نوٹ: اعلانات صدر؍ امیر صاحب حلقہ؍جماعت کی تصدیق کے ساتھ آنا ضروری ہیں سانحہ ہائے ارتحال ٭…طاہر احمد صاحب نمائندہ الفضل انٹرنیشنل فن لینڈ تحریر کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ فن لینڈ کے ایک مخلص خادم شایان احمد خان صاحب ابن مظفر احمد خان صاحب (سابق نائب امیر جماعت احمدیہ پشاور شہر) بعمر ۲۹؍ سال مورخہ ۲۶؍مئی ۲۰۲۵ء کو پاکستان میں بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ نمازِ جنازہ کے بعد تدفین وہیں عمل میں آئی۔ مرحوم کا تعلق پشاور سے تھا اور والدہ کی طرف سے آپ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ کچھ سال قبل تعلیم کے سلسلہ میں فن لینڈ تشریف لائے تھے اور یہاں تعلیم کے ساتھ ملازمت بھی کر رہے تھے۔ تقریباً ڈیڑھ سال قبل ان کو کینسر کی تشخیص ہوئی جس کے بعد گردوں اور پھیپھڑوں میں بھی تکلیف لاحق ہو گئی۔ بیماری کے باوجود صبر و حوصلہ سے ہر تکلیف کو مسکراہٹ کے ساتھ برداشت کرتے رہے حتیٰ کہ گردوں کی شدید تکلیف کی وجہ سے لیٹنا بھی ممکن نہ رہا اور صرف بیٹھ کر ہی آرام کرتے تھے۔ جب مقامی ڈاکٹروں نے علاج سے معذرت کر لی تو پاکستان واپس چلے گئے جہاں چند ماہ سے اسلام آباد میں زیرِ علاج تھے لیکن کمزوری میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ اس دوران ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ مرحوم باقاعدہ پنج وقتہ نمازی نیز نفلی عبادات و مالی قربانیوں میں بھی پیش پیش تھے۔ بیماری کے ایام میں اکثر کہتے تھے کہ اِن دنوں میں اللہ تعالیٰ سے قرب کا خاص موقع ملا ہے۔ پاکستان میں ہسپتال کا عملہ بھی یہ گواہی دے رہا تھا کہ ایسے صابرو شاکر مریض کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں جو شدید تکلیف میں بھی الحمدللہ کہنا نہ چھوڑیں۔ مرحوم نہایت خوش اخلاق، ہنس مکھ، ملنسار، مخلص اور خدمت گزار نوجوان تھے۔ ہر ایک سے مسکرا کر ملتے اور حتی الوسع دوسروں کی مدد کی کوشش کرتے تھے۔ ۲۰۲۱ء تا ۲۰۲۳ء کے دوران مجلس خدام الاحمدیہ فن لینڈ کی نیشنل عاملہ میں بطور معتمد اور نائب صدر خدمت کی توفیق پائی اور بڑی محنت اور لگن سے فرائض سرانجام دیے۔ ہمیشہ اعلیٰ درجہ کی اطاعت کا مظاہرہ کرتے۔ ٭… عطاءالرب چیمہ صاحب نمائندہ الفضل انٹرنیشنل قزاقستان تحریر کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ شمکنت سے تعلق رکھنے والی احمدی خاتون آئیگل اورال بیکووا (Aigul Oralbekova) صاحبہ مورخہ ۷؍مئی ۲۰۲۵ء کو وفات پاگئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون اگلے روز مورخہ ۸؍مئی کو شمکنت میں یسولان صاحب مبلغ سلسلہ نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں قریباً تیس غیر از جماعت احباب نے بھی شرکت کی۔ مرحومہ ۱۹۷۱ء میں جنوبی قزاقستان کے ترکستان ریجن کے آکھ باس تاؤ گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ ۱۹۹۱ء - ۱۹۹۲ء میں تعلیم مکمل کی اور ۱۹۹۳ء میں ان کی شادی سعیدال دا اورال خان صاحب سے ہوئی۔ ۲۰۰۰ء میں خاوند کے ساتھ بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی توفیق ملی اور وفات تک بڑی استقامت کے ساتھ عہد بیعت پر قائم رہیں۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ کو عزیز و اقارب کی طرف سے مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن آپ نے ہمیشہ حوصلہ دکھایا۔ اپنے خاوند اور اپنے بھائیوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتے ہوئے بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ فانیر گلیاموف صاحب صدر جماعت شمکنت بیان کرتے ہیں کہ مرحومہ کہا کرتی تھیں کہ ’’خواہ میری گردن تن سے جدا کر دی جائے، میں پھر بھی یہی کہوں گی کہ میں احمدی ہوں۔‘‘ آپ نہایت سادہ مزاج، ملنسار، خاموش طبع، صوم و صلوٰۃ کی پابند، باقاعدگی سے چندہ ادا کرنے والی اور جماعتی پروگراموں میں شامل ہونے والی ایک مخلص احمدی خاتون تھیں۔ آپ کے خاوند بیان کرتے ہیں کہ مرحومہ نہایت بااخلاق، وفادار اور سچ بولنے والی شریک حیات تھیں۔ ان میں مہمان نوازی اور صبر نمایاں اوصاف تھے۔ کبھی نا شکری نہیں کی اور ہر حال میں صبر و شکر کا مظاہرہ کرتی رہیں۔ تقریباً پانچ سال قبل انہیں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوئی جس کا انہوں نے بڑی ہمت اور بہادری سے مقابلہ کیا۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنی ایک قریبی رشتہ دار کو بلایا اور وصیت کی کہ ان کی وفات کے بعد اُن کے خاوند جو بھی فیصلہ کریں وہی مانا جائے اور کسی قسم کی مخالفت نہ کی جائے کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ وہ اپنے خاندان میں واحد احمدی ہیں اور ممکن ہے خاندان والے ان کے شوہر پر غیر اسلامی رسوم ادا کرنے کا دباؤ ڈالیں۔ مرحومہ نے اپنے خاوند کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی سوگوار چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کے ساتھ مغفرت و رحم کا سلوک فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین ٭…٭…٭