https://youtu.be/Hk-ppMGmg5g (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۷؍جنوری۲۰۱۷ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو سب جھگڑوں کو ختم کرنے آئے تھے اس لئے آپؑ نے فرمایا کہ میں حَکَم اور عَدل ہوں مجھے مانو اور اس کے حل بھی پیش فرمائے۔ جو معمولی فرق تھے کہ اگر کوئی اِس طرح بھی کر لے یا اُس طرح بھی کر لے تو ان کو آپ نے جائز بھی قرار دیا۔ چنانچہ رفع یدین کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ’’اس میں چنداں حرج نہیں معلوم ہوتا‘‘ (کوئی حرج نہیں) ’’خواہ کوئی کرے یا نہ کرے۔ احادیث میں بھی اس کا ذکر دونوں طرح پر ہے۔ اور وہابیوں اور سنّیوں کے طریق عمل سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ کیونکہ ایک تو رفع یدین کرتے ہیں اور ایک نہیں کرتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وقت رفع یدین کیا اور بعد ازاں ترک کر دیا۔‘‘ (البدر 3 اپریل 1903ء جلد 2 نمبر 11 صفحہ 85)۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعامل نہیں رہا۔ لیکن اگر ایک وقت میں کیا اور اس کو بعض لوگ مانتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ اس میں لڑنے کی ضرورت کوئی نہیں۔ لیکن آپ نے اسی تعامل کو جاری رکھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ عمل کیا۔ اس بارے میں ایک روایت یہ بھی ملتی ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مسئلہ دریافت کیا کہ حضور فاتحہ خلف الامام اور رفع یدین اور آمین کے متعلق کیا حکم ہے؟ تو آپؑ نے فرمایا کہ یہ طریق حدیثوں سے ثابت ہے اور ضرور کرنا چاہئے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اس پر فرماتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ فاتحہ خلف امام والی بات تو حضرت صاحب سے متواتر ثابت ہے۔ یعنی نماز باجماعت ہو رہی ہو تو امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنا مگر رفع یدین اور آمین بالجہر والی بات کے متعلق مَیں نہیں سمجھتا کہ حضرت صاحب نے ایسافرمایا ہو۔ کیونکہ حضور اسے ضروری سمجھتے تو لازم تھا کہ خود بھی اس پر ہمیشہ عمل کرتے مگر حضور کا دوامی عمل ثابت نہیں۔ (یعنی باقاعدگی سے آپ نے اس پر عمل نہیں کیا) بلکہ حضور کا عام عمل بھی اس کے خلاف تھا۔ آپ لکھتے ہیں کہ مَیں سمجھتا ہوں کہ جب حافظ صاحب نے حضور سے سوال کیا تو چونکہ سوال میں کئی باتیں تھیں حضور نے جواب میں صرف پہلی بات کو مدّنظر رکھ کر جواب دیا۔ یعنی حضور کے جواب میں صرف فاتحہ خلف امام ہے۔ واللہ اعلم۔ (سیرت المہدی جلد اول حصہ سوم صفحہ ۵۶۴ روایت نمبر ۵۹۲) اس کی تصدیق پھر آگے ایک اور روایت سے بھی ہوتی ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھنا تو ٹھیک ہے لیکن باقی نہیں۔ صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ہی لکھتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ اوائل میں مَیں سخت غیر مقلّد تھا اور رفع یدین اور آمین بالجہر کا بہت پابند تھا۔ (یعنی اونچی آواز میں آمین کہنا۔) اور حضرت صاحب کی ملاقات کے بعد بھی میں نے یہ طریق مدت تک جاری رکھا۔ عرصہ کے بعد ایک دفعہ جب میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھی) تو نماز کے بعد آپ نے مجھ سے مسکرا کر فرمایا کہ میاں عبداللہ اب تو اس سنّت پر بہت عمل ہو چکا ہے اور اشارہ رفع یدین کی طرف تھا۔ (یعنی ہر تکبیر پر ہاتھ اٹھانا۔) میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے مَیں نے رفع یدین کرنا ترک کر دیا بلکہ آمین بالجہر کہنا بھی چھوڑ دیا اور میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب کو کبھی رفع یدین کرتے یا آمین بالجہر کہتے نہیں سنا اور نہ کبھی بسم اللہ بالجہر پڑھتے سنا۔ (مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ) خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق عمل وہی تھا جو میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا لیکن ہم احمدیوں میں حضرت صاحب کے زمانے میں بھی(حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی) اور آپ کے بعد بھی یہ طریق عمل رہا ہے(آج تک بھی یہ ہے) کہ ان باتوں میں کوئی ایک دوسرے پر گرفت نہیں کرتا۔ بعض آمین بالجہر کرتے ہیں۔ (اونچی آواز میں کہہ دیتے ہیں۔) بعض نہیں کہتے۔ بعض رفع یدین کرتے ہیں۔ اکثر نہیں کرتے۔ (اور اب تو بالکل نہیں کیا جاتا سوائے بعض کے جو بالکل نئے آنے والے ہیں اور اس کے عادی ہیں وہ بھی آہستہ آہستہ چھوڑ دیتے ہیں )۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ بعض بسم اللہ بالجہر پڑھتے ہیں اکثر نہیں پڑھتے۔ اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ دراصل یہ تمام طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں مگر جس طریق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے عمل کیا وہ وہی طریق ہے جس پر حضرت صاحب کا عمل تھا۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عمل تھا۔) (سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ ۱۴۷-۱۴۸ روایت نمبر ۱۵۴) پھر ایک سوال ہوتا ہے کہ نماز میں انسان قیام میں ہاتھ باندھ کر جب کھڑا ہوتا ہے تو اُس وقت ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کے پاس کسی کا خط آیا (کیونکہ بعض لوگ ناف سے نیچے ہاتھ باندھتے ہیں، بعض درمیان میں رکھتے ہیں، بعض بہت زیادہ اوپر رکھتے ہیں تو اس بارے میں حضرت خلیفہ اول کے پاس ایک خط آیا کہ جب انسان نماز کے لئے نیت باندھ کے کھڑا ہو تو اس وقت ہاتھ کس طرح باندھنے ہیں۔ خط آیا) کہ کیا نماز میں ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث بھی ملتی ہے؟ حضرت مولوی صاحب نے یہ خط حضرت صاحب کے سامنے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے) پیش کیا اور عرض کیا کہ اس بارہ میں جو حدیثیں ملتی ہیں وہ جرح سے خالی نہیں۔ (ان پر بحث ہوئی ہوئی ہے۔ کوئی ان کو صحیح کہتا ہے کوئی غلط کہتا ہے۔) حضرت صاحب نے فرمایا کہ مولوی صاحب آپ تلاش کریں۔ ضرور مل جائے گی۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ) کیونکہ باوجود اس کے کہ شروع عمر میں بھی ہمارے ارد گرد سب حنفی تھے مجھے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا کبھی پسندنہیں ہوا۔ (اپنے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے کبھی پسندنہیں ہوا کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوں ) بلکہ ہمیشہ طبیعت کا میلان ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کی طرف رہا ہے۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ) اور ہم نے بارہا تجربہ کیا ہے کہ جس بات کی طرف ہماری طبیعت کا میلان ہو وہ تلاش کرنے سے ضرور حدیث میں نکل آتی ہے۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ) خواہ ہم کو پہلے اس کا علم نہ ہو۔ پس (آپ نے حضرت خلیفہ اول کو فرمایا کہ) آپ تلاش کریں ضرور مل جائے گی۔ (کیونکہ میرا میلان جس طرف ہے عموماً میں نے دیکھا ہے کہ حدیثیں اس بارے میں مل جاتی ہیں۔) مولوی سرور شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس پر حضرت مولوی صاحب گئے اور کوئی آدھا گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ خوش خوش ایک کتاب ہاتھ میں لئے آئے اور حضرت صاحب کو اطلاع دی کہ حضور حدیث مل گئی ہے اور حدیث بھی ایسی ہے کہ جو علی شرط الشیخین ہے (یعنی اس پہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر دونوں کا صاد ہے اور یہ امام بخاری اور مسلم کی شرط پہ ہے) جس پر کوئی جرح نہیں ہے۔ (اس پہ کوئی بحث نہیں ہے۔) پھر کہا کہ یہ حضور ہی کے ارشاد کی برکت ہے۔ (یعنی یہی حدیث ملی کہ ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعامل زیادہ تھا۔) (سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ ۹۲ روایت نمبر ۱۱۵) پھر رکوع و سجود میں قرآنی دعا کرنے کے بارے میں سوال ہوا۔ مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی نے سوال کیاکہ رکوع و سجود میں قرآنی آیات یا دعا کا پڑھنا کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ’’سجدہ اور رکوع فروتنی کا وقت ہے (عاجزی کا وقت ہے) اور خدا تعالیٰ کا کلام عظمت چاہتا ہے۔ ماسوا اس کے حدیثوں سے کہیں ثابت نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رکوع یا سجود میں کوئی قرآنی دعا پڑھی ہو۔ (الحکم ۲۴ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱ جلد ۷ نمبر۱۸) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: عزیز خدا کی رحمت اور بخشش