متفرق مضامین

خلافت احمدیہ دائمی ہے (قسط اوّل)

(’ابو شاذب‘)

خلافت کا انعام کن لوگوں کو ملتا ہے اور اُن میں کون کون سی صفات کا ہونا ضروری ہے۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور میں آیتِ استخلاف میں یوں بیان فرمایا ہے:وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔ (النور: ۵۶)تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لئے ان کے دین کو،جو اس نے ان کے لیے پسند کیا،ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔وہ میری عبادت کریں گے۔میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعدبھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔(ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ)

ہر نبوت کے بعد خداتعالیٰ نے خلافت کا انعام رکھا ہے۔ ہمارے پیارے آقا حضرت محمدﷺ بیان فرماتے ہیں:مَا كَانَتْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّا تَبِعَتْهَا خِلَافَةٌ۔ (کنزالعمال جزء ۱۱ صفحہ ۲۱۶ کتاب الفضائل/ فضائل سائر الانبیاء… روایت نمبر ۳۲۲۴۳ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲۰۰۴ء)کوئی نبوت ایسی نہیں جس کے بعد خلافت نہ آئی ہو۔ایک اور روایت میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے:عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ کَانَتْ بَنُوْا اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبْیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیّ وَاِنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَیَکْثُرُوْنَ۔ قَالُوْ فَمَا تَأمُرُنَا قَالَ فُوْا بِبَیْعَۃِ الْاَوَّلِ فَالْاَوَّلِ اَعْطُوْھُمْ حَقَّھُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ سَائِلُھُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاھُمْ۔ (صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب مَا ذکر عَنْ بْنی اسرائیل) حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایاتم سے پہلے انبیاء بنی اسرائیل کانظم ونسق کرتے تھے۔ جب بھی کوئی نبی فوت ہوتاتواس کاجانشین دوسرانبی بن جاتا۔لیکن میرے بعدکوئی نبی نہیں۔اور میرے بعدخلفاء ہوں گے اوربہت سے ہوں گے۔صحابہؓ نے عرض کیاایسی صورت میں آپؐ ہمیں کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایاجس کی پہلے بیعت کرواس کی بیعت کے عہدکونبھاؤ۔ انہیں ان کاحق دو۔کیونکہ اللہ ان سے پوچھے گاان کے بارہ میں جن کواللہ نے ان کی رعیت بنایا۔

اوپر بیان کردہ روایت میں اس امر کا بھی اظہار ہے کہ نبی کریمﷺ کے بعد خلافت ہو گی۔ اس کی زیادہ تفصیل ایک اور روایت میں یوں بیان ہوئی ہے:عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ كُنَّا قُعُوْدًا فِي الْمَسْجِدِ مَعَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ أَبُو ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيُّ، فَقَالَ يَا بَشِيْرُ بْنَ سَعْدٍ أَتَحْفَظُ حَدِيْثَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي الْأُمَرَاءِ؟ فَقَالَ حُذَيْفَةُ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ’’تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيْكُمْ مَا شَآءَ اللّٰهُ أَنْ تَكُوْنَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَآءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُوْنُ خِلَافَةٌ عَلٰى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةُ، فَتَكُوْنُ مَا شَآءَ اللّٰهُ أَنْ تَكُوْنَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَآءَ اللّٰهُ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُوْنُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَآءَ اللّٰهُ أَنْ يَكُوْنَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُوْنُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللّٰهُ أَنْ تَكُوْنَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَآءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُوْنُ خِلَافَةً عَلٰى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ‘‘ ثُمَّ سَكَتَ۔(مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحہ ۲۸۵ حدیث النعمان بن بشیر عن النبیﷺ روایت نمبر ۱۸۵۹۶ عالم الکتب بیروت ۱۹۹۸ء)حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم مسجد میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے۔… ابوثعلبہ خُشَنِی آئے اور انہوں نے کہا اے بشیر بن سعد! کیا آپ رسول اللہﷺ کی امراء کے بارےمیں روایت یاد رکھتے ہیں؟ اس پر حضرت حذیفہؓ نے بیان کیا رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں نبوت رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ وہ رہے۔ پھر وہ اس کو اٹھا لے گا جب وہ چاہے گا کہ اسے اٹھا لے۔ پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔پھر وہ قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا کہ وہ قائم رہے۔ پھر وہ اسے اٹھا لے گا جب وہ چاہے گا کہ اسے اٹھا لے۔ پھر ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی اور وہ قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ وہ قائم رہے۔ پھر وہ اسے اٹھا لے گا جب وہ چاہے گا کہ اسے اٹھا لے۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی اور وہ قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ وہ قائم رہے۔ پھر وہ اس کو اٹھا لے گا جب وہ چاہے گا کہ اسے اٹھا لے۔ پھر خلافت علیٰ منہاج نبوۃ قائم ہو گی۔(راوی کہتے ہیں) پھر آپؐ خاموش ہو گئے۔

اس روایت کے آخری الفاظ پر دوبارہ غور کی ضرورت ہے۔ آنحضرتﷺ نے (آخری زمانہ میں دوبارہ) خلافت علیٰ منہاج نبوۃ کے قیام کی پیشگوئی بیان فرمائی اور پھر آپؐ نے خاموشی اختیار کر لی۔ اس سے پہلے اس روایت میں تین مرتبہ رسول کریمﷺ نے خلافت، ایذا رساں بادشاہت اور اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت کے قیام اور اُن کے اٹھائے جانے کی خبر دی تاہم چوتھی مرتبہ آپؐ نے ایسا کوئی اظہار نہیں فرمایا بلکہ چوتھی دفعہ خلافت کی بشارت دینے کے بعد آنحضورﷺ نے خاموشی اختیار کر لی۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے پیار ےآقا حضرت محمد مصطفےٰﷺ نے اس جگہ ہمارے لیے ایک عظیم الشان خوشخبری اور بشارت بیان فرمائی کہ جب خلافت کا انعام آخری زمانہ میں لوگوں کو ملے گا تو پھر وہ انعام دائمی اور غیرمنقطع ہو گا اور تاقیامت جاری رہنے والا ہو گا۔

پس ہم کتنے خوش قسمت ہیں اور جماعت احمدیہ سے وابستہ افراد کس قدر خوش قسمت اور خوش بخت ہیں کہ ہم اس دائمی اور غیرمنقطع انعام کے مستحق اور وارث بنائے گئے ہیں۔ اور یہ انعام پہلی قوموں سے تو خدا نے اٹھا لیا لیکن خداتعالیٰ ہمیں اس انعام سے متمتع کر رہا ہے، بلکہ اس انعام نے نہ صرف ہمارے آباء و اجداد کو متمتع کیا بلکہ ہماری نسلیں، اور ہماری نسلوں کی نسلیں اور اُن کی بھی نسلیں اور بے شمار نسلیں اس انعام سے مستفیض اور مستفید ہوتی چلی جائیں گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ

حضرت شاہ اسمٰعیل شہیدؒ خلافتِ راشدہ کے بارےمیں فرماتے ہیں:’’وہ جو حدیث میں وارد ہے کہ خلافت راشدہ کا زمانہ رسول مقبول علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد تیس سال تک ہے اس کے بعد سلطنت ہو گی تو اس سے مراد یہ ہے کہ خلافت راشدہ متصل اور تواتر طریق پر تیس سال تک رہے گی۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیامِ قیامت تک خلافت راشدہ کا زمانہ وہی تیس سال ہے اور بس۔بلکہ حدیث مذکورہ کا مفہوم یہی ہے کہ خلافت راشدہ تیس سال گزرنے کے بعد منقطع ہو گی نہ یہ کہ اس کے بعد پھر خلافت راشدہ کبھی آہی نہیں سکتی۔بلکہ ایک دوسری حدیث خلافتِ راشدہ کے انقطاع کے بعد پھر عود کرنے پر دلالت کرتی ہے چنانچہ نبیﷺ نے فرمایا… نبوت تم میں قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اسے اٹھا لے گا اور بعدہٗ نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی جو اللہ کے منشا تک رہے گی پھر اسے بھی اللہ اٹھا لے گا۔ پھر بادشاہی ہو گی اور اسے بھی اللہ جب تک چاہے گا رکھے گا پھر اسے بھی اٹھا لے گا۔ پھر سلطنت جابرانہ ہو گی جو منشاء باری تعالیٰ تک رہے گی۔ پھر اسے بھی اٹھا لے گا اور اس کے بعد پھر نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی۔ پھر آپؐ چپ ہو گئے۔

اور یہ بھی امر ظاہر ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی خلافت،خلافت راشدہ سے افضل انواع میں سے ہو گی یعنی وہ خلافت ’’منتظمہ محفوظہ ‘‘ ہو گی۔(منصب امامت از حضرت شاہ اسمٰعیل شہیدؒ صفحہ ۱۱۸-۱۱۷، البرہان پبلشرز لاہور، اگست ۲۰۱۱ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میںخلافت کے دائمی ہونے کا تذکرہ

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں دو قدرتوں کی بابت تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ اور وہ دو قدرتیں نبوت اور خلافت ہیں۔ اس رسالہ میں حضرت اقدسؑ نے خلافت احمدیہ کو دائمی خلافت قرار دیا ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے، حضور علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:’’ سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سُنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا وے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اِس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اُس نے وعدہ فرمایا۔ اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو۔ اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعامیں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھاوے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے۔ اپنی موت کو قریب سمجھو تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آ جائے گی۔ ‘‘(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۶-۳۰۵)

سیدنا حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’قرآن کریم نے اس امت میں خلیفوں کے پیدا ہونے کا وعدہ کیا ہے… اور فرمایا ہے کہ ان کے وقتوں میں دین استحکام پکڑے گا اور تزلزل اور تذبذب دور ہوگا۔ اور خوف کے بعد امن پیدا ہوگا پھر اگر تکمیل دین کے بعد کوئی بھی کارروائی درست نہیں تو بقول معترض کے جو تیس سال کی خلافت ہے وہ بھی باطل ٹھہرتی ہے کیونکہ جب دین کامل ہوچکا تو پھر کسی دوسرے کی ضرورت نہیں۔ لیکن افسوس کہ معترض بے خبر نے ناحق آیت اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ کو پیش کردیا۔ ہم کب کہتے ہیں کہ مجدد اور محدث دنیا میں آکر دین میں سے کچھ کم کرتے ہیں یا زیادہ کرتے ہیں بلکہ ہمارا تو یہ قول ہے کہ ایک زمانہ گذرنے کے بعد جب پاک تعلیم پرخیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے۔ تب اس خوبصورت چہرہ کو دکھلانے کے لئے مجدد اور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں نہ معلوم کہ بے چارہ معترض نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ مجدد اور روحانی خلیفےدنیا میں آکر دین کی کچھ ترمیم و تنسیخ کرتے ہیں۔ نہیں وہ دین کو منسوخ کرنے نہیں آتے بلکہ دین کی چمک اور روشنی دکھانے کو آتے ہیں۔… مجددوں اور روحانی خلیفوں کی اس امت میں ایسے ہی طور سے ضرورت ہے جیسا کہ قدیم سے انبیاء کی ضرورت پیش آتی رہی ہے۔…

رحمانیت الٰہی نے تقاضا کیا کہ اندھی اور نابینا مخلوق کی بہت ہی مدد کی جائے اور صرف اس پر اکتفا نہ کیا جائے کہ ایک مرتبہ رسول اور کتاب بھیج کر پھر باوجود امتدادازمنہ طویلہ کے ان عقائد کے انکار کی وجہ سے جن کو بعد میں آنے والے زیادہ اس سے سمجھ نہیں سکتے کہ وہ ایک پاک اور عمدہ منقولات ہیں ہمیشہ کی جہنم میں منکروں کو ڈال دیا جائے اور درحقیقت سوچنے والے کے لئے یہ بات نہایت صاف اور روشن ہے کہ وہ خدا جس کا نام رحمٰن اور رحیم ہے اتنی بڑی سزا دینے کے لئے کیونکر یہ قانون اختیار کرسکتا ہے کہ بغیر پورے طور پر اتمام حجت کے مختلف بلاد کے ایسے لوگوں کو جنہوں نے صدہا برسوں کے بعد قرآن اور رسول کا نام سنا اور پھر وہ عربی سمجھ نہیں سکتے۔ قرآن کی خوبیوں کو دیکھ نہیں سکتے دائمی جہنم میں ڈال دے اور کس انسان کی کانشنس اس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ بغیر اس کے کہ قرآن کریم کا منجانب اللہ ہونا اس پر ثابت کیا جائے یوں ہی اس پر چھری پھیر دی جائے۔ پس یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے دائمی خلیفوں کا وعدہ دیا تا وہ ظلی طور پر انوار نبوت پاکر دنیا کو ملزم کریں اور قرآن کریم کی خوبیاں اور اس کی پاک برکات لوگوں کو دکھلاویں۔‘‘(شہادۃالقرآن، روحانی خزائن، جلد ۶، صفحہ ۳۳۹ تا ۳۴۲)

شہادۃالقرآن میں ہی ایک اور مقام پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزید بیان فرماتے ہیں:’’جب ہم قرآن پر نظر ڈالتے ہیں اور غور کی نِگہ سے اس کو دیکھتے ہیں تو وہ بھی بآواز بلند یہی فرما رہا ہے کہ روحانی معلموں کا ہمیشہ کے لئے ہونا اس کے ارادہ قدیمہ میں مقرر ہوچکا ہے دیکھو اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ۔ (الرعد: ۱۸) الجزو نمبر۱۳ یعنی جو چیز انسانوں کو نفع پہنچاتی ہے وہ زمین پر باقی رہتی ہے اب ظاہر ہے کہ دنیا میں زیادہ تر انسانوں کو نفع پہنچانے والے گروہ انبیاء ہیں کہ جو خوارق سے معجزات سے پیشگوئیوں سے حقائق سے معارف سے اپنی راستبازی کے نمونہ سے انسانوں کے ایمان کو قوی کرتے ہیں اور حق کے طالبوں کو دینی نفع پہنچاتے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ دنیا میں کچھ بہت مدت تک نہیں رہتے بلکہ تھوڑی سی زندگی بسر کرکے اس عالم سے اٹھائے جاتے ہیں لیکن آیت کے مضمون میں خلاف نہیں اور ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ کا کلام خلاف واقع ہو۔ پس انبیاء کی طرف نسبت دیکر معنی آیت کے یوں ہوں گے کہ انبیاء من حیث الظلباقی رکھے جاتے ہیں اور خداتعالیٰ ظلی طور پر ہریک ضرورت کے وقت میں کسی اپنے بندہ کو ان کی نظیر اور مثیل پیدا کردیتا ہے جو انہیں کے رنگ میں ہوکر ان کی دائمی زندگی کا موجب ہوتا ہے اور اسی ظلی وجود کے قائم رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھائی ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ۔ (سورۃ الفاتحۃ: ۶-۷)یعنی اے خدا ہمارے ہمیں وہ سیدھی راہ دکھا جو تیرے ان بندوں کی راہ ہے جن پر تیرا انعام ہے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا انعام جو انبیاء پر ہوا تھا جس کے مانگنے کے لئے اس دعا میں حکم ہے وہ درم اور دینار کی قسم میں سے نہیں بلکہ وہ انوار اور برکات اور محبت اور یقین اور خوارق اور تائید سماوی اور قبولیت اور معرفت تامہ کاملہ ا ور وحی اور کشف کا انعام ہے اور خدا تعالیٰ نے اس امت کو اس انعام کے مانگنے کے لئے تبھی حکم فرمایا کہ اول اس انعام کے عطا کرنے کا ارادہ بھی کرلیا۔ پس اس آیت سے بھی کھلے کھلے طور پر یہی ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ اس امت کو ظلی طور پر تمام انبیاء کا وارث ٹھہراتا ہے تا انبیاء کا وجود ظلی طور پر ہمیشہ باقی رہے اور دنیا ان کے وجود سے کبھی خالی نہ ہو اور نہ صرف دعا کے لئے حکم کیا بلکہ ایک آیت میں وعدہ بھی فرمایا ہے اور وہ یہ ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا۔ (العنكبوت: ۷۰) یعنی جو لوگ ہماری راہ میں جو صراط مستقیم ہے مجاہدہ کریں گے تو ہم ان کو اپنی راہیں بتلا دیں گے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہیں وہی ہیں جو انبیاء کو دکھلائی گئیں تھیں۔

پھر بعض اور آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرور خداوند کریم نے یہی ارادہ فرمایا ہے کہ روحانی معلم جو انبیاء کے وارث ہیں ہمیشہ ہوتے رہیں اور وہ یہ ہیں۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ۔(النور: ۵۶) وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا تُصِيْبُهُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيْبًا مِنْ دَارِهِمْ حَتّٰى يَأْتِيَ وَعْدُ اللّٰهِ إِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ۔(الرعد: ۳۲) الجزء نمبر ۱۳۔وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا۔(بنی اسرائیل:۱۶) یعنی خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے اے مومنان امت محمدیہ وعدہ کیا ہے کہ تمہیں بھی وہ زمین میں خلیفہ کرے گا جیسا کہ تم سے پہلوں کو کیا۔اور ہمیشہ کفار پر کسی قسم کی کوفتیں جسمانی ہوں یا روحانی پڑتی رہیں گی یا ان کے گھر سے نزدیک آجائیں گی۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ آپہنچے گا۔ اور خدا تعالیٰ اپنے وعدوں میں تخلف نہیں کرتا۔ اور ہم کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتے جب تک ایک رسول بھیج نہ لیں۔

ان آیات کو اگر کوئی شخص تامل اور غور کی نظر سے دیکھے تو میں کیونکر کہوں کہ وہ اس بات کو سمجھ نہ جائے کہ خداتعالیٰ اس امت کے لئے خلافت دائمی کا صاف وعدہ فرماتا ہے۔ اگر خلافت دائمی نہیں تھی تو شریعت موسوی کے خلیفوں سے تشبیہ دینا کیا معنی رکھتا تھا اور اگر خلافت راشدہ صرف تیس برس تک رہ کر پھر ہمیشہ کے لئے اس کا دور ختم ہوگیا تھا تواس سے لازم آتا ہے کہ خداتعالیٰ کا ہرگز یہ ارادہ نہ تھا کہ اس امت پر ہمیشہ کے لئے ابواب سعادت مفتوح رکھے کیونکہ روحانی سلسلہ کی موت سے دین کی موت لازم آتی ہے اور ایسا مذہب ہرگز زندہ نہیں کہلاسکتا جس کے قبول کرنے والے خود اپنی زبان سے ہی یہ اقرار کریں کہ تیرہ سو برس سے یہ مذہب مرا ہوا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس مذہب کے لئے ہرگز یہ ارادہ نہیں کیا کہ حقیقی زندگی کا وہ نور جو نبی کریم کے سینہ میں تھا وہ توارث کے طور پر دوسروں میں چلا آوے۔

افسوس کہ ایسے خیال پر جمنے والے خلیفہ کے لفظ کو بھی جو استخلاف سے مفہوم ہوتا ہے تدبّر سے نہیں سوچتے کیونکہ خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہو کیونکہ خلیفہ درحقیقت رسول کا ظلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کے لئے تاقیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تادنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے پس جو شخص خلافت کو صرف تیس برس تک مانتا ہے وہ اپنی نادانی سے خلافت کی علت غائی کو نظر انداز کرتا ہے اورنہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تو ہرگز نہیں تھا کہ رسول کریم کی وفات کے بعد صرف تیس برس تک رسالت کی برکتوں کو خلیفوں کے لباس میں قائم رکھنا ضروری ہے پھر بعد اس کے دنیا تباہ ہو جائے تو ہوجائے کچھ پرواہ نہیں بلکہ پہلے دنوں میں تو خلیفوں کا ہونا بجز شوکت اسلام پھیلانے کے کچھ اور زیادہ ضرورت نہیں رکھتا تھا کیونکہ انواررسالت اور کمالات نبوت تازہ بتازہ پھیل رہے تھے اور ہزارہا معجزات بارش کی طرح ابھی نازل ہوچکے تھے اور اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو اس کی سنت اور قانون سے یہ بھی بعید نہ تھا کہ بجائے ان چار خلیفوں کے اس تیس برس کے عرصہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کوہی بڑھا دیتا اس حساب سے تیس برس کے ختم ہونے تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کل ۹۳ برس کی عمر تک پہنچتے اور یہ اندازہ اس زمانہ کی مقررہ عمروں سے نہ کچھ زیادہ اور نہ اس قانون قدرت سے کچھ بڑھ کر ہے جو انسانی عمروں کے بارے میں ہماری نظر کے سامنے ہے۔

پس یہ حقیر خیال خدا تعالیٰ کی نسبت تجویز کرنا کہ اس کو صرف اس امت کے تیس برس کا ہی فکر تھا اور پھر ان کو ہمیشہ کے لئے ضلالت میں چھوڑ دیا اور وہ نور جو قدیم سے انبیاء سابقین کی امت میں خلافت کے آئینہ میں وہ دکھلاتا رہااس امت کے لیے دکھلانا اس کو منظور نہ ہوا۔ کیا عقل سلیم خدائے رحیم و کریم کی نسبت ان باتوں کو تجویز کرے گی ہرگز نہیں اور پھر یہ آیت خلافت اَئمہ پر گواہ ناطق ہے۔ وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُوْنَ۔ (الانبياء: ۱۰۶) کیونکہ یہ آیت صاف صاف پکار رہی ہے کہ اسلامی خلافت دائمی ہے۔ اس لئے کہ یَرِثُھَا کا لفظ دوام کو چاہتا ہے۔ وجہ یہ کہ اگر آخری نوبت فاسقوں کی ہوتو زمین کے وارث وہی قرار پائیں گے نہ کہ صالح، اور سب کا وارث وہی ہوتا ہے جو سب کے بعد ہو۔

پھر اس پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ جس حالت میں خداتعالیٰ نے ایک مثال کے طور پر سمجھا دیا تھا کہ میں اسی طور پر اس امت میں خلیفے پیدا کرتا رہوں گا جیسے موسیٰ کے بعد خلیفے پیدا کئے تو دیکھنا چاہیئے تھا کہ موسیٰ کی وفات کے بعد خداتعالیٰ نے کیا معاملہ کیا۔ کیا اس نے صرف تیس برس تک خلیفے بھیجے یا چودہ سو برس تک اس سلسلہ کو لمبا کیا۔ پھر جس حالت میں خدا تعالیٰ کا فضل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہیں زیادہ تھا چنانچہ اس نے خود فرمایا وَكَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا۔ (النساء:۱۱۴) اور ایسا ہی اس امت کی نسبت فرمایا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ۔ (آل عمران:۱۱۱) تو پھر کیونکر ہوسکتا تھا کہ حضرت موسیٰ کے خلیفوں کا چودہ سو برس تک سلسلہ ممتد ہو اور اس جگہ صرف تیس برس تک خلافت کا خاتمہ ہوجاوے اور نیز جب کہ یہ امّت خلافت کے انوار روحانی سے ہمیشہ کے لئے خالی ہے تو پھر آیت اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کے کیا معنی ہیں کوئی بیان تو کرے۔مثل مشہور ہے کہ اوخویشتن گم است کرا رہبری کند۔ جب کہ اس امت کو ہمیشہ کے لئے اندھا رکھنا ہی منظور ہے اور اس مذہب کو مردہ رکھنا ہی مدنظر ہے تو پھر یہ کہنا کہ تم سب سے بہتر ہو اور لوگوں کی بھلائی اور رہنمائی کے لئے پیدا کئے گئے ہو کیا معنی رکھتا ہے۔ کیا اندھا اندھے کو راہ دکھا سکتا ہے سواے لوگو جو مسلمان کہلاتے ہو!برائے خدا سوچو کہ اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ ہمیشہ قیامت تک تم میں روحانی زندگی اور باطنی بینائی رہے گی اور غیر مذہب والے تم سے روشنی حاصل کریں گے اور یہ روحانی زندگی اور باطنی بینائی جو غیرمذہب والوں کو حق کی دعوت کرنے کے لئے اپنے اندر لیاقت رکھتی ہے یہی وہ چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں خلافت کہتے ہیں پھر کیونکر کہتے ہو کہ خلافت صرف تیس برس تک ہوکر پھر زاویہ عدم میں مخفی ہوگئی۔ اتقوااللّٰہ۔ اتقوااللّٰہ۔ اتقوااللّٰہ۔

اب یاد رہے کہ اگرچہ قرآن کریم میں اس قسم کی بہت سی آیتیں ایسی ہیں کہ جو اس امت میں خلافت دائمی کی بشارت دیتی ہیں اور احادیث بھی اس بارے میں بہت سی بھری پڑی ہیں۔ ‘‘(شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ۳۵۱تا ۳۵۵)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’خدا وعدہ دے چکا ہے کہ اس دین میں رسول اللہ صلعم کے بعد خلیفے پیدا کرے گا اور قیامت تک اس کو قائم کرے گا۔ یعنی جس طرح موسیٰؑ کے دین میں مدت ہائے دراز تک خلیفے اور بادشاہ بھیجتا رہا ایسا ہی اس جگہ بھی کرے گا اور اس کو معدوم ہونے نہیں دے گا۔‘‘ (جنگ مقدس، روحانی خزائن، جلد ۶، صفحہ ۲۹۰)سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:فَثَبَتَ مِنَ الْقُرْآنِ اَنَّ الْخُلَفَاءَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔قرآن سے ثابت ہے کہ مسلمانوں میں سے خلفاء قیامت تک آتے رہیں گے۔ (اعجازالمسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸، صفحہ ۱۷۷)

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ولایت اور امامت اور خلافت کی ہمیشہ قیامت تک راہیں کھلی ہیں۔اور جس قدر مہدی دنیا میں آئے یا آئیں گے ان کا شمار خاص اللہ جل شانہٗ کو معلوم ہے۔وحی رسالت ختم ہوگئی۔مگر ولایت و امامت و خلافت کبھی ختم نہیں ہو گی۔یہ سلسلہ ائمہ راشدین اور خلفاء ربانیین کا کبھی بند نہیں ہو گا۔‘‘ (بدر ۱۴؍جون ۱۹۰۶ صفحہ ۳ نمبر ۲۴ جلد ۲)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی روشنی میں خلافت کے دائمی ہونے کا تذکرہ

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے ۱۳؍فروری ۱۸۹۹ء کو عیدالفطر کے خطبہ میں بیان فرمایا’’دنیا کے دیگر مذاہب کی حفاظت کے لئے مؤید من اللہ،نصرت یافتہ پیدا نہیں ہوتے۔ اسلام کے اندر کیسا فضل اور احسان ہے کہ وہ مامور بھیجتا ہے جو پیدا ہونے والی بیماریوں میں دعاؤں کے مانگنے والا،خدا کی درگا ہ میں ہوشیار انسان،شرارتوں اور عداوتوں کے بد نتائج سے آگاہ،بھلائی سے واقف انسان ہوتا ہے۔جب غفلت ہوتی ہے اور قرآنِ کریم سے بے خبری ہوتی ہے،رسول اللہﷺ کی راہوں میں بے سمجھی پیدا ہو جاتی ہے تو خدا کا وعدہ ہے کہ ہمیشہ خلفاء پیدا کرے گا جس کے سبب سے کل دنیا میں اسلام فضیلت رکھتا ہے۔‘‘(خطبات نور، صفحہ ۹، خطبہ عیدالفطر ۱۳۔فروری ۱۸۹۹ء)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button