اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان (دسمبر ۲۰۲۳ء اور جنوری۲۰۲۴ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب)
انتظامیہ کو دی گئی انوکھی درخواست
جوہر آباد۔خوشاب۔ جنوری ۲۰۲۴ء:قبل ازیں یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ جوہرآباد میں عدنا ن قادری نامی ایک ملاںنے ایک احمدی کے خلاف درخواست دی تھی کہ ان کے گھر میں احمدی نماز جمعہ ادا کرتے ہیںجو کہ بقول اس کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اس نے ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔بعدازاں ایک اور مخالف احمدیت شیر حسین ولد غلام حسین نے بھی موصوف اور ان کے بھائی کے خلاف درخواست دی کہ سیٹلائٹ ٹاؤن جوہر آباد کے یہ رہائشی ہیں اور قادیانی مذہب کے پیروکار ہیں۔انہوں نے ۸ اور ۱۵؍دسمبر ۲۰۲۳ء کو نماز جمعہ ادا کی اور اپنے دوسرے لوگوں کو بھی نماز جمعہ کی دعوت دی۔انہوں نے ربوہ سے ایک مربی کو بھی بلایا۔ جس نے مسلمانوں کی طرح خطاب کیا اور پھر سب نے ایک قطار بنا کر نماز ادا کی۔جمعہ مسلمانوں کی عید کی طرح ہے اور قادیانی کسی بھی صورت پاکستان کے قانون کے تحت مسلمانوں کی مشابہت اختیار نہیں کر سکتے۔اس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہو رہی ہے۔ یہ لوگ کھلے عام لوگوں کو دھوکا دے کر اپنے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اور جس جگہ پر یہ اپنی مذہبی رسومات ادا کررہے ہیں وہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔اکثر عدالتی کارروائیوں میں ان کو اقلیت کی بجائے مذہبی ڈکیت اور حد سے تجاوز کرنے والوں کے طور پر مخاطب کیا جاتا ہے۔اگر یہ اقلیت ہیں تو ان کو اپنی عبادت کے نئے طریق اور نیا طرز زندگی اختیار کرنا چاہیے تا کہ ان کو اقلیتوں کے حقوق دیے جائیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اسلامی اقدار،اسلامی طرزِزندگی اور اسلامی طرزِعبادت کے چور ہیں اور کوئی بھی چور چیزیں چرا کر ان کامالک نہیں بن سکتا۔اب یہ چور خود کو مسلمان ظاہر کر رہے ہیں اور غلط عقائد اسلام کے نام پر پھیلا رہے ہیں۔ مذکورہ بالا جگہ پر یہ لوگ نماز جمعہ ادا کرکے نہ صرف لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں بلکہ یہ قانون اور اسلام کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔عارض (شیر حسین) مطالبہ کرتا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ اس سے قبل بھی ایک درخواست جوہر آباد پولیس سٹیشن اور ڈی پی او کے دفتر میں دی گئی ہے لیکن اس پر کوئی بھی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔
شیر حسین کی درخواست اب عدالت میں زیر کارروائی ہے۔
ہماری رائے: ہم عدالت کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہیں جو خود اس عجیب و غریب درخواست کا جواب ہے۔طاہر نقاش و دیگر بمقابلہ ریاست۔سی آر ایل۔پی۔نمبر۔۹۱۶ ایل۔۲۰۲۱ء میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ کسی بھی اقلیت کو اپنی چاردیواری کے اندر اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے سے روکنا نہ صرف جمہوری آئین کے خلاف ہے بلکہ یہ اسلامی روح کے بھی منافی ہے۔یہ بات انسانیت پر سیاہ دھبہ اور اور انسانیت کو شرما دینے والی ہے اور اقلیتوں کو ان کے ذاتی حقوق سے محروم کرنے والی ہے۔ وہ حقوق جن کا ہر پاکستانی شہری حقدار ہے۔یہاں ایک اور بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اسلامی اقدار،اسلامی طرززندگی اور اسلامی طرزعبادت جیسی اصطلاحات کا استعمال یہاں کیونکر کیا جاسکتاہے۔ جبکہ یہ چیزیں دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کی مشترکہ ہیں اور کیسے ان میں سے کسی چیز پر عمل کسی دوسرے کے جذبات کو مجروح کرسکتا ہے۔طرز زندگی اور اقدار پر کسی بھی مذہب کی اجارہ داری نہیں ہے۔یہ بات کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ اگر کسی مذہب میں کوئی اچھی اقدار ہیں تو وہ دوسروں پر ان اقدار کو اپنانے یا ان پر عمل پیرا ہونے کی پابندی لگادے۔اگر عدالت اس کی درخواست کو مان لیتی ہے تو کل کو یہ مخبوط الحواس یہ بھی کہہ دے گا کہ احمدیوں کے سچ بولنے پر بھی پابندی عائد کی جائے کیونکہ یہ اسلامی قدر ہے۔اور غیر مسلم کسی بھی طرح اسلامی اقدار اورطرز زندگی چوری نہیں کرسکتے۔
گوئیندکے ضلع سیالکوٹ میں احمدیہ قبروں کے کتبے شہید کر دیے گئے
گوئیندکے میں احمدیوں کا قبرستان الگ سے ہے لیکن یہ غیراحمدیوں کے قبرستان سے ملحقہ ہے۔ ۳۰؍دسمبر۲۰۲۳ء کو ایک بدطینت تلونڈی کھجور والی ضلع گوجرانوالہ سے یہاں آیا اور غیر احمدیوں کو کہا کہ وہ احمدیوں کی قبروں کے کتبے مسمار کرنا چاہتاہے۔ پولیس کو اس بات کی اطلاع ملی تو انہوں نے احمدی احباب کو بلایا۔ احمدی احباب نے کہا کہ نہ تو وہ خود کتبوں کو کچھ کریں گے نہ کسی کو کرنے دیں گے۔ اس پر پولیس اور وہ بد طینت شخص وہاں سے چلے گئے۔ اگلے روز جب احمدی قبرستان گئے تو وہاں آٹھ قبروں کے کتبے ٹوٹے ہوئے تھے اور ملبہ وہاں سے غائب تھا۔ اس بات کا اندازہ تو نہیں ہو سکتا کہ یہ کریہہ حرکت کس نے کی لیکن پنجاب بھر میں یہ پولیس کی ہی روایت ہے کہ کتبے توڑنے کے بعد وہ ملبہ وہاں سے لے جاتے ہیں۔
پولیس نے احمدیہ مسجد سے کلمہ مٹا دیا
ٹھٹھہ جوئیہ سرگودھا۔۴؍جنوری ۲۰۲۴ء:۴؍ جنوری کو سہ پہر چار بجے کے قریب چند پولیس اہلکار احمدیہ مسجد آئے۔ ان کے ساتھ کچھ عام آدمی بھی تھے جن میں سے ایک کے پاس سیاہی سے بھری بالٹی تھی۔ ان لوگوں نے احمدیہ مسجد میں داخل ہونا چاہا لیکن ان کو روک دیا گیا۔ جس پر ان میں سے ایک مسجد کی چھت پر چڑھ گیا اور کلمہ پر سیاہی پھیر دی۔ اسی ایک گا ؤں میں مقیم ایک احمدی کے گھر کے باہر ’بسم اللہ‘ اور ’ماشاءاللہ‘ کے الفاظ پر بھی انہوں نے سیاہی پھیر دی۔اس کے بعد انہوں نے احمدیو ں سے کہا کہ مشترکہ قبرستان میں احمدی قبروں کی نشاندہی کریں تاکہ ان سے بھی اسلامی الفاظ کو مٹایا جا سکے۔ لیکن احمدی احباب نے انکار کر دیا۔اس وقت تک اندھیرا ہو چکا تھا۔ چنانچہ یہ لوگ وہاں سے چلے گئے۔
احمدیہ مسجد پر حملہ
مغلپورہ۔ لاہور۔۲۶؍دسمبر ۲۰۲۳ء: فجر کے وقت دو موٹر سائیکل سوار آئے اور مسجد کے باہر گالیاں بکنے لگے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک اینٹ مسجد کے صدر دروازے پر ماری اور فرار ہو گئے۔ پولیس کو اس واقعے کی اطلاع دینے کے ساتھ ساتھ سی سی ٹی وی فوٹیج بھی مہیا کر دی گئی ہے۔
(مرتبہ:مہر محمد داؤد)