خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب

خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۹؍ جون ۲۰۲۳ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، لندن یوکے

سوال نمبر۱:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سریہ حضرت حمزہؓ کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:یہ پہلا سریہ تھا جو رمضان ایک ہجری میں ہوا، رسول اللہﷺنے جو بھیجا۔ اسے سَریہ سیف البحر کہتے ہیں۔ اس کا جھنڈا سفید تھا اور اس کے علمبردار ابو مرثد غَنَوِیؓ تھے۔ یہ سریہ آپﷺ نے رمضان سنہ ایک ہجری میں بھیجا اور اپنے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کو اس کا امیر بنایا۔ ان کے ساتھ تیس مہاجر سوار تھے۔ یہ لوگ عِیص کے اطراف میں بحیرۂ احمر کے ساحل تک گئے اور قریش کا ایک قافلہ جو ابوجہل کی سرکردگی میں شام سے آ رہا تھا اس سے سامنا ہوا۔ … یہاں ذُنَابَةُ العِیص نامی ایک چشمہ تھا جس کے ارد گرد کیکر وغیرہ کے درختوں کی کثرت تھی اس وجہ سے اسے عیص کہا جاتا ہے۔ یہاں بنوسُلَیم آباد تھے۔ شام جانے والے قریش کے تجارتی قافلے ادھر سے گزرتے تھے۔ بہرحال دونوں فریق صف آرا ہو گئے۔ آمنا سامنا ہو گیا اور قریب تھا کہ جنگ ہو جاتی لیکن قبیلے کے ایک رئیس نے بیچ بچاؤ کروا دیا اور دونوں فریق واپس چلے گئے۔

سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سریہ حضرت عبیدہ بن حارثؓ کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:شوال سنہ ایک ہجری میں رسول اللہﷺ نے حضرت عبیدہ بن حارثؓ کو ساٹھ مہاجرین کی کمان دے کر رَابِغ کے قریب ثَنِیةُ المَرَہ کی طرف روانہ کیا۔وہاں ابوسفیان اور اس کے دو سو سواروں سے ان کا آمنا سامنا ہوا۔ دونوں طرف سے چند تیر چلائے گئے مگر باقاعدہ لڑائی نہیں ہوئی۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اس دن سب سے پہلے تیر چلایا۔ اس سے پہلے کبھی مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان تیراندازی بھی نہیں ہوئی تھی۔ گویا یہ اسلامی تاریخ کا پہلا تیر تھا جس پر حضرت سعدؓ کو بجا طور پر فخر تھا۔ پھر فریقین واپس اپنے اپنے علاقے میں چلے گئے۔

سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سریہ حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:سنہ ایک ہجری اور بعض کے بقول سنہ دو ہجری میں رسول اللہﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکو بیس آدمیوں کا امیر بنا کر روانہ کیا اور حکم دیا کہ وہ خَرَّار وادی سے آگے نہ جائیں۔ وہ پیدل چلتے گئے۔ دن کو چھپے رہتے اور رات کو سفر کرتے۔ یہاں تک کہ وہ خَرَّار تک پہنچ گئے۔ ان کا مقصد قریش کے تجارتی قافلے کو روکنا تھا لیکن جب یہ دستہ خَرَّار پہنچا تو انہیں پتہ چلا کہ قافلہ کل یہاں سے گزر گیا ہے لہٰذا وہ بغیر کسی تصادم کے واپس آ گئے۔

سوال نمبر۴:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سریہ حضرت عبداللہ بن جحشؓ کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:یہ سریہ مکے کے قریب وادیٔ نخلہ میں ہوا۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ رسول کریمﷺ نے رجب کے مہینے میں حضرت عبداللہ بن جحشؓ کو آٹھ مہاجرین کے ہمراہ روانہ فرمایا۔ ان میں انصار کا کوئی شخص نہ تھا۔ اور انہیں ایک خط لکھ کر دیا اور ہدایت فرمائی کہ اس خط کو دو دن سفر طے کرنے کے بعد دیکھنا اور اس میں دیئے گئے حکم کے مطابق عمل کرنا اور اپنے کسی ساتھی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہ کرنا۔ جب حضرت عبداللہ بن جَحْشؓ نے دو دن سفر کرنے کے بعد وہ حکم نامہ کھول کر پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ جب تم میرے اس خط کو کھول کر دیکھو تو اپنا سفر جاری رکھو یہاں تک کہ مقام نخلہ میں جوطائف اور مکے کے درمیان ہے جا پہنچنا اور وہاں قریش کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور ان کے حالات سے ہمیں آگاہ کرنا۔جب حضرت عبداللہ بن جحشؓ نے یہ تحریر دیکھی تو کہا مجھ پر سننا اور اطاعت کرنا واجب ہے اور پھر اپنے ساتھیوں سے آپؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺنے مجھے حکم دیا ہے کہ میں نخلہ کی طرف جاؤں اور وہاں قریش کی سرگرمیوں پر نظر رکھوں تا کہ رسول کریمﷺ کو قریش کے حالات سے آگاہ کروں اور مجھے منع فرمایا ہے کہ تم میں سے کسی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کروں۔ پس جو تم میں سے شہادت کی آرزو رکھتا ہے وہ میرے ساتھ چلے اور جو واپس جانا پسند کرے وہ چلا جائے مگر ان کے ساتھیوں میں سے کوئی واپس نہ پلٹا اور سب حجاز کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں ایک مقام پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت عُتبہ بن غَزْوَانؓ کا اونٹ گم ہو گیا۔ وہ دونوں اس کی تلاش میں پیچھے رہ گئے جبکہ حضرت عبداللہ بن جحشؓ باقی ساتھیوں کے ساتھ مقام نخلہ میں پہنچ گئے۔ وہاں قریش کے ایک قافلہ کا گزر ہوا جو کشمش، چمڑا اور قریش کا سامان تجارت اٹھائے جا رہا تھا۔اس قافلہ میں عَمرو بن حَضْرَمِی بھی شامل تھا۔ جب قریش مکہ نے مسلمانوں کو دیکھا تو خوفزدہ ہو گئے۔ حضرت عُکَاشَہ بن مِحصَنؓ ان کے سامنے ظاہر ہوئے۔ انہوں نے اپنا سر منڈوا رکھا تھا۔ کفار ان کو دیکھ کر مطمئن ہو گئے اور کہنے لگے کچھ ڈر کی بات نہیں یہ لوگ عمرہ کرنے جا رہے ہیں۔ پھر مسلمانوں نے وہاں مشورہ کیا کہ آج رجب کا آخری روز ہے۔ اگر ہم ان سے لڑتے ہیں اور ان کو قتل کرتے ہیں تو یہ مہینہ حرمت والا ہے اور اگر آج انتظار کرتے ہیں تو راتوں رات یہ حدود حرم میں داخل ہو کر پھر ہمارے ہاتھ نہیں آئیں گے۔ آخر کار سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ قافلے پر حملہ کر دیا جائے۔ حضرت وَاقِد بن عبداللہ تَمِیمِیؓ نے ایک تیر عمرو بن حضرمی کے ایسا مارا جس سے وہ مر گیا اور دو آدمیوں کو مسلمانوں نے قید کر لیا جبکہ ایک بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ پھر حضرت عبداللہ بن جحشؓ اونٹوں اور ان دونوں قیدیوں کو لے کر مدینے میں رسول کریمﷺ کے پاس حاضر ہوئے۔جب حضرت عبداللہ بن جحشؓ مدینہ میں آئے تو رسول کریمﷺنے ان سے فرمایا کہ مَیں نے تمہیں یہ حکم تو نہیں دیا تھا کہ تم حرمت والے مہینے میں جنگ کرو اور آپؐ نے اونٹوں اور دونوں قیدیوں کو ٹھہرا دیا اور ان میں سے کوئی چیز بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اعتراض’’مسلمانوں نے مدینہ جا کر لوٹ مار شروع کردی تھی‘‘ کاکیاجواب بیان فرمایا؟

جواب: فرمایا: رسول کریمﷺکو اطلاع ملی کہ ابوسفیان قریش کا تجارتی قافلہ لے کر شام سے واپس آ رہا ہے جس میں ایک ہزار اونٹ ہیں۔ اس میں قریش کا بہت بڑا سرمایہ تھااور اگر کسی کے پاس ایک مثقال یعنی چار پانچ ماشے بھی سونے کے وزن کے برابر کچھ سونا تھا یا مال تھا تو اس نے وہ مال بھی اس قافلے میں لگا دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک کثیر رقم کا سرمایہ تھا۔ اس قافلے میں تیس چالیس یا ایک روایت کے مطابق ستر آدمی تھے۔ یہ وہی قافلہ تھا جس کے تعاقب میں رسول کریمﷺ پہلے بھی نکلے تھے اور مقام عُشَیرَہ تک پہنچ گئے تھے لیکن یہ قافلہ شام کی جانب جا چکا تھا۔ اس مہم کے لیے رسول کریمﷺ جُمَادی الاولیٰ یا جُمَادی الآخرہ دو ہجری کو روانہ ہوئے۔ رسول کریمﷺ نے اس قافلے کی واپسی کی اطلاع پاکر مسلمانوں کو اپنے ساتھ نکلنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ یہ قریش کا تجارتی قافلہ ہے جس میں ان کے اموال ہیں۔ پس تم نکلو شاید اللہ تمہیں مالِ غنیمت سے نوازے۔بعض لوگ جو صرف اعتراض کا موقع ڈھونڈنے کے عادی ہوتے ہیں یا کم علم ہوتے ہیں وہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے مدینے جاکر گویا لوٹ مار شروع کر دی تھی اور بطور مثال اسی قافلے کا تعاقب کرنا پیش کر دیتے ہیں جو کہ سراسر نادانی اور جہالت کی بات ہے اور اس وقت کے جنگی حالات سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے کیونکہ قریش کے اس تجارتی قافلے کو روکنا کوئی قابل اعتراض امر نہیں تھا۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں اس کی تفصیل بیان کی ہے کہ’’قافلہ کی روک تھام کے لیے نکلنا ہرگز قابلِ اعتراض نہیں تھا کیونکہ اوّل تویہ مخصوص قافلہ جس کے لیے مسلمان نکلے تھے ایک غیر معمولی قافلہ تھا جس میں قریش کے ہر مرد و عورت کاتجارتی حصہ تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلق رؤسائے قریش کی یہ نیت تھی کہ اس کا منافع مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے میں استعمال کیا جائے گا۔ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ یہی منافع جنگِ احد کی تیاری میں صرف کیا گیا۔ پس اس قافلہ کی روک تھام تدابیرِ جنگ کا ضروری حصہ تھی۔ دوسرے عام طور پر بھی قریش کے قافلوں کی روک تھام اس لیے ضروری تھی کہ چونکہ یہ قافلے مسلح ہوتے تھے اور مدینہ سے بہت قریب ہو کر گزرتے تھے ان سے مسلمانوں کو ہر وقت خطرہ رہتا تھا جس کا سدباب ضروری تھا۔ تیسرے، یہ قافلے جہاں جہاں سے بھی گزرتے تھے مسلمانوں کے خلاف قبائل عرب میں سخت اشتعال انگیزی کرتے پھرتے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت نازک ہو رہی تھی۔ پس ان کا راستہ بند کرنادفاع اور خود حفاظتی کے پروگرام کا حصہ تھا۔ چوتھے قریش کا گزارہ زیادہ تر تجارت پر تھا اس لیے ان قافلوں کی روک تھام ظالم قریش کوہوش میں لانے اوران کو ان کی جنگی کارروائیوں سے باز رکھنے اور صلح اور قیامِ امن کے لیے مجبور کرنے کا ایک بہت عمدہ ذریعہ تھی۔‘‘آج کل کے زمانے میں اس طرح جنگوں کو روکنے کے لیے بعض ملک sanctions لگاتے ہیں۔ وہ بھی غلط sanctions لگا دیتے ہیں اور ظلم سے لگاتے ہیں لیکن یہ بھی اسی طرز کا sanctionلگانے والا ایک عمل تھا۔’’اور پھران قافلوں کی روک تھام کی غرض لوٹ مار نہیں تھی بلکہ جیساکہ قرآن شریف صراحتاً بیان کرتا ہے خود اس خاص مہم میں مسلمانوں کوقافلہ کی خواہش اس کے اموال کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس وجہ سے تھی کہ اس کے مقابلہ میں کم تکلیف اورکم مشقت کا اندیشہ تھا۔‘‘

سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے عاتکہ بنت عبدالمطلب اوران کےخواب کی بابت کیابیان فرمایا؟

جواب: فرمایا:عاتکہ بنت عبدالمطلب جو آنحضورﷺ کی پھوپھی اور ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کی والدہ تھیں ان کے اسلام لانے کے بارے میں دونوں طرح کی آرا ہیں۔ بعض کے نزدیک انہوں نے اسلام قبول کیا تھا لیکن اکثر کے نزدیک انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔بہرحال انہوں نے ابوسفیان کے قاصد ضَمْضَمْ کے مکہ پہنچنے سے تین رات پہلے ایک خواب دیکھی تھی جس نے انہیں خوفزدہ کر دیا۔ انہوں نے اپنے بھائی عباس بن عبدالمطلب کو بلا بھیجا اور کہا کہ اے بھائی! بخدا میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے جس نے مجھے بہت زیادہ خوفزدہ کر دیا ہے۔ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ تمہاری قوم کو ضرور کوئی آفت یا مصیبت پہنچنے والی ہے۔ تم اس راز کو پوشیدہ رکھنا جو مَیں تمہیں بتانے والی ہوں۔ ایک روایت میں ہے کہ عاتکہ نے عباس سے کہا کہ جب تک تم مجھ سے یہ عہد نہیں کرو گے کہ تم اس بات کا کسی سے ذکر نہیں کرو گے اس وقت تک میں تمہیں نہیں بتلاؤں گی کیونکہ اگر قریش مکہ نے یہ بات سن لی تو وہ ہمیں پریشان کریں گے اور ہمیں برا بھلا کہیں گے۔ چنانچہ حضرت عباسؓ نے ان سے عہد کیا۔ بہرحال پھر حضرت عباسؓ نے پوچھا کہ تم نے کیا دیکھا ہے۔ عاتکہ نے کہا میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اونٹ پر سوار آیا اور اَبْطَحْ کے میدان میں کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے بلند آواز سے چیخ کر کہا۔اے لوگو! اپنے قتل گاہوں کی طرف تین دن کے اندر اندر چلے آؤ۔ عاتکہ بیان کرتی ہیں کہ پھر میں نے دیکھا کہ لوگ اس شخص کے پاس جمع ہو گئے پھر وہ مسجد یعنی خانہ کعبہ میں داخل ہوا۔ لوگ اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ اس دوران کہ لوگ اس کے گرد جمع تھے میں نے دیکھا کہ اس کا اونٹ اس کو لے کر کعبے کی چھت پر کھڑا ہے۔ پھر اس نے اسی طرح چیخ کر کہا اے لوگو! اپنی قتل گاہوں کی طرف تین دن کے اندر اندر چلے جاؤ۔ پھر میں نے دیکھا کہ اس کا اونٹ اس کو جبل اَبُوْقُبَیس کی چوٹی پر لے کر کھڑا ہو گیا۔پھر وہاں سے بھی اسی طرح بلند آواز میں پکارا۔ پھراس نے ایک پتھر اس پہاڑ میں سے نیچے لڑھکا دیا اور نیچے پہنچتے ہی وہ پتھر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور مکے کے گھروں میں سے کوئی گھر اور کوئی مکان ایسا باقی نہ رہا جس میں اس پتھر کا ایک ٹکڑا نہ گیا ہو۔ یہ سن کر حضرت عباسؓ نے عاتکہ سے کہا بخدا! یہ خواب تو بڑا اہم ہے۔ تم خود بھی اس کو پوشیدہ رکھنا اور اس کا ذکر کسی سے نہ کرنا۔ اس کے بعد حضرت عباسؓ عاتکہ کے گھر سے نکلے اور راستے میں ولید بن عتبہ سے ملے۔ یہ حضرت عباسؓ کا دوست تھا۔ انہوں نے اپنی بہن کو تو کہہ دیا کہ ذکر نہ کرنا لیکن خود ولید سے اس خواب کا ذکر کر دیا۔ البتہ حضرت عباسؓ نے اس کو منع کر دیا کہ کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا لیکن ایک دفعہ جب بات نکلے تو پھر تو نکل جاتی ہے۔ ولید نے اپنے باپ عتبہ سے اس کا ذکر کر دیا۔ اس طرح یہ بات مکےمیں پھیل گئی اور جہاں دو آدمی بیٹھتے اسی خواب کا ذکر کرتے۔ عباسؓ کہتے ہیں کہ اگلے روز صبح جب میں خانہ کعبہ میں طواف کرنے کے لیے گیا تو وہاں ابوجہل قریش کے چند لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا کہ اے ابوالفضل! یہ حضرت عباسؓ کی کنیت ہے۔ طواف سے فارغ ہو کر ذرا میرے پاس سے ہوتے جانا۔ حضرت عباسؓ کہتے ہیں کہ میں طواف سے فارغ ہو کر اس کے پاس گیا تو ابوجہل نے مجھ سے کہا اے بنو عبدالمطلب! تم میں نَبِیہ کب سے پیدا ہو گئی؟میں نے کہا کیا مطلب؟ اس نے کہا کہ تمہارے مردوں نے تو نبوت کا دعویٰ کیا تھا یعنی آنحضرتﷺ کی طرف اشارہ کیا۔ اب تمہاری عورتیں بھی نبوت کا دعویٰ کرنے لگی ہیں۔ یہ عاتکہ نے کیا خواب دیکھی ہے؟ حضرت عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا اس نے کیا خواب دیکھی ہے؟ ابوجہل نے کہا وہ کہتی ہے کہ میں نے ایک شخص کو اونٹ پر آتے دیکھا اور اس نے یہ آواز دی اور پھر ایک پتھر پہاڑ پر سے لڑھکایا، غرضیکہ سارا خواب بیان کیا۔ پھر ابوجہل کہنے لگا کہ ہم تین روز تک انتظار کرتے ہیں اگر اسی طرح خواب کے مطابق یہ واقعہ ظہور میں آگیا تو ٹھیک ہے ورنہ ہم ایک تحریر لکھ کر کعبہ میں لٹکا دیں گے کہ تم لوگ تمام عرب میں سب سے زیادہ جھوٹے ہو۔ عباس کہتے ہیں کہ بخدا مجھے بےبس ہو کر اس خواب کو جھٹلانا پڑا۔ اس کو میں نے کہہ دیا کہ اس نے کوئی خواب نہیں دیکھی اور میں نے اس بات کا انکار کر دیا کہ عاتکہ نے کوئی خواب دیکھی ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button