سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

براہین احمدیہ کوئی تجارتی کاروبارنہ تھی اور اس کی قیمت کا مسئلہ

(گذشتہ سے پیوستہ)اس الہام کے بعد آپؑ نے سب سے پہلی مالی تحریک خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ کو کی۔لیکن اس تفصیل سے قبل یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ براہین احمدیہ کی طباعت اور تقسیم وفروخت کوئی تجارتی کاروبار نہ تھی۔اور نہ یہ کتاب اس غرض سے لکھی گئی تھی۔اس کتاب کا مقام اوراس کی تصنیف وطباعت کا مقصد اس کشف سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے جو پہلے بیان ہوچکا ہے۔روحانی مُردوں کی زندگی کے سامان کرنے والا یہ آبِ حیات تھا،یہ وہ شیریں پھل تھا جس سے اب اسلام اورمسلمانوں کی اس تلخ زندگی کا خاتمہ ہونے والا تھاجو دیگر باطل مذاہب کے ماننے والوں نے کی ہوئی تھی اوراس تصنیف کا مصنف کوئی عام مؤلف یا مصنف نہ تھا، اِنِّیۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا لَّعَلِّیۡۤ اٰتِیۡکُمۡ مِّنۡہَا بِقَبَسٍ اَوۡ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ہُدًی۔(طٰہٰ:۱۱)کے مصداق یہ ابن عمران خداکا ایک ایسا امین و مامور مصنف تھا کہ جو ان کاموں کوتجارتی بنیاد پر نہیں کیاکرتے قُلۡ مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اَنۡ یَّتَّخِذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیۡلًا (الفرقان:۵۸) وہ کسی فرد سے اجر کے طالب ہوتے ہیں نہ کسی معاوضہ کے،وہ ایسا کرہی نہیں سکتے۔ان کی تو ایک ہی تمنا ہوتی ہے کہ مخلوق اپنے خالق کے رنگ میں رنگین ہوجائے۔اپنے خالق سے مونہہ موڑی ہوئی مخلوق کے چہرے پر خالق کی پہچان کارنگ آجائے اوریہ رنگ وہ اپنے خون ِ جگرسے بھرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔اوراپنا تن من دھن سب کچھ اسی میں تج دیاکرتے ہیں اوراپنی جان کو یوں ہلکان کرلیتے ہیں کہ عرش کا خدا پکاراٹھتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ (الشعراء:۴)اسی تڑپ نے اس زاویہ خمول میں بسنے والے کو مجبورکیا کہ وہ اس بھٹکی ہوئی اورمظلوم مخلوق کو مذاہب باطلہ کے بھیڑیوں سے بچانے کے لیے باہر آئے اور اسی مقصد کے لیے اس نے یہ عظیم الشان اورمعرکہ آراء بابرکت تصنیف کی۔یہ کوئی تجارت نہ تھی۔ اورنہ ہی درہم و دیناراکٹھاکرنے کاکوئی منصوبہ تھا۔اوراگرکوئی ایسامنصوبہ تھا تو تما م ترحقائق کوسامنے رکھتےہوئے یہ کہاجاسکتاہے کہ براہین احمدیہ تو شائع ہوگئی لیکن درہم و دینار دینے کی کسی کو توفیق ہوئی اورنہ وہ جمع ہوئے۔

اور ان دونوں امورکی بابت آئیے ذرا حضرت اقدسؑ کی اپنی تحریرات کوپڑھتے ہیں جوانہی دنوں میں اسی براہین احمدیہ میں یااس کے متعلق دوسری جگہ پرآپؑ نے لکھیں۔

امرواقعہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ براہین کی طباعت و اشاعت کا کام محض دنیوی اغراض اور مفاد کو مد نظر رکھ کر کیا گیا تھا۔اور اس سوچ کی بنیادسراسربدظنی،حسد اور بغض وعنادتھی کیونکہ یہ وہ کیفیت ہواکرتی ہے کہ جودل ودماغ کی قوتوں کوسلب کردیاکرتی ہے۔اور تدبروتفکرکی راہوں کومسدودکردیتی ہے۔یہی وہ کیفیت ہوتی ہے کہ جس کے بارے میں خلّاق وخبیرخدافرماتاہے: لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَلَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَلَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ (الاعراف:۱۸۰)کہ ان کے دل ہوتے توہیں لیکن ان کی ایسی مَت ماری جاتی ہے کہ حقائق کوسمجھ ہی نہیں پاتے اور آنکھیں تو ہوتی ہیں لیکن بغض وحسد کے مارے دکھائی کچھ نہیں دیتا اورباوجودکان رکھنے کے حق وصداقت کی کوئی آوازسنائی نہیں دیتی۔ایسے لوگوں کا رویّہ اور گفتاروکردار جانوروں کی طرح ہوتاہے لیکن نہیں نہیں جانوربھی اپنے مالک کوپہچانتے ہیں وہ بھی سیاہ وسفیداوردن اور رات میں تمیزکرلیاکرتے ہیں۔اور اپنے خیرخواہ اورآقا کی آوازپروہ بھی کان دھرتے ہیں،سنتے ہیں۔لیکن یہ تو ان سے بھی گئے گزرے ہیں اور غفلت کے لحافوں میں پڑے ایسے سورہے ہیں کہ سَو سَوآوازیں دینے کے باوجودمتوجہ نہیں ہوتے۔

قبل اس کے کہ ہم یہ جائزہ لیں کہ براہین احمدیہ کے لیے کتنی رقوم جمع ہوئیں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ براہین احمدیہ محض ایک اشاعت دینی کاکام تھا کوئی کاروباریاتجارت نہ تھی۔

حضرت اقدسؑ براہین احمدیہ میں تحریرفرماتے ہیں: ’’بعض صاحبوں کی سمجھ پر رونا آتا ہےجو وہ بروقت درخواست اعانت کے یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم کتاب کو بعد طیاری کتاب کے خرید لیں گے پہلے نہیں۔ان کو سمجھناچاہئے کہ یہ کچھ تجارت کا معاملہ نہیں اور مؤلّف کو بجز تائید دین کے کسی کے مال سے کچھ غرض نہیں۔اعانت کا وقت تو یہی ہے کہ جب طبع کتاب میں مشکلات پیش آرہی ہیں ورنہ بعد چھپ چکنے کے اعانت کرنا ایسا ہےکہ جیسے بعد تندرستی کے دوا دینا۔ پس ایسی لاحاصل اعانت سے کس ثواب کی توقع ہو گی۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۶۹)

یہ تو کتاب کی تحریرتھی۔اب ایک خط کودیکھتے ہیں جوکہ بالعموم خالص ذاتی اور پرائیویٹ نوعیت کی تحریرہوتی ہے کہ جس میں تصنع اور بناوٹ کودخل نہیں ہواکرتا۔ اس نجی خط میں آپؑ اپنے ایک مخلص دوست کوجوکہ اس زمانے میں اخلاص و ارادت کے ساتھ ساتھ براہین احمدیہ کی اشاعت میں ایک نمایاں خدمت کے جذبے کا اظہارکررہے تھے یہ تھے محترم میرعباس علی صاحب لدھیانوی۔ ان کے نام ایک خط میں آپؑ لکھتےہیں :’’چونکہ یہ کام خالصاً خدا کے لیے اور خود حضرت احدیت کے ارادہ خاص سے ہے اس لیے آپ اس کے خریداروںکی فراہمی میں یہ ملحوظ خاطر شریف رکھیں کہ کوئی ایسا خریدار شامل نہ ہو جس کی محض خرید و فروخت پر نظر ہو بلکہ جو لوگ دینی محبت سے مدد کرنا چاہتے ہیں انہیں کی خریداری مبارک اور بہتر ہے۔کیونکہ در حقیقت یہ کوئی خرید فروخت کا کام نہیں…غرض آں مخدوم اس سعی اور کوشش میں خداو ندکریم پر توکل کر کے صادق الارادت لوگوں سے مدد لیں۔اور اگر ایسے نہ ملیں تو آپ کی طرف سے دعا ہی مدد ہے۔ہم عاجز اور ذلیل بندے کیاحیثیت اور کیا قدر رکھتے ہیں۔وہ جو قادر مطلق ہے۔وہ جب چاہے گا تو اسباب کاملہ خود بخود میسر کر دے گا۔کونسی بات ہے جو اس کے آگے آسان نہ ہوئی ہو۔‘‘(مکتوبات احمد، جلد اول، صفحہ ۵۰۷، مکتوب نمبر ۱)

اس خط کاایک فقرہ جوامرزیربحث سے متعلق ہے وہ انڈرلائن کردیاگیاہے اور اسی خط میں ایک اور فقرہ بھی پڑھنے کے لائق ہے اوروہ یہ ہے :’’کوئی ایسا خریدار شامل نہ ہو جس کی محض خرید و فروخت پر نظر ہو بلکہ جو لوگ دینی محبت سے مدد کرنا چاہتے ہیں انہیں کی خریداری مبارک اور بہتر ہے۔‘‘

خداترس نگاہ کے نزدیک صرف یہ ایک فقرہ ہی سارا مضمون واضح کردیتاہے کہ جس کا مقصددکانداری ہو،جس کا مقصدکتاب سے روپیہ پیسہ اکٹھا کرنا ہووہ کبھی یہ لکھ سکتاہے نہ سوچ سکتاہے۔ یہ بے نیازی اور توکل توانہیں ہستیوں کونصیب ہواکرتاہے کہ جوبڑی ادا اور شان سے یٰقَوۡمِ لَاۤاَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا (ھود:۵۲)کہہ دیاکرتے ہیں۔

اسی طرح دوسرے موقع پر میر عباس علی صاحب نے چاہا کہ براہین احمدیہ کی اشاعت وغیرہ کے لیے کچھ چندہ کیا جاوے۔مگر آپؑ نےاس کام سے روکتےہوئے لکھا:’’غربا سے چندہ لینا ایک مکروہ امر ہے۔جب خدا اس کا وقت لائے گا تو پردہ غیب سے کوئی شخص پیدا ہو جائے گا جو دینی محبت اور دلی ارادت سے اس کام کو سرانجام دے۔تجویز چندہ کو موقوف رکھیں۔‘‘(مکتوبات احمد، جلد اول، صفحہ ۵۲۴، مکتوب نمبر ۱۱)

خط کایہ اقتباس پڑھیے اور ذرا سوچیے اس دل کے بارے میں جس نے براہین احمدیہ کتاب تصنیف کی کہ جوغریب لوگوں کا اتناخیرخواہ اور ہمدردہے کہ اس کتاب کے لیے ان سے چندہ لینابھی ایک مکروہ فعل خیال کرتاہے۔ایسے دل کے بارے میں یہ رائے قائم کرنا کہ نعوذباللہ اس نے لوگوں سے پیسہ بٹورنے کاایک تجارتی مقصدبنایاتھا اور ہزاروں روپے اس کتاب کے لیے جمع ہوئے جووہ خودہی کھاگیا۔یہ ایک ظالمانہ خیال اور شیطانی سوچ ہے یااس کے سامنے وہ شیطانی سائے ہیں کہ جو کتابوں،مسئلوں اور فتووں کوبیچتے ہوئے درہم و دینارسےاپنے بڑھے ہوئے پیٹوں کی دوزخ کوبھرنے کے لیے جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ وہی شیخ و واعظ کہ جن کے بارے میں شاعرمشرق علامہ اقبال نے کہاہے :؎

یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے

گلیم بوذر و دلق اویس و چادرِ زہرا

پھرکتاب بیچنی تو درکنارمفت دینے میں بھی کوئی تامل نہیں۔بلکہ جب کبھی کوئی ایسا شخص آپؑ کے سامنے آتاجو استطاعت نہ رکھتا ہواور دینی محبت اس کے اندر ہو اسے مفت دیدیتے۔بہت سی کتابیں آپؑ نے مفت دی تھیں۔آپ علیہ السلام خوداپنی ایک تصنیف میں لکھتےہیں:’’اکثر براہین احمدیہ کا حصہ مفت تقسیم کیا گیا ہے اور بعض سے پانچ روپیہ اور بعض سے آٹھ آنہ تک قیمت لی گئی ہے۔ اور ایسے لوگ بہت کم ہیں جن سے دس۱۰ روپے لیے گئے ہوں۔ اور جن سے پچیس روپے لیے گئے وہ صرف چند آدمی ہیں۔‘‘(ایام الصلح،روحانی خزائن جلد ۱۴صفحہ ۴۲۱)

میر عباس علی صاحب کو آپؑ نے ایک مرتبہ لکھا :’’اگر کوئی ہندو فی الحقیقت طالب حق ہے تو اس سے رعایت کرنا واجب ہے بلکہ اگر ایسا شخص بے استطاعت ہو تو اس کو مفت بلاقیمت کتاب دے سکتے ہیں غرض اصلی اشاعت دین ہے نہ خریدو فروخت۔ جیسی صورت ہو اس سے اطلاع بخشیں تاکتاب بھیجی جاوے۔‘‘(مکتوبات احمد، جلد اول، صفحہ ۵۲۷، مکتوب نمبر ۱۴)

یہ تو ایک بات تھی اب دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی براہین احمدیہ کے اشتہارات کے بعد قادیان کی اس بستی میں حضرت مرزا صاحبؑ کے ہاں ہُن برسنے لگاتھا ؟

افسوس تو یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین میں سے کوئی بھی مصنف ایسانہیں کہ جس کے بارےمیں یہ کہاجاسکے کہ اس نے دیانتداری کے ساتھ تحقیقی اندازمیں کچھ لکھاہو۔جس نے بھی لکھاتحقیق کی بجائے تحقیرہی پیش نظررکھی۔اور تحریف و توضیع میں یہودکے بھی کان کاٹے۔بے سروپااقوال اور سنی سنائی مخالفانہ باتوں سے قلب وکتاب کے ورق سیاہ کرنے کے سواکچھ بھی نہیں۔مثال کے طورپر براہین احمدیہ کے معاملہ میں اسی ایک مسئلہ پرخاکسارنے متعددمخالفین کی کتب کودیکھا لیکن سوائے حیرت و حسرت کے کچھ نہ ملا۔ ہرمصنف جتنا براہین کے زمانہ سے دورہوتاچلاگیااتناہی وہ جھوٹ اور بےسروپا باتیں لکھتاچلاگیا۔ جتنا بڑانام اتنا ہی بڑاجھوٹ لکھنے سے ذرابھی خوف خدانہیں کیا۔ ایک ایسے ہی مصنف جوسیرت النبیﷺ کے حوالے سے برصغیرمیں معروف ہوئے سعودی حکومت کی طرف سے انعام یافتہ سیرت کی کتاب لکھی۔بہت دکھ ہواکہ ایسی ہستی کی سیرت لکھنے والامصنف کہ جس ہستی کے عدل وانصاف کی تعریف خدائے عرش نے کی جس کومکہ کے کفارصادق اورا مین کہتے تھے۔ اس کی سیرت لکھنے والے کواتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ جس کتاب کے بارےمیں لکھ رہاہے یعنی براہین احمدیہ،کم ازکم اسی کتاب کے کچھ ابتدائی صفحات ہی پڑھ لیتا۔ ان صاحب،مولوی صفی الرحمٰن مبارکپوری صاحب نے ایک کتاب لکھی ’’قادیانیت اپنے آئینے میں‘‘اس کے صفحہ ۶۲ پر براہین احمدیہ کی بابت اعانت کے اشتہارات کاتذکرہ کرتے ہوئےلکھتے ہیں :’’اس قسم کے حمیت خیز اشتہارات نے مسلم حلقے میں ایک دھوم مچادی مددواعانت و عطیات اور پیشگی قیمتوں کی شکل میں روپے آنے شروع ہوگئے۔ بہت سے مخلصین اسلام نے محض اعلائے کلمۃ اللہ کے جذبے کے تحت رضاکارانہ طورپر تگ ودو کرکے رقمیں فراہم کیں۔ ہندوستان کی اکثرمسلم ریاستوں کے امراء وعمائدین نے عطیات بھیجے اور اس طرح اصل لاگت سے دس گنہ زیادہ رقم جمع ہوگئی۔‘‘

اس اقتباس کوپڑھ کریہ خیال آتاہے کہ رقم تو اصل لاگت سے دس گنازیادہ جمع نہیں ہوئی تھی البتہ دوسرے مخالف مصنفین کی نسبت جھوٹ اور دجل دس گنازیادہ بہرحال اس مصنف کے حصہ میں آیاہے۔

اس ’’چہ دلاوراست ‘‘مصنف کی جرأت قابل دیدہے کہ اس اقتباس کے نیچے سب سے پہلاحوالہ تبلیغ رسالت کادیاہے۔جوکہ جماعت احمدیہ کی طرف سے ان اشتہارات کامجموعہ ہے جوحضرت بانئ سلسلہ احمدیہ نے اپنے زمانہ میں شائع فرمائے تھے ہاں نیزدیکھیے لکھ کرچاراشدمخالف احمدیت مصنفین کی کتب کاحوالہ دے کریہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اصل حوالہ توجماعت کی اپنی ہی کتاب میں موجودہے البتہ میری تحقیق اتنی زبردست ہے کہ چارمزیدمحققین کی کتابوں میں بھی یہ مضمون موجودہے مجھے لکھتے لکھتے ایک مضمون یادآگیا جو خاکسار نے کسی مزاح نگار کا لکھا ہوا پڑھا تھا کہ ایک استاد شاعر تھے۔شعروں کا شوق خوب تھا لیکن شعر جو بھی ہوتا وہ وزن و بحر سے باہر ہوتا۔ جو ایک بار انہوں نے کوئی شعر پڑھا تو اس پر اعتراض کیا گیا کہ یہ شعر تو درست نہیں ہے۔چنانچہ وہ جوش میں آگئے اور اس کی سند کے طور پر چار دیوان اٹھا لائے جن میں سے انہوں نے اپنے اس شعرکی سندمیں وہاں سے شعر پیش کئے۔اور وہ الگ بات تھی کہ یہ چاروں دیوان انہی کے تھے اور چاروں کے چاروں غیرمطبوعہ تھے۔

تویہ مصنف اور اس کے حوالی موالی باقی چاربھی اصل میں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔کسی نے تبلیغ رسالت کے وہ ابتدائی اشتہاربھی پورے نہیں پڑھے۔ورنہ کبھی یہ نہ کہتے کہ اصل لاگت سے دس گنازیادہ رقم جمع ہوگئی۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button