https://youtu.be/aoATYm8J4o4 وہ کام کرو جو اولاد کے لیے بہترین نمونہ اور سبق ہو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے اول خود اپنی اصلاح کرو۔ اگر تم اعلیٰ درجے کے متقی اور پرہیزگار بن جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کو راضی کر لو گے تو یقین کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے گا پودا جب زمین سے اگتا ہے اس کا تنا اور اس کی کونپلیں نہایت نرم ہوتی ہیں اس کو مختلف قسم کے سہارے دے کر جس ڈیزائن میں چاہوتیار کر لو۔ وہ پودا آپ کے باغ کی بہترین زینت بن جائے گا لیکن اگر اس کی طرف توجہ نہ دی جائے تو اس کی شاخیں چاروں طرف جس طرح پھیلیں گی وہ کوئی خوشنما منظر نہ ہو گا بلکہ ممکن ہے بعض قریب سے گزرنے والوں کے لیے پریشانی کا سبب بن جائیں۔ یہی حال ہماری اولاد کا ہے۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے گھر اولاد ہو اور اس کی نسل آگے سے آگے چلتی چلی جائے۔ اسلام نے اس خواہش کو نہیں دبایا لیکن اس کے ساتھ اس کو نیک اسلوب میں ڈھالنے اور اچھے سے اچھے نتائج کے حصول کی طرف توجہ دلائی ہے۔چنانچہ ہر مرد اور عورت کو یہ دعا سکھائی کہ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا۔(الفرقان: ۷۵) اے ہمارے ربّ! ہمیں زندگی کے ایسے ساتھی اور ایسی اولاد عطا فرما جو ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں تقو یٰ کی راہوں پر چلنے والے ہوں اور ہمیں بھی تقو یٰ کی اتنی دولت نصیب ہو کہ ہم اپنی متقی اولاد کے امام بن جائیں۔ (آمین) پھر یہ بھی ارشاد الٰہی ہے:قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا(التحریم:۷)اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔ آنحضورﷺ نے فرمایا: مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَّلَدًا مِّنْ نَّحْلٍ اَفْضَلَ مِنْ اَدَبٍ حَسَنٍ(ترمذی کتاب البر و الصلۃ باب ما جاء فی ادب الولد حدیث ۱۹۵۲)یعنی اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولاد کو دے سکتا ہے۔ مغربی معاشرے میں جہاں خوبیاں ہیں وہاں بہت ساری خرابیاں ہیں یا ہوسکتی ہیں جن کا اس مختصر وقت میں احاطہ کرنا مشکل کام ہے۔ ایک سوچ جو مغربی معاشرے میں ہے اور آئے روز اس میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ وہ ہے آزادی۔ یعنی کہ وہ کہتے ہیں ہم آزاد پیدا ہوئے ہیں۔ ہمیں کسی نے پیدا نہیں کیا۔ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں اور نہ ہی ہم کسی کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ اور یہ کہ مذہب ایک فراڈ ہے۔ اس لیے ہم کسی بھی قاعدے یا قانون کے ماننے کے لیے تیار نہیں جو ہماری آزادی میں مخل ہو تا ہو۔ اور پھر مذہب کے بارے میں اور خاص طور پر اسلام کے بارے میں یہ بتایا جاتاہے کہ اسلام بہت سختی کرتا ہے۔ لوگوں کی آزاد ی کو ختم کرتا ہے۔ انسانی فطرت طبعاً آزادی کو پسند کرتی ہے اور آسانی کی طرف جانا چاہتی ہے۔ لیکن وہ انسان جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ آزاد ہے اور وہ کسی قانون کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ روزمرہ زندگی میں وہ تمام قوانین کو جو گورنمنٹ بناتی ہے اس کو مانتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ اور اگر قانون نہ ہو اور ان پر عمل نہ کیا جائے تو دنیا میں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ مثال کے طور پر اگر ٹریفک سگنل کام کرنا چھوڑ دیں تو سینکڑوں لو گ ایک دن میں مر سکتے ہیں۔ بہرحال معاشرہ، سکولوں اور میڈیا و سوشل میڈیا پر کثرت سےاللہ تعالیٰ اور مذہب کے بارے میں بات کی جاتی ہے۔ یہ بھی درست بات ہے کہ مذاہب جب خدا سے دور ہوئے تو انہوں نے دنیا میں مظالم بھی کیے اور بہت سارے غلط کام بھی کیے۔ ان حاالات میں بچپن سے ہی ہمیں اپنے بچوں کو اللہ تعالیٰ کےمتعلق بتانے کی ضرورت ہے۔ اور اسی طرح مذہب کے متعلق بھی۔ جیسے بتایا جاتاہے کہ مذہب سختی کرتاہے ایسے موقع پر جب بچے آپ سے ان موضوعات پر سوال کریں تو سختی سے پیش نہ آئیں۔ ورنہ جوبات انہیں بتائی گئی تھی کہ مذہب پابندیاں لگاتاہے۔ تو آپ کی سختی کی وجہ سے وہ بات ان کے ذہنوں میں پکی ہو جائے گی۔ ایسے موقع پر نرمی سے سمجھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کردعا کی۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق کیسے قائم کیا جا سکتاہے؟ اور کس طرح ہم اپنے بچوں کو خدا تعالیٰ سے جوڑ سکتے ہیں؟ ہر شخص جو کوشش کرے گا وہ خدا تعالیٰ کو پالے گا۔ خدا ایک پیارا خزانہ ہے اور جو چیزیں جتنی قیمتی ہوتی ہیں ان کو پانے کے لیے اتنی ہی محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس اللہ سے بڑھ کر کون قیمتی اور پیارا ہو سکتاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو بھی ہماری طرف آنا چاہتاہے ہم اس کی مدد کرتے ہیں۔ انبیاء اور ان کے اصحاب دنیامیں خدا کے ہونے کا ایک بہت بڑا ثبوت ہوتے ہیں۔ وہ اپنے وجود سے دنیا کو خدا کا وجود دکھلا دیتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو قبولیت دعا کا کچھ نہ کچھ تجربہ ضرور ہوا ہوگا لیکن ہم بسا اوقات شرماتے ہیں اور اپنے بچوں کے سامنے اپنی مقبول دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر نہیں کرتے۔ پس ہمیں اپنے ذاتی واقعات کو جو اللہ سے تعلق یا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ہوں تحدیث نعمت کے طور پر بار بار اپنے بچوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ اولاد کی تربیت کے لیے سب سے ضروری ہمارا عمل ہے۔ یہ نہ ہو کہ ہم بچوں کو تو نماز کی نصیحت کرنے والے ہوں لیکن ہم خود نماز نہ پڑھتےہوں۔ جب تک ہماری ذات سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار نہ ہو ہم یہ محبت اپنے بچوں کو منتقل نہیں کر سکتے۔ تعلق باللہ کے لیے ضروری ہے کہ ہم حضرت رسول کریمؐ سے سب سے بڑھ کر محبت کرنے والے ہوں۔ قرآن کا علم ہمارے پاس ہو۔ حدیث ہم نے پڑھی ہو۔ اور پھر اس زمانے کے امام حضرت مسیح موعودؑ کی کتابیں اور خلفاء کی کتابیں اور ارشادات کا علم ہونا ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’وہ کام کرو جو اولاد کے لیے بہترین نمونہ اور سبق ہو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے اول خود اپنی اصلاح کرو۔ اگر تم اعلیٰ درجے کے متقی اور پرہیزگار بن جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کو راضی کر لو گے تو یقین کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے گا۔‘‘(ملفوظات جلدہفتم صفحہ۳۲۱، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) اسی طرح والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ باقاعدگی اور التزام کے ساتھ اپنے بچوں کے لیے دعا کرتے رہیں۔ چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:“میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں جس میں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا۔‘‘(ملفوظات جلد۲ صفحہ۳۱۱، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں صالح اور خدا ترس اور خادم دین اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اس کا یہ کہنا بھی نرا ایک دعویٰ ہی ہوگا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت میں ایک اصلاح نہ پیدا کرے۔ اگر خود فسق و فجور کی زندگی بسر کرتا ہے اور منہ سے یہ کہتا ہے کہ میں صالح اور متقی اولاد کی خواہش کرتا ہوں تو اپنے اس دعویٰ میں کذاب ہے۔صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی متقیانہ زندگی بناوے تب اس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہو گی اور ایسی اولاد حقیقت میں اس قابل ہو گی کہ اس کو باقیات صالحات کا مصداق کہیں۔ لیکن اگر یہ خواہش صرف اس لیے ہو کہ ہمارا نام باقی رہے اور وہ ہمارے املاک و اسباب کی وارث ہو یا وہ بڑی ہی نامور اور مشہور ہو،اس قسم کی خواہش میرے نزدیک شرک ہے۔‘‘(ملفوظات جلد۲ صفحہ۳۱۰، ۳۱۱، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) نیز فرمایا:’’پس خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لیے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جاؤاور اُس کو متقی اور دیندار بنانے کی سعی اور دعا کرو۔ جس قدر کوشش تم اُن کے لیے مال جمع کرنے کی کرتے ہواُسی قدر کوشش اِس امر میں کرو۔‘‘(ملفوظات جلد ۴صفحہ ۴۴۴، ایڈیشن۱۹۸۸ء) جب تک کہ ہمارے پاس قرآن کا علم نہ ہواور ہم نے احادیث اور جماعت کی کتب نہ پڑھی ہوںہم اسلام یا مذہب پر ہونے والے اعتراضات کا جواب نہیں دے سکتے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ قرآن سب سے اچھی اور پیاری کتاب ہے۔ ہم قرآن کا بےحد ادب کرتے ہیں۔ لیکن آئیے ہم سوچتے ہیں کہ کیا ہم نے قرآن کو پڑھا اور سمجھا ہے؟ اگر قرآن اللہ کی کتاب ہے سب سے اچھی اور پیاری کتاب ہے تو کیا ہم نے قرآن سیکھنے کے لیے اتنی کوشش کی ہے جتنی کوشش ہم دنیاوی علم سیکھنے کے لیے کرتے ہیں؟ ہم اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے بچے بہت اچھا پڑھیں۔ ہم نظر رکھتےہیں کہ وہ سکول میں ٹھیک سے پڑھیں، ان کے نمبراچھے ہوں۔ لیکن کیا ہم نے خود قرآن کو پڑھ لیا ہے۔کیا ہم نے قرآن سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ کیا ہم کوشش کر رہےہیں کہ ہمارے بچے بھی قرآن کو سمجھ سکیں۔ اسی طرح احادیث ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہیں اور پھر خلفائے احمدیت کی کتب۔ کیا ہم خود خطبہ سنتے ہیں یا ہمارے بچے خطبہ سنتے ہیں۔ خطبے کے حوالے سے جائزہ لینے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ خطبے کے بعد بچوں سےپوچھا جائے کہ انہیں کیا سمجھ آئی اور کونسی بات یاد رہی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جس طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزانہ ایک گھنٹہ ایم ٹی اے دیکھا جائے۔ ہمیں ساتھ مل کر بیٹھنا چاہیے، کھانا اکٹھا مل کر کھایاجائے۔ روزانہ مل کر ایک صفحہ قرآن مجید پڑھ لیا جائے۔ ایک صفحہ حدیث کا اور ایک صفحہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا۔ اس طرح ہماری دینی معلومات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ سوشل میڈیا كے استعمال كا عبادتوں پر اثر سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ وغیره كے بے جا استعمال كا سب سے بڑا اور سب سے بُرا اثر یہ ہوتا ہے كہ انسان اپنےمقصد پیدائش یعنی عبادت كو چھوڑ بیٹھتا ہے۔ اس بارے میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’برائیوں میں سے آجکل ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ کی بعض برائیاں بھی ہیں۔ اکثر گھروں کے جائزے لے لیں۔ بڑے سے لے کر چھوٹے تک صبح فجر کی نماز اس لیے وقت پر نہیں پڑھتے کہ رات دیر تک یا تو ٹی وی دیکھتے رہے یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہے، اپنے پروگرام دیکھتے رہے، نتیجۃً صبح آنکھ نہیں کھلی۔ بلکہ ایسے لوگوں کی توجہ بھی نہیں ہوتی کہ صبح نماز کے لیے اٹھنا ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں اور اس قسم کی فضولیات ایسی ہیں کہ صرف ایک آدھ دفعہ آپ کی نمازیں ضائع نہیں کرتیں بلکہ جن کو عادت پڑ جائے ان کا روزانہ کا یہ معمول ہے کہ رات دیر تک یہ پروگرام دیکھتے رہیں گے یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہیں گے اور صبح نماز کے لیے اٹھنا ان کے لیے مشکل ہو گا بلکہ اٹھیں گے ہی نہیں۔ بلکہ بعض ایسے بھی ہیں جو نماز کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍مئی ۲۰۱۶ء ) خواهشات كے بُت اور مشركانہ مجالس جب انسان خواہشات كا اسیر ہو جاتا ہے تو پھر انہی خواہشات كے بت كی پیروی اس كا مطمح نظر بن جاتا ہے، گویاعملی طور پر وه انہی خواہشات كو اپنا معبود بنا لیتا ہے۔ الله تعالیٰ نے ایسے خواہش پرست کو بت پرست کے درجہ میں رکھا ہے۔ فرمایا:اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰٮہُ(الفرقان: ۴۴)یعنی کیا تو نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے۔؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں كہ ’’ بُت پرستی یہی نہیں کہ انسان کسی درخت یا پتھر کی پرستش کرے بلکہ ہر ایک چیز جو اللہ تعالیٰ کے قرب سے روکتی اور اس پر مقدّم ہوتی ہے وہ بُت ہے اور اس قدر بُت انسان اپنے اندر رکھتا ہے کہ اس کو پتا بھی نہیں لگتا کہ میں بُت پرستی کر رہا ہوں‘‘۔ (ملفوظات جلد ۴صفحہ ۴۲۹-۴۳۰، ایڈیشن۱۹۸۴ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے اس ارشاد كی تشریح فرماتے ہوئےحضور انور ايده الله بنصره العزيز نے ایك موقع پر فرمایا:’’کہیں آجکل کے زمانے میں ڈرامے بُت بن گئے ہیں۔ کہیں انٹرنیٹ بُت بن گیا ہے۔ کہیں دنیا کمانا بُت بن گیا ہے۔ کہیں اَور خواہشات بُت بن گئی ہیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍اکتوبر۲۰۱۶ء) آج سوشل میڈیا كے غلط استعمال كی وجہ سے اس قسم كی بت پرستی بڑھ رہی ہے اور آج كا انسان سوشل میڈیا كے غلط استعمال كے ذریعہ روزانہ ایسی مشركانہ مجالس كا حصہ بنتا چلا جارها ہے۔اسی كی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک اپنے آپ کو بیہودہ اور مشرکانہ مجلسوں سے بچایا ہوا ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جو کہیں گے کہ ہم تو ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم تو مشرکانہ مجلسوں میں نہیں بیٹھتے۔ لیکن یاد رکھیں کوئی مجلس ہو جیسے انٹرنیٹ ہے یا ٹی وی ہے یا کوئی ایسا کام ہے اور مجلس ہے جو نمازوں اور عبادت سے غافل کر رہی ہے وہ مشرکانہ مجلس ہی ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱؍اپریل ۲۰۱۷ء) نماز كی پابندی فحشاء سے بچنے كا بڑا ذریعہ جیسا كہ پہلے ذكر ہوا ہے كہ آج كل بعض بچے رات دیر تك انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا میں مصروف رہتے ہیں جس كا نتیجہ یہ ہوتا ہے كہ نمازیں چھوٹ جاتی ہیں۔ اس مشكل كا حل كیا ہے؟ دراصل ان برائیوں فحشاء اور بے حیائیوں سے بچنے كا نسخہ بھی نماز كی پابندی ہے۔گویا یہ فحشاء اور منكر آئے گا تو نماز چھوٹ جائے گی اور اگر نماز كی حفاظت ہوگی تو انسان ان فحشاء اور منكرات سے بچا رہے گا۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے:اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ(العنكبوت:۴۶) یعنی نماز برائیوں اور بے حیائیوں سے روكتی ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الخامس ایده الله تعالیٰ بنصره العزیز فرماتے ہیں: ’’بچوں کو ماں باپ اگر فجر کی نماز کے لئے اُٹھائیں گے تواُن کو جہاں نماز کی اہمیت کا اندازہ ہو گا وہاں بہت سی لغویات سے بھی وہ بچ جائیں گے… بعضوں کو رات دیر تک ٹی وی دیکھنے یا انٹرنیٹ پربیٹھے رہنے کی عادت ہوتی ہے…نماز کے لیے جلدی اُٹھنے کی وجہ سے جلدی سونے کی عادت پڑے گی اور بلا وجہ وقت ضائع نہیں ہو گا۔ خاص طور پر وہ بچے جو جوانی میں قدم رکھ رہے ہیں، اُن کو صبح اُٹھنے کی وجہ سے ان دنیاوی مصروفیات کو اعتدال سے کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی… اچھی دیکھنے والی چیزیں بھی ہوتی ہیں، معلوماتی باتیں بھی ہوتی ہیں، اُن سےمیں نہیں روکتا، لیکن ہر چیز میں ایک اعتدال ہونا چاہئے۔ نمازوں کی ادائیگی کی قیمت پر ان دنیاوی چیزوں کو حاصل کرنا انتہائی بےوقوفی ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍جون ۲۰۱۲ء) نیزحضور انور ایده الله تعالیٰ بنصره العزیز نے فرمایا: ’’اگر اپنےبچوں كو ان گندگیوں اور غلاظتوں میں گرنے سے بچانا ہے تو سب سے بڑی كوشش یہی ہے كہ نمازوں میں باقاعده كریں۔كیونكہ اب ان غلاظتوں اور اس گند سے بچانے كی ضمانت ان بچوں كی نمازیں الله تعالیٰ كے وعدے كے مطابق دے رہی ہیں۔ جیسا كہ وه فرماتا ہے كہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍اپریل ۲۰۰۵ء) استغفار اور دعاؤں كے ذریعہ حفاظت بچوں كوسوشل میڈیا اور انٹرنیٹ كے ذریعہ پھیلے ہوئے شیطانی حملوں سے بچانے كے لیے استغفار اوردعاؤں كی بھی ازحد ضرورت ہے۔اس كے بارے میں حضور انور ایده الله بنصره العزیز فرماتے ہیں:’’ شیطان سے بچنے کی سب سے بڑی پناہ اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ پس اس بگڑے ہوئے زمانے میں استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ استغفار ہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں انسان آ سکتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍مئی ۲۰۱۶ء) نیز فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی بہت زیادہ دعا کرو۔ اَعُوْذُ بِاللّٰه مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم پڑھو۔ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰه پڑھو۔ اللہ تعالیٰ یہ امید دلاتا ہے جو سننے والا اور جاننے والا ہے کہ اگر نیک نیتی سے دعائیں کی گئی ہیں تو یقیناًوہ سنتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍اکتوبر ۲۰۱۳ء) الله تعالیٰ نے ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اولاد كی طرف سے آنكھوں كی ٹھنڈك نصیب ہونے كے لیے یہ دعا بھی سكھائی ہے: رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا۔(الفرقان:۷۵) اس دعا كی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور انور نے فرمایا : ’’یہ دعا جہاں خود آپ کو تقویٰ پر قائم رکھے گی، آپ کی اولاد کو بھی دنیا کے شر سے محفوظ رکھتے ہوئے تقویٰ پر چلائے گی۔ اور جو عورتیں یہ شکایت کرتی ہیں کہ ان کے خاوند دین سے رغبت نہیں رکھتے، نمازوں میں بے قاعدہ ہیں، ان کے حق میں بھی یہ دعا ہوگی۔یہ نہ سمجھیں کہ متقیوں کاا مام صرف مرد ہے۔ ہر عورت جو اپنے بچے کے لیے دعا کرتی ہے اور آئندہ نسلوں میں اس روح کو پھونکنے کی کوشش کرتی ہے کہ اللہ سے دل لگائو، اس کے آگے جھکو، نیکیوں پر قائم ہو وہ متقیوں کا امام بننے کی کوشش کرتی ہے اور بنتی ہے۔ اپنے گھر کے نگران کی حیثیت سے وہ امام ہے۔‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ یوکے۴؍نومبر ۲۰۰۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۹ ؍دسمبر ۲۰۱۶ء) نيز حضور انور ایده الله بنصره العزیز نے گھر كے نگران اور سربراه كو اس كی ذمہ داریوں كی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا كہ ’’جب بیویوں کے حق ادا کرنے کی دعا کرے گا، جب اولاد کے قرّۃ العین ہونے کی دعا کرے گا تو پھر بیہودگیوں اور فواحش کی طرف سے توجہ خود بخود ہٹ جائے گی اور یوں ایک مومن پورے گھر کو شیطان سے بچانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍مئی ۲۰۱۶ء) ایم ٹی اے دیكھنے كی عادت تربیت كا اہم ذریعہ آج اگر سوشل میڈیا كا صحیح استعمال كرنا ہے تو بچوں كو سوشل میڈیا كے جماعتی اكاؤنٹس سے جوڑنے كی ضرورت ہے نیز ایم ٹی اےدیكھنے كی عادت ڈالنے كی ضرورت ہے۔ اس سے ان كی دین سے محبت بڑھے گی اورمعاشرتی آلودگیوں سےمحفوظ ره سكیں گے۔حضرت خلیفة المسیح الخامس ایده الله بنصره العزیز اس بارے میں بچیوں كو نصیحت كرتے ہوئے فرماتےہیں: ’’اس زمانے میں ٹی وی کا سب سے بہتر استعمال تو ہم احمدی کر رہے ہیں یا جماعت احمدیہ کر رہی ہے۔… اس طرف بہت توجہ کریں، اپنے گھروں کو اس انعام سے فائدہ اُٹھانے والا بنائیں جو اللہ تعالیٰ نے ہماری تربیت کے لیے ہمارے علمی اور روحانی اضافے کے لیے ہمیں دیا ہے تاکہ ہماری نسلیں احمدیت پر قائم رہنے والی ہوں۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے آپ کو ایم ٹی اے سے جوڑیں۔ اب خطبات کے علاوہ اور بھی بہت سے لائیو پروگرام آرہے ہیں جو جہاں دینی اور روحانی ترقی کا باعث ہیں وہاں علمی ترقی کا بھی باعث ہیں۔ جماعت اس پر لاکھوں ڈالر ہر سال خرچ کرتی ہے اس لیے کہ جماعت کے افراد کی تربیت ہو۔ اگر افرادِ جماعت اس سے بھرپور فائدہ نہیں اُٹھائیں گے تو اپنے آپ کو محروم کریں گے… ایم ٹی اے کی ایک اور برکت بھی ہے کہ یہ جماعت کو خلافت کی برکات سے جوڑنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ پس اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍اکتوبر۲۰۱۳ء) حضور انور ایده الله تعالیٰ بنصره العزیز نےلجنہ اماءالله جرمنی كو نصیحت كرتے ہوئے فرمایا: ’’آپ اپنی مصروفیات ایسی بنائیں جن سے آپ کی دین سے محبت ظاہر ہوتی ہو۔ مثلاً ہر جمعہ کو جب میرا خطبہ ایم ٹی اے پر نشر ہو تو اسے سننے کا اہتمام کریں۔ کچھ باتیں ساتھ ساتھ نوٹ بھی کریں تاکہ پوری توجہ خطبے کی طرف مرکوز رہے۔جن باتوں کی سمجھ نہ آئےگھر میں کسی بڑے سے پوچھ لیں۔ اس سے آپ کا خلیفۂ وقت سے ذاتی تعلق قائم ہوجائے گا۔ دینی علم بڑھے گا۔ سوچ اور خیالات پاک ہوجائیں گے اور خدمتِ دین اورجماعتی پروگراموں میں شمولیت کا جذبہ تقویت پائے گا۔ یاد رکھیں کہ آپ جتنا اپنے آپ کو دین کے قریب رکھیں گی اتنا معاشرتی آلودگیوں سے محفوظ رہ سکیں گی۔ اسی سے سکونِ قلب عطا ہوگا۔‘‘(پیغام برائے لجنہ اماءاللہ جرمنی مطبوعہ سہ ماہی رسالہ ’گلدستہ‘۲۰؍مارچ۲۰۱۷ء) بچوں كو جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں سے جوڑیں سوشل میڈیا كے بد اثرات سے بچنے اور اپنی اولاد كو بچانے كا ایك ذریعہ جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں سے جڑنا بھی ہے۔ اس كے بارےمیں حضورانورنے فرمایا:’’نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو جماعتی نظام سے اس طرح جوڑیں، اپنی تنظیموں کے ساتھ اس طرح جوڑیں کہ دین ان کو ہمیشہ مقدم رہے اور اس بارے میں ماں باپ کو بھی جماعتی نظام سے یا ذیلی تنظیموں سے بھر پور تعاون کرنا چاہئے۔ اگر ماں باپ کسی قسم کی کمزوری دکھائیں گے تو اپنے بچوں کی ہلاکت کا سامان کر رہے ہوں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍اپریل ۲۰۱۰ء) بچوں كو متبادل كام دیں سوشل میڈیا کے بداثرات سے بچانے کے لیے حضور انور نے احمدی ماؤں كو ایك نصیحت یہ بھی فرمائی كہ بچیوں كو متبادل كام میں مصروف ركھیں۔ آپ نے فرمایا: ’’آپ کو ان کے لیے متبادل مصروفیات بھی سوچنا ہوں گی۔ انہیں گھریلو کاموں میں مصروف کریں۔ جماعتی خدمات میں شامل کریں اور ایسی مصروفیات بنائیں جو ان کے لیے اور معاشرہ کے لیے مثبت اور مفید ہوں۔ یہ بڑی اہم ذمہ داری ہے جسے احمدی مستورات نے بجا لانا ہے۔‘‘(پیغام برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی ۱۰؍جولائی ۲۰۱۶ء) میدانوں میں كھیلنے اورمطالعہ كی عادت ڈالیں بچوں كو سوشل میڈیا كےاسیر ہونے سے بچانے كے لیے حضور انور نے والدین كو توجہ دلائی كہ وه اپنے بچوں كو میدانوں میں كھیلنے اور كتب كے مطالعےكی عادت ڈالیں۔ حضور انور ایده الله تعالیٰ بنصره العزیز نے فرمایا: ’’تحقیق یہی کہتی ہے کہ ایک گھنٹے سے زیادہ بچوں کو ٹیلی ویژن اور اس قسم کی سکرین وغیرہ کی دیکھنے والی چیزیں جو ہیں آئی پیڈ وغیرہ ان کو دیکھنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے ان سے نظریں خراب ہوتی ہیں بلکہ ان کی ڈویلپمنٹ متاثر ہو جاتی ہے اس لیے بجائے اس کے کہ یہ چیزیں لے کر دیں بچوں کو کھلے میدان میں کھیلنے کی عادت ڈالیں یا پڑھنے کے وقت ان کو کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔‘‘(خطاب برائے لجنہ اماء الله جلسہ سالانہ یوكے بتاریخ ۴؍اگست ۲۰۱۸ء) آج دنیا كی ایك بڑی تعداد آگ میں ڈالنے والی برائیوں كی طرف كھنچی چلی جا رہی ہے اور اس سے ہماری نسلیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔آج آنحضرت صلی الله علیہ وسلم كے خادم صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے خلیفہ كی نصائح اور هدایات كو پڑھ كر ہم محسوس كر سكتے ہیں كہ كس طرح خلیفۂ وقت ہماری كمر سے پكڑ پكڑ كرہمیں ان آگوں میں گرنے سے بچانے كی كوشش كر رہا ہے۔آج مسیح الزمان كے اس خلیفہ كی بات پر كان دھرنے میں ہی جنت نظیر راہوں كے نشان مضمر ہیں۔ آج اس كی آواز پر لبیك كہنےمیں ہی ہماری اور ہماری نسلوں كی اصلاح اور بقا كا راز پنہاں ہے۔ آئیے ہم یہ عہد كر یں كہ ہم ان نصائح پر عمل كرنے كی پوری كوشش كریں گے۔تا كہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام كی پاك صالح اور دوسروں كے لیے نمونہ جماعت كا فعال حصہ بن كر دونوں جہان كی حسنات سمیٹنے والے بنیں۔ حضور فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ہماری جماعت کو یہ دعا بکثرت پڑھنی چاہئے کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔پس اس طرف ہمیں بھی توجہ دینی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں لے کر ہمیں ہر قسم کی دنیاوی اور اخروی آگ سے بچائے رکھے۔ (خطبہ جمعہ فرموده ۸؍جون ۲۰۱۸ء) میں یہ مضمون حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کے اس اقتباس پر ختم کرتا ہو ں۔آپ فرماتے ہیں: ’’والدین کو حکم ہے کہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرو…پس ہمیں اس طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہئے کہ اپنے بچوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ دیں،اُن کو وقت دیں،اُن کی پڑھائی کی طرف توجہ دیں،اُن کو جماعت کے ساتھ جوڑنے کی طرف توجہ دیں۔ اپنے گھروں میں ایسے ماحول پیدا کریں کہ بچوں کی نیک تربیت ہورہی ہو۔ بچے معاشرے کا ایک اچھا حصہ بن کر ملک و قوم کی ترقی میں حصہ لینے والے بن سکیں۔ اُن کی بہترین پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری بہرحال والدین پر ہے۔ پس والدین کو …بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔باپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچوں کی تربیت کا کام صرف عورتوں کا ہے اور نہ مائیں صرف باپوں پر یہ ذمہ داری ڈال سکتی ہیں۔ یہ دونوں کا کام ہے اور بچے اُن لوگوں کے ہی صحیح پرورش پاتے ہیں جن کی پرورش میں ماں اور باپ دونوں کا حصہ ہو،دونوں اہم کردار اداکرہے ہوں۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۶؍ جولائی ۲۰۱۳ء) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: میدانِ کربلا:وحدتِ امت کی قتل گاہ