مکتوب

مکتوب نیوزی لینڈ(اپریل ۲۰۲۴ء) (اپریل ۲۴ء کے دوران نیوزی لینڈ میں وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات کا خلاصہ)

(مبارک احمد خان۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل نیوزی لینڈ)

نیوزی لینڈ میں امیگریشن ہمیشہ ہی اہم موضوع رہا ہے۔ اس کی وجہ اس ملک کی جغرافیائی پوزیشن ہے۔ اگرچہ یہ دنیا سے کافی دُور چھوٹے سے جزیروں پر مشتمل ہے اور دنیا سے الگ تھلگ دور مشرقی کنارہ ہے۔ لیکن خوبصورت اور ترقی یافتہ ہونے کے باعث لوگوں کی کشش کا باعث بنتا ہے۔ ہر سال لاکھوں لوگ مختلف مقاصد سے یہاں کا سفر کرتے ہیں۔ کچھ تو اس ملک میں ہمیشہ کے لیے رک جاتے ہیں اور باقی کچھ ایک عرصہ گزارنے کے بعد کہیں اور ہجرت کر جاتے ہیں۔ اس نقل و حرکت سے جو معاشی اور سماجی اثرات پڑتے ہیں ان کی وجہ سے مقامی آبادی اکثر اعتراض اٹھاتی رہتی ہے۔

۱۸۰۰ء کی دہائی کے اوائل سے، لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں نیوزی لینڈ کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ ہمیشہ سے تارکین وطن کا ملک رہا ہے، اور گذشتہ برسوں کے دوران، اس کی آبادی کا میک اپ ڈرامائی طور پر تبدیل ہوا ہے۔ آج، نیوزی لینڈ دنیا بھر کے لوگوں کا وطن بن گیا ہے، اور اس کا ثقافتی تنوع اس کی سب سے بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے۔

تاہم، امیگریشن میں بھی اپنی خامیاں ہیں۔ حالیہ برسوں میں، نیوزی لینڈ کے معاشرے پر امیگریشن کے منفی اثرات کے بارے میں عوامی تشویش بڑھ رہی ہے۔ کچھ لوگ استدلال کرتے ہیں کہ امیگریشن جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح، مکانات کی قیمتیں جو ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہیں، اور ملازمت کا عدم تحفظ جو وسیع پیمانے پر بے روزگاری کا سبب بن رہا ہے، کے لیے ذمہ دار ہے۔

اگر تو پڑھے لکھے ہنر مند لوگ یہاں آتے ہیں تو اس سے نہ صرف معاشی ترقی ہوتی ہے بلکہ وہ سوسائٹی کا معیار بڑھانے میں بھی مدد کرتے ہیں لیکن جب تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد کسی ایسے ملک سے آتی ہے جہاں بہت زیادہ تشدد ہوتا ہے، تو یہ نیوزی لینڈ کی ثقافت پر بھی برا اثر ڈالتا ہے اور معاشرہ زیادہ پُرتشدد ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح اگر یہ لوگ مذہبی منافرت کا ذہن رکھتے ہیں تو مقامی علاقے میں مذہبی تناؤ بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔

یہ سب چیزیں ملک میں سماجی بدامنی اور تقسیم کا باعث بن سکتی ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے بھی مشکلات پیدا کرتے ہیں جو تارکین وطن گروپ سے نہیں ہیں۔ معاشرے میں ضم ہونا، اپنی بری روایات کو ختم کرنا اور اچھی باتوں کو اپنا لینے سے میزبان معاشرے میں اچھی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں ورنہ میزبان معاشرہ نسل پرستی اور تعصب جیسے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

لہٰذا، جہاں امیگریشن کے کچھ فائدے ہو سکتے ہیں، وہیں میزبان ملک کی ثقافت اور معاشرے کے لیے اس کے کچھ منفی نتائج بھی ہو تے ہیں۔ کسی ملک میں بہت زیادہ تارکین وطن کو خوش آمدید کہنے سے پہلے ان ممکنہ مسائل سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔

نیوزی لینڈ کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اکثر تارکین وطن اس ملک کو عارضی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہا ں پر شہریت حاصل کر کے اور ہنر سیکھ کر وہ یا تو آسٹریلیا ہجرت کر جاتے ہیں یا پھر امریکہ چلے جاتے ہیں۔ ۲۰۲۳ء کے اعداد و شمار ہمیں اس بات کی حقیقت جاننے میں مدد کرتے ہیں

نیوزی لینڈ سے باہر جانے والے شہریوں کی تعداد: ۶۵۳۰۰

نیوزی لینڈ میں واپس آنے والے شہریوں کی تعداد: ۲۵۹۰۰

۲۰۲۳ء میں نیوزی لینڈ نے اپنے ۳۹۴۰۰؍شہری کھودیے جو مقامی اکانومی کو کئی لحاظ سے بہتر کر سکتے تھے۔

جو غیر شہری لوگ غیر مما لک سے نیوزی لینڈ آئے: ۱۸۲۵۰۰

غیر شہری جو نیوزی لینڈ سے واپس چلے گئے:۴۶۹۰۰

اس طرح ۲۰۲۳ء میں غیر شہری جو نیوزی لینڈ میں بس گئے ان کی تعدادایک لاکھ ۳۵ہزار چھ صد تھی۔ ان لوگوں میں اکثریت غیر ترقی یافتہ ممالک سے ریفیوجی لوگوں کی تھی۔ بہت کم لوگ ایسے تھے جو ٹرینڈ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔

ان تارکین وطن لوگوں کو آباد کرنے اور ملازمت کے لیے تیار کرنے پر نیوزی لینڈ حکومت کو کافی معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ یہی لوگ جب اس قابل ہو جاتے ہیں کہ وہ اس ملک کی ترقی میں مثبت کردار ادا کریں تو یہ آسٹریلیا چلے جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ حکومت نے امیگریشن میں کافی تبدیلیاں کی ہیں۔ مثال کے طور پر ورک پرمٹ صرف ان لوگوں کو ہی ملے گا جو ملازمت کرنے کے قابل ہیں اور عارضی شہریت ملنے کے بعد پانچ سال تک ان کا ملک میں رہنا ضروری ہے۔ سٹوڈنٹ ویزا بھی ان طلبہ کو ملے گا جو دو یا اس سے زیادہ سال کا کوئی کورس کریں گے۔ چھوٹے قصبوں کی آبادی بڑھانے اور ان کو ترقی کی راہ پر لانے کے لیے ریفیوجی لوگوں کو ایسے قصبوں میں اس شرط پر آباد کیا جاتا ہے کہ وہ اس قصبے کو اپنی مستقل جائے رہائش بنائیں گے ورنہ ان سے مراعات چھین لی جائیں گی۔

نیوزی لینڈ اب ملٹی کلچر ملک بن چکا ہے۔ ایک ترقی یافتہ ملک ہونے کے باعث حکومت اپنے شہریوں کا ہر طرح سے خیال رکھتی ہے۔ اس کا سوشل ویلفیئر سسٹم بہت اچھا ہے جس سے بیروز گار یا کم تنخواہ پانے والے لوگوں کی مالی مدد کی جاتی ہے۔

نیوزی لینڈ میں ڈے لائٹ سیونگ

ڈے لائٹ سیونگ ایک ایسا سسٹم ہے جس میں بعض ممالک میں گھڑیاں سردیاں شروع ہونے کے ساتھ ایک گھنٹہ پیچھے کردی جاتی ہیں اور گرمیاں شروع ہونے کے ساتھ گھڑیا ں ایک گھنٹہ آگے کر دی جاتی ہیں۔ نیوزی لینڈ میں مورخہ ۷؍اپریل بروز اتوار سے ڈے لائٹ سیونگ شروع ہو گئی ہے۔ اس دن سارے ملک کی گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کر دی گئی ہیں۔

ڈے لائٹ سیونگ کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ۲۰ویں صدی کے آغاز میں، اوٹاگو (Otago)کے ایک سیاست دان سر تھامس سائیڈی (Sir Thomas Sidey) جس نے بعد میں وزیر انصاف اور اٹارنی جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں نے ڈے لائٹ سیونگ کے لیے سخت کوشش شروع کی۔ اس کا خیال تھا کہ گھڑیوں کو ستمبر سے مارچ تک آگے بڑھائیں گے تو ایک اضافی گھنٹہ کیویز کو شام کے وقت کھیلنے کودنے کا موقعہ مل جائے گا اور اس کے علاو مزید ایک گھنٹہ ملنے سے روشنی کی وجہ سے بجلی کا بل کم کرنے کا باعث بنے گا۔ چنانچہ ۱۹۲۷ء میں، سمر ٹائم ایکٹ منظور کیا گیا، جس میں کیویز کو ۶؍ نومبر ۱۹۲۷ء سے ۴؍ مارچ ۱۹۲۸ء کے درمیان اپنی گھڑیوں کو ایک گھنٹہ آگے بڑھانے کی ہدایت کی گئی۔ بعد میں مختلف وقتوں میں ڈے لائٹ سیونگ کئی دفعہ کئی وجوہات کی بنا پر کینسل بھی کردی گئی۔ لیکن پھر ۱۹۷۰ء کی دہائی میں توانائی کا بحران ٹائم ایکٹ دوبارہ متعارف کرانے کا باعث بنا، اور ڈے لائٹ سیونگ کا وقت واپس لایا گیا۔

جو لو گ ڈے لائٹ سیونگ کے حامی ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس کے کئی فوائد ہیں۔ گرمیوں میں دن کافی لمبا ہوتا ہے سورج صبح ۶ بجے نکلتا ہے اور شام ۹ بجے غروب ہوتا ہے۔ اس طرح سکول یا دفاتر میں کام کے لیے تیار ہونے کے لیے کافی وقت مل جاتا ہے۔ اسی طرح شام کو سکول یا آفس کے بعد کھیلنے کے لیے لوگوں کو بہت وقت مل جاتا ہے، کسانوں کو کھیتی باڑی کرنے کا مزید وقت مل جاتاہے۔ اس طرح آفس وغیرہ میں کام کرنے والے لوگوں کو کام کے بعد پارک میں جا کر بچوں کے ساتھ کئی قسم کی کھیلوں میں وقت گزارنے کا موقع مل جاتا ہے۔ کسانوں کو جو جلد اٹھنے کے عادی ہوتے ہیں جانوروں کا دودھ دوہنے کا وقت مل جاتا ہے۔

لیکن جو لوگ ڈے لائٹ سیونگ کے خلاف ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ سال میں دو بار گھڑیاں بدلنے سے ہمارےجسم کے بائیوکلاک گڑبڑ ہو جاتے ہیں اور اس کا اثر ہماری صحت پر پڑتا ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ تبدیلی نہ صرف لوگوں کے مزاج اور دماغی صحت کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس سے دل کے دورے، فالج وغیرہ بھی ہو سکتے ہیں۔ بچے شام کو سورج کی روشنی ہونے کے باعث سونے کےلیے نہیں جاتے اور اس طرح صبح وقت پر اٹھ نہیں سکتے جس سے ان کی صحت اور تعلیم پر اثر پڑتا ہے۔

نیوزی لینڈ چونکہ جنوبی خطہ ارض میں واقع ہے اس لیے اس کا جغرافیائی مقام ڈے لائٹ سیونگ کے لیے مناسب ہے۔

اس موضوع پر بین الاقوامی تحقیق بھی ہوئی لیکن کوئی حتمی جواب دینے میں ناکام رہے ہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button