پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان (جنوری و فروری ۲۰۲۴ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب)

دولیاہ جٹاں آزاد جموں کشمیر۔ فروری۲۰۲۴ء: درج ذیل خبر asianews.itپر شائع ہوئی:

کشمیر میں شدت پسندوں کا احمدیوں پر حملہ۔کئی احمدی عبادت گزاروں کو زخمی کر دیا گیا اور میناروں کو مسمار کر دیا گیا۔

پاکستان میں موجود احمدیہ برادری ایک بار پھر سے شدت پسندوں کے نشانے پر ہے۔حالیہ حملہ بھابھڑہ آزاد جموں کشمیر میں پیر کے روز کیا گیا جس میں ایک احمدیہ مسجد کو نشانہ بنایا گیا۔حملہ آوروں نے ہتھیاروں کا استعمال کیا جس میں ۷ احمدی مرد اور ۵ احمدی خواتین شدید زخمی ہو گئیں۔حملہ آوروں نے احمدیہ مسجد کو تہس نہس کر دیا اور میناروں کو بھی مسمار کر دیا۔پولیس کو بھی مطلع کیا جا چکا تھا لیکن پولیس نے پہنچنے میں عمداً تاخیر کا مظاہرہ کیا اور ساٹھ سے پینسٹھ حملہ آوروں پر مبنی شدت پسند جتھہ پولیس کے آنے تک فرار ہو گیا۔ابتدائی تفتیش کے مطابق حملہ آوروں نے سیکیورٹی کیمرے توڑ دیے اور مسجد کو بری طرح نقصان پہنچایا۔مسجد میں داخل ہوتے ہی حملہ آوروں نے آہنی ڈنڈوں اور ہتھوڑوں کی مدد سے سیکیورٹی پر مامور ایک احمدی کو بری طرح زخمی کردیا اور وہ انتہائی تشویش ناک حالت میں ہسپتال میں داخل ہیں۔جب دیگر احباب نے آگے بڑھ کر واجد صاحب کی مدد کرنے کی کوشش کی تو حملہ آوروں نے ان کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا اور قریبی گھروں پر پتھراؤ بھی کیا۔ مدد کو آنے والے احمدی احباب بھی کوٹلی کے ضلعی ہسپتال میں داخل ہیں۔گذشتہ نومبر سے شدت پسندوں نے اس مسجد کو نشانہ بنارکھا تھا اور پولیس کو بارہا اس بات کی شکایت کی گئی لیکن سب بے سود۔شدت پسندوں نے ۱۶؍دسمبر تک احمدیوں کو اس علاقے کو خالی کرنے اور مسجد کے مینارے ہٹانے کی مہلت دے رکھی تھی۔اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں خود کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ لگتا ہے اب انہوں نے اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنا دیا۔یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان میں عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی نے اشتراک سے حکومت بنائی ہے۔ نئی حکومت میں وزراء کا انتخاب تو ابھی تک نہیں ہوا لیکن اپنے مخالفین اورسابق کرکٹر اور سابق وزیر اعظم کو نشانے پر لیے ہوئے ہے۔ احمدیہ جماعت کے ترجمان نے ایشیا نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال احمدیوں پر مظالم کے بیالیس واقعات پیش آئے اور درجنوں مینارے مسمار کیے گئے۔ ابھی یہ سال کا آغاز ہے اور دو واقعات رونما ہو چکے ہیں۔انہوں نے اداروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اداروں کا کام شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرنا ہے لیکن ادارے اس بات میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس تمام واقعات کی ویڈیو موجود ہے اور پولیس اگر چاہے تو آسانی سے مجرموں کی شناخت کر سکتی ہے۔

احمدیہ مسجد عزیز آباد کے مینار مسمار کردیے گئے

عزیزآباد۔ کراچی۔ ۲۸؍فروری۲۰۲۴ء: ۱۵ سے ۲۰؍نقاب پوش ڈنڈا بردارحملہ آوروں نے ۲۸ فروری کو عزیز آباد میں احمدیہ مسجد پر حملہ کردیا۔ ان میں سے کچھ کے پاس فلسطینی جھنڈے بھی تھے۔ اس وقت ڈیوٹی پر دو پولیس اہلکار موجود تھے۔ انہوں نے پولیس والوں کی آنکھوں میں مرچیں ڈال دیں اور انہیں اپنی حراست میں لے لیا۔ بعدازاں تین سے چار حملہ آور سیڑھی کی مدد سے چھت پر چڑھ گئے اور میناروں کو ڈھانپنے والی چادروں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔اور چند ایک نے بیرونی دیوار کو توڑا۔پولیس کےمطابق گولی چلنے کی آواز بھی سنی گئی اور حملہ آوروں نے پٹاخے بھی پھینکے۔چھت پر جانے والے حملہ آوروں نے خادم مسجد اور اس کے اہل خانہ کو بھی ہراساں کیا۔ حملہ آوروں نے سیکیورٹی کیمرے بھی توڑ دیے۔ چند ماہ قبل بھی میناروں کو مسمار کرنے کے لیے ایسا ہی حملہ کیا گیا تھا لیکن اس وقت پولیس کی موجودگی میں یہ طے پایا تھا کہ میناروں کو لوہے کی چادر سے ڈھانپ دیا جائے۔اس کے بعد سے اب تک پولیس والے یہاں حفاظتی بندوبست کے لیے موجود رہتے تھے۔

احمدی ملزم کو آخر کار چار سال بعد ضمانت مل گئی

جنوری۔ فروری ۲۰۲۴ء۔ لاہور: چند احمدیوں کے خلاف ۲۶؍مئی ۲۰۲۰ء کوتوہین کی دفعات کے تحت ایف آئی اے لاہور کے ایک پولیس سٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک کو تو فوراً ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔جبکہ دو کو ۳۰؍ستمبر ۲۰۲۰ءکو گرفتار کیا گیا تھا۔۲۹؍جون ۲۰۲۱ء کو ان پر لگنے والی دفعات میں ۲۹۵ ج بھی شامل کر دی گئی تھی۔ جسٹس مظہر عالم،جسٹس خان میاں خیل اور جسٹس مندوخیل پر مبنی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے۲۷؍اپریل ۲۰۲۲ءکو ان کی درخواست ضمانت خارج کر دی تھی۔پھر ۲۲؍فروری ۲۰۲۳ءکو تین رکنی بینچ نے نظر ثانی اپیل خارج کر دی تھی اور ہائی کورٹ کو کہا تھا کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں کہ ایف آئی اے کی جانب سے لگائی گئی توہین کی دفعات جائز طور پر لگائی گئی ہیں یا نہیں۔ان میں سے ایک نے دو سال سے زائد عرصہ قید میں گزارنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں سٹیچوٹری گراؤنڈ (یعنی ملزم ایسے مقدمے میں گرفتار ہو جو قتل کا نہیں اور ایک معینہ مدت سے زائد عرصہ قید میں گزار دے تو وہ درخواست ضمانت دائر کر سکتاہے) پر درخواست ضمانت دی۔لیکن جسٹس امجد رفیق نے ۸؍جون ۲۰۲۳ءکو وکیل کے دلائل سنے بغیر ہی ضمانت خارج کر دی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ سپریم کورٹ کے بینچ نے لاہور ہائی کورٹ اور سیشن کورٹ سے اس مقدمے کے متعلق تفصیلات مانگیں۔سپریم کورٹ نے آخر کار ۱۵؍جنوری ۲۰۲۴ءکو ضمانت منظور کر لی۔ کیمپ جیل سے رہا ہونے سے قبل ہی ایف آئی اے نے توہین کی دفعات لگا کے کو دوبارہ گرفتار کر لیا اور جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے جج کے سامنے پیش کر دیا۔لیکن عدالت نے مدعا علیہ کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد اس نئے مقدمے کو خارج کردیا۔ اس پر ایف آئی اے نے پرانے مقدمے میں دو نئی دفعات شامل کر کے کو ۲؍فروری ۲۰۲۴ء کو ایک بار پھر سے کیمپ جیل سے گرفتار کر لیا۔ ایک دن حراست میں رکھنے کے بعد ایف آئی اے نے دوبارہ عدالت میں جسمانی ریمانڈ کے لیے پیش کیا۔ لیکن مدعا علیہ کے وکیل کے دلائل سن کر جج نے مقدمہ خارج کر دیا اور انہیں اسی دن رہا کر دیا۔چنانچہ ۳ سال اور ۹ ماہ قید کے بعد موصوف رہا ہو گئے۔لیکن دیگر دو احمدی تا حال قید میں ہی ہیں۔مخالفین نے ان نئی دفعات کے خارج ہونے کے خلاف اپیل دائر کی ہے۔نیز پرانا مقدمہ تا حال ایڈیشنل سیشن جج نوید انجم سلیمی کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔

احمدی ملزم کو سیشن کورٹ نے بالآخر رہا کر دیا

بدنام زمانہ مخالف احمدیت مولوی حسن معاویہ نے ۶؍دسمبر ۲۰۲۲ء کو چند احمدیوں کے خلاف توہین کی دفعات اور قرآن کے پنجاب کے پرنٹنگ اور ریکارڈنگ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کروایاجس میں طابع،ناشر،مصنف،اغلاط کی درستگی کرنے والے،مددگار کارکن اور دیگر نامعلوم احمدی شامل ہیں۔ان احباب پر قرآن کا غلط ترجمہ شائع کرنےا ور اسے تقسیم کر نے کا الزام لگایا گیا۔ ان میں سے ایک عہدیدار کو اس مقدمہ کے تحت ۷؍جنوری ۲۰۲۳ءکو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ۶؍فروری ۲۰۲۴ء کو سپریم کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کر لی۔موصوف تقریباً ایک سال زیر حراست رہنے کے بعد فیصل آباد جیل سے رہا ہو گئےہیں۔پنجاب حکومت کی جانب سے اس فیصلے اور ایف آئی اے کی جانب سے لگائی گئی دفعات کو ہٹانے کے خلاف اپیل دائر کی گئی۔اور جماعت  اسلامی نے پنجاب حکومت کو اس معاملے میں فریق بننے کی پیشکش بھی کی ہے۔۲۶؍فروری ۲۰۲۴ء کو چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے تین رکنی بینچ کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ملزم مبارک ثانی صاحب کی ضمانت کے متعلق کوئی بحث نہیں ہو گی۔ہاں اگر اس سے کوئی مذہبی پہلو متاثر ہوا ہے تو اس کے متعلق بات کر سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ ان کے فیصلے کے خلاف اپیل کی گئی ہے۔ اس طرح سے نظر ثانی کر کے فیصلے میں ہونے والی غلطیوں کو ٹھیک کرنے کا موقع ملتاہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے کبھی اس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ ہم عقل کل ہیں۔ اگر ہمیں فیصلوں کی تصحیح میں کوئی بھی مدد ملے تو ہم اسے خوش آمدید کہیں گے۔جماعت اسلامی کے راہنما سراج الحق اور فرید پراچہ کے علاوہ وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے مذہبی امور طاہر اشرفی بھی اس موقع پر موجود تھے۔جبکہ شوکت صدیقی جماعت اسلامی کی نمائندگی کر رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ عدالت کو اس مقدمہ میں پوری راہنمائی نہیں دی گئی اور ملزم نے خود بھی اپنے خلاف لگنے والی دفعات کو ختم کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔سپریم کورٹ نے کئی مذہبی اداروں بشمول اسلامی نظریاتی کونسل،جماعت اہل حدیث،قرآن اکیڈمی،جماعت المنتظرلاہور اوردارالعلوم کراچی کو تین ہفتے کا وقت دیا کہ اگر وہ اس مقدمے کے متعلق اپنی کوئی رائے دینا چاہتے ہیں تو مقررہ وقت میں اپنی رائے سے آگاہ کریں۔اس مقدمہ کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج لالیاں کی عدالت میں جاری ہے۔ سیشن جج چنیوٹ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ مجسٹریٹ کو بھیجا ہے تا کہ وہ اس مقدمہ کے فیصلے پر عملدرآمد کروائے۔موصوف کو ۱۳؍فروری ۲۰۲۴ء کو رہا کر دیا گیا۔ اس وقت تک وہ متعلقہ دفعات کے مطابق ہونے والی سزا سے دوگنا عرصہ جیل میں گزار چکے ہیں۔

چھ احمدی اساتذہ کا تبادلہ

دولیاہ جٹاں آزاد جموں کشمیر:دولیاہ جٹاں میں لڑکیوں کے سرکاری سکول میں سات احمدی خواتین اساتذہ پڑھا رہی ہیں۔حالیہ احمدیت مخالف مہم میں ان کو بھی ہراساں کیا گیا۔ احمدیہ مسجد پر حملہ کر کے احمدیوں کو زخمی کرنے کے بعد مخالفین نے مقامی لوگوں اور سکول کے طلبہ کو ان اساتذہ کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا نیز ان کو نقصان پہنچانے اور ان کے تبادلے کے متعلق بھی زور دیا۔ اس مہم کو سوشل میڈیا کے ذریعے بھی ہوا دی گئی۔ اس کے بعد سکول کی نام نہاد ایکشن کمیٹی نے ان اساتذہ کے خلاف احتجاج کا اعلان کر دیا اور دھمکی دی کہ سکول کو بند کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد انتظامیہ نے چھ احمدی اساتذہ کا تبادلہ مختلف سکولوں میں کر دیا۔ عدالتی احکام کے باوجود پہلی احمدی ٹیچر کا تبادلہ تیسری بار ایک اَور سکول میں کر دیا گیا ہے۔ دوسری ٹیچرکا تبادلہ دولیاہ جٹاں سے چکو ک صاحباں کر دیا گیا ہے۔تیسری ٹیچرکا تبادلہ کارا سے دولیاہ جٹاں ہوا تھا اب ان کو بھی واپس بھیج دیا گیا ہے۔چوتھی ٹیچر کا تبادلہ سارال میں کر دیا گیا ہےجبکہ پانچویں ٹیچر کا تبادلہ گوئیند میں کر دیا گیا ہے۔اسی طرح چھٹی ٹیچر جو ۱۸؍سال بعد اپنے گھر کے قریب سکول میں آئی تھیں۔ان کا تبادلہ بھی عدالتی حکم کے باوجو د ایک ماہ میں دوسری مرتبہ کر دیا گیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایسے تبادلے خواتین اساتذہ کے لیے سخت مشکل اور پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔

(مرتبہ:مہر محمد داؤد۔ یوکے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button