سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

براہین احمدیہ کے پرنٹرز سفیرہندسے ریاض ہندامرتسرتک

ابھی ذکرہواکہ براہین احمدیہ کی طباعت کے لیے اس وقت کے ایک بہترین پریس کاانتخاب کیاگیا۔اوراس پریس کے مہتمم پادری رجب علی نے بھی براہین احمدیہ کی طباعت کے لیے خاص اہتمام کیا اور اس کام کے لیے بہترین افرادکاانتخاب کیا۔مراد آباد سے شیخ نور احمد صاحب کو بلایا جو اپنے فن طباعت میں بہترین ماہر تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد یعنی دوسرے اور تیسرے حصہ کی طباعت کے وقت شیخ نور احمد صاحب نے پادری رجب علی صاحب کا کام چھوڑ کر اپنا ذاتی مطبع ریاض ہند کے نام سے جاری کیا۔پادری صاحب نے براہین کی طباعت کا وہی معیارقائم رکھنے کے لیے اس کی طباعت کا کام اجرت پر شیخ صاحب کو دے دیا۔یعنی کتاب فی الحقیقت تو شیخ نور احمد صاحب اپنے مطبع میں چھاپتے تھے۔لیکن اس پر مطبع سفیر ہند کا نام درج ہوتا تھا۔

’’شیخ نور احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب و اشتہارات کے علی العموم پرنٹر رہے۔امرتسر کے علاوہ وہ قادیان میں بھی اپنا پریس لے آیا کرتے تھے۔پھر انہوں نے مرزا اسماعیل اور بعض دوسرے لوگوں کو یہ کام سکھا دیا۔اور قادیان میں طباعت کا کام ہونے لگا۔جہاں تک براہین احمدیہ کی طبع کا سوال ہے۔ان کے تین حصوں کوشیخ نور احمد صاحب نے اپنے ہاتھ سے چھاپا۔پہلا حصہ خود پادری رجب علی صاحب کے سفیر ہند ہی کا رہا۔اور چوتھا حصہ خود ان کےمطبع ریاض ہند ہی میں چھپا۔اور اس کے نام سے ہی شائع ہوا۔مگر شیخ نور احمد صاحب اس کے ختم ہونے کے وقت ہندوستان میں نہ تھے۔بلکہ وہ بخارا چلے گئے تھے۔اور اہتمام طباعت مکرمی شیخ محمد حسین صاحب مراد آبادی کے ہاتھ میں تھا۔بلکہ سرورق بھی انہوں نے ہی لکھا۔شیخ نور احمد صاحب مراد آباد میں اخبار’’ لوح محفوظ‘‘کے پریس میں پرنٹری کرتے تھے اور انہوں نے کاپی کی سیاہی کا اشتہار دیا ہوا تھا۔جسے لوگ پنجاب میں بھی منگواتے تھے۔اسی اشتہار کے ذریعہ پادری رجب علی صاحب نے مراد آباد سے پنجاب بلوا بھیجا۔شیخ محمد حسین صاحب مراد آبادی اس سے پہلے پنجاب آ چکے تھے اور پادری صاحب کی تحریک پر شیخ صاحب امرتسر آ گئے۔اس وقت پادری رجب علی صاحب اخبار وکیل ہندوستان کے ایڈیٹر و مینیجر تھے اسے چھوڑ کر انہوں نے اپنا اخبار یعنی’’سفیر ہند‘‘جاری کیا۔شیخ صاحب بھی اس مطبع میں چلے آئے اور ۱۸۷۸ء کے آخر میں حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحبؑ نے سفیر ہند میں براہین احمدیہ کے چھپوانے کا انتظام فرمایا۔شیخ نوراحمد صاحب کہتے تھےکہ سفیر ہند کے تمام پریس مین میرے سپرد تھےاور میرے ہی اہتمام سے سب کام ہوتے تھے۔اور خاص کر کتاب براہین احمدیہ پادری صاحب نے چھاپنے کے لیے میرے سپرد کی اور میں نے ہی اس کا اول حصہ اسی مطبع میں (سفیر ہند) میں چھاپا۔پھر میں نے اپنا پریس علیحدہ بنایا۔چونکہ چھپائی کا کام میرے ہاتھ سے صفائی سے ہوتا تھا۔اس لیے پادری صاحب نے دوسرا اور تیسرا حصہ میرے ہی مطبع میں چھپوایا۔

شیخ صاحب کو اس کام کو اپنے ہاں لینے کا خیال نہ تھا اس لیے کہ کام بہر حال ان کے مطبع میں ہو رہا تھا۔مگر خدا تعالیٰ جب کوئی غیر متوقع سامان کرتا ہےتو دیکھنے والوں کو حیرت ہوتی ہے جس عجیب وغریب طریق پر ریاض ہند میں یہ کام چلا گیا اس کی داستان عجیب ہے۔میں اس واقعہ کو اس لیے لکھ دینا نہیں چاہتا کہ براہین احمدیہ کی طبع سے اس کا تعلق ہے یا شیخ  نور  احمدصاحب کے واقعات زندگی پر اثر ہوبلکہ اس لیے بھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کا ایک گرامی قدر گوہر ہے اور میں اسے محفوظ کر دینا چاہتا ہوں۔شیخ نور احمد صاحب نے بیان کیا کہ براہین احمدیہ کا تیسرا حصہ میرے مطبع ریاض ہند میں چھپ رہا تھا۔پادری صاحب نے حضرت صاحب کوبڑے تقاضے کے خطوط لکھے کہ روپیہ جلد بھیجو۔میرے مطبع کی طباعت کی عمدگی اور خوش معاملگی کا اثر دن بدن بڑھ رہا تھا اور کثرت سے کام آرہا تھا۔پادری رجب علی صاحب کے ہاں کا کام بھی میرے ہاں آنے لگا اور اس طرح پر پادری صاحب میرے مطبع کو رقابت کی نظر سے دیکھتے تھے۔میرا پریس ہال بازار میں تھا۔وہ بھی اپنا پریس وہاں ہی لے آیا۔ان کا مطبع ہال بازار سے ایک طرف ہٹ کر تھااور میرا مطبع لب سڑک تھا۔ان کے تقاضے کے خطوط کی بنا پر حضرت صاحبؑ روپیہ لے کر امرتسر تشریف لائے۔آپؑ نے ہال بازارمیں چھاپہ خانہ کا پتہ دریافت کیاتو چونکہ صرف چھاپہ خانہ آپؑ نے پوچھااور میرا ہی پریس برلب سڑک تھا بتانے والے نے میرے مطبع کا پتہ دے دیا اور آپؑ وہاں تشریف لے آئے اتفاق سے اس وقت براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ کے پتھر چڑھے ہوئے چھپ رہے تھے۔آپؑ کو خیال گزرا کہ یہی رجب علی کا پریس ہے۔آپؑ نے ملازموں سے کہا پادری صاحب کو بلاؤ۔ملازموں نے مجھے خبر دی میں گھر میں تھا۔باہر آیا اور السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا اور مصافحہ کیا۔

حضرت صاحب چونکہ شیخ نور احمد صاحب سے واقف نہ تھے۔اور پادری صاحب کو جانتے تھے انہیں یہاں نہ پاکر کچھ تعجب بھی ہوا اور حسب ذیل گفتگو آپؑ سے ہوئی۔

حضرت اقدس: (تعجب سے)کیا یہ پریس رجب علی صاحب کا ہے؟

شیخ نور احمد صاحب: (مؤدبانہ لہجہ میں ) آپ ہی کا ہے۔

حضرت اقدس: (یہ سمجھ کر کہ یہ انکا پریس نہیں ) رجب علی صاحب کا پریس کہاں ہے۔اور یہ ہماری کتاب جو چھپ رہی ہےاس مطبع میں کیسے آئی؟

شیخ نور احمد صاحب :ساری کتاب میں نے اپنے مطبع ریاض ہند میں چھاپی ہے۔صرف پہلا حصہ پادری صاحب کے مطبع میں چھپا اور وہ بھی میں نے ہی چھاپا ہے۔اب ان کا پریس بند ہےاوروہ خود خیر الدین کی مسجد کے پیچھے رہتے ہیں۔

حضرت اقدس:رجب علی صاحب ہمیں تنگ کرتے ہیں۔ اور پیشگی روپیہ لے کر بھی کام وقت پر نہیں دیتے۔اب ہم ان کو روپیہ دینے آئے ہیں اور کتاب ابھی چھپی نہیں۔اگر ہم کو پہلے سے معلوم ہوتا تو آپ ہی سے چھپواتے۔ہمیں اس وقت بڑی خوشی ہوئی کہ ایک مسلمان کے مطبع میں کتاب چھپ رہی ہے۔اور ہمارا منشا یہ ہے کہ حصہ چہارم آپ ہی کے ہاں چھاپیں اور چھپنے کے بعد جب کتاب مکمل ہو جاوے تو ایک ماہ کے بعد بتدریج ہم آپ کو روپیہ دے دیں گے کیاآپ یہ انتظام کر سکتے ہیں؟

شیخ نور احمد صاحب: مجھے منظور ہے آپ بعد تکمیل کتاب ایک ماہ بتدریج روپیہ عنایت فرمانا شروع کر دیں۔

حضرت اقدسؑ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور یہ معاہدہ طباعت براہین کے متعلق ہو گیا۔فرمایا کاغذ بھی اپنے پاس سے لگاؤ۔اور چھپائی، ترتیب، سلائی، کٹائی سب کام تیار کر کے اور مکمل کر کے ہمیں دو۔اس وقت آپؑ نے کوئی نرخ وغیرہ طے نہیں کیا۔صرف یہ فرمایا کہ ہم کام اچھا چاہتے ہیں اور بعد میں کبھی اس کے نرخ وغیرہ کے متعلق آپؑ نے نہیں فرمایا کہ یہ زیادہ ہے۔جو بِل آپؑ کی خدمت میں پیش ہو تا اسے ادا کر دیتے۔شیخ صاحب کہتے تھے کہ میں نے رجب علی سے نصف خرچ یا اس سے بھی کم پر کتاب چھاپ دی۔وہ یہ بھی کہتے تھے کہ مجھے جب کتاب دی گئی تو قادیان بلا کر دی تھی۔ میں نے دیکھا کہ میاں شمس الدین اس کتاب سے مسودہ کی نقل کرتے تھے۔ان کا خط اچھا تھا۔جس قدر نقل ہو چکی تھی وہ مجھے حضرت نے دے دی اور باقی کے لیے فرمایا کہ جس قدر نقل ہوتی جائے گی ہم بذریعہ ڈاک یا دستی بھیجتے رہیں گے۔آپؑ کا تاکیدی حکم تھا کہ کاپیاں اور پروف رجسٹری کرا کر بھیجناکہ کہیں گم نہ ہو جاوے۔میں کاپیاں اور اصل مضمون تو رجسٹری کرا دیتا،لیکن پروف بغیر رجسٹری صرف ٹکٹ لگا کر بھیج دیتا۔مگر آپؑ بار بار یہی فرماتے کہ پروف بھی رجسٹری کرا کر روانہ کروکہ اس میں احتیاط ہے اور آپؑ بھی جب پروف بھیجتے تو رجسٹری کراتے تھے۔‘‘(حیات احمد، جلد دوم، صفحہ ۵۲ تا ۵۶)

براہین احمدیہ کی طباعت کے متعلق یہ تفصیلات حضرت شیخ نوراحمدصاحب نے اپنے ایک رسالہ ’’نوراحمد‘‘ میں بیان کی ہیں جوکہ ۴۶صفحات پرمشتمل ہے۔اور یوں نوراحمدنام کایہ شخص جومیرٹھ میں رہتاتھا وہاں سے مرادآباد گیااوروہاں سے امرتسرآیا اور براہین احمدیہ کے نخلستان کی جوتازہ بتازہ کھجوریں مسیح پاک کی جھولی میں گریں ان میں سے ایک شیریں پھل نوراحمدکاتھا جواحمدیت کانوربن کرحضرت شیخ نوراحمداحمدی بنا۔اور اپنی زندگی کے آخری سانسوں تک یہ پودالہلہاتارہااور اب قادیان کے بہشتی مقبرہ میں دفن ہو کر ہمیشہ ہمیش کی حیات ابدی پاگیا۔اور خداجانے کہ براہین احمدیہ کتنی مرتبہ چھپے گی،لیکن جو شرف وسعادت حضرت شیخ نور احمد صاحب کے حصہ میں اس کے سب سے پہلا پرنٹر ہونے کی حیثیت سے آئی ہےاس میں کوئی دوسرا شریک نہ ہو سکے گا۔

حضرت اقدسؑ کے ایک خط سے معلوم ہوتاہے کہ براہین احمدیہ دوقسم کے کاغذپرطبع کروائی گئی ہوگی۔ چنانچہ ایک خط میں جوکہ حضورؑ منشی رستم علی صاحبؓ کولکھتے ہیں اس میں تحریرفرماتے ہیں : ’’ آپ میرصاحب کوتاکیدکردیں کہ دوجلدیں چہارم حصہ براہین احمدیہ اگرسفید کاغذ پرہوں توبہتر ورنہ حنائی کاغذپر ہی سوموار تک روانہ فرمادیں۔‘‘(مکتوبات احمد، جلد دوم، صفحہ ۴۷۶، مکتوب نمبر ۳۰)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button