نُور کی شاہراہوں پہ آگے بڑھو ، سال کے فاصلے لمحوں میں طے کرو خوں بڑھے میرا تم جو ترقی کرو ، قرۃ العین ہو سارباں کے لئے یہ رشتہ ایسا خالص کیوں نہ ہو کہ جب خلیفہ وقت سے دلی وابستگی کی اہمیت اور فرضیت کے ذکر میں ہمارے پیارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفےٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تاکیدی حکم ارشاد فرمایا ہو کہ اگر تُم دیکھو کہ اللہ کا خلیفہ زمین میں موجود ہے تو اس سے وابستہ ہو جاؤ، اگر چہ تمہارا بدن تار تار کردیا جائے،اور تمہارا مال لُوٹ لیا جائے۔ (مسند احمد بن حنبل ) اس حدیث سے خلافت کا مقام و مرتبہ اور خلافت کی اہمیت بڑی شان کے ساتھ واضح ہوجاتی ہے۔ خلافت ہی درحقیقت دُنیا میں سب سے بڑا اور قیمتی خزانہ ہے۔ یہ خزانہ جان و مال عزت و آبرو سے بڑھ کر ایک قیمتی دولت ہے۔ اگر یہ دولت كسی جماعت كو عطا ہوتو اُس سے چمٹ جانا اور ہر حالت میں چمٹے رہنا ہی زندگی كی بقا كی ضمانت ہے۔ اور دراصل مسندِ خلافت ہی وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًاكی كامل اور اصل تصویر ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف شہادۃ القرآن میں فرمایا ہے کہ خلیفہ درحقیقت رسول كا ظِل ہوتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’میں شہنشاہِ عالم کے عہدہ کو بھی خلافت کے مقابلہ میں ادنیٰ سمجھتا ہوں۔ پس میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے معاملات میں ایسا رنگ اختیار كریں جس میں تقویٰ اور ادب ہو۔ ‘‘ (انوارالعلوم جلد ۹) چنانچہ ہمارا فرض ہے کہ اس انعامِ الٰہی کی حد درجہ تعظیم و تکریم کریں۔ نظامِ خلافت کے اس عظیم اور بلند منصب اور مقام کی مناسبت سے مومنوں کی سب سے اہم اور بنیادی ذمہ داری خلافت کے ساتھ دلی وابستگی اور امامِ وقت کی مکمل اور غیر مشروط اطاعت ہے۔ ان شاءاللہ تعالیٰ جولائی کے آخر پر جلسہ سالانہ کا نوروں بھرا سورج ایک دفعہ پھر اپنی تمام تر برکات اور شان و شوكت لیے ہوئے طلوع ہونے کو ہے۔وہ جلسہ كہ جس كے لیے ہم سب سال بھر بڑی بے چینی سے منتظر رہتے ہیں۔ اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے یہ الفاظ ہر دل کی آواز بنے جاتے ہیں کہ (اس کلام کے تمام ہی اشعار ایک دوسرے سے بڑھ کر حضورؒ کے دلی جذبات کا اظہارہیں۔ فیصلہ مشکل ہے کہ کن اشعار کو شامل کیا جائے) آئے وہ دن کہ ہم جن کی چاہت میں گنتے تھے دن اپنی تسکینِ جاں کے لئے پھر وہ چہرے ہویدا ہوئے جن کی یادیں قیامت تھیں قلبِ تپاں کے لئے جن کے اخلاص اور پیار کی ہر ادا ، بےغرض ، بے ریا، دل نشیں دلرُبا بے صدا جن کی آنکھوں کا کرب و بلا، کربلا ہے دلِ عاشقاں کے لئے پیار کے پھول دل میں سجائے ہوئے ،نورِ ایماں کی شمعیں اُٹھائے ہوئے قافلے دُور دیسوں سے آئے ہوئے ، غمزدہ اک بدیس آشیاں کے لئے جلسہ سالانہ یوكے كا ہم سب كو سال بھر بڑی ہی شدت سے انتظار رہتا ہے۔ اس جلسہ كا سب سے اہم موقع وہ ہوتا ہے كہ جب ہم دید كے پیاسوں كو اللہ تعالیٰ كے پیارے خلیفہ كا دیدار نصیب ہوتا ہے۔بقول چودھری محمد علی صاحب مضطرؔ كبھی تو اُس سے ملاقات ہوگی جلسہ پر كبھی تو وہ آئے گا وصل کے مہینوں میں جلسہ سالانہ كے بابركت دنوں میں وہ مہرِ تاباں ایك بار نہیں بلكہ بار بار ہمارے درمیان جلوہ گر ہوگا۔ اُس كے چہرہ مبارك سے نظر ہٹتی ہی نہیں۔ والدین چھوٹے چھوٹے بچوں كو گود میں اُٹھا اُٹھا كر پیارے آقا كا دیدار كروارہے ہوتے ہیں۔ اُس نُورِ تاباں پر نظر پڑتے ہی محترم چودھری محمد علی مضطر كے یہ اشعار لب پر آجاتے ہیں كہ شرم سی كچھ حجاب سا كچھ ہے قُرب بھی بے حساب سا كچھ ہے ماہ سا، ماہ تاب سا كچھ ہے ہوبہو آں جناب سا كچھ ہے مسكراتا ہوا حسین و جمیل ایك چہرہ گلاب سا كچھ ہے اُس كو دیكھا تو یوں لگا جیسے عشق كارِ ثواب سا كچھ ہے اس میں آنكھوں كا كچھ قصور نہیں حسن خود بے نقاب سا كچھ ہے جلسہ سالانہ کے بابرکت موقع پر تمام تقاریر علمائے سلسلہ بڑی محبت اور محنت كے ساتھ تیار كركے ہمارے لیے پیش کرتے ہیں جو کہ ہماری اصلاح اور تعمیر و ترقی کے لیے بہت اہم ہوتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ جلسہ کے تمام اجلاسات میں بروقت شریک ہوں تاکہ ان گنتی کے چند ایک دنوں سے بھر پور مستفید ہوسکیں۔ خاص طور پر جب ہماری جان سے بھی پیارے آقا حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہم سے مخاطب ہوں تو ایک ایک لفظ کو بڑی توجہ سے سننا چاہیے۔ اپنے بچوں کو بھی مقامِ خلافت کے متعلق بتائیں اور اُنہیں بھی خاموشی سے اپنے ساتھ بٹھائیں۔ اسی طرح سے جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنماز کی ادائیگی کے بعد تسبیحات میں مشغول ہوتے ہیں تواس وقت بعض احباب آپس میں باتیں شروع کر دیتے ہیں۔اُس وقت بالكل مكمل خاموشی ہونی چاہیے۔ بالكل ویسے ہی کہ جیسے آپ جب ادائیگی نماز کے لیے مسجد مبارک اسلام آباد میں آتے ہیں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ تمام نمازی بڑی احتیاط کے ساتھ مکمل خاموشی سے حضورِانور کے تشریف لے جانے کے بعد اپنی سنتیں یا نوافل وغیرہ ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس حوالے سے ہمیں بہت بڑی تنبیہ کی ہے۔ جیسا کہ فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ۔(الحجرات :۳)اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نبی کی آواز سے اپنی آوازیں بلند نہ کیا کرواور جس طرح تم میں سے بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں سے اونچی آواز میں باتیں کرتے ہیں۔اُس (رسول ) کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کیا کرو،ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں۔ یہ بہت ہی زیادہ توجہ والی بات ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا مامور ہمارے درمیان موجود ہو اُس وقت ہمیں مکمل خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اک ذرا سی کوتاہی سے ہم زندگی بھر کے اپنے اعمال ضائع کر بیٹھیں۔بقول چودھری محمد علی صاحب مضطرؔ خاموش! مقام ہے ادب کا آقا مرا محوِ گفتگو ہے جہاں پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں انذاری رنگ میں اس موقع پر خاموش رہنے کا حکم دیا ہے تو اُس سے اگلی ہی آیتِ کریمہ میں ہمیں خاموش رہنے کے بعد ملنے والے عظیم الشان انعام کی خوش خبری سے بھی نوازا ہے۔جیساکہ فرمایا:اِنَّ الَّذِيۡنَ يَغُضُّوۡنَ اَصۡوَاتَهُمۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ امۡتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوۡبَهُمۡ لِلتَّقۡوٰىؕ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّاَجۡرٌ عَظِيۡمٌ (الحجرات :۴)یقیناً وہ لوگ جواللہ كے رسول كے حضور اپنی آوازیں دھیمی ركھتے ہیں یہ ہی وہ لوگ ہیں جن كے دلوں كو اللہ نے تقویٰ كے لئے آزما لیا ہے۔ ان کے لئے عظیم بخشش اور بڑا اجر ہے۔ ہمارے مہربان خدا کا ہم پر یہ كتنا بڑا احسان ہے كہ وہ ہماری چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا بھی كتنا بڑا اجر عطا فرماتا ہے اور ہمیں بخشش كی خوش خبریوں سے نوازتا ہے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر انتظامیہ کی طرف سے ہر سال ایک کتابچہ شائع کیا جاتا ہے۔ اس کتابچہ میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وہ قیمتی ارشادات اور دعائیں درج ہو تی ہیں كہ جو آپؑ نے جلسہ پر آنے والے مخلص مہمانوں كے لیے فرمائی ہیں۔ علاوہ ازیں اس کتابچہ میں خلیفۃ المسیح کی وہ نصائح بھی درج کی جاتی ہیں کہ جو آپ نے مختلف جلسہ ہائے سالانہ کے مواقع پر مہمانوں اور میزبانوں کو کی ہیں۔ اس کے علاوہ انتظامیہ کی طرف سے بہت اہم ہدایات بھی شاملین ِ جلسہ کی سہولت کے لیے شامل کی جاتی ہیں۔ہمیں چاہیے کہ اس کتابچہ کو لازمی پڑھا کریں تاکہ دورانِ جلسہ کسی بھی قسم کی مشکل اور پریشانی سے بچا جاسکے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: انسان کی پیدائش کا مقصد