مقصود میرا پورا ہو اگر مل جائیں مجھے دیوانے دو علی روجرز! میری ایک بات غور سے سنو۔ مجھے رات میرے خدا نے بتایا ہے کہ وہ اس شہر میں احمدیت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرے گا اور جہاں ہم نے آج رات بسر کی ہے یہ ساری جگہ ہمیں عطا کر دے گا۔ تم اس کے گواہ رہنا پا الحاج علی روجرز صاحب سیرالیون وہ پہلا مغربی افریقی ملک ہے جہاں جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچے سو سال کا عرصہ گزرا۔ ابتدائی بارہ تیرہ سال میں باقاعدہ مبلغ نہ ہونے کے سبب کوئی خاطر خواہ نتائج نہ نکلے۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ کی دور اندیش نگاہ نے تحریک جدید کے قیام کے بعد جن ممالک میں باقاعدہ مبلغ بھجوائے ان میں سیرالیون بھی شامل ہے۔ صحابی مسیح دوراںؑ حضرت ماسٹر عبد الرحیم نیر صاحبؓ نے لیگوس جاتے ہوئے یہاں کے چند معزز پڑھے لکھے مخلصین کی دعوت پر تین روزہ قیام سے اس قطعہ زمین کو برکت بخشی اور پیغام حق پہنچایا۔ حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحبؓ ۱۹۳۷ء میں یہاں آئے اور دو سالوں میں ایک مخلص جماعت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے احباب جماعت کے اخلاص اور اطاعت کے معیار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے میں دیکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لیے مَیں ان کو بلاتا ہوں نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جاتا ہے، میری طرف سے کسی امر کا ارشاد ہوتا ہے اور وہ تعمیل کے لیے تیار…بہت سے عزیز دوست ہیں اور سب اپنے اپنے ایمان اور معرفت کے موافق اخلاص اور جوشِ محبت سے لبریز ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۲۲۳ تا ۲۲۶) اس صدق اور اخلاص کے نمونے قائم کرنے والے مخلص اور وفادار ہر زمانہ میں مسیح محمدی کے جماعت کو عطا ہوتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابتدائی مبلغین کو متعدد ایسے مخلص نوجوان عطا کیے جنہوں نے اشاعت حق میں ان کی کماحقہ اعانت کی۔ ان میں سے دو ایسے قابلِ ذکر احباب ہیں جن پر حضرت مصلح موعودؓ کا یہ شعر صادق آتاہے مقصود مرا پورا ہو اگر مل جائیں مجھے دیوانے دو یہ دونوں احباب ابتدائی مبلغین کے حقیقی دست و بازو بنے۔ ان میں سے ایک جنوبی علاقہ سے مینڈے (Mende) زبان بولنے والے الحاج پا علی روجرز صاحب اور دوسرے ٹمنی(Temne) زبان بولنے والے شمالی علاقہ سے الحاج سعیدو بنگورا صاحب ہیں۔ (Pa بڑوں کو عزت سے مخاطب کرنے کے لیے لگایا جاتا ہے) آج اس مضمون میں پا علی روجرز صاحب کا ذکر مقصود ہے۔ ابتدا سے ہی وہ ایک مخلص اور وفادار، خادم اسلام، احمدیت کے فدائی، عبادت گزار، مہمان نواز اور خلیفہ وقت اور مرکزِ سلسلہ سے والہانہ محبت رکھنے والے احمدی تھے۔ حج بیت اللہ کے علاوہ قادیان اور ربوہ کی زیارت بھی کی۔ وہ وقفِ عارضی کے طور پر نظامِ جماعت کے ماتحت تبلیغ کے لیے کئی ہفتے پیش کرتے۔ احمدیت کی خاطر مخالفوں کی طرف سے مصائب و مشکلات کو صبر سے برداشت کرنے میں بھی وہ بفضلہٰ تعالیٰ پیش پیش رہے۔ تاحیات جماعتی امور میں وہ مبلغین کرام کے دستِ راست رہے۔ ابتدائی حالات ابتدائی زندگی اور تعلیم کے متعلق علی روجرز صاحب کہتے ہیں کہ میرے والدین انتہائی غریب تھے اور مجھے کسی اسکول میں داخل کروانے کے اہل نہیں تھے۔ (چند خوشگوار یادیں صفحہ ۲۶۵) خدائی بشارت کے پورا ہونے کے چشم دیدگواہ گو افریقہ میں لمبی عمر پانا ایک عام بات ہے۔ لیکن الحاج علی روجرز صاحب کا ۹۵ سال کی لمبی عمر پاکر احمدیت کی ترقی کا مشاہدہ کرنا حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب کو دی گئی ایک خدائی بشارت کے تحت ہوا۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے دورہ سیرالیون کی روئیداد میں پا الحاج علی روجرز کی زبانی اس ایمان افروز داستان کا ذکر موجود ہے۔ لکھا ہے کہ پا روجرز جن کی عمراِس وقت اسّی سال سے زائد ہے اور سیرالیون کے قدیم ترین احمدی ہیں۔ رو رو کر بیان کرتے ہیں کہ جس دن الحاج نذیر احمد علی صاحب Bo میں وارد ہوئےتو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ ہم نے تو سُن رکھا تھا اور روزانہ کا تجربہ بھی تھا کہ عیسائی مشنری اور منّاد افریقہ میں عیسائیت کی تبلیغ کے لیے آتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے لیے یہ ایک اچنبھے کی بات تھی کہ مشنری تو ہو لیکن اسلام کا مشنری۔ الحاج (نذیر احمد)علی نے جب لوگوں کو بتایا کہ امام مہدی تشریف لا چکے ہیں اور میں ان کے دوسرے خلیفہ کا نمائندہ بن کر آیا ہوں تو مقامی علماء بہت برہم ہوئے اور اعلان کر دیا کہ ان کو رہائش کے لیے کوئی جگہ نہ دی جائے اور ان کا بائیکاٹ کردیا جائے۔ مولاناؓ نے شام کو ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اسے اپنے لیے بند پایا۔ کسی نے رات بسر کرنے کے لیے جگہ نہ دی۔ بالآخر اپنے ساتھی سے جو ان کی کتابیں اٹھائے ساتھ ساتھ پھرا کرتا تھا۔ فرمایا کہ چلو بُش(Bush) یعنی جنگل میں چلتے ہیں۔ رات وہیں بسر کریں گے۔ جنگل کے لفظ سے یہاں کے جنگل کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ گھاس، جھاڑیوں، بیلوں، پودوں، درختوں کی ایک ناقابلِ عبور دیوار ہوتی ہے جو ہر قسم کے جانوروں اور حشرات الارض کی آماجگاہ اور جائے پناہ ہوتی ہے۔ محترم پا روجرز کہتے ہیں کہ لوگوں کی اس بدسلوکی پر مجھے بہت طیش آیا اور میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ جہاں ایک درخت کے نیچے حضرت مولانا نذیر احمد علی زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔ آدھی رات جب آپ نمازِ تہجد کے لیے اٹھے تو ان کو دَمے کا دورہ پڑ گیا جو اتنا شدید تھا کہ میں نے سمجھا کہ اب آپ پر نزع کی حالت طاری ہے۔ چنانچہ میں نے ان کی تیمارداری کی اور لوگوں کی بدسلوکی پر معذرت کا اظہار کیا۔ اس پر مولوی صاحبؓ نے بڑے جذبات اور یقین کے ساتھ مجھے بتایا کہ روجرز صاحب مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے اور میری بات یاد رکھو کہ یہاں احمدیت پھیلے گی اور ابھی آپ زندہ ہوں گے کہ لوگ آپ کے پاس آکر منتیں کیا کریں گے اور آپ جسے پسند کریں گے، رکھیں گے۔ جسے چاہیں گے انکار کر دیں گے۔ پا روجرزآبدیدہ ہو کر کہتے ہیں کہ میں نے یہ زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ میں احمدیہ سیکنڈری سکول کے بورڈ آف گورنرز کا رکن ہوں۔ بعض دفعہ ملک کے رؤسا اور وزراء کی سفارشوں سے لڑکے داخلے کے لیے آتے ہیں اور ہم انکار کر دیتے ہیں کہ جگہ نہیں۔ (روزنامہ الفضل ربوہ ۵؍جون ۱۹۷۰ صفحہ ۵ و ۶) اس کے بعد جب مولانا نذیر احمد علی صاحب نے جب بو میں رہائش اختیار تو آپ کا گھر ابتدائی مشن ہاوس بنا۔ مولانا صاحب نے اپنے گھر کی زیریں منزل پیش کر دی۔ وہ خود بالائی منزل پر رہائش پذیر تھے۔ اگلے ہی روز وہ نیچے آئے اور مولانا صاحب سے عرض کی کہ وہ بالائی منزل پر تشریف لے جائیں۔ اول تو وہ گوارا نہیں کرتے کہ وہ اوپر ہوں اور مبلغِ اسلام نچلی منزل میں۔ اور مبادہ کہ آپ کی عبادت اور آرام میں وہ یا ان کے اہل خانہ مخِل ہوں۔ مولانا صاحب نے پس و پیش سے کام لیا تاہم آپ کے انتہائی اصرار پر مولانا صاحب بالائی منزل میں رہائش پذیر ہو گئے۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانے میں مسیح محمدی کی کو مان کر کے ایسے ہی لوگ وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ کے مصداق ٹھہرے اور انہوں نے صحابہ رسول ص کے طرز عمل کو عملی طور پر دہرایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہی خوب فرمایا ہے کہ مبارک وہ جو اَب ایمان لایا صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا امام مسجد فضل سے ملاقات یہ واقعہ قدرے تفصیل سے محترم بشیر احمد رفیق صاحب مرحوم امام مسجد فضل لندن نے اپنی آپ بیتی ’’چند خوشگوار یادیں‘‘ میں درج کیا ہے۔ وہ ۱۹۶۸ء میں لائبیریا کے صدر ٹب مین کی دعوت پر لائبیریا تشریف لائے تو واپسی پر سیرالیون کا بھی دورہ کیا تب Bo شہر میں ان کی ملاقات پا علی روجرز صاحب سے ہوئی اور انہوں نے یہ مذکورہ بالا ایمان افروز داستان سنائی۔ اس کے آخر پر پا علی روجرز صاحب کی زبانی مولانا نذیر احمد علی صاحب کے الفاظ یوں درج کیے کہ ’’علی روجرز! میری ایک بات غور سے سنو۔ مجھے رات میرے خدا نے بتایا ہے کہ وہ اس شہر میں احمدیت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرے گا اور جہاں ہم نے آج رات بسر کی ہے یہ ساری جگہ ہمیں عطا کر دے گا۔ تم اس کے گواہ رہنا۔ امام صاحب! آج جس جگہ ہمارا سیکنڈری سکول ہے اس جگہ ہم نے وہ رات گزاری تھی اب یہ سارا علاقہ ہمارا ہے‘‘۔ (چند خوشگوار یادیں صفحہ ۲۶۸) قارئین کرام! خدا تعالیٰ کی جانب سے مسیح محمدی کے مبلغ کو دی جانے والی یہ بشارت حرف بحرف پور ی ہوئی۔ کجا وہ وقت کہ اس شہر کے باسیوں نے مبلغ اسلام احمدیت کو رات گزارنے کے لیے چھت فراہم نہ کی۔ کجا یہ کہ اس شہر کا یہی مقام جو اس مبلغ احمدیت کے سجدوں میں بہائے گئے آنسو سےتر ہوا ایک مرجع خلائق ہے۔ اس شہر میں جماعت مضبوط بنیادوں پر قائم ہوئی۔ اور اس بو شہر کو کئی دہائیوں تک جماعت احمدیہ سیرالیون کے مرکز کے طور پر بلکہ مغربی افریقہ کے مرکز کے طور پر بھی خدمت کی سعادت ملی۔ گیارہ بیویوں کوا حسن طریق پر رخصت کیا پا علی روجرز کی پندرہ بیویاں تھیں۔ آپ واحد ایسے مسلمان ہیں جنہوں نے حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحبؓ کے ذریعہ مشرف بہ احمدیت ہونے کے بعد انہی کی تحریک پر محض دینِ اسلام کی حقیقی تعلیم اور قیام ِشریعت کا عملی نمونہ قائم کرتے ہوئے اور خوفِ خدا دل میں رکھتے ہوئے پندرہ میں سے گیارہ بیویوں کو طلاق دے کر سرحوھن سراحا جمیلا کا عملی اظہار کرتے ہوئےباعزت و احترام رخصت کیا۔ ان خواتین میں سے اکثر بڑے اچھے اور امیر خاندان سے تعلق رکھنے والی بااولاد خواتین تھیں۔ (روح پرور یادیں صفحہ ۴۲۴) اس واقعہ کی تفصیل میں حنیف محمود صاحب نائب مدیر الفضل انٹرنیشنل (سابق مبلغ بو، سیرالیون) تحریر کرتے ہیں کہ ایک بڑا امتحان اسلامی تعلیم کے مطابق چار بیویوں کے علاوہ باقی کو با عزت رخصت کرنا تھا۔ جب مکرم الحاج مولوی نذیر احمد علی مرحوم نے ان کے سامنے صرف چار بیویوں کو رکھنے کا معاملہ پیش کیا تو وہ با رغبت و رضا چار کے علاوہ باقی بیویاں چھوڑنے پر رضا مند ہوگئے۔ آپ کی قبول احمدیت کے وقت ۱۵ بیویاں تھیں۔ آپ نے مولانا سے عرض کی میں اپنی پسند کی چار بیویوں کا انتخاب کر کے باقیوں کو فارغ کر دیتا ہوں۔ مکرم مولانا موصوف نے کہا: نہیں! تمام بیویوں کو تاریخ شادی کے اعتبار سے ترتیب سے کھڑا کریں۔ یعنی جس کی شادی سب سے پہلے آپ سے ہوئی وہ دائیں طرف اور سب سے کم عمر جس کی شادی سب سے بعد میں ہوئی بائیں طرف۔ تب میں فیصلہ کروں گا کہ کون کون سی چار آپ کے ساتھ رہیں گی۔ جب ایک لائن میں تمام کو کھڑا کیا گیا تو مکرم مولانا نے دائیں طرف کی چار بیویوں کے حوالے سے پا علی کو کہا کہ یہ چار آپ رکھ لیں کیونکہ انہوں نے ایک لمبا وقت آپ کی خدمت کی ہے۔ اور باقیوں کو اسلام کے مطابق فارغ کر دیں۔ پا علی نے مکرم مولانا مرحوم کے فیصلہ پر سر تسلیم خم کیا اور پہلے نمبر کی چار خواتین رکھ کر باقیوں کو اپنے عقد سے فارغ کر دیا۔ (اداریہ روزنامہ الفضل آن لائن لندن ۱۸؍ ستمبر۲۰۲۱ء) مالی قربانیاں محترم علی روجرز صاحب کا جماعت کے لیے اخلاص و ایثار اور قربانیاں تاریخی اہمیت کی حامل ہیں اور السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ کی سند رکھتی ہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے سیرالیون جماعت کو ہر زمانہ میں کئی مخلص اور فدائی احمدی عطا فرمائے جنہوں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر دین کی خاطر قربانیاں کیں اور کرتے چلے آرہے ہیں۔ اور ان شاء اللہ کرتے رہیں گے۔ مسجد ناصر اور اس سے متعلقہ زمین جو ہبہ کی مولانا محمد صدیق گورداسپوری صاحب لکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ وہ اپنی مالی حالت کے لحاظ سے یہاں کے مخیر لوگوں میں شمار نہیں ہوتے بلکہ ایک عام ناخواندہ تاجر ہیں۔ پھر بھی وہ کسی نیک کام میں یا مشن کی مالی ضرورت کو پورا کرنے میں پیچھے نہیں رہتے۔ (الفضل ۲ دسمبر ۱۹۵۶ء) مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب نے قریباً بیس سال کی مساعی کے بعد لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیرالیون احمدیہ مشن کے قیام کے وقت سے اب تک الحاج علی روجرز صاحب کو سب سے زیادہ مالی قربانیاں پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ احمدیہ کمپائونڈ کا نقشہ پکنک کے لیے بکرا جولائی ۱۹۴۲ء میں احمدیہ سکول باؤماہوں کے طلبہ او ر سٹاف نے خاکسار مینیجر سکول سے ایک روز کے لیے دریا پر پکنک منانے کی خواہش کی۔ چنانچہ اس غرض سے سکول فنڈ سے ایک بکرا خریدا گیا۔ اورایک بکرا محترم الحاج علی روجرز صاحب صدر جماعت نے اپنے ذاتی ریوڑ میں سے پیش کردیا۔(روح پرور یادیں ۲۹۳) مسجد ناصر بو کی زمین: الحاج علی روجرز صاحب نے شہر بو میں ایک وسیع قطعہ جماعت احمدیہ کے نام ہبہ کر دیا۔ اور یہ ان کی قربانی کی قبولیت ہی تھی کہ حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒ نے اس زمین پر مرکزی احمدیہ مسجد ’’مسجد ناصر‘‘ کی بنیاد رکھی۔ احمدیہ لائبریری کے لیے مکان: محترم الحاج علی روجرز کے دو مکان مسجد احمدیہ بو (موجودہ ناصر مسجد) سے ملحق تھے۔ ان میں سے ایک مکان ۱۹۵۵ءمیں لائبریری کے لیے مشن کو پیش کیا تھا اور وہاں لائبریری قائم کی گئی تھی۔ مولانا نذیر احمد علی صاحب لکھتے ہیں کہ پا علی روجرز صاحب ایک پرانے اور مخلص احمدی ہیں۔ گذشتہ سال انہوں نے بو احمدیہ مسجد سے ملحق جگہ پر پانچ سو پائونڈ کی گراں قدر رقم خرچ کر کے ایک پختہ مکان تیار کیا۔ مکان مسجد سے بالکل ملحق ہونے کی وجہ سے مسجد کی وسعت میں حارج تھا۔ اس لیے جماعت کے ممبران نے مکرم امیر صاحب کے سامنے اس مکان کے خریدنے کی تجویز پیش کی۔ جس پر محمد صدیق امرتسری صاحب انچارج مبلغ نے پا علی روجرز سے ایک طرف مشن کی مالی مشکلات دوسری طرف مہمان خانہ اور دیگر ضروریات ِ مشن کے لیے فوری کسی مکان کی ضرورت کو پیش کرتے ہوئے اسے اس مکان کے وقف کرنے کی ترغیب دلائی۔ چنانچہ صاحب موصوف نے برضا و رغبت وہ مکان مشن کے نام ہبہ کر دیا۔ اب وہ مکان مہمان خانہ اور مشن کی دیگر ضروریات کے کام میں آرہا ہے۔ (الفضل ۷؍اگست ۱۹۵۵ء) دوسرا مکان بھی پریس کے لیے ہبہ کر دیا: ۱۹۵۶ء میں جب رسالہ افریقن کریسنٹ جاری ہوا تو چند شماروں کے بعد ہی عیسائی پریس نے رسالہ کی مزید اشاعت بند کر دی ۔ اس وقت احمدی احباب کو اپنا پریس قائم کرنے کےلیے مالی تحریکات کی گئیں۔ تھوڑے دنوں میں ہی مشین کا انتظام ہوگیا۔ مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب لکھتے ہیں کہ اس دوران انہیں یہ فکر ہوئی کہ احمدیہ پریس کہاں اور کس عمارت میں فٹ کریں گے۔ اور وہ خدا تعالیٰ کے حضور ملتجی ہوئے تو ان کے دل میں ڈالا گیا کہ محترم الحاج علی روجرز صاحب کو تحریک کی جائے کہ وہ مسجد احمدیہ بو کے ساتھ والا دوسرا مکان اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر جماعت کے نام ہبہ کر دیں اور کِسی ٹاؤن (Kissy Town) میں جو وہ اپنی تیسری دو منزلہ عمارت بنا رہے ہیں اب اس کے ذریعہ ان کے رزق میں فراخی عطا کی جائے گی۔ مولانا صدیق امرتسری صاحب لکھتے ہیں کہ میں قربان جاؤں اس پیارے بزرگ بھائی کے وہ بغیر کسی تردّد اور عذر کے فی الفور سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے اپنے وہ دونوں مکان ہبہ کرنے کو تیار ہو گئے اور کہنے لگے کہ لائیں کاغذ اور قلم اور مجھ سے ابھی ابھی لکھوالیں… چنانچہ اس کے بعد شہر کے وسط میں مسجد احمدیہ سے ملحقہ ان کی دونوں عمارتیں اور خالی زمین قانونی طور پر احمدیہ مشن سیرالیون کی ملکیت ہوگئیں۔ ان کی قیمت مع زمین اس وقت تین ہزار پونڈ سے کم نہ تھی… ان میں ایک عمارت میں ’’نذیر احمدیہ پریس‘‘ قائم کیا گیا اور دوسری عمارت سنٹرل لائبریری اور پبلک ریڈنگ روم کے طورپر استعمال ہونے لگی۔ مولانا محمد صدیق گورداسپوری صاحب لکھتے ہیں کہ علی روجرز صاحب کی یہاں قربانی اور اخلاص کا انداز اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب انہوں نے یہ مکان وقف کر کے خالی کر دیا تو اس وقت ان کی اپنی رہائش کے لیے کوئی دوسری رہائش گاہ موجود نہیں تھی مگر اس کے بعد خداتعالیٰ نے انہیں ایک نیا مکان بنانے کی توفیق عطا فرمادی۔ (الفضل ۲ دسمبر ۱۹۵۶) اس کے علاوہ روجز صاحب نے احمدیہ پریس کے لیے پانچ صد پاؤنڈز کی رقم بھی عطیہ کی۔ اس حوالہ سے ۲۰۰ پاؤنڈز پہلے ادا کیے۔ ان دنوں میں آپ یامانڈو (Yamando) میں چند اور احمدیوں کے ساتھ وقتی طور پر تجارت کے لیے مقیم تھے۔ بعد ازاں ۳۰۰ پاؤنڈز کی رقم بو آکر ادا کی۔ (ماخوذ الفضل ربوہ ۵؍دسمبر ۱۹۵۶ء) یہاں ایک غلطی کی اصلاح بھی ضروری ہے کہ الفضل ۶؍ ستمبر ۱۹۵۶ء کے صفحہ اول پر ایک جلی اعلان شائع ہوا جس میں مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب کی حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں کی گئی ایک تار شامل ہے۔ تار کے علاوہ پا علی روجز کے حوالہ سے اعلان میں درج ہے کہ ’’سیرالیون کے ایک مخیر احمدی دوست نے اپنا ایک ہزار پاؤنڈ سے زیادہ مالیت کا مکان سلسلہ کے لئے وقف کر دیا اس سے پہلے آپ احمدیہ پریس کے لئے بھی گیارہ سو پاؤنڈ دے چکے ہیں۔‘‘ یہ الفاظ اعلان میں مولانا محمد صدیق امرتسری کی جانب سے نہیں بلکہ ادارہ الفضل کی جانب سے لگتے ہیں۔ گیارہ سو پاؤنڈ دینے والے ایک اور احمدی چیف قاسم کمانڈا صاحب تھے جنہوں نے کل تیرہ سو پاؤنڈ احمدیہ پریس کے قیام کے لیے پیش کیے۔ ان کی اس قربانی سے متعلق تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع منعقدہ ۲۷ اکتوبر ۱۹۵۶ء سے خطاب میں بیان فرمائی ہے۔ اسی خطاب میں حضرت مصلح موعودؓ نے اٹھارہ سو پاؤنڈ کی رقم اکٹھی ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔ (الفضل ربوہ ۲۶؍مارچ ۱۹۵۷ء) تاریخ احمدیت جلد ۸ میں بھی اسی اعلان کے حوالہ سے اس غلطی کا اعادہ ہے۔ بجلی کا پنکھا: اس لائبریری کے ریڈنگ روم کے لیے ایک بجلی کے پنکھا کی ضرورت تھی۔ پا علی روجرز صاحب نے بغیر تحریک کے ۲۵ پائونڈ کا ایک نیا پنکھا منگوا دیا۔ جو ہال کی چھت پر لگایا گیا۔ (الفضل ۲؍دسمبر ۱۹۵۶ء) کرسیوں پر دائیں جانب سے: الحاج سعیدو بنگورا صاحب، چیف گمانگا صاحب، مقبول احمد ذبیح صاحب (قائم مقام امیر و مبلغ انچارج)، الحاج علی روجرز صاحب، الحاج بونگے صاحب انچارج وقارِ عمل مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب لکھتے ہیں کہ مسجد احمدیہ اور احمدیہ سکول باؤماہوں کی عمارات کی تعمیر کے وقت اقتصادی حالات کے سبب احبابِ جماعت نے وقارِ عمل کے ذریعہ کام کیا۔ کئی ماہ تک ہفتہ میں ایک روز وقارِ عمل منایا جاتا رہا۔ جماعت کے چھوٹے بڑے افراد وفود کی صورت میں جنگل میں جاتے اور مناسبِ حال لکڑیاں کاٹ کر لاتے رہے۔ وقارِ عمل کے اس نظام کے انچارج ٹمنی احباب کے لیے الحاج سعیدو بنگورا مرحوم اور مینڈے احباب کے لیے الحاج علی روجرز صاحب تھے۔ باوجود پیرانہ سالی کے دونوں احباب وقارِ عمل میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ کا عملی نمونہ نظر آتے تھے۔ (ماخوذ از روح پرور یادیں صفحہ ۵۱۶) وقفِ عارضی میں بے مثال خدمات گو اس بارہ میں علیحدہ سے کچھ تفصیل نہیں ملتی۔ تاہم مختلف رپورٹس اور دیگر مضامین میں ان کا نہایت احسن پیرایہ میں ذکر ہے۔ سیرالیون کی انتہائی مشرقی اور انتہائی مغربی ریاستیں ایسی ہیں جہاں آجکل بھی سڑکیں نہیں۔ اور یہ ریاستیں مکمل طور پر جدید دنیا کے وسائل سے ہم آہنگ نہیں۔ ۱۹۴۵ء میں حضرت مصلح موعود ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے توجہ دلائی کہ تبلیغ صرف باقاعدہ مبلغین کی ذمہ داری نہ سمجھی جائے بلکہ سیرالیون کے وہ مخلصین جو لوکل زبانیں جانتے ہیں وہ ہر سال کم و بیش ایک مہینہ تبلیغ کے لیے وقف کیا کریں۔ اس مبارک تحریک میں احمدی احباب نے شوق سے حصہ لیا۔ ملک کے طول وعرض میں پھیل کر تبلیغ کی، سینکڑوں پائونڈز کا لٹریچر فروخت اور تقسیم کیا۔ ان احبا ب میں سرِ فہرست الحاج علی روجرز صاحب اور الحاج سعیدو مرحوم کا نام ہے۔ (روح پرور یادیں صفحہ ۵۱۷) لائبیریا میں جماعت کے قیام کا ابتدائی تبلیغی سروے فروری ۱۹۵۲ء میں مولانا امرتسری صاحب کی ایک رپورٹ پر حضرت مصلح موعودؓ نے تحریر فرمایا کہ ’’آپ کا کام صرف سیرالیون کی حدود تک ہی محدود نہیں ہمسایہ ممالک میں بھی تبلیغ کا انتظام کریں۔‘‘ اس ارشاد کی تکمیل میں فرنچ گنی، لائبیریا اور گیمبیا میں بذریعہ ڈاک کثرت سے لٹریچر بھجوایا گیا۔ اس کے ساتھ سیرالیون کے جنوبی ملک لائبیریا کے تبلیغی سرو ے کے لیے جماعت بو کے انہی دومخلص اور فدائی احمدیوں الحاج علی روجرز اور الحاج سعیدو بنگورا کو تحریک کی گئی۔ دونوں بزرگوں نے اس تحریک پر ایک ایک مہینہ وقف کیا۔ انہیں بہت سی عربی اور انگریزی اسلامی کتب اور قرآن کریم اور یسرنا القرآن کے قاعدے دے کر اس ملک میں بھیجا گیا۔ ان دونوں بزرگوں کے دورے کے نتائج نہایت خوش کن رہے، ایک ماہ دس روز کے دورے کے دوران ۲۱۰ میل پیدل سفر کیا اور لائبیریا کے غیر معروف علاقوں کے لوگوں کو اسلام اور احمدیت سے متعارف کروایا۔ ۱۵۰ میل بذریعہ لاری اور لانچ سفر کیا اور ۸۰ پائونڈ کا لٹریچر فروخت کرنے کے علاوہ بہت سا لٹریچر مفت تقسیم کیا اور گاؤں گاؤں قصبہ قصبہ اور شہر شہر پہنچ کر فریضہ تبلیغ ادا کیا۔ (روح پرور یادیں صفحہ ۴۰۶ و ۴۰۷) مخالفت و مصائب میں ثابت قدم ۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۷ء تک جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے قدم مضبوط ہوتے جارہے تھے وہیں جماعت ہائے سیرالیون پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔ تاہم طرح طرح کے مصائب میں وہ ثابت قدم رہے۔ ریاست لونیاں کے چیف عبد الرحمٰن کمارا اور ان کے وزراء باہومان کے احمدیوں کو نہایت سخت اور انسانیت سوز تکالیف پہنچاتے رہے۔ اکثر اوقات بیگار کے لیے خلافِ قاعدہ احمدیوں کو لے جاتے۔ نیز جھوٹےالزامات اور جھوٹی گواہیوں پر انہیں آئے دن جرمانے کرتے رہتے۔ ان اذیتوں کا زیادہ تر نشانہ وہیں کے الحاج سعیدو بنگورا اور الحاج علی روجرز اور ان کے لواحقین اور دیگر مخلص ساتھی بنتے رہے۔ سکول کی ایک پکنک کے موقع پر علی روجرز صاحب کے مہیا کردہ بکرے ذبح کرنے کو مقامی روایت کے مطابق بدشگونی خیال کیا گیا اور مقامی چیف نے مولوی صاحب کے سوا تمام احمدیوں پر اڑھائی ڑھائی پائونڈ کے جرمانے عائد کر دیے۔ تمام افریقی احباب نے بغیر کسی گھبراہٹ کے بشاشت اور ثابت قدمی سے جرمانے ادا کر دیے۔ اس چیف نے جماعت اور بانی سلسلہ کے بارہ میں نہایت درجہ بدکلامی کی بالآخر اِنّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کے تحت ملک راہی عدم ہوا۔ (روح پرور یادیں صفحہ ۲۹۳ و ۲۹۴) مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب کا علاج سیرالیون کے جنگل میں درختوں کے پتوں پر پانی یا شبنم کے قطروں میں بعض کیڑوں کے انڈے ہوتے ہیں۔ اگر یہ پانی جسم پر گر جائے تو یہ انڈے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ دو چار روز میں نمو پاکر یہ انڈے جسم کو کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر انہیں فوری طور پر نکالا نہ جائے تویہ خطرناک صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اسی طرح گرد میں پاؤں کے ناخنوں میں چھپ جانے والے کیڑے ہوتے ہیں وہ بھی جلد میں داخل ہوکر گول شکل میں بڑھتے ہیں اور اپنا گھر بنا لیتے ہیں۔ ان کو اگر نہ نکالا جائے تو پاؤں کی انگلیاں ختم ہو جاتی ہیں یا کم از کم ناخن جھڑ جاتے ہیں۔ ستمبر ۱۹۴۱ء میں باؤماہوں کے احمدیہ پرائمری سکول کی نئی عمارت کی تعمیر میں لکڑیوں کی ضرورت تھی۔ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کاٹ کر لائی گئیں۔ایک بار دورانِ وقارِعمل یہ کیڑے مولانا صدیق امرتسری کے جسم اور پاؤں کے ناخنوں میں داخل ہوگئے اور وہ شدید کرب میں مبتلا ہوگئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس پریشانی کے عالم میں ایک طالب علم کو ساتھ لے کر میں فوری طور پر بغیر کسی کو بتائے BO کو چل پڑا۔ ابھی ہم بو کی سمت چند فرلانگ ہی چلے تھے کہ آگے سے جماعت کے دو بزرگ الحاج على روجرز اور الحاج سعید و بنگوراجو دو تین روز سے باؤماہوں سے باہر گئے ہوئے تھے، آتے ہوئے ہمیں مل گئے۔ ان کے دریافت کرنے پر میں نے وہ زخم اور گلٹیاں دکھا کر انہیں سارا ماجرا سنایا۔ وہ ہنس کر کہنے لگے یہ تو معمولی تکلیف ہے اور جنگل میں کام کرنے والوں کو اس ملک میں اکثر ہو جایا کرتی ہے ہم ابھی اس کا علاج کر دیتے ہیں۔ آپ کو ذرا صبر سے کام لینا پڑے گا۔ اور کچھ تکلیف برداشت کرنی پڑے گی۔ مجھے چونکہ تکلیف زیادہ تھی۔ اور میں اسے خطر ناک بیماری سمجھتا تھا۔ اس لیے میں ان سے متفق نہ ہوتے ہوئے ذرا خفگی کا انداز اختیار کر کے آگے چل پڑا۔ مگر وہ میرا راستہ روک کر اصرار کرتے ہوئے کہنے لگے کہ آپ ہم پر اعتماد کریں ہم سچ کہہ رہے ہیں۔ اور ہم افریقن اس تکلیف کا علاج سفید فام ماہر ڈاکٹروں سے بہتر کر سکتے ہیں اگر ابھی ابھی ہم آپ کا علاج کر کے آپ کی یہ سب تکلیف دور نہ کر سکے تو آپ بے شک ہمیں جھوٹا قرار دیں اور بو ہسپتال علاج کے لیے تشریف لے جائیں بلکہ ہم خود آپ کو وہاں لے جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے وہیں پگڈنڈی پر ہی مجھے بٹھا کر میری سب گلٹیوں کو ایک ایک کر کے اپنے ہاتھوں سے نہایت زور سے دبایا جس سے مجھے شدید درد محسوس ہوا مگر ہر گلٹی میں سے تقریباً آدھ انچ لمبا بھورے سے منہ والا سفید کیڑا پھدک کر باہر نکلتا رہا اور اس کے ساتھ ہی مجھے سکون محسوس ہونے لگتا۔ اس کے بعد انہوں نے جنگل کی ایک جھاڑی سے ایک باریک سا کانٹا تلاش کیا۔ میرے پاؤں کی تین چار انگلیاں متورم اور سوجی ہوئی تھیں۔ میں اُن کےکہنے پر ان کے سامنے پاؤں پسار کر بیٹھ گیا۔ اور انہوں نے کانٹے سے میرے پاؤں کے ناخنوں کے نیچے کریدنا شروع کر دیا جس سے مجھے شدید تکلیف ہوئی اور پاؤں سے خون بھی بہنے لگا۔ لیکن جب ایک انگلی سے انہوں نے ایک سیاہ سر اور چنے کے دانے کے برابر گول دھڑ والا کیڑا جسے جگر کہتے ہیں نکال کر مجھے دکھایا تو مجھے درد برداشت کرنے کا حوصلہ ہو گیا۔ چنانچہ انہوں نے اس طرح میرے ناخنوں کا آپریشن کر کے انگلیوں سے یکے بعد دیگرے اس قسم کے سب جگر نکال دیے اور با وجود انگلیوں میں ان اور جگہوں پر گڑھے پڑ جانے کے مجھے سکون اور آرام محسوس ہونے لگا۔ پھر اسی وقت انہوں نے اِدھر اُدھر سے کسی خاص بوٹی کے پتے تلاش کیے جن کو ہاتھوں سے مل کر اس کا پانی میرے ان سب زخموں پر لگا دیا۔ جس سے درد بھی جاتا رہا۔ اورخون بھی بند ہو گیا۔ (روح پرور یادیں صفحہ ۲۶۶ و ۲۶۷) اسی طرح ایک بار سکول کے ایک طالب علم کو بدنی سزا دی گئی تو اس نے مولانا امرتسری صاحب سے انتقامی جذبہ کے ماتحت ایک زہریلی بوٹی پسے ہوئے شیشے میں ملا کر ان کے بستر پر بکھیر دی جس کے سبب ان کو شدید خارش ہوگئی اور جسم سوج گیا۔ علی روجرز صاحب نے فوراً معلوم کروایا کہ کیا ہوا ہے اور یہ کس کی شرارت ہے۔ لیکن وہ لڑکا جرم افشا ہونے پر فرار ہو گیا۔ (روح پرور یادیں صفحہ ۲۲۶) حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے دورہ کے لیے دعائیں لطف الرحمٰن محمود صاحب کہتے ہیں کہ پا سعیدو بنگورا اور الحاج علی روجرز جن کی زندگی کی شام ہوا چاہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر التجا کیا کرتے کہ خدایا اتنی عمر دے کہ خلیفۂ وقت کی زیارت سے مشرف ہو سکیں اور کہتے کہ اے مولیٰ کریم اس مبارک گھڑی سے پہلے سانس کی ڈوری ٹوٹ نہ جائے۔(الفضل ۴؍جون ۱۹۷۰ء ) مسجد ناصر بو شہر کا سنگِ بنیاد پا علی روجرز صاحب کی جانب سے ہبہ کردہ قطعہ زمین پر ۱۰ مئی ۱۹۷۰ء کو حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے سنگِ بنیاد رکھا۔ حضور کی موجودگی میں پا علی روجرز صاحب، سعیدو بنگورا اور محمد کمانڈابونگے صاحب نے بھی مسجد کی بنیاد میں اینٹیں نصب کیں۔(الفضل ۴؍جون ۱۹۷۰ء) تبرکات عطا کیے جانا حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نےاپنے دورہ کے دوران ۱۰ مئی ۱۹۷۰ء کی رات کو اپنے ملبوسات ان دو فدائی خدام سلسلہ کو عنایت فرمائے۔ مکرم لطف الرحمٰن صاحب محمود بیان کرتے ہیں کہ سیرالیون کے دو مخلص اور قدیم احمدیوں پاسعیدو بنگورا اور الحاج علی روجرز کو مغرب و عشاکی نماز کے بعد جب حضور کے عطا فرمودہ تبرکات پہنچائے گئے تو دوست بڑھ کر معانقہ کرکے انہیں مبارکباد دینے لگے۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ ان تبرکات کو چھونے کا شرف حاصل کرے۔ محبت اور عقیدت کا یہ ایمان افروز نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ دونوں بزرگ بھی اپنی قسمت پر نازاں ہیں۔ اور حضور کی ذرہ نوازی اور محبت کی اس ادا پر سو جان سے قربان ہو رہے ہیں۔ (الفضل ۱۳؍جون ۱۹۷۰ء ) دو پاکستانی مبلغین داماد اور اولاد آپ ایک عیال دار انسان تھے۔ اور آپ کی دو بیٹیاں مرکزی مبلغین کے عقد میں آئیں۔ آپ کی نسل سے ہی مکرم ٹومی کالون صاحب یوکے میں صدر خدام الاحمدیہ رہے ہیں اور اس وقت PAAMA کے صدر ہیں۔ مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب (امیر و مشنری انچارج سیرالیون) کا نکاح: حضرت مولانا نذیر احمد علی کی تجویز پر اور حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت سے ۱۹۴۱ء میں مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب نے ان کی بڑی صاحبزادی بشریٰ روجرز سے نکاح کیا۔ جن سے اللہ تعالیٰ نے چار لڑکے عطا فرمائے۔ محمد بشیر صدیق اور محمد منیر صدیق زندہ رہے جبکہ دو بچپن میں وفات پا گئے۔(روح پرور یادیں ۴۲۳) افریقن کریسنٹ میں درج ہے کہ منیر احمد ۱۳ جنوری ۱۹۸۴ء کو ایک کار حادثے میں وفات پا گئے۔ یہ اہلیہ ۱۹۴۹ء میں رخصت پر پاکستان بھی تشریف لے گئیں۔ انہیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ تقسیم ہند کے بعد یہ پہلے مبلغ اور ان کا خاندان تھا جو میدانِ عمل سے رخصت پر پاکستان تشریف لایا۔۴ جون کو لاہور سٹیشن پر پر جوش نعروں اور رقت آمیز دعاؤں میں ان کا استقبال کیا گیا۔ (الفضل لاہور۔ ۶ جولائی ۱۹۴۹ء) الفضل میں لکھا ہے کہ آپ کے ہمراہ آپ کی اہلیہ محترمہ بھی تشریف لائی ہیں جو سیرالیون کی باشندہ ہیں اور بو شہر کے امیر جماعت مسٹر علی روجرز صاحب کی صاحبزادی ہیں۔ (الفضل لاہور ۶و ۱۵؍جولائی ۱۹۴۹ء) ۳۱؍اکتوبر کو لاہور سے واپس روانہ ہوئے۔ (الفضل لاہور یکم نومبر۱۹۵۰ء) مولانا احسان الہٰی جنجوعہ صاحب مبلغ سلسلہ کا نکاح: آپ کی دوسری بیٹی کا نکاح مبلغ سلسلہ مولانا احسان الہٰی جنجوعہ صاحب سے ہوا جن سے کثیر اولاد یہاں متعدد جماعتی خدمات بجا لا رہی ہے۔ آپ کی ایک نواسی حلیمہ ولیہ ڈوروی (Halima Waliya Dorwie) حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے دورہ کے بعد ربوہ تشریف لے گئیں۔ حضور ؒ نے خصوصی طور پر ان کی تعلیم و تربیت کے سامان کیے اور ان کی شادی جامعہ احمدیہ ربوہ میں زیر تعلیم سیرالیونین طالب علم مولوی یوسف خالد ڈوروی سے کروائی۔ سسٹر حلیمہ ولیہ ڈوروی صاحبہ اِس وقت سیرالیون میں مقیم ہیں اور ان کا ایک بیٹا صلاح الدین ڈوروی صاحب جامعہ گھانا میں چند سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعة المبشرین سیرالیون سے فارغ التحصیل ہوا ہے اور اس وقت فری ٹاؤن کی لَمْلی جماعت میں بطور سرکٹ مشنری متعین ہے جبکہ دوسرا بیٹا عزیزم طاہر ڈوروی جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا میں زیرِ تعلیم ہے۔ حج بیت اللہ کی سعادت آپ جماعت احمدیہ بو کے صدر /امیربھی رہے۔ اسی دوران ۴ جون ۱۹۵۸ء مطابق ۱۷ ذو القعدہ ۱۳۷۷ھ میں مکرم علی روجرز صاحب، چیف قاسم کمانڈا آف وانڈو چیفڈم اور مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب کے ہمراہ فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے سیرالیون سے بذریعہ ہوائی جہاز تشریف ارض حرم لے گئے۔ اور مدینہ منورہ میں روضہ رسولﷺ کی بھی زیارت کی۔ (روح پرور یادیں صفحہ ۱۵۶)(روح پرور یادیں صفحہ ۴۶۳) اس سفر کا خرچ چیف قاسم کمانڈا آف وانڈو چیفڈم نے برداشت کیا۔ جب وہ حج کے لیے تیار ہوگئے تو انہوں نے مولانا امرتسری صاحب کو لکھا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ اور کوئی ایک افریقن احمدی بزرگ میرے ساتھ حج کے لیے چلیں۔ مولانا صاحب نے انہیں لکھا کہ اگر خلیفۂ وقت کی طرف سے اجازت مل گئی تو میں ضرور آپ کے ساتھ جاؤں گا۔ چنانچہ مولانا صاحب کی درخواست پر حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں اجازت مرحمت فرمائی اور فرمایا کہ اس سال مولوی قدرت اللہ صاحب سنوریؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ حج کے لیے جا رہے ہیں چیف قاسم کمانڈا کو ان سے ملائیں اور اکٹھے رہیں تا کہ وہ ایک صحابی کی صحبت سے فائدہ اٹھائیں۔ (تابعین اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ ۹۵ حاشیہ) واپسی سے چند روز قبل جدہ میں مولانا امرتسری صاحب انفلوئنزا سے شدید بیمار ہو گئے۔ علی روجرز صاحب ادھر ادھر سے معلوم کر کے مولانا صاحب کو ایک اچھے لبنانی ہسپتال میں لے گئے۔ فلائٹ کے روز علی روجرز صاحب انہیں لینے ہسپتال گئے تو کسی نے انہیں کہہ دیا کہ ہسپتال والے انہیں ایمبولینس میں بھجوا دیں گے۔ پھر جب وہ ایئرپورٹ پر نہیں پہنچے تو علی روجرز صاحب نے دو پاکستانی احمدی نوجوانوں کو پہچان کر جو دورانِ حج انہیں ملے تھے اور اپنے عزیزوں کو رخصت کرنے آئے تھے، فوراً اس صورتحال سے آگاہ کیا کہ مولانا صاحب ہسپتال میں ہیں اور فلائٹ کا وقت ہوگیا ہے۔ ایئر پورٹ نہیں پہنچ سکے تو سیٹ ضائع ہونے کا بھی خطرہ ہے اور بیماری میں اکیلے رہ جائیں گے۔ دوسری طرف مولانا صاحب کو ہسپتال نے ۶۰ پائونڈ کے بل کی ادائیگی کے بغیر ڈسچارج کرنے سے انکار کر دیا۔ مولانا صاحب پریشانی میں دعاؤں میں مصروف تھے۔ وہ دونوں پاکستانی نوجوان فوراً ہسپتال پہنچے اور اخراجات کی ادائیگی کے بعد جہاز کی روانگی سے قبل ایئرپورٹ پر لے آئے اور اڑان کے لیے تیار جہاز کا دروازہ کھلوا کر انہیں سوار کروایا۔ (روح پرور یادیں صفحہ ۴۶۶) یہ علی روجرز صاحب کی بیدار مغزی تھی کہ مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب کو بروقت واپسی کا جہاز مل گیا اور کسی بھی قسم کا نقصان نہ ہوا۔ مرکز سلسلہ کی زیارت اور جلسہ سالانہ ۱۹۷۵ء میں شمولیت مولانا صدیق امرتسری صاحب لکھتےہیں کہ جلسہ سالانہ ۱۹۷۵ء کے موقع پر سیرالیون (مغربی افریقہ) سے جو وفد جلسہ میں شمولیت کے لیے ربوہ آیا تھا اس میں سلسلہ کے ایک پرانے خادم اور مخلص احمدی بزرگ الحاج علی روجرز بھی شامل تھے جو تقریباً بیس سال سیرالیون میں میرے دستِ راست رہے۔ اور وہاں کی جماعتوں کے قیام و استحکام کے لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی حیثیت کے مطابق ہر قسم کی قربانیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ (روح پرور یادیں صفحہ ۳۸۸) جلسہ سالانہ ۱۹۷۵ء کے کوائف کےمطابق اس جلسہ میں سیرالیون سے مکرم الحاج کمانڈا بونگے صاحب، مکرم الحاج علی روجرز صاحب اور مکرم ابو بکر کمارا صاحب تشریف لے گئے تھے۔ (الفضل ۳۱؍دسمبر ۱۹۷۵ء صفحہ دو) شاید اسی دورہ کے دوران وہ قادیان کی زیارت کے لیے بھی تشریف لے گئے۔ (روح پرور یادیں صفحہ ۴۳۲ ) وفات جماعت احمدیہ سیرالیون کا یہ بزرگ وجود جس نے مولانا نذیر احمد علی صاحبؓ کے ساتھ احمدیت کا بیج لگانے میں مدد کی اور پھر ان کے ساتھ اس کی آبیاری بھی کرتے رہے۔ سیرالیون کے ابتدائی تکلیف دہ حالات، مقامی چیفس، حکومتی و انتظامی عہدیداران اور عیسائی مشن کی کھلم کھلا مخالفت کے باوجود احمدیوں کے عقائد کی وجہ سے ان پر ہونے والے ظلم و ستم کم کرنے کی عملاً مساعی کی۔ خلافتِ احمدیہ کا یہ شیدائی وجود بالآخر ۲۳؍مئی ۱۹۸۵ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے ان کا ذکرِ خیرکرتے ہوئے فرمایا کہ خطبہ ثانیہ پڑھنے سے پہلے یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں ہمارے سلسلہ کے ایک پرانے بزرگ جو سیرالیون جماعت کے ابتدائی مخلصین میں سے ہیں اور بہت خدمت کی انہوں نے جماعت کی وہاں۔ جماعت کو پھیلانے اور مستحکم کرنے میں بہت عظیم کردار ادا کیا ہے، الحاج مکرم علی روجرز صاحب (Ali Rogers)۔ وہ ۹۵ سال کی عمر میں ۲۳؍ مئی کو وفات پاگئے۔ مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ ایمان، تقویٰ اور اخلاص میں انہوں نے مسلسل ترقی کی ہے۔ ۱۹۳۹ء میں یہ احمدی ہوئے تھے اور ہر سلسلہ کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دی ہے۔ ایک دفعہ عیسائیوں نے پریس میں جماعت کا لٹریچر طبع کرنا بند کر دیا اور کوئی پر یس نہیں تھا سوائے عیسائی پریس کے اور جماعت کے پاس وسائل بھی نہیں تھے کہ وہ فوری طور پر کچھ کر سکیں۔ تو علی روجر صاحب نے فوراً بو (Bo) شہر میں ایک بہت ہی عظیم الشان وسیع وعریض مسجد کے لئے قطع پیش کیا پھر مالی قربانی کی اور کہا کہ یہاں اپنا پریس لگاؤ اور ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائی کس طرح روک سکتے ہیں۔ چنانچہ اس کے نتیجہ میں پھر جماعت احمدیہ کی اشاعت کا کام رکا نہیں۔ تو یہ عاشق تھے سلسلہ کے اور موصی بھی تھے اور بہت وسیع ان کا احسان کا معاملہ تھا ماحول میں۔ جب احمدی ہوئے تو ان کی دس بارہ بیویاں تھیں رواج کے مطابق۔ بلاتر دّد فوراً باقیوں کو بڑے احسان کے ساتھ رخصت کیا اور چار رکھیں اور کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میرے رواج پر اسلام کا رواج بہرحال فوقیت رکھتا ہے۔ تو بہت نیک صفت انسان تھے اور حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کا ان سے بہت پیار تھا۔ مبلغ نے لکھا مجھے بڑا صدمہ ہوا اس بات سے کہ بڑی حسرت تھی کہ میں چوتھے خلیفہ سے بھی مل لوں لیکن چونکہ بہت کمزور ہو چکے تھے اس لئے آنہیں سکے جلسہ سالانہ پر۔ ان کا غائب جناز ہ ہوگا، ان کو خاص طور پر اور ان کی اولادوں کو بھی نسلاً بعد نسل خدا تعالیٰ کے فضل کے لئے دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالی اس خاندان کو غیر معمولی برکتیں عطا فرمائے۔ ( خطبہ جمعہ ۷؍جون ۱۹۸۵ء، خطباتِ طاہر جلد ۴ صفحہ ۵۲۶ و ۵۲۷) تاثرات و تبصرہ جات ڈاکٹر چودھری امتیاز صاحب (واقفِ زندگی ڈاکٹر حال امریکہ) ہم انہیں جلسہ سالانہ پر دیکھا کرتے تھے اور ان کی قربانیوں کے متعلق سنا کرتے تھے۔ ان کی قربانیوں اور عطیات کا ذکر ہر کس و ناکس کی زبان پر ہوتا تھا۔ پا سعیدو بنگورا اور پا علی روجرز صاحب باہم بات کیا کرتے تھے کہ جو ان میں سے پہلے فوت ہوگاوہ مولانا نذیر احمد علی صاحب کے پہلو میں دفن ہوگا۔ تاہم پا سعیدو بنگورا صاحب کی وفات پہلے ہوگئی۔ اس پر اس حوالہ سے علی روجرز صاحب دوست کے بچھڑنے کے ساتھ مزید غم زدہ ہوئے کہ مولانا صاحب کے پہلو میں جگہ نہ مل سکے گی۔ جب قبر کھودنے کا عمل جاری تھا تو اس گڑھے سے پانی نکل آیا جس کے سبب پاسعیدو بنگورا کی تدفین کسی اور جگہ کرنی پڑی۔جب اس جگہ سے پانی نکلا تو علی روجرز صاحب نے خوشی سے اللہ اکبر کے نعرے لگائے کہ ان کی اپنے محبوب مبلغ کے ساتھ جگہ محفوظ ہے۔ اور بعد ازاں ان کی وفات پر ان کی خواہش کی تکمیل کی گئی۔ مکرم مبارک احمد طاہر صاحب سیکرٹری مجلس نصرت جہاں (سابق پرنسپل احمدیہ مسلم سکول روکوپر): ذاتی ملاقات تو نہیں رہی لیکن جلسے پر انہیں دیکھا کرتے تھے۔ ان کے متعلق معروف تھا کہ انہوں نے بڑی قربانی کی ہے۔ مسجد کی زمین دی ہے۔ پریس کے لیے بڑی قربانی کی ہے۔ مکرم شمشاد احمد ناصر صاحب مبلغ سلسلہ امریکہ(سابق مبلغ مگبورکا، سیرالیون) بتاتے ہیں کہ ’’مکرم الحاج پا علی روجرز صاحب واقعی درویش صفت انسان تھے۔ہمیشہ سفید جبہ زیبِ تن کیے رکھتے۔ عبادات، نیکی، تقویٰ، پرہیزگاری میں بڑھ کر تھے۔ مالی قربانی کی ایک زندہ مثال تھے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے دورہ سے قبل ان ایام میں چندہ کا نظام ایسا تھا کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر نقدی کے بجائے اجناس پیش کرنے کا وعدہ کیا جاتا تھا۔ اور یہاں کی روایت کے مطابق پہلے معروف احباب سٹیج پر آکر افتتاحی کلمات کے ساتھ اپنے وعدے کا اعلان کرتے جو دیگر احباب کے لیے باعث تحریک ہوتا۔ ان مالی قربانیوں میں علی روجرز صاحب ہمیشہ صفِ اول میں رہتے۔‘‘ اس بارہ میں الفضل میں لکھا ہے کہ جلسے کے آخر پر حاجی روجرز صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ بو نے احباِب جماعت سے مالی قربانی کی اپیل کی جس کے نتیجہ میں اسی وقت یک صد پائونڈ سے زائد کی رقم جمع ہوئی۔ (الفضل ۹؍فروری ۱۹۶۵ء صفحہ ۴) مکرم حنیف محمود صاحب نائب مدیر الفضل انٹرنیشنل (سابق مبلغ بو، سیرالیون): مجھ سے ان کا ایک گہرا تعلق تھا۔ پاس آ کر بیٹھتے اور مالی قربانی اور ابتدائی مبلغین کی مساعی کا بتاتے۔ خلیفة المسیح کی باتیں کرتے۔ ان کا مسجد کے قریب ہی گھر تھا وہاں سے آہستہ آہستہ عصا تھامے آتے تھے۔ فجر کی نماز سے پہلے مسجد پہنچ جاتے۔ میں ہمیشہ انہیں پہلے وہاں پاتا۔ تہجد میں گڑگڑا کر دعائیں کرتے کہ مشن ہاؤس میں آواز آتی۔ زیادہ تیز نہیں چل سکتے تھے آہستہ آہستہ چل کر آتے اور پانچوں وقت کی نماز باقاعدگی سے مسجد میں ادا کرتے۔ حضرت مصلح موعودؓ سے ایسی محبت تھی کہ پا علی روجرز کی زبان سے میں نے سنا کہ یہ وہ عظیم شخص ہے جس نے ہمیں انسانیت سکھائی اور انسان بنایا۔ حالانکہ ان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ خاکسار کا تبادلہ بو سے کینیما ہوا۔ تو میرے پاس آئے اور کہنے لگے مولوی جا رہے ہو۔ میں نے کہا کہ کینیما کونسا دور ہے۔ آپ کینیما آ جائیں یا میں بو آ جایا کروں گا۔ توپہلے کینیما اور پھر ربوہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے: مولوی اب یہاں نہیں بلکہ وہاں۔ چونکہ موصی تھے۔ تو مرکز اور بہشتی مقبرہ کی طرف اشارہ تھا۔آپ مسجد آتے ہوئے ایک بیکری سے فُلا بریڈ لے آتے اور میرے ساتھ یہ ڈیل تھی کہ مولوی بریڈ میری اور سالن تیرا۔ اور اس طرح ہم اکٹھا کھانا کھاتے۔ اور ان کا مبلغین کو محبت اور عزت دینے اور برکت لینے کا طریق تھا۔ میں شروع میں اکیلا آیا تھا حسبِ دستور فیملی بعد میں آئی۔ ایک صبح کہتے کہ میں نے بہت غور کیا اور سوچا کہ اس وقت ۹مرکزی مبلغ ہیں۔ اور تم سب سے چھوٹے ہو اور فیملی کے بغیر کیسے گزارا ہو رہا ہوگا۔ پھر انہوں نے دعا کی اور بہت جلد ہی میری فیملی سیرالیون آ گئی۔ مجھے مولوی کے لفظ سے کچھ نامانوسیت تھی۔ میں نے انہیں کہا کہ مجھے مولوی نہ کہا کریں۔ تو انہوں نے دیگر احمدی بزرگان کے ساتھ مشور ہ کیا اور سب کو لے کے آئے۔ اور کہا کہ ہم یہاں اپنے امام کو الفا کہتے ہیں۔ لیکن احمدی امام اور مبلغ کو مولوی کہتے ہیں تو ہمیں کہنے دیں۔ یہ طریق بھی تھا کہ عموماً درس یا خطبہ کے بعد جب تک امام السلام علیکم نہیں کہتا تھا یہ اور دیگر بزرگان اپنی جگہ نہیں چھوڑتے تھے۔ بلکہ دوسروں کو بھی کہتے تھے کہ ابھی امام نے سلام نہیں کیا تو اس کو پہلے سلام کر کے جانا معیوب بات ہے۔ ہم نے انہیں بڑھ چڑھ کر قربانی کرتے ہوئے دیکھا ہے جو نئی نسل کے لیے ایک نیک نمونہ ہے۔اثر و رسوخ ذاتی بھی تھا اور ان کی اولاد نے بھی بڑا مقام حاصل کیا اس وجہ سے بھی ان کا علاقے میں اثر و رسوخ بڑھ گیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس بابرکت وجود سے رحم و مغفرت کا سلوک فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور وہ اس سرزمین میں مسیح محمدی کے ایسے اور فدائی، دیوانے عطا کرتا چلا جائے۔ (اس مضمون کی تیاری میں روح پرور یادیں، تابعین اصحابِ احمد جلد چہارم، الفضل قادیان و ربوہ کے علاوہ مولانا سعید الرحمٰن صاحب سابق امیر و مبلغ انچارج سیرالیون، مکرم ٹومی کالون صاحب صدر PAAMA، مکرم عقیل احمد صاحب ریجنل مبلغ بو، مکرم شمشاد احمد ناصر صاحب امریکہ، ڈاکٹر چودھری امتیاز احمد صاحب امریکہ، مکرم مبارک احمد طاہر صاحب سیکرٹری مجلس نصرت جہاں، محترم حنیف محمود صاحب نائب مدیر روزنامہ الفضل انٹرنیشنل سے رابطہ کیا گیا) ٭…٭…٭