خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍ جون 2024ء

غزوۂ بنو نضیر کے اسباب اور حالات و واقعات کا پُر معارف بیان نیز پاکستانی احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک

’’اس غزوہ کا سبب بیان کرتے ہوئے اربابِ حدیث وسیر مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں اور اس اختلاف کی وجہ سے اس غزوہ کے زمانہ کے متعلق بھی اختلاف پیداہوگیا ہے‘‘(حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ)

حُیی بن اخطب نے کہا: اے یہود کی جماعت! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ تمہارے پاس آئے ہیں۔ ان کی تعداد دس سے بھی کم ہے۔ اس گھر کے اوپر سے بڑا پتھر گرا کر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کر دو۔ تمہیں اس سے بہتر موقع دوبارہ نہیں ملے گا۔ اگر انہیں قتل کر دیا تو ان کے ساتھی بکھر جائیں گے۔ مکہ سے آئے ہوئے ان کے ساتھی واپس مکہ چلے جائیں گے اور یہاں صرف اوس اور خزرج رہ جائیں گے جو تمہارے حلیف ہیں اس لیے تم جو کرنا چاہتے ہو ابھی کر ڈالو

اللہ تعالیٰ جلد پاکستانی احمدیوں کو بھی ان ظالموں سے نجات دلائے اور وہاں بھی ہمارے حالات بہتر ہوں۔ ذرا ذرا سی بات پر مقدمے اور تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے

مکرم غلام سرور صاحب شہيد ابن مکرم بشير احمد صاحب آف سعداللہ پور منڈي بہاؤالدين، مکرم راحت احمد باجوہ صاحب شہيد ابن مکرم مشتاق احمد باجوہ صاحب آف سعداللہ پور منڈي بہاؤالدين اورمکرم ملک مظفر خان جوئيہ صاحب کینیڈا کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

اللہ تعالیٰ ان شہداء کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، رحمت اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور جملہ پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ انہیں اپنی حفظ و امان میں رکھے

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 14؍ جون 2024ء بمطابق 14؍ احسان 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج

غزوۂ بنونضیر

کا کچھ ذکر کروں گا۔

قبیلہ بنونضیر کا تعارف

یہ ہے کہ بنونضیر مدینہ کے یہود کا ایک خاندان تھا۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ بنونضیر خیبر کے یہود کا ایک قبیلہ تھا اور ان کی بستی کو زَہرہ کہا جاتا تھا۔

(سیرت الحلبیہ جلد 2صفحہ 356 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اس وقت بنونضیر کا سردار حُیَّی بن اَخْطَب تھا۔ اس کے آباؤ اجداد میں چھٹی نسل میں نَضِیر بنِ نَحَّام کا نام آتا ہے جس کے نام سے یہ قبیلہ بنونضیر کہلاتا ہے۔ امّ المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنونضیر کے اسی سردار حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں۔ تاریخ کی کتب میں لکھا ہے کہ حیی بن اخطب کا سلسلہ نسب حضرت موسیٰؑ کے بھائی حضرت ہارونؑ سے جا ملتا ہے۔ حیی کے نسب میں کئی اشخاص انبیاء کے شرف سے نوازے گئے جن پر اسے فخر تھا اور اسی گھمنڈ میں یہ کہا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہم پر اس دنیا میں مہربان ہے اور آخرت میں بھی وہ ہم پر شفقت اور مہربانی فرمائے گا۔ وہ ہمیں گناہوں کی وجہ سے چند دن سزا دے گا بالآخر جنت ہی ہمارا ٹھکانہ ہو گا۔ اسی نسبی فخر اور تکبر کے باعث حیی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے روگردانی کی تھی۔

قبیلہ بنونضیر محل وقوع کے اعتبار سے مسجد قبا سے شمال مشرق کی طرف آدھا میل دُور تھا اور وسطی مدینہ سے اس کی آبادی پہلے آتی تھی اور مسجد قبا اس سے تھوڑے فاصلے پر آگے جنوبی جانب واقع تھی۔

(دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہﷺ جلد 7صفحہ 171-172 مطبوعہ بزم اقبال لاہور 2022ء)

غزوۂ بنونضیر ربیع الاول چار ہجری میں پیش آیا۔

ایک قول یہ ہے کہ غزوۂ اُحد سے پہلے کا واقعہ ہے اور امام بخاری کا قول بھی یہی ہے۔ البتہ امام بخاری نے اسی جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ ابنِ اسحاق کے نزدیک یہ جنگ اُحد اور بئر معونہ کے بعد ہوا تھا۔ البتہ علامہ ابنِ کثیر اور ان کے علاوہ اکثر مؤرخین اور سیرت نگاروں نے کہا ہے کہ غزوۂ بنونضیر غزوہ اُحد کے بعد ہی ہوا تھا۔

(سیرت الحلبیہ جلد 2صفحہ 357 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان )

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب حدیث بنی النضیر … الخ)

غزوہ بنونضیرکے اسباب

کے متعلق بیان ہوا ہے کہ قریش مکہ نے غزوۂ بدر سے پہلے عبداللہ بن ابی بن سلول اور اوس اور خزرج کے دیگر بت پرستوں کو لکھا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تھے کہ تم نے ہمارے ساتھی کو پناہ دی ہے۔ مدینہ میں تمہاری تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا ان کے ساتھ قتال کرو یا انہیں اپنے شہر سے نکال دو یاپھر ہم عرب کو اکٹھا کر کے تم پر حملہ آور ہو جائیں گے۔ تمہارے جنگجوؤں کے ساتھ جنگ کریں گے۔ تمہاری عورتوں اور بچوں کو تہ تیغ کر دیں گے۔ کفار ِمکہ نے یہ خط مدینہ کے سرداروں کو لکھا۔ جب اِبنِ اُبَی اور دیگر بت پرستوں کو یہ خط ملا تو انہوں نے ایک دوسرے کی طرف پیغام بھیجا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ساتھ جنگ کا پختہ ارادہ کر لیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو آپؐ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ انہیں ملے یعنی مدینہ کے سرداروں کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریش نے تمہیں سخت دھمکی آمیز خط لکھا ہے۔یہ خط تمہیں کسی فریب میں مبتلا نہ کر دے کہ تم خود کو مکرو فریب میں مبتلا کر دو اور تم اپنے ہی بھائیوں اور بیٹوں سے لڑنے لگو۔ جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سنی تو انہیں یہ بات سمجھ آ گئی اور انہوں نے اپنے ارادےملتوی کر دیے اور منتشر ہو گئے اور یوں قریشِ مکہ کی یہ دھمکی کارگر نہ ہوئی۔

پھر قریش نے غزوۂ بدر کے بعد یہود کی طرف ایک خط لکھا کہ تمہارے پاس اسلحہ ہے اور تم قلعوں کے مالک ہو۔ یا تو تم ہمارے ساتھی کے ساتھ قتال کرو وگرنہ ہم تم پر چڑھائی کریں گے اور تمہارے مردوں کو قتل کر دیں گے اور تمہاری عورتوں کو اپنی باندیاں بنا لیں گے۔ جب یہ خط یہود تک پہنچا تو بنونضیر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دھوکا کرنے پر اتفاق کر لیا کیونکہ یہود کے قبائل تو پہلے ہی چاہتے تھے کہ کوئی موقع ملے اور مسلمانوں کے تسلّط اور طاقت کو جتنا جلد ممکن ہو ختم کیا جا سکے۔ اب انہوں نے سوچا کہ کوئی ایسا منصوبہ کیا جائے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے آپ کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ تیس صحابہ کے ساتھ تشریف لائیں۔ ہمارے تیس علماء بھی آپ کے پاس حاضرہوں گے یہاں تک کہ ہم ایسی جگہ پر ملیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان میں ہو۔ یعنی کوئی ایسی جگہ چن لیں جو مشترکہ ہے۔ وہ یعنی ان کے لوگ آپ کا کلام سنیں گے۔ اگر انہوں نے یعنی ان یہودی علماء نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کر دی اور آپ پر ایمان لے آئے تو ہم بھی آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ دوسرے روز آپؐ تیس صحابہ کے ہمراہ ان کی طرف نکلے۔ تیس یہودی علماء بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے۔ جب یہود کھلے میدان میں نکلے تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا۔ تم ان پر کیسے حملہ آور ہو گے حالانکہ آپ کے ہمراہ تیس ساتھی ہیں۔ ان تیس ساتھیوں کے ساتھ تو حملہ آور ہونا مشکل ہے جو ایسے ساتھی ہیں جو آپؐ پر جان وار کرنے والے ہیں۔ اس پر یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ پیغام بھیجا کہ ہم ساٹھ افراد باہم کیسے افہام و تفہیم کریں گے۔ آپ ایسا کریں کہ تین ساتھیوں کو لے کر آئیں اور ہم بھی اپنے تین علماء لے آتے ہیں وہ آپ کی بات چیت سنیں گے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین صحابہ کے ساتھ آنے کی بات مان لی۔ تین یہودی علماء بھی نکلے۔ ان یہودیوں کے پاس خنجر تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جانے کے لیے تیار تھے اور راستے میں ہی تھے کہ بنونضیر کی ایک خیر خواہ عورت نے ایک انصاری مسلمان کو بنونضیر کی اس ساری منصوبہ بندی کا بتا دیاجو انہوں نے آپ کو دھوکا دینے کا منصوبہ کیا تھا۔ اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہود کے اس ارادے سے آگاہ کر دیا اور قبل اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہود کے پاس پہنچتے آپ مدینہ واپس تشریف لے آئے۔

(سبل الھدٰی والرشاد جلد 4 صفحہ317 دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1993ء)

اس غزوہ کا ایک اَور سبب

بیان کرتے ہوئے ایک مصنف نے لکھا ہے کہ بنونضیر نے خفیہ طور پر قریش کو پیغام بھیجا اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے پر اکسایا بلکہ انہیں مسلمانوں کی چند دفاعی کمزوریاں بھی بتلائی تھیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب قریش مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے اُحد کے پاس خیمہ زن ہوئے تھے۔ یہ سبب صرف موسیٰ بن عُقبہ نے ذکر کیا ہے۔ بعض روایات کے مطابق جنگِ اُحد سے پہلے یہود نے بھی قریشِ مکہ کو خوب بھڑکایا تھا جس کے نتیجہ میں جنگِ اُحد برپا ہوئی تھی۔

(دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہﷺ جلد 7صفحہ 175-176 مطبوعہ بزم اقبال لاہور 2022ء)

اس غزوہ کا ایک اہم اور فوری سبب

یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ بئر معونہ سے واپسی پر جب حضرت عَمرو بن اُمَیّہ ضَمْرِیؓنے بنو عامر کے دو افراد کو قتل کیا تھا جن کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ تھا اور اب ان کی دیّت کا معاملہ تھا۔ اس سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنونضیر کے پاس تشریف لے گئے تھے۔ (سیرت الحلبیہ جلد 2صفحہ 357 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود سے جو معاہدہ کیا تھا اس کی ایک شق یہ بھی تھی کہ أَنْ يُعَاوِنُوْهُ فِي الدِّيَاتِ یعنی وہ لوگ دیت کے معاملات میں مسلمانوں سے تعاون کریں گے۔

(دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہﷺ جلد 7صفحہ172 مطبوعہ بزم اقبال لاہور 2022ء)

اس واقعہ کی تفصیل جیسا کہ پہلے بئر معونہ کی تفصیل میں بھی بیان ہو چکی ہے یہ ہے کہ حضرت عَمرو بن اُمَیّہ ضَمْرِیؓ بئر معونہ سے واپس مدینہ تشریف لا رہے تھے۔ جب قَنَاۃ مقام پر پہنچے۔ قَناۃ مدینہ اور اُحد کے درمیان مدینہ کی تین مشہور وادیوں میں سے ایک وادی ہے جہاں کھیتی باڑی ہوتی تھی، تو بنو عامر میں سے دو افراد ان کو ملے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ معاہدہ کر رکھا تھا۔ حضرت عمروؓ نےان سے ان کا نسب پوچھا تو ان دونوں نے اپنا نسب بتایا۔ یہ دونوں افراد ان کے ساتھ ہی رہے۔ پھر جب وہ دونوں سو گئے تو حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ نے ان پر حملہ کیا اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پھر جلد ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے بہت برا کیا۔ ان کا ہمارے ساتھ معاہدہ اور امان تھی۔ حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ نے عرض کیا مجھے اس معاہدے کا علم نہ تھا۔ میں انہیں مشرک سمجھتا تھا۔ ان کی قوم نے ہمارے ساتھ دغا کیا تھا۔ حضرت عمروؓ ان کا سامان اور کپڑے بھی ساتھ لے آئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں، ان کے لواحقین کو ان کا سامان اور کپڑے واپس کرنے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چیزیں ان کی دیت کے ساتھ بھیج دیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہفتہ کے روز بنونضیر کی طرف تشریف لے گئے۔ مسجد قبا میں نماز ادا فرمائی۔ مہاجرین اور انصار میں سے بعض صحابہ کرامؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنونضیر کے ہاں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ دس سے بھی کم صحابہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی محفلوں میں بیٹھے ہوئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے تا کہ ان کے ساتھ بات چیت کریں کہ وہ ان دو آدمیوں کی دیت ادا کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کریں جنہیں حضرت عمروؓ نے قتل کیا تھا۔

(سبل الھدٰی والرشاد جلد 4 صفحہ318 دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1993ء)

(فرہنگِ سیرت صفحہ 239 مطبوعہ زوار اکیڈمی کراچی)

اس غزوے کے اسباب کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی لکھا ہے جس سے کچھ اَور وضاحت ہوتی ہے کہ

’’اس غزوہ کا سبب بیان کرتے ہوئے اربابِ حدیث وسیر مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں اوراس اختلاف کی وجہ سے اس غزوہ کے زمانہ کے متعلق بھی اختلاف پیداہوگیا ہے۔

حضرت میاں صاحب لکھتے ہیں کہ ابنِ اسحاق اورابن سعد جن کی اتباع میں نےاس جگہ بلا کسی خاص تحقیق کے اختیار کی ہے۔ غزوہ بنونضیر کو غزوہ اُحد اورواقعہ بئر معونہ کے بعد بیان کرتے ہیں اوراس کا سبب یہ لکھتے ہیں کہ عَمرو بن اُمَیّہ ضَمْرِی جنہیں کفار نے بئرمعونہ کے موقعہ پرقید کرکے چھوڑ دیا تھا۔ وہ جب واپس مدینہ کی طرف آرہے تھے توانہیں راستہ میں قبیلہ بنو عامر کے دو آدمی ملے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کرچکے تھے۔ چونکہ عمرو کو اس عہدوپیمان کا علم نہیں تھا اس لئے اس نے موقعہ پاکر ان دوآدمیوں کوشہداء بئر معونہ کے بدلے میں قتل کردیا جن کے قتل کا باعث قبیلہ بنوعامر کا ایک رئیس عامر بن طفیل ہوا تھا۔ گو …خود قبیلہ بنو عامر کے لوگ اس قتل وغارت سے دست کش رہے تھے۔‘‘ انہوں نے جنگ نہیں کی تھی لیکن بہرحال ان کو یہ تھا کہ اس نے دھوکا کیا ہے اس لئے انہوں نے سمجھا کہ یہ ہمارے دشمن ہیں اور قتل کر دیا۔ ’’جب عمرو بن امیہ مدینہ پہنچے توانہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سارا ماجراعرض کیا اور ان دوآدمیوں کے قتل کا واقعہ بھی سنایا۔ آپؐ کوجب ان دوآدمیوں کے قتل کی اطلاع ہوئی تو آپؐ عمرو بن امیہ کے اس فعل پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ وہ توہمارے معاہد تھے اور آپؐ نے فوراً ان ہر دو مقتولین کا خون بہا ان کے ورثاء کو بھجوا دیا لیکن چونکہ قبیلہ بنوعامر کے لوگ بنونضیر کے بھی حلیف تھے اور بنونضیر مسلمانوں کے حلیف تھے اس لئے معاہدہ کی رو سے اس خون بہا کا بار حصہ رسدی بنونضیر پر بھی پڑتا تھا۔‘‘ کیونکہ ان کا بنونضیر کے ساتھ آپس میں معاہدہ تھا اور مسلمانوں کے ساتھ بھی تھا تو انہوں نے بہرحال کچھ حصہ اس میں shareکرنا تھا۔ کچھ حصہ انہوں نے بھی دینا تھا ’’چنانچہ آپؐ‘‘ اس وجہ سے ’’اپنے چند صحابیوں کو ساتھ لے کر بنونضیر کی آبادی میں پہنچے اور ان سے یہ سارا واقعہ بیان کرکے خون بہا کا حصہ مانگا۔‘‘ کہ غلطی سے یہ اس طرح قتل کیا ہے اور اس کی دیت دینی چاہیے۔ ہم اپنا حصہ بھی دیتے ہیں اور تمہارا بھی ہمارے ساتھ معاہدہ ہے اس لیے تم بھی اپنا حصہ دو۔

پھر لکھتے ہیں کہ ’’…یہ وہ روایت ہے جس کی اکثر مؤرخین نے اتباع کی ہے۔ حتی کہ یہی روایت تاریخ میں عام طورپر شائع اور متعارف ہو گئی ہے، لیکن اس کے مقابل پرامام زُہری کی یہ روایت صحیح احادیث میں مروی ہوئی ہے کہ جنگِ بدر کے بعد مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ خاص طورپر کس سال اورکس ماہ میں مکہ کے رؤساء نے بنونضیر کویہ خط لکھا تھا کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اورمسلمانوں کے خلاف جنگ کرو ورنہ ہم تمہارے خلاف جنگ کریں گے۔ اس پر بنونضیر نے باہم مشورہ کرکے یہ فیصلہ کیا کہ کسی حکمتِ عملی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیا جائے اوراس کے لئے انہوں نے یہ تجویز کی کہ آپؐ کو کسی بہانہ سے اپنے پاس بلائیں اوروہاں موقعہ پاکر آپؐ کو قتل کر دیں۔ چنانچہ انہوں نے آپؐ کو کہلا بھیجا کہ ہم آپؐ کے ساتھ اپنے علماء کامذہبی تبادلہ خیالات کروانا چاہتے ہیں۔ اگر ہم پر آپؐ کی صداقت ظاہر ہوگئی توہم آپؐ پر ایمان لے آئیں گے۔ پس آپ مہربانی کرکے اپنے کوئی سے تیس اصحاب کو ساتھ لے کر تشریف لے آئیں۔ ہماری طرف سے بھی تیس علما ہوں گے اورپھر باہم تبادلہ خیالات ہو جائے گا۔ ایک طرف تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کویہ پیغام بھیجا اوردوسری طرف یہ تجویز پختہ کرکے اس کے مطابق پوری پوری تیاری کرلی کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو یہی یہودی ’’علماء‘‘ جن کے پاس خنجریں پوشیدہ ہوں موقعہ پاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیں۔ مگر

قبیلہ بنونضیر کی ایک عورت نے ایک انصاری شخص کو جو رشتہ میں اس کا بھائی لگتا تھا اپنے قبیلہ والوں کے اس بدارادے سے بروقت اطلاع دے دی

اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو ابھی گھر سے نکلے ہی تھے یہ اطلاع پاکر واپس تشریف لے آئے اور فوراً تیاری کا حکم دیا اور صحابہ کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر بنونضیر کے قلعوں کی طرف روانہ ہو گئے اور جاتے ہی ان کا محاصرہ کر لیا اور پھر ان کے رؤساء کو پیغام بھیجا کہ جو حالات ظاہر ہوئے ہیں ان کے ہوتے ہوئے میں تمہیں مدینہ میں رہنے نہیں دے سکتا۔جب تک کہ تم ازسرنومیرے ساتھ معاہدہ کرکے مجھے یقین نہ دلاؤ کہ آئندہ تم بدعہدی اور غداری نہیں کرو گے۔ مگر یہود نے معاہدہ کرنے سے صاف انکار کر دیا اور اس طرح جنگ کی ابتداء ہو گئی اور بنونضیر نہایت متمردانہ طریق پرقلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے۔‘‘ یعنی بڑی سرکشی دکھاتے ہوئے اور تکبر دکھاتے ہوئے قلعہ بند ہو کے بیٹھ گئے کہ ہمارے پاس طاقت ہے۔ ’’دوسرے دن آپؐ کو یہ اطلاع ملی یا آپؐ نے قرائن سے خود معلوم کر لیا کہ یہود کا دوسرا قبیلہ بنو قریظہ بھی کچھ بگڑ بیٹھا ہے۔ چنانچہ آپؐ صحابہ کے ایک دستہ کوساتھ لے کر بنو قریظہ کے قلعوں کی طرف روانہ ہوئے اوران کا محاصرہ کر لیا۔ بنوقریظہ نے جب دیکھا کہ راز کھل گیا ہے تووہ ڈر گئے اور معافی کے خواستگار ہو کر از سرنوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ امن وامان اور باہمی اعانت کامعاہدہ کر لیا۔ جس پر آپؐ نے ان کا محاصرہ اٹھا لیا اورپھر بنونضیر کے قلعوں کی طرف تشریف لے آئے لیکن بنونضیر بدستور اپنی ضد اور عداوت پراڑے رہے اورایک باقاعدہ جنگ کی صورت پیدا ہو گئی۔

یہ وہ دومختلف روایتیں ہیں جوغزوہ بنونضیر کے باعث کے متعلق بیان کی گئی ہیں اور گو تاریخی لحاظ سے مؤخرالذکر روایت زیادہ درست اورصحیح ہے اور دوسری احادیث میں بھی زیادہ تر اِسی روایت کی تائید پائی جاتی ہے لیکن چونکہ پہلی روایت کومؤرخین نے زیادہ کثرت کے ساتھ قبول کیا ہے اور بعض صحیح احادیث میں بھی اُس کی صحت کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ چنانچہ امام بخاری نے باوجود زُہری کے قول کوترجیح دینے کے قبیلہ عامر کے دو مقتولوں کی دیت کابھی ذکر کیا ہے۔ اس لئے ہماری رائے میں اگر دونوں روایتوں کو صحیح سمجھ کرملالیا جاوے توکوئی حرج لازم نہیں آتا۔ البتہ اس سے غزوہ کے زمانہ کے متعلق ان روایتوں میں سے کسی ایک روایت کو ترجیح دینی پڑے گی۔ کیونکہ زمانہ کے لحاظ سے ہر دو روایات کوصحیح تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنونضیر کی طرف سے مختلف مواقع پرمختلف اسباب جنگ کے پیدا ہوتے رہے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ڈھیل دیتے رہے اور درگزر سے کام فرمایا۔ لیکن جب آخری سبب بئر معونہ کے واقعہ کے بعد ہوا، تو آپؐ نے انہیں ان کی ساری کارروائیاں جتلا کران کے خلاف فوج کشی فرمائی۔ گویا یہ جتنے مختلف اسباب بیان ہوئے ہیں یہ سب اپنی اپنی جگہ درست تھے مگرآخری تحریکی سبب وہ تھا جو بنوعامر کے دو مقتولوں کی دیت کے مطالبہ کے وقت پیش آیا۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب۔ ‘‘ یہ سارا بیان جو میں نے کیا ہے یہ سیرت خاتم النبیینؐ میں سے لیا ہے۔

(سیرت خا تم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 522تا 525)

پھر لکھا ہے کہ

بنونضیر کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی ناپاک سازش

بھی تھی۔ یہ بھی ایک وجہ بنی تھی۔ اس بارے میں جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ دیت کے سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ بنونضیر کے ہاں تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہفتے کے دن نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد قبا میں نماز ادا کی۔ پھر حسبِ معاہدہ بنونضیرکے پاس جا کر دیت کا مطالبہ کیا۔

(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد7 صفحہ 38 مطبوعہ دار السلام ریاض 1434ھ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جن اصحاب کے ساتھ تشریف لے گئے ان کی تعداد دس سے کم تھی۔ اس روایت میں یہ لکھا ہے۔ ان میں حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ بھی تھے۔ حضرت زبیر ؓ، حضرت طلحہ ؓ، حضرت سعد بن معاذؓ ، حضرت اسید بن حضیرؓ اور حضرت سعد بن عبادہؓ کے نام بھی ملتے ہیں۔

(کتاب المغازی جلد1صفحہ309 دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پہنچ کر یہود سے دیت کی بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہاں ابوالقاسم۔ آپ پہلے کھاناکھا لیجئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کی طرف آتے ہیں۔ اسی طرح یہودیوں نے ظاہری طور پر تو بڑی خندہ پیشانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی لیکن درپردہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھروں کی ایک دیوار کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہود نے آپس میں مشورہ کیا اور کہنے لگے کہ انہیں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ختم کرنے کے لیے تمہیں اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا اس لیے بتاؤ کون ہے جو اس مکان کی چھت پر چڑھ کر دیوار پر سے ایک بڑا پتھر آپ کے اوپر گرا دے تا کہ ہمیں آپ سے نجات مل جائے۔

(سیرت الحلبیہ جلد 2صفحہ 357 دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان )

ایک اَور مصنف یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ان کے سردار

حُیَیّبن اَخْطَب نے کہا اے یہود کی جماعت! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ تمہارے پاس آئے ہیں۔ ان کی تعداد دس سے بھی کم ہے۔ اس گھر کے اوپر سے بڑا پتھر گرا کر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کر دو۔ تمہیں اس سے بہتر موقع دوبارہ نہیں ملے گا۔ اگر انہیں قتل کر دیا تو ان کے ساتھی بکھر جائیں گے۔ مکہ سے آئے ہوئے ان کے ساتھی واپس مکہ چلے جائیں گے اور یہاں صرف اوس اور خزرج رہ جائیں گے جو تمہارے حلیف ہیں اس لیے تم جو کرنا چاہتے ہو ابھی کر ڈالو۔

اس پر ایک بدبخت یہودی عمروبن جَحَّاش بولا: میں اس گھر پر چڑھ کر پتھر گرا کر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو نعوذ باللہ قتل کروں گا۔ جب یہ ساری مشاورت ہو رہی تھی اس وقت بنونضیر کے ایک سردار سَلَّام بن مِشْکَم نے کہا: اے یہود کی جماعت! تم بےشک ساری زندگی میری مخالفت کر لینا لیکن آج میری بات مان لو۔ اللہ کی قسم! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو تمہارے اس ارادے کی خبر کر دی جائے گی اور یہ ہمارے اور ان کے درمیان معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی۔لیکن یہود نے اس کی ایک نہ سنی اور اپنے عزم پر قائم رہے۔

(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد7 صفحہ 39-40 مطبوعہ دار السلام ریاض 1434ھ)

اور پھر جو اگلی کارروائی ہے کہ کیاکیاانہوں نے، کس طرح قتل کا ارادہ کیا اور کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بچایا اور ان کے منصوبوں کو ناکام بنایا۔ وہ مَیں ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بیان کروں گا

آخر پہ مَیں

پاکستان کے احمدیوں کے لیے بھی خاص طور پر دعا

کے لیے کہنا چاہتا ہوں۔ ان پر آج کل پھر سختیاں وارد کی جا رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد پاکستانی احمدیوں کو بھی ان ظالموں سے نجات دلائے اور وہاں بھی ہمارے حالات بہتر ہوں۔ ذرا ذرا سی بات پر مقدمے اور تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

جمعہ کے بعد میں

جنازے

بھی پڑھاؤں گا۔ اس میں پہلے ان کا ذکر کردوں۔

پہلا ذکر ہے

مکرم غلام سرور صاحب شہید ابن مکرم بشیر احمد صاحب

کا اور اس کے ساتھ ہی دوسرا ذکر

راحت احمد باجوہ صاحب ابن مکرم مشتاق احمد باجوہ صاحب

کا ہوگا جو سعد اللہ پورضلع منڈی بہاؤالدین کے رہنے والے تھے جن کو 8؍جون کو شہید کر دیا گیا تھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ایک معاند احمدیت نے یکے بعد دیگرے فائر کر کے غلام سرور صاحب اور راحت باجوہ صاحب کو شہید کیا تھا۔ بوقتِ شہادت غلام سرور صاحب شہید کی عمر چونسٹھ سال جبکہ راحت باجوہ صاحب شہید کی عمر بتیس سال تھی۔ تفصیلات کے مطابق غلام سرور صاحب شہید احمدیہ مسجد سعد اللہ پور سے نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد اپنے گھر واپس جا رہے تھے کہ گھر کے قریب ایک معاند احمدیت سید علی رضا جو مقامی مدرسہ کا طالبعلم تھا اس نے غلام سرور صاحب کا تعاقب کر کے پستول سے فائر کر دیا۔ سر میں گولی لگنے سے آپ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ وقوعہ کے بعد قاتل موقع سے چلا گیا اور گاؤں کی دوسری جانب جا کر ایک اَور احمدی مکرم راحت احمد باجوہ صاحب کو بھی فائر کر کے شہید کر دیا جس کے بعد قاتل کی گرفتاری عمل میں آئی۔ وقوعہ کے بعد قاتل نے پولیس کو اپنے اقراری بیان میں بتایا کہ ہاں میں نے ان کو مارا ہے۔ اس نے یہ کارروائی جنت کے حصول کے لیے کی ہے۔ کہنے لگا کہ مَیں نے تو جنت حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کیا ہے۔ اگر مجھے کوئی اَور احمدی بھی نظر آ جاتا تو میں اُس کی جان لینے سے بھی گریز نہ کرتا۔

تو مولویوں کے سکھائے ہوئے اسلام کی تعلیم کا لوگوں پر تو یہ اثر ہے ۔ یہ اسلام کی تعلیم دے رہے ہیں اور اسلام کو بدنام کرنے والے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ان کی جلد پکڑ کے سامان فرمائے۔

غلام سرور صاحب شہید ابن بشیر احمد صاحب

کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑدادا حضرت شرف دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے ہوا جنہوں نے طاعون کے نشان سے متاثر ہو کر سعد اللہ پور کے دیگر احباب کے ہمراہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کے توسط سے بذریعہ خط بیعت کی تھی۔ بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے 1903ء میں مقدمہ جہلم کے موقع پر جہلم تشریف لانے پر ان کی زیارت کی سعادت بھی ملی۔

شہید مرحوم بفضلِ خدا نظامِ وصیت میں شامل تھے۔ پنجگانہ نماز باجماعت کے پابند، تہجد گزار تھے۔ درود شریف بہت زیادہ کثرت سے کرنے و الے، نفلی روزوں کے علاوہ تلاوت قرآن کریم سے خصوصی شغف تھا۔ اس کے علاوہ جماعتی کتب کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتے تھے اور نفل روزانہ کا ان کا معمول تھا۔ جماعت کے لیے دو نفل باقاعدگی سے پڑھا کرتے تھے۔ روزانہ کی بنیاد پر صدقہ دیا کرتے تھے۔ پردہ پوشی کے ساتھ مستحقین کی معاونت کرتے تھے۔ کبھی کسی سوالی کو گھر سے خالی نہ جانے دیتے تھے۔ مقامی جماعت میں جنرل سیکرٹری کے علاوہ انہیں بطور مربی اطفال سعداللہ پور بھی خدمت کی توفیق ملی۔ مرحوم کو دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا۔ کئی سعید روحوں کو آپ کے توسط سے بیعت کی توفیق ملی۔ ماضی میں کلمہ مہم کے دوران دیگر احباب کے ساتھ تین چار دن کے لیے بغیر مقدمہ درج کیے ان کو اسیرِراہ مولیٰ ہونے کی بھی سعادت ملی۔

قائد ضلع شاہد عمران ہیں، مرحوم کے بھتیجے بھی ہیں، کہتے ہیں کہ شہید مرحوم بار بار اس خواہش کا اظہار کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مجھے کسی ایسے کام کی توفیق دے جس کی بدولت جماعت احمدیہ کی تاریخ میں میرا نام سنہری حروف میں لکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش اس طرح پوری کردی۔

پسماندگان میں اہلیہ مکرمہ ساجدہ پروین صاحبہ کے علاوہ دو بیٹے اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کی دو چھوٹی بیٹیاں ہیں جو ایک ایف ایس سی میں تعلیم حاصل کر رہی ہے اور ایک میٹرک میں۔ باقی بچے تو شادی شدہ ہیں۔ اطاعت کا جذبہ کہتے ہیں ان میں کمال کا تھا۔ صدر جماعت نے بیان کیا کہ ان کی شہید مرحوم کے ساتھ عزیزداری بھی تھی اور کبھی کبھار ان سے رنجش بھی ہو جاتی تھی۔ آپس کے تعلقات میں باتوں میں اونچ نیچ ہو جاتی ہے مگر جب جماعتی معاملہ آتا تو یہ کہتے کہ آپ صدر جماعت ہیں۔ جو بات بھی آپ کہیں گے اس کی کامل پابندی کروں گا۔ یہ ایک نمونہ تھا جو انہوں نے دکھایا۔ لوگوں کی بہت ساری شکایتیں آتی ہیں کہ اپنے ذاتی رنجوں کی بنا پہ جماعتی نظام سے تعاون نہیں کرتے لیکن انہوں نے کبھی یہ اظہار نہیں ہونے دیا۔ کامل اطاعت کے ساتھ انتظامیہ کی اطاعت کی ہے۔

ملک امان اللہ صاحب مربی ضلع کہتے ہیں کہ میرا غلام سرور صاحب کے بارے میں مشاہدہ یہ رہا کہ مسجد میں ہمیشہ پہلے آ کر پہلی صف میں دائیں طرف بیٹھ جاتے۔ ذکر الٰہی میں مشغول رہتے۔ نہایت عاجز اور منکسرالمزاج انسان تھے۔ خلافت سے خاص محبت تھی۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی کتب کا مطالعہ کا بھی ذوق رکھتے تھے اور تبلیغ کا بھی شوق تھا۔ اس لیے حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکی مجالسِ عرفان اور دیگر آڈیو ویڈیو اپنے پاس رکھتے تھے اور بڑے شوق سے سنا کرتے تھے اور دیکھا کرتے تھے۔ ایک مربی نے لکھا کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ مسجد پہ حملہ ہوا ہے اور میں شہید ہو گیا ہوں یعنی مربی۔ تو مربی صاحب نے یہ خواب جب ان کو سنائی تو شہید مرحوم کہنے لگے: مربی صاحب دیکھتے ہیں پہلے آپ شہید ہوتے ہیں یا مَیں۔ یہ بھی لگتا ہے کہ ان کو پہلے کوئی اشارہ ملا تھاجس کی وجہ سے انہوں نے یہ بات کہی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسل میں بھی ان کی نیکیاں جاری رکھے اور کامل وفا سے ان کو رہنے کی توفیق دے۔

دوسرا ذکر

مکرم راحت احمد باجوہ صاحب شہید

کا ہے۔ یہ مشتاق احمد باجوہ صاحب کے بیٹے تھے۔ تفصیلات کے مطابق راحت باجوہ صاحب سعداللہ پور بس سٹاپ پر واقع اپنے پکوان سینٹر سے واپس اپنے گھر آ رہے تھے کہ مذکورہ قاتل سید علی رضا نے ان پر بھی پسٹل سے فائر کر دیا۔ سر میں گولی لگنے سے آپ بھی موقع پر شہید ہو گئے۔ راحت احمد باجوہ صاحب شہید کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا مکرم رشید احمد صاحب کے ذریعہ ہوا جنہوں نے اپنے بھائی مکرم حفیظ اللہ صاحب کے ذریعہ 1978ء میں بیعت کی تھی۔ شہید مرحوم بفضلہ تعالیٰ نظامِ وصیت میں شامل تھے۔ جب بھی کسی احمدی کی شہادت کی انہیں اطلاع ملتی تو رشک سے اس امر کا اظہار کرتے کہ یہ رتبہ تو قسمت والوں کو ملتا ہے۔ خلافت احمدیہ سے والہانہ عشق تھا۔ مہمان نوازی کا وصف نمایاں تھا۔ نہایت ہنس مکھ انسان تھے۔ ہر کسی سے محبت سے پیش آتے۔ اگر کوئی منفی رویہ اختیار کرتا تو اس کا جواب مثبت رویے سے دیتے۔ 2018ء میں قادیان گئے تو ہروقت مسجد میں یا بیت الدعا میں دعاؤں میں ہی مشغول رہے۔ جب بھی جماعتی خدمت کے لیے بلایا جاتا فوری طور پر سب کام چھوڑ کے حاضر ہو جاتے۔ جماعتی پروگرامز کے ضمن میں مہمانان کے لیے خود کھانا تیار کرتے کیونکہ ان کی اپنی کھانے کی دکان تھی۔ ان کی ایک خواہش تھی کہ وقف کر کے دارالضیافت میں جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے مہمانوں کی خدمت کریں۔

ان کے ایک کزن جامعہ میں پڑھتے ہیں۔ کہتے ہیں مجھے جب بھی ملتے ہمیشہ یہ نصیحت کرتے کہ کبھی بے وفائی نہ کرنا اور آخر دم تک اپنے وقف کو نبھانا۔ تبھی تم ہمارے خاندان کی عزت کا باعث بنو گے۔

شہید مرحوم نے پسماندگان میں والدین کے علاوہ اہلیہ امۃ النور صاحبہ اور دو بیٹیاں عزیزہ جویریہ عمر چار سال اور عزیزہ زمل راحت ڈیڑھ سال یادگار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان شہداء کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ رحمت اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور جملہ پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ انہیں اپنی حفظ و امان میں رکھے۔

اس کے ساتھ ایک اَور جنازہ

مکرم ملک مظفر خان جوئیہ

کا ہے۔ گذشتہ دنوں 93سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ آپ کے بیٹے محمد مطیع اللہ جوئیہ صاحب آج کل ہوائی (Hawaii)میں مربی سلسلہ ہیں اور ٹریول ڈاکومنٹس نہ ہونے کی وجہ سے والد کے جنازے میں اور تدفین میں شامل نہیں ہو سکے۔ مربی صاحب لکھتے ہیں کہ والد صاحب نہایت دین دار، متقی، غریب پرور، تہجد گزار، پنجوقتہ نمازوں کے پابند اور باقاعدہ تلاوت قرآن کریم باترجمہ کرنے والے ایک نیک اور مخلص انسان تھے۔ چوبیس سال کی عمر میں 1953ء میں انہوں نے خود احمدیت قبول کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کرنے سے ان میں ایک انقلابی تبدیلی آئی اور اس وقت سے انہوں نے خدا تعالیٰ کی عبادت، خلافت سے وفا اور انسانیت کی خدمت کی مثالی زندگی بسر کی۔ آپ کو زندگی میں مختلف حیثیتوں میں جماعت کی خدمت کا بھی موقع ملا۔ پندرہ سال تک اپنی جماعت چک 152شمالی سرگودھامیں صدر جماعت بھی رہے۔ کہتے ہیں آپ سے ہم نے کبھی کسی جماعتی عہدیدار کے بارے میں شکوہ یا شکایت نہیں سنی۔ ہمیشہ نصیحت کرتے کہ کوئی جماعتی عہدیدار چاہے سائق ہی ہو اگر تمہارے گھر آئے تو خلیفۂ وقت کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اس کی عزت و اکرام تم پر واجب ہے۔ خود بھی عملاً ہمیشہ جماعتی مہمانوں اور عہدیداروں کا خاص احترام کرتے تھے۔

2005ء میں جب میں نے وصیت کی تحریک کی تھی تو یہ تو پہلے ہی موصی تھے۔ کہتے کہ کس طرح میں اس تحریک پر لبیک کہوں چنانچہ اس وقت انہوں نے اپنی وصیت کو 10؍1 سے بڑھا کے 3؍1کر دیا۔ شرح بڑھا دی۔ سب بچوں کو کہتے تھے کہ مالی قربانی اور چندہ حقیقت میں وہی ہوتا ہے جو انسان پہلے ہی ادا کرے اور سیکرٹری مال کو یاددہانی کا موقع ہی نہ دیا جائے۔خود بھی جب پنشن آتی تھی اس میں سب سے پہلے چندہ جات ادا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ 1990ء کی دہائی میں ہماری جماعت کو مربی ہاؤس کی ضرورت پڑی تو اپنی زمین جو مسجد کے نزدیک اور گاؤں کے اندر واقع تھی جماعت کو بلا تردّد عطیہ کردی۔

اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

الفضل انٹرنیشنل ۵؍ جولائی ۲۰۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button