متفرق مضامین

آ پاس مرے آ کر ربوہ کا نظارہ دیکھ

(جمشید محمود)

میرے دادا مکرم چودھری یوسف علی خان المعروف آغاجی نے ۱۹۲۹ء میںاحمدیت قبول کی تھی۔ لیکن آپ کے متعدد عزیز و اقارب احمدی نہیں ہوئے۔ دادا جان کراچی میں مقیم رہے اور ۱۹۸۲ءمیں وہ کراچی میںاپنا گھر بارچھوڑ کر ربوہ آ گئے۔

ان کی ایک کزن فہمیدہ اہلیہ ڈاکٹر خوشدل خان صاحب احمدی نہیں تھیں مگر اپنی محبت میں انہوں نے دادی جان کے نام ایک خط لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ آپ نے زیادہ ترخاندان کے برخلاف ایک نئے عقیدے کو کیوں چنا اور ان کو اپنا مخالف کیوں بنا لیاہے۔نیزکراچی جیسے بارونق اور ترقی یافتہ شہر کو چھوڑ کر ایک سنسان اور پسماندہ قصبے ربوہ کا انتخاب کیوں کیا ہے۔ آپ کو واپس کراچی آجانا چاہیے۔

دادا جان نے جواب میں فہمیدہ صاحبہ کے نام ایک تفصیلی خط لکھا۔ خط میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود و مہدی معہود ؑکی بعثت کے بارے میں تفصیل بیان کی اور آپؑ کو ماننے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ ساتھ ہی اپنے مسکن ربوہ کی اہمیت کے بارے میں اپنی ذاتی وجوہات بیان کیںاور ربوہ میں خلافت کے زیر سایہ رہنے کی برکات کا تذکرہ کیا۔ اسی خط کے آخر میں انہوں نے اپنی انہی عزیزہ کو ربوہ آ کر برکات کے نظارے کی منظوم دعوت دی۔

خط کافی تفصیلی ہے لیکن ربوہ اور بڑے شہروں کراچی اور لاہور کا تقابل کرتے ہوئے دادا جان نے جولکھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ’’ربوہ کراچی اور لاہور جیسا پررونق شہر نہیں…عام ضروریات زندگی، میٹھا پانی، گیس بھی سب جگہ نہیں۔ مگر وہ شہر تو بادشاہوں یا بڑی بڑی حکومتوں نے بنائے ہیں…یہ شہر تو ایک بنجر زمین پر جو سینکڑوں سالوں سے ویران اور بے آباد تھی اور حکومت کے کاغذات میں ناقابل کاشت اور بے کار زمین تھی۔اونچی جگہ ہونے کی وجہ سے دریا کا پانی نہیں آسکتا تھا۔ یہ کلر زدہ، شورزمین جہاں ایک پودا، ایک جھاڑی، ایک درخت بلکہ گھاس کا تنکہ بھی نہیں تھا۔ یہ تمام دنیا کی ردّکردہ زمین جماعت احمدیہ نے اپنے مرکز اور اشاعت اسلام کے جذبے سے ایک معقول رقم دے کر خریدی۔ اورقادیان سے آمدہ لٹے پٹے احمدی مہاجر اپنی جائیداد اور سامان چھوڑ آئے۔ کوئی مکان، کارخانہ، دکان، فیکٹری اور مل الاٹ نہیں کرائی۔جعلی کلیم (claim)نہیں پُر کیے بلکہ باعزت طور پرروپے دے کر ایک بنجر زمین خریدی۔ اور ایک بے بس چیونٹی کی طرح، جس کا گھر بار تباہ ہوجائے، پھر نئے سرے سے اس بے آب و گیاہ زمین کو آباد کرنے لگ گئے۔اللہ تعالیٰ سے دل سوز دعائیں کیں، عرش الٰہی کو ہلایا، بنجر زمین کو آنسووں سے تر کیا اور دیکھواس زمین سے جہاں پانی کا نام و نشان بھی نہ تھاپانی نکل آیا۔ جس جگہ درخت، گھاس اور سوکھے پتوں تک کا نشان بھی نہ تھا آج خداتعالیٰ کے فضل سے سر سبز شہر آباد ہے…‘‘

غالباً ان کی کزن نے اپنے خط میں مکرم بشیر برمی صاحب کے مکان سے دادی جان کے نلکے سے پانی بھرنے کا ذکر کیا تھا۔ جواب میں دادا جان نے لکھا کہ ’’معلوم نہیں آپ نے برادرم محترم بشیر برمی صاحب کا مکان اور ہینڈ پمپ کب دیکھاہے۔ ‘‘ہائے میں صدقے جان جی(دادی جان۔ناقل) ہینڈ پمپ سے پانی بھرتی ہوگی، تھک جاتی ہوگی۔’’یہ تو آپ کی محبت کی باتیں ہیں، مامتا بھری مائیں اپنی بیٹیوں کے متعلق ہمیشہ انہی فکروں میں رہتی ہیں…آپ ہمارے متعلق اس قدر فکر مند ہیں، یہ آپ کی عین نوازش ہے۔ اس میں شک نہیں یہاں وہ آسائش اور آرام میسر نہیں جو بڑے شہروں میںہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کا فضل ہے ایک کنال کا پلاٹ ہے، بجلی ہے، زمینی پانی جو کچھ کھارا ہے، موجود ہے۔ میٹھے پانی کا نل ہے۔ پھر خدا کے فضل سے اطمینان ہے، سکون ہے، جلسہ پر مہمان آتے ہیں ان کی خدمت کا موقع ملتا ہے، عزیزوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں، بڑی رونق ہوتی ہے…آپ نے لکھا تھا ’’کس سنسان جگہ آگئی ہو، مکان بیچ دو‘‘…(جواب میں)یہ شعر مجھے بہت پسند ہے:

ہوتی نہ اگر روشن یہ شمع رخ انور

کیوں جمع یہاں ہوتے سب دنیا کے پروانے

ربوہ کے بارے میں اپنے کچھ اشعار لکھتا ہوں:

آ پاس مرے آکر ربوہ کا نظارہ دیکھ

اس چھوٹی سی بستی سے عالم کا نظارہ دیکھ

دیوانوں کی باتیں سن،تائید الہٰی دیکھ

دشمن کے غضب کو دیکھ اور لطف ہمارا دیکھ

کچھ اونچے پہاڑوں میں آباد ہے یہ بستی

ہاں ظلم کے ماروں سے آباد ہے یہ بستی

دریا کے کنارے پر آباد ہے یہ بستی

اللہ کے سہارے پر آباد ہے یہ بستی

آنکھوں میں کھٹکتی ہے اغیار کو یہ بستی

تسکین کا باعث ہے احباب کو یہ بستی

دشمن کا یہ دعویٰ تھا ہم اینٹ بجادیں گے

ہم ان کو نکالیں گے اوروں کو بسا دیں گے

اک کاسہ گدائی کا ہاتھوں میں تھمادیں گے

کیا ہستی ہے ان کی ہم، ان کو مٹا دیں گے

خود مٹ گئے سب ہی جو ہم کو مٹاتے تھے

روتے ہیں وہی آخر جو ہم کو رلاتے تھے

اللہ کا وعدہ ہے ہم ان کو بڑھا دیں گے

اموال میں کثرت اور رزق سوا دیں گے

عقلوں کو بڑھا دیں گے ذہنوں کو جلا دیں گے

دنیا کے کناروں تک ہم ان کو بسا دیں گے

اللہ کے وعدوں پر ایمان ہمارا ہے

ہم اس کے ہیں اور وہ رحمٰن ہمارا ہے

دادا جان نے مندرجہ بالا خط اپنی ڈائری میں محفوظ کردیا تھا۔ ان کی ڈائری کی دیگر تحریروںسے بھی ان کی احمدیت سے محبت اور خلافت سے عشق ٹپکتا ہے۔اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ہمیں اور ہماری نسلوں کو اس نعمت عظمیٰ یعنی احمدیت اور خلافت کی قدر کی توفیق دیتا چلا جائے جو ہمیں ان کے وسیلے سے ملی ہے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button