https://youtu.be/59mfarCiGRg آج ہم سب احمدی اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ چند پیسے اور روپےجو ہمارے بزرگوں نےمسیح پاک علیہ السلام کے ہاتھ پر رکھے اُسے خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سےکئی گنا کرکے واپس لوٹا رہا ہے پچاس سال قبل ایک بدقسمت سربراہ مملکت نے اپنی سیاست چمکانے اور عوام کا مقبول لیڈر بننے کے لیے جماعت احمدیہ مسلمہ کو بعض قانونی و سیاسی اغراض کے لیے غیر مسلم قرار دے دیا اور پھر بڑے فخر سے کہتارہا کہ مَیں نے نَوّے سالہ مسئلہ حل کر دیا۔ اس کا انجام کیا ہوا اور اسےکیا بدلہ ملا اس کے ذکر کی ضرورت نہیں۔مگر آج وہی مسئلہ ڈیڑھ سو سالہ مسئلہ ہونے جا رہا ہے۔ وہی زبانیں جو اس وقت جشن کے ترانے گا رہی تھیں آج یہ کہہ رہی ہیں کہ یہ مسئلہ پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ وہ اسے مسئلہ سمجھتے ہیں جبکہ اصدق الصادقین رسول کریمﷺ نے صرف اس واحد الٰہی جماعت کو مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل بتایا تھا۔ ہم ان پیشگوئیوں کو پڑھتے، ان پر یقین کرتے اور خداتعالیٰ کی حمد کرتے ہیں کہ ہم امام مہدیؑ اور مسیح موعودؑ کی اس جماعت میں شامل ہیں جس کے حق میں یہ تمام پیشگوئیاں پوری ہو رہی ہیں اور یہ برگزیدہ شجر ہرلمحہ و آن بڑھتا چلا جا رہا ہے اور کوئی نہیں جو اسے روک سکے۔ ۸؍نومبر ۲۰۲۴ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جب تحریک جدید کے نَوّے سال پورا ہونے کا اعلان فرمایا تو میں اچانک چونکا کہ یہ تحریک بھی جو جماعت کے خلاف ایک بڑے فساد اور طوفان بدتمیزی کے نتیجہ میں معرض وجود میں آئی تھی آج اکانوےویں سال میں داخل ہو رہی ہے۔۱۹۳۴ء میں ۲۷؍ہزار روپے کی مالی قربانی کے مطالبے سے اس تحریک کا اجرا ہوا جبکہ دیوانوں نے ایک لاکھ روپے اپنے روحانی آقا کی خدمت میں پیش کردیے۔ ۲۰۲۴ء میں اس تحریک میں احباب جماعت نے ۱۷.۹۸؍ملین پاؤنڈ کی قربانی پیش کی۔ الٰہی جماعتوں کی سنت کےمطابق جماعت احمدیہ مسلمہ کا آغاز بھی بظاہر معمولی اور غریب لوگوں سےہوا۔ آغاز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی سارے اخراجات برداشت کرتے تھے۔ کھانا بھی حضورعلیہ السلام کے گھر سے پک کر آتا۔تبلیغ بھی جاری تھی اور کتابوں کی اشاعت بھی۔ خدمت دین کےساتھ ساتھ خدمت خلق کا دریا بھی رواں دواں تھا۔ مدد کرنےو الے بھی تھے مگر تھوڑے اور غریب مگر دل کے غنی اور جذبے وعزم سے بھرپور۔ جوپاس ہوتا ایک والہانہ جذبے اور بشاشت سے اپنے آقا کی خدمت میں پیش کردیتے۔خود بھوکے رہ کر پیسے بچاتے تا چندہ ادا کرسکیں۔مِیلوں پیدل چلتے تا ریل اور یکّہ کا کرایہ بچاکر خدمت اقدس علیہ السلام میں پیش کرسکیں۔دشمن ہنستا تھا کہ اس کو ردِہ میں بیٹھ کر دنیا میں تبلیغ اسلام اور اشاعت اسلام کی باتیں کرتے ہیں اور وہ بھی چند ٹکوں سے۔دشمن کو کیا خبر تھی کہ یہ معمولی ٹکے سات سو گنا سے بھی زیادہ پھل لائیں گے۔جماعت بھی امیر ہوگی اور ان قربانی کرنے والوں کی نسلیں بھی قیامت تک اس مائدہ سے فیض یاب ہوں گی۔لیکن وہ پاک لوگ جو مسیحائے وقت کے ساتھی تھے وہ اس نیت سے تو نہ دیتے تھے وہ تو ایک عجب مستی اور بے خودی میں یہ قربانیاں کرتے تھے وہ عشق میں جمع خر چ یا سُود وزیاں کی فکر نہ کرتے تھے نہ ستائش کی تمنا تھی نہ صلہ کی پروا، بَس ایک ہی دُھن تھی کہ کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب جماعت احمدیہ ظلم وستم اور مخالفت کی آندھیوں کے باوجود تیزی سے ترقی کرتی گئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس رفتار میں دن بدن تیزی آرہی ہے۔ اُن عشاق کی دعائیں اور قربانیاں رنگ لارہی ہیں اور مخالفین غم وغصہ میں بڑھتے جارہےہیں۔حسد کی آگ ہے جو کم ہونے میں نہیں آرہی۔خود اپنے منہ سےمانتے ہیں کہ ہم اور ہمارے اسلاف سارے حربےاستعمال کرچکے مگر اس جماعت کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔جماعت احمدیہ مسلمہ کے قیام کے تقریباً ۷۰سال بعد ۱۹۵۶ء میں جماعت احمدیہ مسلمہ کا ایک مخالف اخبار یہ لکھنے پر مجبور ہوگیا کہ ’’ہمارے بعض واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں سے قادیانیت کا مقابلہ کیا لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیانی جماعت پہلے سے زیادہ مستحکم اور وسیع ہوتی گئی۔مرزا صاحب کےبالمقابل جن لوگوں نے کام کیا ان میں سے اکثر تقویٰ،تعلق باللہ،دیانت،خلوص،حلم اور اثرکے اعتبار سے پہاڑوں جیسی شخصیتیں رکھتے تھے۔سید نذیر حسین صاحب دہلویؔ، مولانا انورشاہ صاحب دیوبندی، مولانا قاضی سید سلیمان منصورپوری، مولانا محمد حسین صاحب بٹالویؔ، مولانا عبد الجبار غزنوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور دوسرے اکابر رحمھم اللّٰہ وغفرلھم کے بارے میں ہمارا حسن ظن یہی ہےکہ یہ بزرگ قادیانیت کی مخالفت میں مخلص تھے اور ان کا اثر ورسوخ بھی اتنا زیادہ تھا کہ مسلمانوں میں بہت کم ایسے اشخاص ہوئےہیں جو ان کےہم پایہ ہوں۔ اگرچہ یہ الفاظ سننے اور پڑھنے والوں کے لیے تکلیف دہ ہوں گے اور قادیانی اخبارات ورسائل بھی چند دن اپنی تائید میں پیش کرکے خوش ہوتے رہیں گے لیکن ہم اس کےباوجود اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ان اکا بر کی تمام کاوشوں کےباوجود قادیانی جماعت میں اضافہ ہوا ہے۔متحدہ ہندوستان میں قادیانی بڑھتےرہے۔تقسیم کےبعد اس گروہ نےپاکستان میں نہ صرف پاؤں جمائے بلکہ جہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا وہاں ان کےکام کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تو روس اور امریکہ سے سرکاری سطح پر آنےو الے سائنسدان ربوہ آتے ہیں (گذشتہ ہفتہ روس اور امریکہ کےدوسائنس دان ربوہ وارد ہوئے )اور دوسری جانب ۱۹۵۳ء کےعظیم ہنگامہ کے باوجود قادیانی جماعت اس کوشش میں ہے کہ اس کا ۱۹۵۶۔۵۷ء کا بجٹ پچیس لاکھ روپیہ کا ہو۔‘‘(المنیر ۲۳؍فروری ۱۹۵۶ء،بعد میں اس رسالہ کا نام المنبرہوگیا ) اس اقتباس میں دشمن کےمنہ سے دوشہادتیں دی گئیں۔ایک تو اپنی ناکامیوں کا اعتراف کہ ان کے علما، اسلاف اورپہاڑوں جیسی شخصیتوں نے پورا زورلگایا مگر جماعت کا بال بھی بیکا نہ کرسکے دوسرا یہ کہ ہر مخالفت کے طوفان کےبعد جماعت احمدیہ پہلے سے طاقتور ہوکر اُبھری ہے اور ان کے اپنےبیان کےمطابق ۱۹۵۳ء کےعظیم ترفساد اور ہنگامہ کے باوجود جماعت احمدیہ کا بجٹ کم نہیں ہوا بلکہ بڑھ گیاہے۔اور آجکل کےعلماء بھی یہی رونا رورہے ہیں کہ ان پہاڑوں جیسے علماء کےبعد مزید علماء آگے آئے اور انہوں نے اپنے زعم میں قادیانیت پر کاری وار کیے مگر یہ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں اور اب صرف ہندوپاک کی بات نہیں ساری دنیا میں یہ کثرت سے پھیل گئے ہیں اور بڑھتے چلے جارہے ہیں۔اورمالی لحاظ سے بھی جماعت احمدیہ پہلے سے کہیں زیادہ وسعت حاصل کرچکی ہے اوروہ ابتدائی قربانیاں اب پہاڑوں کی مانند ایک نمایاں شان سے کھڑی نظر آتی ہیں۔ ۱۹۵۶ءمیں وہ اخبار یہ دُہائی دے رہا تھا کہ جماعت احمدیہ کا بجٹ ۳۵؍لاکھ روپے ہوگیا ہے۔اب وہ مولانا زندہ ہوتے تو کیا دیکھتے اور کیا لکھتے ؟ دنیا میں پھیلی مختلف ممالک کی جماعتوں کے بجٹ کو دیکھتے تو ان کی کیا حالت ہوتی۔ مثال کے طور پر اس سال جماعت احمدیہ جرمنی نے سال ۲۰۲۴۔۲۰۲۵ء کے لیے جو بجٹ منظور کیا ہے وہ ۴۳,۶۶۸۰۰۰یورو کا ہے۔اس کو اگر پاکستانی روپے میں ڈھالا جائے تو یہ رقم ۱۳۱۰۰۴۰۰۰۰۰؍روپے بنتی ہے۔یہ صرف جرمنی کا بجٹ ہے اور اگر یوکے، امریکہ، کینیڈا، یورپ، افریقہ اور جزائر کے ممالک کے بجٹ دیکھے جائیں تو یہ اعداد روپوں میں لکھنے میں ہی نہ آئیں۔اور اگر ابتدائی قربانیوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو سچی قربانی کرنے والوں کے ساتھ جو قرآنی وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو سات سوگناسے بھی زیادہ پھل لگائے گا وہ وعدہ صاف پورا ہوتا نظر آرہا ہے۔ ابھی تو یہ ابتداہے۔ احمدیت کے غلبے کے وقت تو خدائی انعامات گننے کی بھی طاقت نہ ہوگی۔ جہاں یہ بات دشمنوں کو غیظ وغضب میں بڑھائے گی وہاں احمدی مسلمانوں کو شکر اورحمد کی طرف مائل کرے گی کہ ہمارے بڑوں نےچند ٹکے دیے جو آج یورو،پاؤنڈ اور ڈالروں میں بھی گنے نہیں جاتےاسی طرح ہماری قربانی بھی رائیگاں نہیں جائے گی،ان شاء اللہ۔مجھے ایک واقعہ یاد آگیا جو عربی ادب میں محفوظ ہے۔ خلیفہ منصورنے عمروبن عبید رحمہ اللہ سے کہا کہ کچھ بیان فرمائیے جس میں میرے لیے سامان عبرت ہو۔عمروبن عبید رحمہ اللہ نے فرمایا : حضرت عمر بن عبد العزیز کا جس وقت انتقال ہوا۔اُس وقت آپ کے گیارہ بیٹے تھے۔وفات کے بعد آپ کے ترکے کا حساب لگایا گیا تو وہ صرف ۱۷؍دینار تھے۔ جس میں سے پانچ دینار میں آپ کی تجہیز وتکفین کا سامان ہوا اور دودینار میں قبرمبارک کے لیے جگہ خریدی گئی اور بقیہ دس دینار آپ کے گیارہ صاحبزادوں میں تقسیم ہوئے۔ اورہشام بن عبد الملک کی وفات کے وقت اُن کے بھی گیارہ بیٹے تھے وفات کے بعد ترکہ تقسیم ہوا تو ہر ایک کے حصہ میں ایک ایک لاکھ دینار آئے۔اور اب کیفیت یہ ہے کہ میں نے عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کے ایک صاحبزادے کو دیکھا کہ اُس نے ایک ہی دن میں سوگھوڑے خدا کی راہ میں صدقہ کیے اور ہشام کے ایک صاحبزادے کو دیکھا کہ وہ سرِ راہ کھڑا صدقہ کے مال کی بھیک مانگ رہا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’حضرت داؤد علیہ السلام نےکہا ہے کہ میں بچہ تھا بوڑھا ہوا میں نے کسی خداپرست کو ذلیل حالت میں نہیں دیکھا اور نہ اُس کے لڑکوں کو دیکھا کہ وہ ٹکڑے مانگتے ہوں۔گویا متقی کی اولاد کا بھی خدا تعالیٰ ذمہ دار ہوتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۱۸۳، ایڈیشن۱۹۸۴ء) اب تحریک جدید کی بات ہو جائے جس کا گذشتہ سال کا بجٹ ۱۷.۹۸؍ملین پاؤنڈ تھاجو پاکستا نی روپے میں چھ ارب چونتیس کروڑانہتر لاکھ چالیس ہزار بنتے ہیں۔اب کس کس تحریک اور کس کس ملک کے کس کس چندہ کو روپوں میں ڈھالیں اور لکھیں اب تو یہ ناممکن ہےاور وقت کے ساتھ ساتھ مزید مشکل ہوتا جائے گا۔جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا کہ در اصل یہ مسیح وقت کی برکت اور دعا ہے اور پھر ان غریب احمدیوں کی بے لوث اور پر خلوص قربانی ہے جو رنگ لا رہی ہے۔تحریک جدید کے ساتھ ایک ایسی بے سہارا اور غریب عورت کی قربانی کا ذکر بھی آتا ہے جس کے پاس کچھ نہیں تھا لیکن قربانی کرنے کے لیےبے قرار تھی۔کسی طرح چند روپے جمع کر لیے اور سیدنا مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ میرا دوپٹہ بھی جماعت کا دیا ہوا ہے،میرے تن کے کپڑے اور جوتی بھی اور گھر میں جو کچھ ہے جماعت کا عطا کردہ ہے لیکن چند روپے میں نے پیٹ کاٹ کر بچا ئے ہیں جو میں تحریک جدید میں پیش کرنا چاہتی ہوں،حضور رضی اللہ عنہ نےفرمایا یہ چندہ تم پر فرض نہیں۔وہ رو پڑی کہ میں نے اتنی چاہت سے یہ روپے جمع کیے ہیں اور اس دن کے انتظار میں تھی کہ میں بھی کچھ پیش کروں اور اب آپ لینے سے انکار کرتے ہیں۔حضور رضی اللہ نےوہ رقم قبول فرمائی اور پھر اپنے ایک خطبہ میں اس واقعہ کو بیان کرکے اسے دائمی بنا دیا اور آج اس بزرگ عورت کے یہ الفاظ دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے احمدیوں کے کانوں میں گونجتے ہیں اور وہ زبان حال سے کہتے ہیں کہ ہمارا گھر بھی جماعت کا عطا کردہ ہےاور ہمارے گھروں کا سامان بھی۔ڈرائنگ روم کا فرنیچر بھی جماعت کی بدولت میسر آیا اورکچن اور بیڈروم بھی۔گاڑی بھی اسی در سے ملی اور باقی سب نعماء بھی۔اے نوے سال قبل چند روپے پیش کرنے والی بزرگ خاتون تجھ پر سلام کہ تو نے اپنے پاک عمل سے ہمیں یہ سبق سکھایا کہ سب کچھ تیری عطا ہے،گھر سے تو کچھ نہ لائے آج ہم سب احمدی اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ چند پیسے اور روپےجو ہمارے بزرگوں نے مسیح پاک علیہ السلام کے ہاتھ پر رکھے اُسے خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سےکئی گنا کرکے واپس لوٹا رہا ہے اور اگر ہم اپنی اولاد اور نسلوں کی انشورنس کروانا چاہتے ہیں تو وہی انشورنس کریں اور وہی راہ اختیار کریں جو ہمارے بزرگوں نے ہمیں دکھائی تھی اوروہی بیج لگائیں جو انہوں نے بویا تھا تا یہ فصلیں پھولتی پھلتی رہیں وہ خدا ہمیں اِتنا دے گا اِتنا دے گا کہ ہماری جھولی میں سما نہ سکے گا۔ میں اپنی تنگیٔ داماں کا عذر کیا کرتاوہ دے رہا تھا ، اُسے بےشمار دینا تھا مزید پڑھیں: تحریکِ جدید کی کہانی