خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 12؍ اپریل 2024ء

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب مجھے شہدائے اُحد یاد آتے ہیں تو خدا کی قسم! مجھے یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش میں بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پہاڑ کے درے میں ہی رہ گیا ہوتا

یارسول اللہؐ! جب مَیں نے آپؐ کو سلامت دیکھ لیا ہے تو آپؐ سمجھیں کہ مَیں نے مصیبت کو بھون کر کھالیا

اگر ترقیات دیکھنی ہیں تو ہمیں بھی وہ ایمان پیدا کرنا ہوگا، جذبہ پیدا کرنا ہوگا اور اخلاص و وفا پیدا کرنی ہوگی

یا رسول اللہؐ! میری ماں اور باپ آپؐ پر قربان ہوں جب آپؐ سلامت ہیں تو کوئی مرے مجھے کیا پروا ہے۔ مجھے تو صرف آپؐ کی زندگی کی ضرورت تھی۔ اگر آپؐ زندہ ہیں تو مجھے کسی اَور کی وفات کا فکر نہیں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ … جس نے یہ کلمہ پڑھ لیا مجھے ایسے شخص کے قتل سے منع کیا گیا ہے

غزوۂ اُحد میں صحابہ اور صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جاں نثاری اور شہدائے اُحد کے بلند مقام کا ایمان افروز تذکرہ

فلسطین اور دنیا کے بگڑتے حالات نیز یمن کے اسیران کی رہائی کے لیے دعا کی تحریک

فلسطین اور دنیا کے حالات کے لیے بھی دعائیں جاری رکھیں۔ بد سے بدتر حالات ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ ایران پر بھی حملہ ہو اور پھر جنگ وسیع ہوکر مزید پھیلے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے

مکرم مصطفیٰ احمدخان صاحب ابن حضرت نواب عبد اللہ خان صاحبؓ نیز ڈاکٹر میر داؤد احمد صاحب آف امریکہ کی وفات پر ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 12؍ اپریل2024ء بمطابق 12؍ شہادت 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

رمضان سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کا ذکر ہو رہا تھا اور اس حوالے سے

جنگِ اُحد کے واقعات

مَیں بیان کر رہا تھا۔ جس میں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت

کے بارے میں بھی بیان تھا۔ آج بھی اس حوالے سے بیان کروں گا۔

روایت میں آتا ہے حضرت سعد بن معاذؓ کی والدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پر سوار تھے اور حضرت سعد بن معاذؓ گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے تھے۔ حضرت سعدؓ نے ان کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میری والدہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو خوش آمدید کہو۔ آپؐ نے ان کی وجہ سے اپنا گھوڑا روک لیا یہاں تک کہ وہ قریب آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے لگیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بیٹے حضرت عمرو بن معاذ ؓکی شہادت پر تعزیت فرمائی تو انہوں نے کہا

جب مَیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح سلامت دیکھ لیا تو بس اب میری مصیبت اور غم ختم ہو گیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ سعد سے فرمایا اے اُمّ سعد !تمہیں خوشخبری ہو اور سب شہیدوں کے گھر والوں کو بھی خوشخبری دے دو کہ ان سب کے مقتولین جنت میں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور سب نے اپنے اپنے گھر والوں کے لیے حق تعالیٰ سے شفاعت اور سفارش کی ہے۔یعنی یہ جوشہداءتھے انہوں نے اپنے گھر والوں کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور سفارش کی ہے۔ حضرت اُمّ سعدؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم سب راضی برضا اور خوش ہیں اور اس خوشخبری کے بعد بھلا ان پر کون رو سکتا ہے۔ کیا مقام ہے ان کے ایمان اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونے کا۔ پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! سب شہیدوں کے پسماندگان کے لیے دعا کریں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب شہدائےاُحد کے گھر والوں کے لیے دعا کرتے ہوئے فرمایا۔

اَللّٰهُمَّ أَذْهِبْ حُزْنَ قُلُوْبِھِمْ وَاجْبُرْ مُصِيْبَتَهُمْ، وَأَحْسِنِ الْخَلَفَ عَلٰى مَنْ خُلِّفُوْا۔

اے اللہ! ان کے دلوں سے غم و الم کو مٹا دے۔ ان کی مصیبتوں کو دُور فرما دے اور شہیدوں کے جو جانشین ہیں انہیں ان کا بہترین جانشین بنا دے۔

(سیرت الحلبیہ جلد2 صفحہ345 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل مدینہ کی فدائیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے میدان سے واپس تشریف لائے تو مدینہ کی عورتیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کے لئے نکل آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی باگ ایک پرانے اور بہادر انصاری صحابی سعدبن معاذؓ نے پکڑی ہوئی تھی اور وہ فخر سے آگے آگے چلے آرہے تھے۔ شہر کے پاس انہیں اپنی بڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہوچکی تھی آتی ہوئی ملی۔ اُحد میں اس کا ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا۔اس بڑھیا کی آنکھوں میں موتیا بند اتررہا تھا اور اس کی نظر کمزور ہو چکی تھی۔ وہ عورتوں کے آگے کھڑی ہو گئی اور اِدھر ادھر دیکھنے لگی اور معلوم کرنے لگی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ سعدبن معاذؓ نے سمجھا کہ میری ماں کو اپنے بیٹے کے شہید ہونے کی خبر ملے گی تو اسے صدمہ ہو گا۔ اس لئے انہوں نے چاہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے حوصلہ دلائیں او رتسلی دیں۔ اس لئے جونہی ان کی نظر اپنی والدہ پر پڑی انہوں نے کہا، یا رسو ل اللہؐ! میری ماں! یارسول اللہؐ! میری ماں!‘‘ یعنی دو دفعہ بتایا کہ میری ماں آ رہی ہے۔ ’’آپؐ نے فرمایا۔‘‘ وہاں رک کے، ’’بی بی! بڑا افسوس ہے کہ تیرا ایک لڑکا اس جنگ میں شہید ہوگیا ہے۔ بڑھیا کی نظر کمزور تھی اس لئے وہ آپؐ کے چہرہ کو نہ دیکھ سکی۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھتی رہی۔ آخر کار اس کی نظر آپؐ کے چہرہ پر ٹِک گئی۔ وہ آپؐ کے قریب آئی اور کہنے لگی

یارسول اللہؐ! جب مَیں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا ہے تو آپ سمجھیں کہ مَیں نے مصیبت کو بھون کر کھالیا۔

اب دیکھو! وہ عورت جس کے بڑھاپے میں عصائے پیری ٹوٹ گیا تھا۔ کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو میں اس غم کو بھون کر کھا جاؤں گی۔ میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہوگی بلکہ یہ خیال کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور آپؐ کی حفاظت کے سلسلہ میں میرے بیٹے نے اپنی جان دی ہے میری قوت کو بڑھانے کا موجب ہوگا۔‘‘

(قرونِ اولیٰ کی مسلمان خواتین،انوار العلوم جلد 25صفحہ 441)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی طرح کا ایک اَور واقعہ بیان کرتے ہوئے احمدی عورتوں سے پوچھا کہ کیا تمہارے اندر دین کا وہی جذبہ موجزن ہے؟ پھر یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد احمدی خواتین کو مخاطب کر کے فریضۂ تبلیغ پر توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ یہی وہ عورتیں تھیں جو اسلام کی اشاعت اور تبلیغ میں مردوں کے دوش بہ دوش چلتی تھیں اور یہی وہ عورتیں تھیں جن کی قربانیوں پر اسلامی دنیا فخر کرتی ہے۔ تمہارا بھی دعویٰ ہے یعنی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والی عورتیں ہیں یہ تمہارا بھی دعویٰ ہے کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام پر ایمان لائی ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز ہیں گویا دوسرے لفظوں میں

تم صحابیات کی بروز ہو لیکن تم صحیح طور پر بتاؤ کہ کیا تمہارے اندر دین کا وہی جذبہ موجزن ہے جو صحابیات میں تھا؟ کیا تمہارے اندر وہی نور موجود ہے جو صحابیات میں تھا۔ کیا تمہاری اولادیں ویسی ہی نیک ہیں جیسی صحابیات کی تھیں؟

اگر تم غور کرو گی تو تم اپنے آپ کو صحابیات سے بہت پیچھے پاؤ گی۔ پھر آپؓ نے فرمایا کہ ان کی قربانیاں جو انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر کیں اللہ تعالیٰ کو ایسی پیاری لگیں کہ اللہ تعالیٰ نے بہت جلد ان کو کامیابی عطاکی اور دوسری قومیں جس کام کو صدیوں میں نہ کر سکیں ان کو صحابہ اور صحابیات نے چند سالوں کے اندر کر کے دکھایا۔

(ماخوذ از فریضۂ تبلیغ اور احمدی خواتین، انوارالعلوم جلد18صفحہ 400-401)

پس اگر ترقیات دیکھنی ہیں تو ہمیں بھی وہ ایمان پیدا کرنا ہوگا، جذبہ پیدا کرنا ہوگا اور اخلاص و وفا پیدا کرنی ہوگی۔

بعض واقعات کا گو پہلے مختصرذکر ہو چکا ہے جیسے یہ جو واقعہ میں نے بیان کیا اس کا بھی مختلف حوالوں سے ذکر ہوا ہے لیکن یہ ایسے واقعات ہیں جو بار بار اور مختلف انداز میں سن کر ایک عجیب ایمان کی کیفیت اور جوش پیدا کرتے ہیں۔ خاص طور پر جب حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں تو صرف واقعہ کے طور پہ نہیں بلکہ ایک وسیع تناظر میں یہ واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں۔

ایسے ہی قرون اولیٰ کی خواتین کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر آپؓ نے فرمایا کہ ’’اُحد کا میدان مدینہ سے آٹھ نو میل کے فاصلہ پر تھا۔ جب مدینہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر پہنچی تو عورتیں بے تحاشہ روتی اور بلبلاتی ہوئی شہر سے باہر نکل آئیں اور میدانِ جنگ کی طرف دوڑ پڑیں۔ اکثر عورتوں کو رستہ میں آپؐ کی سلامتی کی خبر مل گئی اور وہ وہیں ٹھہر گئیں مگر ایک عورت دیوانہ وار اُحد تک جاپہنچی۔ اس عورت کا خاوند، بھائی اور باپ اُحد میں مارے گئے تھے اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا۔ جب وہ مسلمان لشکر کے قریب پہنچی تو اس نے ایک صحابی سے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ چونکہ خبر دینے والا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مطمئن تھا اس لئے اس نے اس عورت سے کہا۔ بی بی! افسوس ہے کہ تمہارا باپ اس جنگ میں مارا گیا ہے۔ اس پر اس عورت نے کہا تم عجیب ہو۔میں تو پوچھتی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اور تم یہ خبر دیتے ہو کہ تیرا باپ مارا گیا ہے۔ اس پر اس صحابی نے کہا بی بی! مجھے افسوس ہے کہ تیرا خاوند بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے۔ اس پر عورت نے پھر کہا میں نے تم سے اپنے خاوند کے متعلق دریافت نہیں کیا۔ میں تو یہ پوچھتی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس پر اس صحابی نے اسے پھر کہا۔ بی بی! مجھے افسوس ہے کہ تیرا بھائی بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے۔ اس عورت نے بڑے جوش سے کہا میں نے تم سے اپنے بھائی کے متعلق دریافت نہیں کیا۔ میں تو تم سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھ رہی ہوں۔تم یہ بتاؤ کہ آپؐ کاکیا حال ہے؟ جب لوگوں نے دیکھا کہ اسے اپنے باپ، بھائی اور خاوند کی موت کی کوئی پروا نہیں۔ وہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت دریافت کرنا چاہتی ہے تو وہ اس کے سچے جذبات کو سمجھ گئے اور انہوں نے کہا بی بی! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خیریت سے ہیں۔ اس پر اس نے کہا مجھے بتاؤ وہ کہاں ہیں؟ اور پھر دوڑتی ہوئی اس طرف گئی جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے اور وہاں پہنچ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو زانو ہو کر آپؐ کادامن پکڑ کر کہنے لگی۔

یا رسول اللہؐ! میری ماں اور باپ آپؐ پر قربان ہوں جب آپؐ سلامت ہیں تو کوئی مرے مجھے کیا پروا ہے۔ مجھے تو صرف آپؐ کی زندگی کی ضرورت تھی۔ اگر آپؐ زندہ ہیں تو مجھے کسی اَور کی وفات کا فکر نہیں۔‘‘

آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’اب دیکھو! اس عورت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر عشق تھا۔ لوگ اسے یکے بعد دیگرے باپ، بھائی اور خاوند کی وفات کی خبر دیتے چلے گئے لیکن وہ جواب میں ہر دفعہ یہی کہتی چلی گئی کہ مجھے بتاؤ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ غرض یہ بھی ایک عورت ہی تھی جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر عشق کا مظاہرہ کیا۔‘‘

(قرونِ اولیٰ کی مسلمان خواتین ،انوارالعلوم جلد 25صفحہ 439تا440)

پھر قرون اولیٰ کی مسلمان عورتوں کے بارے میں جنگِ اُحد میں ہی جنگ کے بعد کے حالات کا نقشہ کھینچتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور صحابہ اور صحابیات کے آپؐ سے عشق و محبت کو بیان کرتے ہوئے دیباچہ تفسیر القرآن میں آپؓ نے یوں لکھا ہے ۔ آپؓ نے فرمایا کہ ’’جب اسلامی لشکر واپس مدینہ کی طرف لَوٹا تو اس وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت اور اسلامی لشکر کی پراگندگی کی خبر مدینہ پہنچ چکی تھی۔ مدینہ کی عورتیں اور بچے دیوانہ وار اُحد کی طرف دوڑے جا رہے تھے۔ اکثر کو تو راستہ میں خبر مل گئی اور وہ رک گئے، مگر بنو دینار قبیلہ کی ایک عورت دیوانہ وار آگے بڑھتے ہوئے اُحد تک جا پہنچی۔ جب وہ دیوانہ وار اُحد کے میدان کی طرف جا رہی تھی اُس عورت کا خاوند اور بھائی اور باپ اُحد میں مارے گئے تھے اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا۔‘‘ پہلی روایت بھی ہے ’’جب اُسے اُس کے باپ کے مارے جانے کی خبر دی گئی تو اس نے کہا مجھے بتاؤ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ چونکہ خبر دینے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مطمئن تھے وہ باری باری اسے اس کے بھائی اور خاوند اور بیٹے کی موت کی خبر دیتے چلے گئے مگر وہ یہی کہتی چلی جاتی تھی ’’مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم‘‘ ارے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا؟ بظاہر یہ فقرہ غلط معلوم ہوتا ہے۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں یہ فقرہ غلط معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا ’’اور اسی وجہ سے مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اُس کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہوا۔‘‘ یعنی وہ دوسری طرف لے گئے ’’لیکن حقیقت یہ ہے‘‘ آپؓ فرماتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے ’’کہ یہ فقرہ غلط نہیں بلکہ عورتوں کے محاورہ کے مطابق بالکل درست ہے۔ عورت کے جذبات بہت تیز ہوتے ہیں اور وہ بسا اوقات مُردوں کو زندہ سمجھ کر کلام کرتی ہے۔ جیسے بعض عورتوں کے خاوند یابیٹے مر جاتے ہیں تو ان کی موت پر ان سے مخاطب ہو کر وہ اس قسم کی باتیں کرتی رہتی ہیں کہ مجھے کس پر چھوڑ چلے ہو؟ یا بیٹا! اس بڑھاپے میں مجھ سے کیوں منہ موڑ لیا؟ یہ شدتِ غم میں فطرتِ انسانی کا ایک نہایت لطیف مظاہرہ ہوتا ہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر اس عورت کا حال ہوا۔ وہ آپؐ کو فوت شدہ ماننے کے لیے تیار نہ تھی اور دوسری طرف اس خبر کی تردید بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیے شدت غم میں یہ کہتی جاتی تھی ارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا کیا۔ یعنی ایسا وفادار انسان ہم کو یہ صدمہ پہنچانے پر کیونکر راضی ہو گیا۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ اسے اپنے باپ، بھائی اور خاوند کی کوئی پرواہ نہیں تو وہ اس کے سچے جذبات کو سمجھ گئے اور انہوں نے کہا۔ فلانے کی اماں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو جس طرح تُو چاہتی ہے خدا کے فضل سے خیریت سے ہیں۔ اس پر اُس نے کہا مجھے دکھاؤ وہ کہاں ہیں ؟ لوگوں نے کہا کہ آگے چلی جاؤ وہ آگے کھڑے ہیں۔ وہ عورت دوڑ کر آپؐ تک پہنچی۔ آپؐ کے دامن کو پکڑ کر بولی۔ یا رسول اللہؐ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں، جب آپؐ سلامت ہیں تو کوئی مرے مجھے کوئی پرواہ نہیں۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں دیکھو ’’مَردوں نے جنگ میں وہ نمونہ ایمان کا دکھایا اور عورتوں نے یہ نمونہ اخلاص کا دکھایا، جس کی مثال میں نے ابھی بیان کی ہے۔ عیسائی دنیا مریم مگدلینی اور اس کی ساتھی عورتوں کی اس بہادری پر خوش ہیں کہ وہ مسیح ؑکی قبر پر صبح کے وقت دشمنوں سے چھپ کر پہنچی تھیں۔ میں ان سے کہتا ہوں آؤ اور ذرا میرے محبوب کے مخلصوں اور فدائیوں کو دیکھو کہ کن حالتوں میں انہوں نے اس کا ساتھ دیا اور کن حالتوں میں انہوں نے توحید کے جھنڈے کو بلند کیا۔… رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہداء کو دفن کر کے مدینہ واپس گئے تو پھر عورتیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کے لئے نکل آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی باگ سعد بن معاذؓ مدینہ کے رئیس نے پکڑی ہوئی تھی‘‘ پہلے بھی بیان ہوا ہے یہ واقعہ ’’اور فخر سے آگے آگے دوڑے جا تے تھے۔ شاید دنیا کو یہ کہہ رہے تھے کہ دیکھا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیریت سے اپنے گھر واپس لے آئے ہیں۔‘‘ یہ اپنا انداز ہے ایک بیان کا۔ ’’شہر کے پاس انہیں اپنی بڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی آتی ہوئی ملی۔ اُحد میں اس کا ایک بیٹا عمرو بن معاذؓ بھی مارا گیا‘‘ تھا جس کی تفصیل مَیں نےپہلے بھی بیان کی ہے۔ ’’…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مائی! مجھے تمہارے بیٹے کی شہادت پر تم سے ہمدردی ہے‘‘ جب اس کو دیکھا۔ ’’اس پر نیک عورت نے کہا۔ حضور! جب میں نے آپؐ کو سلامت دیکھ لیا تو سمجھو کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا۔

’’مصیبت کو بھون کر کھا لیا‘‘ کیا عجیب محاورہ ہے۔ محبت کے کتنے گہرے جذبات پر دلالت کرتا ہے۔ غم انسان کو کھا جاتا ہے وہ عورت جس کے بڑھاپے میں اس کا عصائے پیری ٹوٹ گیا کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو میں اس غم کو کھا جاؤں گی۔

میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہوگی بلکہ یہ خیال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس نے جان دی میری قوت کے بڑھانے کا موجب ہو گا۔‘‘ یہ جذبہ ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ انصار کے حق میں دعا دیتے ہوئے اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اے انصار! میری جان تم پر فدا ہو، تم کتنا ثواب لے گئے۔‘‘

( دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20صفحہ 255تا 257)

مدینے کے منافقین اور یہود کا طرز عمل

اور حضرت عمرؓ کے جوش پر جو ان کے رویّہ کے خلاف تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا اسوہ تھا۔ لکھا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ اُحد کے بعد مدینہ پہنچے تو منافقین اور یہود خوشیاں منانے لگے اور مسلمانوں کو برا بھلا کہنے لگے اور کہنے لگے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بادشاہت کے طلبگار ہیں، نعوذ باللہ اور آج تک کسی نبی نے اتنا نقصان نہیں اٹھایا جتنا انہوں نے اٹھایا ہے۔ خود بھی زخمی ہوئے اور ان کے صحابہ بھی زخمی ہوئے اور کہتے تھے کہ اگر تمہارے وہ لوگ جو قتل ہوئے ہمارے ساتھ رہتے تو کبھی قتل نہ ہوتے۔ حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان منافقین کے قتل کی اجازت چاہی جو اس طرح یہ باتیں کر رہے تھے یعنی منافقین۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا وہ اس شہادت کا اظہار نہیں کرتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں؟ لا الٰہ الا اللہ نہیں پڑھتے؟ اور میں اللہ کا رسول ہوں اور محمد رسول اللہ نہیں کہتے؟ کلمہ تو پڑھتے ہیں فرمایا کہ کلمہ تو پڑھتے ہیں ناں یہ لوگ؟ اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا کیوں نہیں۔ یقیناً پڑھتے ہیں۔ یہ تو کہتے ہیں لیکن منافقانہ باتیں بھی ساتھ کر رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا لیکن یہ تلوار کے خوف سے اس طرح کہتے ہیں۔ ساتھ یہ بھی حضرت عمرؓ نے کہا کہ تلوار کے خوف سے یہ اس طرح کرتے ہیں۔ کلمہ پڑھ رہے ہیں یا محمد رسول اللہ کہہ رہے ہیں۔ پس ان کا معاملہ اب ظاہر ہو گیا ہے اور اب جب ان کے دل کی بات نکل گئی ہے اور اللہ نے ان کے کینوں کو ظاہر کر دیا ہے تو پھر ان سے انتقام لینا چاہیے، ان کو سزا دینی چاہیے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس کے قتل سے منع کیا گیا ہے جو اس شہادت کا اظہار کرے۔

(السیرۃ الحلبیۃ جزء2صفحہ348 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

جو لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہے مجھے اس کے قتل سے منع کیا گیا ہے۔ جس نے یہ کلمہ پڑھ لیا مجھے ایسے شخص کے قتل سے منع کیا گیا ہے۔

یہ ان نام نہاد علماء کا منہ بند کرنے کے لیے بھی کافی ہے جو احمدیوں کے بارے میں باوجود اس کے کہ احمدی دل سے یہ کلمہ پڑھتے ہیں اور منافقت کی ہلکی سی بھی بُوہمارے اندر نہیں ہے۔ یہ لوگ، یہ علماء کہتے ہیں کہ یہ کافر ہیں اور ان کا قتل جائز ہے اور بعض شہادتیں اسی طرح ہوئی ہیں۔

یہی علماء، یہ نام نہاد علماء ہیں جنہوں نے اسلام کو بد نام کیا ہوا ہے۔

اُحد کے شہداء کے جنازے پڑھنے کے بارے میں

مختلف روایات ہیں انہیں میں بیان بھی کر چکا ہوں لیکن یہاں صحیح بخاری کے حوالے سے ذکر کرنا چاہتا ہوں جس سے

غزوہ اُحد میں شامل ہونے والے صحابہ کرامؓ کے مقام و مرتبہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے لیے دعا

کا پتہ چلتا ہے۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ سال بعد اُحد کے شہیدوں پر نماز جنازہ پڑھی۔ زندوں اور مردوں کو الوداع کرنے والے کی طرح۔ اس کے بعد آپؐ منبر پر چڑھے اور فرمایا: میں تمہارے آگے پیش رو ہوں گا اور میں تم پر گواہ ہوں گا اور تم سے ملنے کی جگہ حوض ہے اور میں اسے اپنے اس کھڑے ہونے کی جگہ سے دیکھ رہا ہوں۔ اور تمہارے متعلق مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم شرک کرو گے لیکن مجھے تمہارے متعلق دنیا کا ڈر ہے کہ تم اس کے لیے ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے لگو۔(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ احد حدیث4042)اور بعد کے واقعات نے یہ ثابت بھی کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ڈر بھی صحیح تھا۔

حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہارے بھائی اُحد میں شہید ہوئے اللہ نے ان کی روحوں کو سبز پرندوں کے پیٹ میں رکھا۔ وہ جنت کی نہروں پر اترتے اس کے پھل کھاتے اور عرش کے سائے میں لٹکی ہوئی سونے کی قندیلوں میں بسیرا کرتے۔ جب انہوں نے اپنی پسند اور مرضی کا کھا لیا اور پی لیا اور اپنی مرضی کا آرام کیا تو انہوں نے کہا ہمارے بھائیوں کو کون پہنچائے گا کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور ہمیں رزق دیا جاتا ہے تاکہ وہ جہاد سے بے رغبتی نہ کریں اور جنگ کے وقت کیل کانٹے نہ لیں، پیچھے نہ ہٹیں۔ تو اللہ سبحانہٗ نے کہا میں تمہاری طرف سے ان کو پہنچا دیتا ہوں۔ فرمایا پھر اللہ نے یہ آیت نازل کی وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا۔ (آل عمران:170) وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں ان کو مردہ نہ سمجھو۔

(سنن ابی داؤد کتاب الجھاد باب فی فضل الشھادۃ حدیث 2520)

بعض دفعہ مفسرین، لکھنے والے یا بعض حدیث بیان کرنے والے بھی یہ تو ہر بات پہ کہہ دیتے ہیں کہ ضروری نہیں ہے کہ آیت کی وجہ نزول یہی ہو۔ اس سے پہلے بھی ہر شہید کے بارے میں، بدر کے شہداء کا بہت بڑا مقام تھا ان کے بارے میں بھی بلکہ سورۂ بقرہ میں بھی یہ آیت ہے۔

پھر ایک روایت ملتی ہے حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب مجھے شہدائے اُحد یاد آتے ہیں تو خدا کی قسم! مجھے یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش میں بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پہاڑ کے درے میں ہی رہ گیا ہوتا۔ آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ مَیں ان کے ساتھ شہید ہو جاتا۔

(المستدرک علی الصحیحین جلد5 صفحہ1627 کتاب المغازی والسرایا حدیث4318 مکتبہ نزار مصطفیٰ2000ء)

عبداللہ بن ابی فَرْوَہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے شہداء کی قبروں کی زیارت کی تو فرمایا۔اَللّٰهُمَّ إِنَّ عَبْدَكَ وَنَبِيَّكَ يَشْهَدُ أَنَّ هٰؤُلَاءِ شُهَدَاءُ، وَأَنَّهٗ مَنْ زَارَهُمْ۔ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ إِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ رَدُّوْا عَلَيْہِ۔اے اللہ! بے شک میں تیرا بندہ اور نبی گواہی دیتا ہوں کہ یہ لوگ شہید ہیں اور جو ان کی زیارت کرے اور قیامت کے دن تک ان پر سلام بھیجے تو وہ اس کا جواب دیں گے۔

(المستدرک علی الصحیحین جلد5 صفحہ1627-1628 کتاب المغازی والسرایا حدیث4320 مکتبہ نزار مصطفیٰ2000ء)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ اُحد کے شہدا کے لیے فرمایا۔ هٰؤُلَاءِ أَشْهَدُ عَلَيْهِمْ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا میں گواہ ہوں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ!کیا ہم ان کے بھائی نہیں ہیں۔ ہم مسلمان ہوئے جیسے وہ مسلمان ہوئے اور ہم نے جہاد کیا جیسے انہوں نے جہاد کیا۔ آپؐ نے فرمایا ہاں مگر مجھے معلوم نہیں کہ میرے بعد تم کیا کرو گے تو حضرت ابوبکرؓ رونے لگے اور عرض کیاکہ ہم آپؐ کے بعدزندہ رہیں گے؟(الموطّا لامام مالک صفحہ 282کتاب الجھاد باب الشھداء فی سبیل اللّٰہ حدیث 1004مطبوعہ دارالفکر بیروت)اس غم سے ہی حضرت ابوبکر ؓرونے لگ گئے کہ شاید ہماری زندگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ لمبی ہے۔

عَبَّاد بن ابی صَالِح سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال کے شروع میں شہدائے اُحد کی قبروں کی زیارت کو تشریف لے جاتے تو آپؐ فرماتے۔ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ۔ سلامتی ہو تم پر بسبب اس کے جو تم نے صبر کیا پس کیا ہی اچھا ہے گھر کا انجام۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت ابوبکر ؓاور ان کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ بھی ان کی زیارت کرنے جاتے تھے۔

(تاریخ المدینۃ المنورۃ جلد1 صفحہ85-86 حدیث381 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بیان کیا کہ ’’زمانہ وفات کے قریب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر شہداء اُحد پر جنازہ کی نماز ادا کی اور بڑے دردِ دل سے ان کے لئے دعا فرمائی۔ آپؐ اُحد کے شہداء کو خاص محبت اور احترام سے دیکھتے تھے۔ ایک دفعہ آپؐ اُحد کے شہداء کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کے ایمان کا میں شاہد ہوں۔ حضرت ابوبکر ؓنے عرض کیا یا رسول اللہؐ! کیا ہم ان کے بھائی نہیں ہیں؟ کیا ہم نے انہی کی طرح اسلام قبول نہیں کیا؟ کیا ہم نے انہی کی طرح خدا کے رستے میں جہاد نہیں کیا؟ آپؐ نے فرمایا۔ ’’ہاں! لیکن مجھے کیا معلوم ہے کہ میرے بعد تم کیا کیا کام کرو گے۔‘‘ اس پر حضرت ابوبکر ؓرو پڑے اور بہت روئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہؐ! کیا ہم آپؐ کے بعد زندہ رہ سکیں گے؟‘‘ یہ تصور ہی ہمیں مارنے والا ہے۔ پھر آپؓ لکھتے ہیں کہ ’’صحابہ بھی اُحد کے شہداء کی بڑی عزت کرتے تھے اور اُحد کی یاد کو ایک مقدس چیز کے طور پر اپنے دلوں میں تازہ رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے سامنے افطاری کا کھانا آیا جو غالباً کسی قدر پُرتکلف تھا۔ اس پر انہیں اُحد کا زمانہ یاد آگیا جب مسلمانوں کے پاس اپنے شہداء کو کفنانے کے لئے کپڑا تک نہیں تھا اور وہ ان کے بدنوں کو چھپانے کے لئے گھاس کاٹ کاٹ کر ان پر لپیٹتے تھے اور اس یاد نے عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو ایسا بے چین کر دیا کہ وہ بے تاب ہوکر رونے لگ گئے اور کھانا چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے حالانکہ وہ روزے سے تھے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 502)

شہدائے اُحد کے لواحقین سے دلجوئی کے واقعات

اور شہداء کے بچوں سے محبت کے اظہار کا بھی ذکر ملتا ہے۔ حضرت بِشْرؓکے والد حضرت عَقرَبَہؓ کا ذکر جنگِ اُحد کے شہداء میں بیان ہوا ہے۔ بعض نے حضرت بِشْرؓکا نام بشیر بھی بیان کیا ہے۔ جب عَقرَبَہؓ شہید ہو گئے تو ان کے بیٹے بِشران کے پاس بیٹھے رو رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے تو آپؐ نے فرمایا۔اُسْكُتْ ،اَمَا تَرْضٰى اَنْ اَكُوْنَ اَنَا أَبُوْكَ وَعَائِشَةُ اُمُّكَ۔ چپ ہو جاؤ، کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ میں تمہارا باپ بن جاتا ہوں اور عائشہ تمہاری ماں بن جاتی ہے۔ بِشرنے کہا کیوں نہیں میں بالکل راضی ہوں۔ ان کا پرانا نام بَحِیْرتھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام بشیر رکھ دیا۔ اور ان کی زبان میں لکنت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے منہ پر دم کیا تو لکنت جاتی رہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کے سر پر اپنا دستِ مبارک بھی پھیرا۔ جب وہ عمر رسیدہ ہو گئے تو سارا سر سفید ہو گیا مگر جس جگہ آپؐ نے اپنا دست مبارک پھیرا تھا اس جگہ کے بال بدستور کالے ہی رہے۔ انہوں نے لمبی عمر پائی۔ فلسطین میں 85 ہجری میں فوت ہوئے۔

(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد6صفحہ 357 دارالسّلام ریسرچ سنٹر)

(ماخوذ از الاصابہ جلد 4صفحہ437 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(ماخوذ از اسد الغابہ جلد1صفحہ388 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے دلجوئی کا واقعہ ملتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملے تو آپؐ نے فرمایا۔ اے جابر! کیا بات ہے میں تمہیں غمگین دیکھ رہا ہوں۔ مَیں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے والد غزوۂ اُحد میں شہید ہو گئے اور وہ قرض اور اولاد چھوڑ گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں اس چیز کی خوشخبری نہ دوں جس سے اللہ نے تمہارے والد سے ملاقات کی ہے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ ضرور دیں۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ نے کسی سے کلام نہیں کیا مگر پردے کے پیچھے سے۔ جس سے بھی اللہ تعالیٰ نے کلام کیا پردے کے پیچھے سے کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کو زندہ کیا اور پھر ان سے آمنے سامنے ہو کر کلام کیا اور فرمایا: اے میرے بندے! مجھ سے مانگ کہ میں تجھے دوں۔ انہوں نے عرض کی کہ اے میرے ربّ! مجھے دوبارہ زندہ کر دے تاکہ میں تیری راہ میں دوبارہ قتل کیا جاؤں۔ ایک روایت میں ہے کہ اس موقع پر حضرت عبداللہؓ نے عرض کی کہ اے میرے ربّ! میں نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا میری تمنا ہے کہ تُو مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج تاکہ میں تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر تیری راہ میں لڑوں اور تیری راہ میں دوبارہ مارا جاؤں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ جو ایک بار مر جائیںوہ دنیا میں دوبارہ نہیں لوٹائے جائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ اے میرے ربّ! میرے پیچھے رہنے والوں تک یہ بات پہنچا دے۔ اس موقع پر پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ (آل عمران: 170) یعنی جو اللہ کی راہ میں مارے گئے تم انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ تو زندہ ہیں انہیں ان کے ربّ کے ہاں رزق عطا کیا جا رہا ہے۔

(سنن الترمذی ابواب تفسیر القرآن باب ومن سورۃ آل عمران حدیث 3010)
(دلائل النبوۃ از بیہقی جزء3 صفحہ298 دار الریان للتراث القاہرۃ 1988ء)
(الاستیعاب جزء3صفحہ 955۔ 956 دار الجیل بیروت)

بہرحال جیساکہ پہلے بھی میں نے کہا۔ یہ صحیح ہے کہ نہیں کہ یہ آیت کی وجہ نزول ہے یا نہیں لیکن یہ بات بہرحال صحیح ہے کہ شہداء زندہ ہیں جو مرنے کے فوراً بعد ہی جنت کے اعلیٰ درجے اور مقام پا لیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے مکالمہ والے واقعہ کی تفصیل حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے اپنی ایک تقریر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے بیان کی تھی کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ سے تعلق کا اظہار ہوتا ہے۔ اور صحابہؓ کی آپؐ سے محبت اور اللہ تعالیٰ کی ان پر پیار کی نظر کس طرح پڑتی تھی، یہ بیان کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں کہ ’’اس واقعہ میں طرح طرح کا حسن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور جس کروٹ سے اسے دیکھیں یہ ایک نئی رعنائی دکھاتا ہے۔ منجملہ اَور امور کے اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کس طرح مسلسل آنحضورؐ کا رابطہ اپنے رب سے قائم تھا۔ بندوں پر بھی نظرِ شفقت فرما رہے تھے اور رب سے بھی دل ملا رکھا تھا۔ ایک پہلو اپنے صحابہؓ پر جھکا ہوا تھا تو دوسرا پہلو رفیق اعلیٰ سے پیہم وابستہ اور پیوستہ تھا۔ وہ وجود جو امن کی حالت میں ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى(النجم:9)کے افق اعلیٰ پر فائز رہا، جنگ کی حالت میں بھی ایک لمحہ اس سے الگ نہ ہوا۔ ایک نگاہ میدانِ حرب کی نگران تھی تو دوسری جمالِ یار کے نظارہ میں مصروف تھی۔ ایک کان رحمت سے صحابہؓ کی طرف جھکا ہوا تھا تو دوسرا ملا ء اعلیٰ سے اپنے رب کا شیریں کلام سننے میں مصروف۔ دستِ باکار تھا تو دلِ بایار۔ آپؐ صحابہؓ کی دلداری فرماتے تھے تو خدا آپؐ کی دلداری فرما رہا تھا۔ عبداللہ بن عمروؓ کی قلبی کیفیت کی خبر دے کر دراصل اللہ تعالیٰ آپؐ کو یہ پیغام دے رہا تھا کہ اے سب سے بڑھ کر مجھ سے محبت کرنے والے! دیکھ! تیرا بھی کیسا عشق ہم نے اپنے عارف بندوں کے دل میں بھر دیا ہے کہ عالم گزراں سے گزر جانے کے بعد بھی تیرا خیال انہیں ستاتا ہے۔‘‘ وہیں انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا کے دوبارہ لڑوں دشمن کے خلاف ’’اور تجھے میدانِ جنگ میں تنہا چھوڑ کے چلے جانے پر کس درجہ کبیدۂ خاطر ہیں۔ تیرے مقابل پر انہیں جنت کی بھی حرص نہیں رہی۔ ان کی جنت توبس یہی ہے کہ تیز تلواروں سے بار بار کاٹے جائیں، مگر تیرے ساتھ رہیں، پھر تیرے ساتھ رہیں، پھر تیرے ساتھ رہیں۔‘‘

(خطابات طاہر(تقاریر جلسہ سالانہ قبل از خلافت) تقریر جلسہ سالانہ 1979ء، صفحہ 349۔ 350)

باقی ان شاء اللہ آئندہ پیش کروں گا۔

فلسطین اور دنیا کے حالات کے لیے بھی دعائیں جاری رکھیں۔ بد سے بدتر حالات ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ ایران پر بھی حملہ ہو اور پھر جنگ وسیع ہوکر مزید پھیلے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔

یمن میں کچھ اسیران کی رہائی ہوئی ہے۔کل ہی یہ خبر آئی ہے بلکہ اکثریت کی رہائی ہو گئی ہے۔

باقی جو چند رہ گئے ہیں ان کی رہائی کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ حکام کے دل ان کی طرف سے صاف کرے۔ خاص طور پہ جوایک خاتون صدر لجنہ ہیں وہ اسیری میں ہیں اللہ تعالیٰ ان کی جلد رہائی کے سامان فرمائے۔

نماز کے بعد میں

دو جنازہ غائب

بھی پڑھاؤں گا۔ اس میں جو پہلا جنازہ ہے ان کا تھوڑا ذکر کر دوں۔ یہ

مکرم مصطفیٰ احمد خان صاحب ہیں جو حضرت نواب عبداللہ خان صاحبؓ اور حضرت نواب امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ کے بیٹے تھے

گذشتہ دنوں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے چھوٹے نواسے تھے۔ سب سے چھوٹی بیٹی امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ اس طرح آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے چھوٹے نواسے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ 1966ء میں سوئی ناردرن گیس کمپنی میں بطور سینئر جنرل مینیجر ملازمت شروع کی اور اس کے بعد پھر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی دوبارہ اس کمپنی کے ڈائریکٹر بن گئے۔ 74ءمیں حالات خراب ہوئے تو کمپنی نے آپ کو بالکل ایک طرف کر دیا اور جو اچھا صحیح کام تھا وہ نہیں دیتے تھے۔ اس پر انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سے مشورہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ حالات درست ہو جائیں گے، فکر نہ کرو اور تم نے ادھر ہی رہنا ہے اور پھر بعد میں اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور پھر حالات ان کے حق میں ہوئے۔

غریبوں کا بڑا خیال رکھنے والے تھے۔ رشتے نبھانے والے تھے۔ دو شادیاں تھیں۔ پہلی شادی ان کی ہوئی۔ ان کی وہ اہلیہ وفات پا گئی تھیں تو پھر انہوں نے دوسری شادی ان کی چھوٹی بہن سے کی۔ ان کے جو پہلے بچے تھے ان بچوں کو بھی انہوں نے اپنے بچوں کی طرح رکھا اور اپنی بہنوں کی تحریک پر یہ دوسری شادی انہوں نے کی اور پھر خوب نبھایا دوسری شادی کو بھی۔ ان کی دوسری اہلیہ لکھتی ہیں۔ دوسری اہلیہ بھی پہلی بیوی کی چھوٹی بہن تھیں اور پہلے شادی شدہ تھیں ان کی دو بیٹیاں بھی تھیں جیساکہ میں نے کہا۔پھر طلاق ہو گئی۔ پھر کافی دیرانہوں نےبچیوں کو خود پالا لیکن بہرحال پھر ان سے شادی ہوئی۔ یہ لکھتی ہیں کہ غیر مسلموں سے بھی بہت حسنِ سلوک تھا۔ ایک ہندو بچہ تھا سندھ میں۔ اس کی تعلیم کا خرچ اٹھایا اور اسے پڑھایا لکھایا اور یہاں تک پڑھایا کہ وہ اسسٹنٹ کمشنر بن گیا اور ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ مجھے مصطفیٰ خان صاحب کی وجہ سے یہ مقام ملا ہے۔ بہرحال وہ تو اللہ کا فضل تھا۔ بہت غریب پرور تھے۔ اپنے والدین کے نام سے ناصرآباد فارم میں ایک ٹرسٹ بھی بنایا تھا جو فارم ان کے والد کی طرف سے وراثت میں ملا تھا۔ زمینوں کے ساتھ ہی کلینک بھی بنایاہوا تھا اور باقاعدگی سے فری میڈیکل کیمپ بھی وہاں منعقد ہوتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالمنان شہید صاحب بھی اس میڈیکل کیمپ میں جایا کرتے تھے۔ کلینک کے لیے باہر سےکبھی کسی سے مطالبہ نہیں کیا۔ اپنے ذرائع سے ہی اس کا خرچ پورا کرتے تھے۔ مہمان نوازی بھی ان میں بہت تھی۔ ان کے والد صاحب حضرت نواب عبداللہ خان صاحب بھی بہت مہمان نواز تھے، ان کی طرف سے آئی ہے۔ بچوں سے بھی بہت پیار کا رشتہ تھا۔ ہر رشتہ بہت اچھی طرح نبھایا۔ ان کی دوسری اہلیہ نے لکھا ہے۔ ان کے یعنی دوسری اہلیہ کے بچوں، بیٹیوں کا بھی اپنی بیٹیوں کی طرح خیال رکھا۔ بچوں کو سمجھانے میں اگر سختی کرنی پڑے تو کرتے تھے لیکن پھر بات سمجھاتے بھی تھے۔

ڈاکٹر خالد تسلیم صاحب جو ان کے بھانجے ہیں کہتے ہیں انتہائی نافع الناس انسان تھے۔ سوئی گیس کے محکمے میں اچھے عہدے پر فائز تھے اور کسی کو کوئی کام پڑتا تو اس کو انکار نہیں کیا کرتے تھے۔ خاص طور پر غریبوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ کہتے ہیں مرزا حنیف احمد صاحب نے ایک دفعہ کہا کہ ان کے پاس کسی غریب آدمی کو کسی کام کے لیے بھیجو تو وہ اس کا کام ضرور کر دیتے ہیں۔ ربوہ میں بھی بہت سارے غریب گھروں میں سوئی گیس لگوانے میں انہوں نے کافی مدد کی ہے۔

35سال پہلے انہیں کینسر کا مرض لاحق ہو گیا تھا۔ بڑا آپریشن بھی کرنا پڑا۔ اس کی وجہ سے ان کی روزمرہ کی زندگی میں کافی مشکلات بھی درپیش تھیں لیکن اس کے باوجود ان کے چہرے سے بشاشت نہیں گئی اور مہمان نوازی اور لوگوں کے کام آنے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ حلقۂ احباب بھی ان کا بہت وسیع تھا۔ جماعت کے مخالفین بھی ان کی بہت عزت اور احترام کرتے تھے اور ان سے ملتے تھے کیونکہ احسان کرنے والے تھے۔ ہر ایک پہ احسان کرتے تھے۔ کوشش میں رہتے تھے کسی کا احسان نہ لیں بلکہ دوسرے کو زیرِاحسان کریں اور اگر کبھی کوئی تھوڑا سا احسان کر بھی دیتا تھا تو اس کے پھر بڑے ممنونِ احسان رہتے تھے۔

مَیں نے بھی ان میں یہ سب خوبیاں دیکھی ہیں۔ غریب پرور بھی تھے۔ بہترین بیٹے تھے جنہوں نے سب سے بڑھ کر اپنی ماں کی خدمت کی۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کے باوجود سب سے بڑا بن کے دکھایا۔

وراثت کی زمین کا مشترکہ انتظام ان کی والدہ حضرت نواب امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ نے ان کے سپرد کیا تو اسے بھی انہوں نے بہت اعلیٰ طریقے سے نبھایا۔ اس میں انتظامی کام کیے اور اس فارم کو بہت اونچا کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ اسی وجہ سے ان کے بہن بھائی بھی آپ پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہاں کے غریب مزدوروں کا بھی بہت خیال رکھا کرتے تھے۔ بہرحال بہت اچھے خاوند، بہت اچھے بیٹے، بہت اچھے باپ اور بھائی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

دوسرا جنازہ غائب جو پڑھوں گا وہ

ڈاکٹر میر داؤد احمد صاحب مرحوم

کا ہے۔ یہ امریکہ میں تھے۔ گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ ڈاکٹر میر مشتاق احمد صاحب اور بلقیس بیگم صاحبہ کے بیٹے تھے۔ ان کی شادی مکرمہ امة البصیر صاحبہ سے ہوئی جو حضرت میاں عبدالرحیم احمد صاحب اور صاحبزادی امة الرشید بیگم صاحبہ کی بیٹی تھیں۔ حضرت صاحبزادی امة الرشید بیگم حضرت مصلح موعودؓ کی بیٹی تھیں اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی اور یہ پڑنواسی بنیں۔ صاحبزادی امة الرشید صاحبہ حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب خلیفة المسیح الاولؓ کی نواسی تھیں۔

ڈاکٹر داؤد صاحب نے یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے گریجوایشن کی۔ پھر امریکہ چلے گئے۔ وہاں سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی۔ اس کے بعد ورلڈ بینک میں ملازمت کی۔ 35 سال تک بحیثیت سینئر ڈیویلپمنٹ پروفیشنل اور بطور انتہائی اعلیٰ صلاحیت کے پریکٹیشنر کے خدمات سر انجام دیتے رہے۔ آپ نے مختلف ممالک میں بالخصوص ایشیا میں بڑے پیمانے پر بین الاقوامی ترقیات اور ترقیاتی منصوبوں پہ کام کیا۔ امریکہ کی جماعت کے بھی شروع کے ممبروں میں سے تھے۔ 1970ءکی دہائی میں لنگر خانے کی ٹیم میں بھی اپنی ڈیوٹی دیا کرتے تھے باوجود اس کے کہ ایک اعلیٰ افسر تھے۔ اس کے علاوہ کئی سال تک نیشنل سیکرٹری جائیداد امریکہ کے طور پر بھی کام بجالا ئے۔ ہمیشہ نہایت جوش اور دینی جذبے سے کام کیا کرتے تھے۔ مسجد بیت الرحمان کی تعمیر اور خاص طور پر توسیع کے کام میں انہوں نے بہت کام کیا۔ باوجود اس کے کہ بڑے اچھے عہدے پر فائز تھے بڑی عاجزی سے جماعتی خدمات انجام دیا کرتے تھے۔ چین میں بھی رہے ہیں۔ اس وقت کے مربی نے مجھے لکھا جب وہاں تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ نامساعد حالات کے باوجود چین میں بھی اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ نہایت عاجزانہ طبیعت کے مالک تھے۔ ہر چھوٹے بڑے سے تواضع اور خوش دلی سے ملتے تھے۔حتی الوسع ہر ممکن مالی امداد کرنے کے لیے بھی تیار رہتے تھے۔ مہمان نوازی ان کا خاص وصف تھا۔ اپنوں اور غیروں پر شفقت بلا امتیاز تھی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

٭…٭…٭

الفضل انٹرنیشنل ۳؍ مئی ۲۰۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button