خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱؍ جولائی ۲۰۲۳ء بمقام مسجد یت الفتوح، مورڈن، لندن یوکے)

سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب:فرمایا: جنگِ بدر کے حوالے سے آنحضرتﷺ کی سیرت کا ذکرہو رہا ہے اس بارے میں کچھ اَور باتیں پیش کرتا ہوں۔

سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ بدرکےقیدیوںسےآنحضرتﷺکےحسن سلوک کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:بدر کے قیدیوں کے متعلق سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو تفصیلات ذکر کی ہیں اس میں لکھا ہے کہ تین دن تک آپؐ نے بدر کی وادی میں قیام فرمایا اور یہ وقت اپنے شہداء کی تکفین وتدفین اوراپنے زخمیوں کی مرہم پٹی میں گزرا اور انہی دنوں میں غنیمت کے اموال کو جمع کرکے مرتب کیا گیا اور کفار کے قیدیوں کو جن کی تعداد ستر تھی محفوظ کرکے مختلف مسلمانوں کی سپردگی میں دے دیا گیا اورآنحضرتﷺ نے مسلمانوں کو تاکید کی کہ قیدیوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کا سلوک کریں اور ان کے آرام کا خیال رکھیں۔ صحابہؓ نے جن کو اپنے آقا ؐکی ہر خواہش کے پورا کرنے کا عشق تھا آپؐ کی اس نصیحت پر اس خوبی کے ساتھ عمل کیا کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ چنانچہ خود ان قیدیوں میں سے ایک قیدی ابوعزیز بن عمیرکی زبانی روایت آتی ہے کہ آنحضرتﷺ کے حکم کی وجہ سے انصار مجھے تو پکی ہوئی روٹی دیتے تھے لیکن خود کھجور وغیرہ کھا کر گزارہ کر لیتے تھے اور کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ ان کے پاس اگر روٹی کا چھوٹا ٹکڑا بھی ہوتا تھا تو وہ مجھے دے دیتے تھے اور خود نہیں کھاتے تھے اوراگر میں کبھی شرم کی وجہ سے واپس کردیتا تو وہ اصرار کے ساتھ پھرمجھ ہی کو دے دیتے تھے۔ جن قیدیوں کے پاس لباس کافی نہیں تھا انہیں کپڑے مہیا کردیئے گئے تھے۔ چنانچہ عباس کو عبداللہ بن ابی نے اپنی قمیص دی تھی۔ سرولیم میور نے قیدیوں کے ساتھ اس مشفقانہ سلوک کا مندرجہ ذیل الفاظ میں اعتراف کیا ہے۔لکھتا ہے کہ محمد (ﷺ) کی ہدایت کے ماتحت انصارو مہاجرین نے کفار کے قیدیوں کے ساتھ بڑی محبت اور مہربانی کا سلوک کیا۔ چنانچہ بعض قیدیوں کی اپنی شہادت تاریخ میں ان الفاظ میں مذکور ہے کہ خدا بھلا کرے مدینہ والوں کا وہ ہم کو سوار کرتے تھے اور آپ پیدل چلتے تھے۔ ہم کو گندم کی پکی ہوئی روٹی دیتے تھے اور آپ صرف کھجوریں کھا کر پڑ رہتے تھے۔ اس لیے (میور صاحب لکھتے ہیں) ہم کویہ معلوم کرکے تعجب نہ کرنا چاہیے کہ بعض قیدی اس نیک سلوک کے اثر کے نیچے مسلمان ہو گئے۔قیدیوں سے جب یہ سلوک ہوتا تھا تو ان میں سے بعض مسلمان ہو گئےاور ایسے لوگوں کو فوراً آزاد کر دیا گیا ……جو قیدی اسلام نہیں لائے ان پر بھی اس نیک سلوک کا بہت اچھا اثر تھا۔

سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے غزوہ بدرکی فتح کے نتائج اوراس کےیوم الفرقان ہونےکی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں لکھا ہے کہ ابھی تک مدینہ میں قبائل اوس اورخزرج کے بہت سے لوگ شرک پر قائم تھے۔ بدر کی فتح نے ان لوگوں میں ایک حرکت پیدا کر دی اوران میں سے بہت سے لوگ آنحضرتﷺ کی اس عظیم الشان اور خارق عادت فتح کو دیکھ کر اسلام کی حقانیت کے قائل ہو گئے۔ اور اس کے بعد مدینہ سے بت پرست عنصر بڑی سرعت کے ساتھ کم ہونا شروع ہو گیا مگر بعض ایسے بھی تھے جن کے دلوں میں اسلام کی اس فتح نے بغض وحسد کی چنگاری روشن کر دی اور انہوں نے برملا مخالفت کو خلاف مصلحت سمجھتے ہوئے بظاہر تو اسلام قبول کر لیا لیکن اندر ہی اندراس کے استیصال کے درپے ہو کر منافقین کے گروہ میں شامل ہو گئے۔ ان مؤخرالذکر لوگوں میں زیادہ ممتاز عبداللہ بن اُبَی ابن سلول تھا جو قبیلہ خزرج کاایک نہایت نامور رئیس تھا اور آنحضرتﷺ کے مدینہ میں تشریف لانے کے نتیجہ میں اپنی سرداری کے چھینے جانے کا صدمہ اٹھا چکا تھا۔ یہ شخص بدر کے بعد بظاہر مسلمان ہو گیا، لیکن اس کا دل اسلام کے خلاف بغض وعداوت سے لبریز تھا اوراہلِ نفاق کا سردار بن کر اس نے مخفی مخفی اسلام اور آنحضرتﷺ کے خلاف ریشہ دوانی کاسلسلہ شروع کر دیا۔مزید فرماتے ہیں کہ جنگِ بدر کااثر کفار اور مسلمانوں ہردو کے لیے نہایت گہرا اور دیر پا ہوا اوراسی لیے تاریخِ اسلام میں اس جنگ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے حتی کہ قرآن شریف میں اس جنگ کا نام یوم الفرقان رکھا گیا ہے۔ یعنی وہ دن جبکہ اسلام اور کفر میں ایک کھلا کھلا فیصلہ ہو گیا۔ بیشک جنگِ بدر کے بعد بھی قریش اور مسلمانوں کی باہم لڑائیاں ہوئیں اور خوب سخت لڑائیاں ہوئیں اور مسلمانوں پر بعض نازک موقعے بھی آئے لیکن جنگِ بدرمیں کفار مکہ کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی جسے بعد کا کوئی جراحی عمل مستقل طور پر درست نہیں کر سکا۔ تعداد مقتولین کے لحاظ سے بے شک یہ کوئی بڑی شکست نہیں تھی۔ قریش جیسی قوم میں سے ستر بہتر سپاہیوں کامارا جانا ہرگز قومی تباہی نہیں کہلا سکتا۔ جنگِ احد میں یہی تعداد مسلمان مقتولین کی تھی لیکن یہ نقصان مسلمانوں کے فاتحانہ رستہ میں ایک عارضی روک بھی ثابت نہیں ہوا۔حالانکہ مسلمان تو اس وقت بہت کمزور تھے۔پھر وہ کیا بات تھی کہ جنگِ بدر یوم الفرقان کہلائی؟ اس سوال کے جواب میں بہترین الفاظ وہ ہیں جو قرآن شریف نے بیان فرمائے اور وہ یہ ہیں۔ یقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِیْنَ۔ واقعی اس دن کفار کی جڑ کٹ گئی یعنی جنگِ بدر کی ضرب کفار کی جڑ پر لگی اور وہ دو ٹکڑے ہو گئی۔ اگر یہی ضرب بجائے جڑ کے شاخوں پر لگتی توخواہ اس سے کتنا گنا زیادہ نقصان کرتی وہ نقصان اس نقصان کے مقابلہ میں ہیچ ہوتا لیکن جڑکی ضرب نے ہرے بھرے درخت کو دیکھتے دیکھتے ایندھن کا ڈھیر کر دیا اور صرف وہی شاخیں بچیں جو خشک ہونے سے پہلے دوسرے درخت سے پیوند ہو گئیں۔ پس بدر کے میدان میں قریش کے نقصان کا پیمانہ یہ نہیں تھا کہ کتنے آدمی مرے بلکہ یہ تھا کہ کون کون مرے اور جب ہم اس نقطہ نگاہ سے قریش کے مقتولین پہ نظر ڈالتے ہیں تو اس بات میں ذرا بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ بدر میں فی الواقعہ قریش کی جڑ کٹ گئی۔ عتبہ اور شیبہ اور امیہ بن خَلَف اور ابوجہل اور عقبہ بن ابی مُعَیط اور نضر بن حارث وغیرہ قریش کی قومی زندگی کے روح رواں تھے اوریہ روح بدر کی وادی میں قریش سے ہمیشہ کے لیے پرواز کرگئی اوروہ ایک قالب بے جان کی طرح رہ گئے۔ یہ وہ تباہی تھی جس کی وجہ سے جنگِ بدر یوم فرقان کے نام سے موسوم ہوئی۔

سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کےاہل مکہ کےنام خط اوراہل بدر کی فضیلت کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:فضیلتِ صحابہؓ جو بدر کے اصحابؓ تھے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت جبرئیل نبی کریمﷺ کے پاس آئے اور کہا آپ مسلمانوں میں اہلِ بدر کو کیا مقام دیتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: بہترین مسلمان یا ایسا ہی کوئی کلمہ فرمایا۔ جبرئیل نے کہا اور اسی طرح وہ ملائکہ بھی افضل ہیں جو جنگِ بدر میں شریک ہوئے…عُبَیداللہ بن ابی رافع ؓنے بتایا، انہوں نے کہا کہ میں نے یہ حضرت علی ؓ سے سنا۔ کہتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے مجھے، زبیرؓ اور مِقداد بن اسود ؓکو بھیجا۔آپؐ نے فرمایا تم چلے جاؤ جب تم روضۂ خاخ پر پہنچو تو وہاں ایک شترسوار عورت ہو گی اور اس کے پاس ایک خط ہے تم وہ خط اس سے لے لو۔ ہم چل پڑے ہمارے گھوڑے سرپٹ دوڑتے ہوئے ہمیں لے گئے۔ جب ہم روضہ خاخ میں پہنچے تو ہم کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک شتر سوار عورت موجود ہے ہم نے کہا خط نکالو۔ وہ کہنے لگی کہ میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے کہا تمہیں خط نکالنا ہو گا ورنہ ہم تمہارے کپڑے اتار دیں گے اور تلاشی لیں گے اس پر اس نے وہ خط اپنے جوڑے سے، بالوں سے نکالا اور ہم وہ خط رسول اللہﷺ کے پاس لے آئے۔ دیکھا تو اس میں یہ لکھا تھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے اہل مکہ کے مشرکوں کے نام۔ وہ رسول اللہﷺ کے کسی ارادے کی ان کو اطلاع دے رہا تھا۔ رسول اللہﷺ نے اسے بلابھیجا اورپوچھا حاطب یہ کیا ہے؟ اس نے کہا یا رسول اللہ! میرے متعلق جلدی نہ فرمائیں۔ میں ایک ایسا آدمی تھا جو قریش میں آ کر مل گیا تھا ان میں سے نہ تھا اور دوسرے مہاجرین جو آپ کے ساتھ تھے ان کی مکہ میں رشتے داریاں تھیں جن کے ذریعہ وہ اپنے گھر بار اور مال و اسباب کو بچاتے رہے۔ میں نے چاہا کہ ان مکے والوں پر کوئی احسان کردوں کیونکہ ان میں کوئی رشتہ داری تو میری تھی ہی نہیں شاید وہ اس احسان ہی کی وجہ سے میرا پاس کریں اور میں نے کسی کفر یا ارتداد کی وجہ سے یہ نہیں کیا اور اسلام قبول کرنے کے بعد کفر کبھی پسند نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اگر سچے دل سے اسلام قبول کر لیا جائے تو اس کے بعد کفر کو پسند کرے۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس نے تم سے سچ کہاہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا یارسول اللہؐ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کی گردن مار دوں۔ آپﷺ نے فرمایا: وہ تو جنگِ بدر میں موجود تھا اور تمہیں کیا معلوم کہ اللہ نے اہلِ بدر کو دیکھا اور فرمایا جو تم چاہو کرومیں نے تمہارے گناہوں کی پردہ پوشی کر دی ہے۔

سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پیشگوئی313اصحابؓ کی بابت کیاوضاحت بیان فرمائی؟

جواب: فرمایا:بدری صحابہ ؓکی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس سے بھی ہو سکتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے اس امت میں آنے والے مہدی کی ایک نشانی یہ قرار دی کہ اس کے پاس بھی ایک کتاب ہو گی جس میں اصحابِ بدر ؓکی تعداد کے مطابق تین سو تیرہ اصحابؓ کے نام ہوں گے۔چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعودؑفرماتے ہیں:چونکہ حدیث صحیح میں آچکا ہے کہ مہدی موعود کے پاس ایک چھپی ہوئی کتاب ہو گی جس میں اس کے تین سو تیرہ اصحابؓ کا نام درج ہو گا۔ اس لیے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ وہ پیشگوئی آج پوری ہو گئی۔ یہ تو ظاہر ہے کہ پہلے اس سے امت مرحومہ میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا کہ جو مہدویت کا مدعی ہوتا اور اس کے وقت میں چھاپہ خانہ بھی ہوتا۔ اور اس کے پاس ایک کتاب بھی ہوتی جس میں تین سو تیرہ نام لکھے ہوئے ہوتے اور ظاہر ہے کہ اگر یہ کام انسان کے اختیار میں ہوتا تو اس سے پہلے کئی جھوٹے اپنے تئیں اس کا مصداق بنا سکتے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ خدا کی پیشگوئیوں میں ایسی فوق العادت شرطیں ہوتی ہیں کہ کوئی جھوٹا ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور اس کو وہ سامان اور اسباب عطا نہیں کیے جاتے جو سچے کو عطا کیے جاتے ہیں۔فرماتے ہیںشیخ علی حمزہ بن علی ملک اَلطُّوسِی اپنی کتاب جَوَاہر الاَسْرَار میں جو 840ھ میں تالیف ہوئی تھی مہدی موعود کے بارے میں مندرجہ ذیل عبارت لکھتے ہیں۔جس کا ترجمہ یہ ہے کہ … یعنی مہدی اس گاؤں سے نکلے گا جس کا نام کدعہ ہے (یہ نام دراصل قادیان کے نام کو معرّب کیا ہوا ہے) اور پھر فرمایا کہ خدا اس مہدی کی تصدیق کرے گا اور دُور دُور سے اس کے دوست جمع کرے گا جن کا شمار اہلِ بدر کے شمار سے برابر ہو گا۔ یعنی تین سو تیرہ ہوں گے اور ان کے نام بقید مسکن وخصلت چھپی ہوئی کتاب میں درج ہوں گے۔ اب ظاہر ہے کہ کسی شخص کو پہلے اس سے یہ اتفاق نہیں ہوا کہ وہ مہدی موعود ہونے کا دعوی کرے اور اس کے پاس چھپی ہوئی کتاب ہو جس میں اس کے دوستوں کے نام ہوں لیکن میں پہلے اس سے بھی آئینہ کمالات اسلام میں تین سوتیرہ نام درج کرچکا ہوں اور اب دو بارہ اتمام حجت کے لیے تین سوتیرہ نام ذیل میں درج کرتا ہوں۔تا ہریک منصف سمجھ لے کہ یہ پیشگوئی بھی میرے ہی حق میں پوری ہوئی اور بموجب منشاء حدیث کے یہ بیان کر دینا پہلے سے ضروری ہے کہ یہ تمام اصحاب خصلتِ صدق و صفا رکھتے ہیں اور حسبِ مراتب جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے بعض بعض سے محبت اور انقطاع الی اللہ اور سرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں … اب دیکھو یہ تین سو تیرہ مخلص جو اس کتاب میں درج ہیں یہ اسی پیشگوئی کا مصداق ہے جو احادیث رسول اللہﷺ میں پائی جاتی ہے۔ پیشگوئی میں کدعہ کا لفظ بھی ہے جو صریح قادیان کے نام کو بتلا رہا ہے پس تمام مضمون اس حدیث کا یہ ہے کہ وہ مہدی موعود قادیان میں پیدا ہوگا اور اس کے پاس ایک کتاب چھپی ہوئی ہوگی جس میں تین سو تیرہ اس کے دوستوں کے نام درج ہوں گے۔ سو ہریک شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات میرے اختیار میں تو نہیں تھی کہ میں ان کتابوں میں جو اس زمانہ سے ہزار برس پہلے دنیا میں شائع ہوچکی ہیں اپنے گاؤں قادیان کا نام لکھ دیتا۔ اور نہ میں نے چھاپہ کی کل نکالی ہےکوئی پرزہ نکالاتا یہ خیال کیا جائے کہ میں نے اس غرض سے مطبع کو اس زمانہ میں ایجاد کیا ہے۔پریس میں نے تو نہیں ایجاد کیا تھا۔اور نہ تین سو تیرہ مخلص اصحاب کا پیدا کرنا میرے اختیار میں تھا بلکہ یہ تمام اسباب خود خدا تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں تاوہ اپنے رسول کریم ؐکی پیشگوئی کو پورا کرے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button