سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

براہین احمدیہ کے کاتب

کتاب کی تصنیف میں حضورؑ کا یہ طریق رہا کہ آپؑ ایک مسودہ تحریر فرماتے اورہرچندکہ حضوراقدسؑ کااپنا خط بھی نہایت نفیس اور پختہ تھا لیکن اس لیے کہ کاتب کولکھنے میں سہولت رہے اس کوخوشخط اورصاف لکھنے کے لیے میاں شمس  الدین صاحب آف قادیان کو دے دیتے۔جنہیں اسی کام کے لیے آپؑ نے ملازم رکھاہواتھا۔

میاں شمس الدین صاحب حضوراقدسؑ کے پہلے استاد، محترم فضل الٰہی صاحب کے بیٹے تھے۔قادیان میں یہ لوگ قاضی تھے۔ اور میاں شمس الدین صاحب خودبھی فارسی کے اچھے عالم تھے۔حضرت اقدسؑ آخرعمرتک ان کی مددکرتے رہے۔(ماخوذازحیات احمدؑ جلددوم صفحہ۴۸-۴۹)

میاں شمس الدین صاحب مسودہ حضورؑ سے لے کر اسے خوشخط لکھ کر آتے پھر یہ صاف شدہ مسودہ منشی امام الدین صاحب کاتب امرتسری کو دے دیا جاتا جو امرتسر سےقادیان آ کر حضورؑ کی نگرانی میں کام کرتے تھے۔ جب کاپیاں کتابت ہو کر تیار ہو جاتی تھیں تو حضورؑان پر نظر ثانی فرماتے اور تصحیح وغیرہ کر کے پریس تک پہنچانے کے لیے اکثر خود ہی امرتسر تشریف لے جاتے اور پروف پڑھنے کے لیے حضورؑ کو بعض اوقات امرتسر میں حکیم محمد شریف صاحب کلانوری کے ہاں قیام پذیر ہونا پڑتا۔ اس کام کے دوران ملاوا مل اور لالہ شرمپت بھی سفر میں آپؑ کے ساتھ ہوتے تھے۔ بعض اوقات لالہ ملاوامل صاحب کو ہی کاپیاں دے کر بھجوا دیا جاتا۔

براہین احمدیہ کی اشاعت کے لیے آپؑ کی کوشش اور محنت آج بھی چشم تصورمیں لائیں تو آنکھیں پُرنم ہوجاتی ہیں کہ قادیان کی ریاست کایہ شہزادہ جوسب آرام و آسائش تج کر دین محمدمصطفیٰ ﷺکے دردسے بے تاب ہوکر پاپیادہ براہین احمدیہ کامسودہ لے کربٹالہ جاتاہے اوروہاں سے امرتسرپادری رجب علی کوکاپیاں دیتاہے اور باربارتلقین کرتاہے کہ دیکھواس کے پروف بھی بھیجوتو بذریعہ ڈاک رجسٹرڈکرکے بھیجنا کہ کہیں گم نہ ہوجائیں،ضائع نہ ہوجائیں اور دیکھواگرتم ایسانہ کرسکو تومجھے بتانا میں خودچلاآؤں گا۔ لیکن اس کام کومعمولی نہ جاننا۔ ایک ایک پروف کے لیے حضورؑ نے اس کابڑی توجہ اورجانفشانی سے اہتمام فرمایا۔ نہ جانے کتنی بار امرتسرکایہ سفراختیارکیاہوگا۔اس زمانہ میں عموماً لالہ ملاوامل صاحب اور لالہ شرمپت صاحب آپ کے ہمراہ ہوتے تھے۔ حضورعلیہ السلام نے متعددمواقع پراس کاذکرفرمایاہے۔ کیونکہ بعد کے عہدمیں آپؑ کے یہ سفراپنی ذات میں ایک نشان کے طورپرسامنے آتے ہیں۔اور یہ غیرمذہب کے لوگ اس کے گواہ رہ گئے۔ چنانچہ آپؑ اس کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’…ملاوامل اور شرمپت رائے یہاں موجودہیں۔یہ میرے ساتھ عموماً آیاجایاکرتے تھے۔میرے ساتھ براہین احمدیہ چھپوایاکرتے اوراس کے پروف بھی انہوں نے دیکھے ہیں اورجب ہم امرتسرجاتے تھے توکسی کومعلوم بھی نہ ہوتاتھا کہ کہاں گئے اوروہاں جاکر کوئی نہیں جانتاتھا کہ کہاں رہے۔‘‘(ملفوظات جلد۹صفحہ۱۶۲۔ ایڈیشن ۱۹۸۴ء) حصہ چہارم کے زمانہ میں پروف اور کاپیوں کو گاہے گاہے بذریعہ ڈاک بھی بھجوادیا جاتا اور اس میں یہ احتیاط کی جاتی کہ کاپیاں رجسٹری کر کے بھجوائی جاتیں اور مہتمم صاحب مطبع کو بھی ہدایت تھی کہ وہ بھی پروف اور کاپیاں رجسٹری بھجوایا کریں۔

حضرت عرفانی صاحبؓ انہی معمولات کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں: کاپیاں امرتسر کبھی آپؑ خود لے جاتے۔یا بذریعہ ڈاک بصیغہ رجسٹری بھیجتے اور کبھی لالہ ملاوا مل صاحب وغیرہ کو بھیج دیتے۔اور یہی طریق پروف بھیجنے کے متعلق تھا۔عام طور پر خود جانا پسند فرماتے تھے۔اور شیخ نور احمد صاحب کو تو عام ہدایت تھی کہ کبھی پروف بلارجسٹری نہ بھیجے جاویں۔یہ امر آپؑ کی احتیاط پر دلالت کرتا ہے۔اس کتاب کے لئے آپؑ کو بےانتہا محنت کرنی پڑتی تھی۔اس لئے کہ قادیان محض ایک گاوٴں تھا۔اور امرتسر تک یکہ پر جانا پڑتا تھا۔اس وقت آمدورفت کی یہ سہولتیں نہ تھیں جو آج ہمیں میسر ہیں۔بلکہ امرتسر اور بٹالہ کے درمیان ابھی ریل بھی تیار نہ ہوئی تھی۔امرتسر تک یکہ میں جانا پڑتا تھا اور قادیان سے کبھی کوئی یکہ مل جاتا۔مگر علی العموم آپؑ بٹالہ تک پیدل سفر کرتے تھے۔موسمی شدائد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر شخص بآسانی قیاس کرسکتا ہےکہ حضرت کو براہین احمدیہ کی طبع کے لیے کس قدر محنت اور جفاکشی سے کام لینا پڑتا تھا۔آج ہم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے تھے۔خود مضمون لکھتے پھر صاف شدہ مسودہ کو پڑھتے۔پھر کاتب کو دیتے۔اور کاپیوں کی اصلاح فرماتے۔اور پھر خود ان کو لے کر امرتسر جاتے۔اور کاپیاں مطبع میں دے کر بعض اوقات آجاتے اور جب کاپیاں پتھر پر لگ جانے کی اطلاع ملتی تو آپؑ خود امرتسر تشریف لے جاتےاور کاپیوں کے پروف پڑھتے۔

ان ایام میں اس موقع کے لیے آپؑ کو کئی کئی مرتبہ جانا پڑتا۔اور کئی کئی دن امرتسر قیام کرنے کی ضرورت پیش آتی۔اگرچہ امرتسر کے تمام بڑے بڑے روٴساء سے آپؑ کے خاندان کے تعلقات تھے۔اور آپؑ اگر ان کے ہاں قیام فرماتے تو وہ اپنی سعادت اور عزت یقین کرتے۔لیکن آپؑ کی عادت شریف میں یہ نہ تھا۔ آپؑ دنیا کے بڑے آدمیوں سے الگ تھلگ رہتے۔امرتسر جا کر آپؑ علی العموم حکیم محمد شریف صاحب کلانوری کے ہاں قیام فرمایا کرتے تھے۔اس سفر میں کبھی کبھی لالہ ملاوا مل صاحب بھی آپؑ کے ساتھ ہوتے تھے اور کبھی لالہ شرمپت رائے بھی۔کبھی لالہ ملاوا مل صاحب کو تنہا بھی بھیج دیا کرتے تھےتاکہ وہ کاپیاں لے جاویں۔یا کسی اور کام کو سرانجام دیں۔امرتسر کے قیام کے ایام میں آپؑ کا کام سوائے براہین کے پروف وغیرہ دیکھنے کے اور کچھ نہ ہوتا تھا۔وہاں اگر کچھ وقت ملتا تو آپؑ مذہبی تذکرہ بھی بعض لوگوں سے فرماتے تھے۔ان میں سے مولوی غلام نبی صاحب تاجر کتب اب تک زندہ ہیں۔مولوی غلام نبی صاحب ردّ نصاریٰ میں رسالے اور اخبارات میں مضامین لکھتے رہتے تھے۔اور انہیں خصوصیت سے اس کا شوق تھا۔حضرت اقدسؑ ہر ایسے شخص سے محبت کرتے تھے جو خدمت اسلام کا جوش رکھتا ہو۔اس لیے مولوی غلام نبی صاحب سے للّٰہی محبت رکھتے تھے اور عیسائیوں کے اعتراضات کے متعلق گفتگو ہوتی رہتی تھی۔جب کبھی بھی موقع ملتا۔(ماخوذازحیات احمدجلددوم صفحہ۵۹تا ۶۱)

براہین احمدیہ کے ایک کاتب تومنشی امام الدین صاحب تھے۔ان کاخط حضرت اقدسؑ کوبہت پسند تھا۔اورایک عرصہ دراز تک وہی حضرت مسیح موعودؑ کے کاتب رہے۔ براہین احمدیہ کے تین حصوں کی کتابت انہوں نے کی۔البتہ براہین احمدیہ کے چوتھے حصہ کی کتابت کی سعادت شیخ محمدحسین مرادآبادی کے حصہ میں آئی۔جنہیں بعدمیں حضرت اقدسؑ کے ہاتھ پربیعت کرکے احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی اور یوں وہ اعزازبھی پایا کہ اب وہ حضرت شیخ محمدحسین مرادآبادی رضی اللہ عنہ ہوگئے۔

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی فطرت میں حسن سلوک و احسان و وفاکامادہ ایساتھا کہ آپؑ ایک بار جُودوعطاکاہاتھ بڑھاتے توپھرکبھی واپس نہیں لیتے تھے۔اس لیے آپ منشی امام الدین صاحب سے بھی کام لیتے رہے۔اور آئینہ کمالات اسلام تک وہ کچھ نہ کچھ کام کرتے رہے۔ حضرت اقدسؑ اس زمانے میں بھی ان کومستقل طورپربیس روپیہ ماہواردیتے تھے اس شرط پرکہ جب طلب کیاجائے گا وہ فوراً آجائیں گے۔

براہین احمدیہ کی طباعت کا انتظام

کتاب کی طباعت کے لیے آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے سفیرہند پریس ہال بازار امرتسرکا انتخاب کیا۔یہ پریس ایک مشہور پادری رجب علی صاحب کا تھا جواپنی نفیس اوراعلیٰ طباعت کے باعث مشہور بھی تھا۔اوراس کی یہی نفاست اوراعلیٰ درجہ کی طباعت ہی حضرت اقدسؑ کی پسندیدگی کا باعث بنی۔کیونکہ حضرت اقدس علیہ السلام کتاب کی طباعت کے معاملہ میں بہت نفاست کا اہتمام اورخیال فرماتے تھے اورپسند فرماتے تھے کہ کتابت سے لے کر جلدبندی تک کتاب نفیس اور اعلیٰ معیار کی طبع ہو۔

حضرت قاضی محبوب عالم صاحبؓ جو کہ ایک زمانے میں حضرت اقدسؑ کی کتابیں چھپوانے کی نگرانی کاکام بھی کرتے رہے وہ فرماتے ہیں کہ ’’…میں قادیان میں ٹھہر گیا۔ اورضیاء  الاسلام پریس میں حضرت صاحبؑ کی کتابیں چھپوانے پر میری ڈیوٹی لگ گئی۔مرزااسماعیل بیگ صاحب پریس مین تھے اورمیں ان کا نگران تھا۔حضرت صاحب ؑکو صاف اور ستھری کتابیں چھپوانے کا ازحدخیال تھا۔‘‘(لاہورتاریخ احمدیت،مصنفہ شیخ عبدالقادرصاحب صفحہ۲۳۶)

حضرت اقدسؑ نے براہین احمدیہ کا جواشتہارپہلی مرتبہ شائع فرمایا ہے اس کوپڑھنے سے بھی واضح ہوتاہے کہ کتاب کی طباعت میں عمدگی اورنفاست کا کس قدر آپؑ کو خیال تھا۔آپؑ اس اشتہار میں فرماتے ہیں :’’واضح ہو کہ جو اصل قیمت اس کتاب کی بلحاظ ضخامت اورحُسن اور لطافت ذاتی اس کے اورنیز بنظر اس پاکیزگی ٔخط اور تحریر اور عمدگی کاغذ وغیرہ لوازم اور مراتب کے کہ جن کے التزام سے یہ کتاب چھاپی جائے گی…‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۹؍مورخہ ۲۰؍دسمبر ۱۸۷۹ء)

براہین احمدیہ کا جب پہلا حصہ شائع ہوا تو اس کے صفحہ ۲ پر ’’اعلان کتاب براہین احمدیہ کی قیمت اوردیگر ضروری گزارش ‘‘ کے عنوان سے آپؑ نے لکھا :’’…کتاب ہذا بڑی مبسوط کتاب ہے یہاں تک کہ جس کی ضخامت سو جز سے کچھ زیادہ ہوگی اورتا اختتام طبع وقتاً فوقتاً حواشی لکھنے سے اور بھی بڑھ جائے گی اورایسی عمدگی کاغذ اور پاکیزگی خط اوردیگر لوازم حُسن اورلطافت اورموزونیت سے چھپ رہی ہے کہ جس کےمصارف کا حساب جو لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ اصل قیمت اس کی یعنی جو اپنا خرچ آتاہے فی جلد پچیس روپیہ ہے…‘‘(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد اول صفحہ۲)

پادری رجب علی صاحب کے بارے میں حضرت اقدس علیہ السلام جانتے تھے کہ بہت عمدہ طباعت اورچھپائی کا دلدادہ ہے اس لیے آپؑ نے اس کے پریس کا انتخاب فرمایا اورپادری صاحب حضرت اقدسؑ کی اس عادت سے واقف تھے کہ یہ تجارت پیشہ انسان نہیں بلکہ یہ طباعت عمدہ چاہتے ہیں اورہرقسم کی عمدگی اورنفاست کے دلدادہ ہیں اس لیے اس نے بھی آپؑ سے من مانی اجرت کا تقاضا کیا اور حضرت اقدسؑ نے بغیر کسی تکرارکے اس کی منہ مانگی اجرت دی بلکہ پادری صاحب اکثرپیشگی اجرت لے لیاکرتے تھے۔

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ ایک جگہ حضرت اقدسؑ کے اسی ذوق طباعت کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اصل یہ ہے کہ حضرتؑ کا مذہب یہ تھا۔کہ آپؑ اشاعت کے متعلق یہ کبھی پسند نہیں فرماتے تھے کہ اس کے کاغذ یا کتابت یا طباعت میں کسی قِسم کی کفایت کو مد نظر رکھ کر اس کے حسن میں فرق پیدا کریں۔بلکہ آپؑ فرماتے تھے کہ میں تو اسے شرک سمجھتا ہوں۔‘‘(حیات احمدؑ جلددوم صفحہ۵۰)

غرض پادری صاحب نے براہین کی طباعت کی من مانی اجرت لی اور اس کتاب کو چھاپنا شروع کیا۔وہ کتاب کی طبع کے اخراجات عموماً پیشگی لیتے جس سے بعض اوقات آپؑ کو تکلیف ہوتی۔لیکن آپؑ اس کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔کچھ شک نہیں کہ پادری رجب علی نے کتاب کی طبع کی اجرت بہت ہی زیادہ لی مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس نے کتاب کو نہایت اعلیٰ درجہ کی طباعت سے تیار کیا۔

حضورؑکے اسی نفیس ذوق طباعت کااندازہ پادری رجب علی کوخوب تھا اور اس کاتذکرہ بھی معلوم ہوتاہے کہ عام تھا۔حضرت عرفانی صاحبؓ کے درج ذیل اقتباس سے اس کااندازہ کیاجاسکتاہے:’’میں نے پادری رجب علی صاحب کو نہیں دیکھا۔میرے قیام امرتسر کے وقت وہ حیدر آباد میں تھے۔لیکن ان کی اہلیہ ’’میری‘‘ نامی امرتسر میں اسی بلڈنگ کے ایک حصہ میں رہتی تھیں۔جس میں خاکسار(عرفانی) رہتا تھا۔اور حافظ عبد الرحمٰن صاحب امرتسری میرے ساتھ رہتے تھے۔ان کے توسط سے مجھے بھی اہلیہ پادری رجب علی صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوتا تھا۔میں نے ان سے براہین احمدیہ کی طبع کے زمانے کے متعلق جب ذکر کیا تو ’’میری‘‘ نے ہمیشہ کہا کہ ’’پادری صاحب کہا کرتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب کی عمدہ اور اعلیٰ طباعت کا شوقین کوئی نہیں دیکھا۔اور اس کے لئے فراخدلی سے روپیہ خرچ کرنے میں مرزا صاحب سے بڑھ کر مجھے نظر نہیں آیا۔باوجودیکہ اُس کے پاس روپیہ نہیں وہ بہت دلیر اور فراخ حوصلہ ہیں۔‘‘(حیات احمدؑ جلددوم صفحہ۵۷)

پادری صاحب کی عمدگی طباعت اور مذکورہ بالاتمام باتوں کا ذکر ایک جگہ حضرت اقدسؑ نے ان الفاظ میں فرمایاہے:’’مطبع سفیر ہند کے مہتمم صاحب میں ایک عمدہ خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت صحت اور صفائی اور محنت اور کوشش سے کام کرتے ہیں اور اپنی خدمت کو عرق ریزی اور جانفشانی سے انجام دیتے ہیں۔ یہ پادری صاحب ہیں۔ مگر باوجود اختلافِ مذہب کے خدا نے ان کی فطرت میں یہ ڈالا ہوا ہے کہ اپنے کام منصبی میں اخلاص اور دیانت کا کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑتے۔ ان کو اس بات کا ایک سودا ہے کہ کام کی عمدگی اور خوبی اور صحت میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ انہیں وجوہ کی نظر سے باوجود اس بات کے کہ دوسرے مطابع کی نسبت ہم کواس مطبع میں بہت زیادہ حق الطبع دینا پڑتا ہے۔ تب بھی انہیں کا مطبع پسند کیاگیا…‘‘(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد اول صفحہ۳۱۱-۳۱۲)

پادری رجب علی صاحب کے متعلق مزید یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ پادری صاحب ایک علم دوست بھی تھے اور حضرت اقدسؑ نے دیگر مذاہب کے علماء سے جب کوئی تحریری مباحثہ وغیرہ فرمایا تو اس میں جو منصفین کے نام تجویز کیے جاتے تھے ان میں سے ایک پادری رجب علی صاحب بھی ہوتے تھے۔چنانچہ پنڈت کھڑک سنگھ کے ساتھ جو تحریری مباحثہ طے پایا اس کی شرائط میں سے ایک شرط کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں:’’…اوربہتر ہے کہ ثالث اور منصف اس مباحثہ تنقیح فضیلت ویداور قرآن میں دوشریف اور فاضل آدمی مسیحی مذہب اوربرہمو سماج سے جو فریقین کے مذہب سے بے تعلق ہیں مقرر کیے جائیں۔سو میری دانست میں ایک جناب پادری رجب علی صاحب جو خوب محقق مدقق ہیں …فیصلہ اس امر متنازعہ فیہ میں حَکَم بننے کے لئے بہت اولیٰ اور انسب ہیں۔‘‘(پرانی تحریریں، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴)

ایک اور مباحثہ میں جو کہ باوا نرائن سنگھ صاحب سے طے پار ہاتھا اس میں جب منصفان کے ناموں کی بات چلی جن میں سے کچھ نام باواصاحب موصوف نے خود ہی پیش کیے تھے ان ناموں میں دوناموں کا اضافہ فرماتے ہوئے حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں:’’…دوصاحب مسیحی مذہب بھی ممبر تنقید جواب کے لئے قرار پانے چاہیئں سو میری دانست میں پادری  رجب علی صاحب اوربابورلیارام صاحب جو علاوہ فضیلت علمی اورطبیعت منصفانہ کے اس بحث جاری شدہ سے بخوبی واقف ہیں۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۱)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button