(منظوم کلام حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اپنے کرم سے بخش دے میرے خدا مجھےبیمارِ عشق ہوں ترا دے تو شفا مجھے جب تک کہ دم میں دم ہے اسی دین پر رہوںاسلام پر ہی آئے جب آئے قضا مجھے بےکس نواز ذات ہے تیری ہی اے خداآتا نظر نہیں کوئی تیرے سوا مجھے منجملہ تیرے فضل و کرم کے ہے یہ بھی ایکعیسیٰ مسیحؑ سا ہے دیا رہنما مجھے تیری رضا کا ہوں میں طلبگار ہر گھڑیگر یہ ملے تو جانوں کہ سب کچھ ملا مجھے ہاں ہاں نگاہِ رحم ذرا اس طرف بھی ہوبحر گنہ میں ڈوب رہا ہوں بچا مجھے موسیٰؑ کے ساتھ تیری رہیں لن ترانیاںزنہار میں نہ مانوں گا چہرہ دکھا مجھے احساں نہ تیرا بھولوں گا تازیست اے مسیحؑپہنچا دے گر تُو یار کے در پر ذرا مجھے سجدہ کناں ہوں در پہ ترے اے مرے خدااٹھوں گا جب اٹھائے گی یاں سے قضا مجھے ڈوبا ہوں بحرِ عشقِ الٰہی میں شادؔ میںکیا دے گا خاک فائدہ آبِ بقا مجھے (یہ نظم ۱۹۰۳ء کی ہے جب آپ شاد تخلص رکھتے تھے۔)(کلام محمود صفحہ۱) مزید پڑھیں: نہیں ممکن کہ میں زندہ رہوں تم سے جدا ہو کر