خدا تعالیٰ سے مانگنے کے واسطے ادب کا ہونا ضروری ہے اور عقلمند جب کوئی شَے بادشاہ سے طلب کرتے ہیں تو ہمیشہ آداب کو مد نظر رکھتے ہیں۔اسی لئے سورۂ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے کہ کس طرح مانگا جاوے اور اس میں دکھایا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ یعنی سب تعریف خد اکو ہی ہے جو ربّ ہے سارے جہان کا۔الرَّحْمٰنِ یعنی بلا مانگے اور سوال کئے کے دینے والااور الرَّحِيْمِ یعنی انسان کی سچی محنت پر ثمراتِ حسنہ مرتّب کرنے والا ہے۔مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ جزا سزا اسی کے ہاتھ میں ہے۔چاہے رکھے چاہے مارے۔اور جزا وسزا آخرت کی بھی ہے اور اس دنیا کی بھی اسی کے ہاتھ میں ہے جب اس قدر تعریف انسان کرتا ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ کتنا بڑا خدا ہے جو کہ ربّ ہے۔رحمٰن ہے۔رحیم ہے۔اب تک اسے غائب مانتا چلا آرہا ہے اور پھر اسے حاضر ناظر جان کر پکارتا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۔اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ یعنی ایسی راہ جو کہ بالکل سیدھی ہے اس میں کسی قسم کی کجی نہیں ہے۔ایک راہ اندھوں کی ہوتی ہے کہ محنتیں کرکرکے تھک جاتے ہیں اور نتیجہ کچھ نہیں نکلتا اور ایک وہ راہ کہ محنت کرنے سے اس پر نتیجہ مرتّب ہوتا ہے۔پھر آگے صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تونے انعام کیا اور وہ وہی صـراط المستقیم ہے جس پر چلنے سے انعام مرتّب ہوتے ہیں۔پھر غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ نہ ان لوگوں کی راہ جن پر تیرا غضب ہوا۔اور وَ لَا الضَّآلِّيْنَ اور نہ ان کی جو دور جا پڑے ہیں۔اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ سے کل دنیا اور دین کے کاموں کی راہ مراد ہے۔مثلاً ایک طبیب جب کسی کا علاج کرتا ہے تو جب تک اسے ایک صراط مستقیم ہاتھ نہ آوے علاج نہیں کرسکتا۔اسی طرح تمام وکیلوں اور ہر پیشہ اور علم کی ایک صراط مستقیم ہے کہ جب وہ ہاتھ آجاتی ہے تو پھر کام آسانی سے ہوجاتا ہے۔ (ملفوظات جلد۴صفحہ ۵۹-۶۰، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: حسینؓ طاہرمطہّر تھا اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے