دَرکار ہیں کچھ ایسے جوانمرد، کہ جن کیفِطرت میں وَدِیعت ہو مَحبت کا شرارا بے عشق نہیں حسن کے بازار میں رونقوہ اس کا طلبگار۔ تو یہ اُس کا سہارا آئیں وہ اِدھر، رکھ کہ ہتھیلی پہ سر اپنا‘‘لبیک’’! کہ دِلبر نے ہے عاشِق کو پکارا ہر ایک میں ہو عزم وہ ثابِت قدمی کاجِھجکا نہ ہو خطرے سے، نہ ہِمّت کبھی ہارا پروا نہ ہو ذرّہ بھی محبت کے نَشے میںشمشیر ہو گردن پر کہ ہو فَرق پہ آرا اِک آگ ہو سینے میں نِہاں، کام کی خاطِرہر رنگ نیا، بات کا ہر ڈھنگ نِیارا فرہادؔ کے اور قیسؔ کے قِصّوں کو بُھلا دیںدِکھلا کے جُنوں اور مَحبت کا نظارا بے زَر ہوں، پہ ہو جائیں وہ امریکہ روانہبے پر ہوں تو پیدل ہی پہنچ جائیں بُخارا سامان کے محتاج، نہ آفات سے خائِفگر زاد نہ ہو۔ کر سکیں پتّوں پہ گزارا برپا ہو قیامت جو وہ تبلیغ کو نکلیںعِفَّت ہو جو بے داغ تو اَخلاق دِل آرا اموال کمائیں، تو کریں نَذرِ ‘اِشاعت’اَملاک بنائیں تو کریں وَقف خدارا بس ایک ہی دُھن ہو کہ کریں خود کو تَصَدُّقراضی ہو کسی طرح سے محبوب ہمارا وہ دِین جو مُحتاج ہے خِدمت کا ہماریہو جائے اگر ہو سکے۔ اس کا کوئی چارہ قُربان ہو ہر چیز اسی بات کی خاطِراِسلام کا اُونچا ہو زمانہ میں منارا اب عشقِ مَجازی کی نُمائِش کو مِٹا کرہم عشقِ حقیقی کا دکھائیں گے نظارا عمر یست کہ آوازۂ منصور کہن شدمَن از سرِ نَو جلوہ و ہم صدق و وفا را (کلام حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بخار دل صفحہ۷۲ الفضل ۱۰؍جنوری ۱۹۲۵ء) مزید پڑھیں: ’’ہو گیا آخر نمایاں فرق نورو نار کا‘‘