متفرق مضامین

صحبت صادقین اورفیضان خلافت

(ڈاکٹر ابرار احمد چغتائی، سڈنی آسٹریلیا)

صحبت صادقین کی اہمیت

قرآن پاک، احادیث نبوی اور ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے معلوم ہوتا ہے کہ صادقین اور صالحین کی صحبت تکمیل ایمان، تقوی و طہارت اور تعلق باللہ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ۔(التوبہ:۱۱۹)۔ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

آنحضرتﷺفرماتے ہیں:’’بُرے ہم نشین اور اچھے ہم نشین کی مثال عطار اور لوہار کی ہے۔ عطار کے پاس بیٹھے گا تو وہ تجھے تحفہ دے گا یا تو اس سے خوشبو خریدے گا یا کم از کم تجھے پہنچ جائے گی، اگر لوہار کے پاس بیٹھو گے تو کپڑے جلیں گے یا پھر دھوئیں اور گلے سڑے پانی کی بو تجھے تکلیف دے گی۔‘‘(مسلم کتاب البروالصلۃ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’صادقوں اور راستبازوں کے پاس رہنے والا بھی ان میں ہی شریک ہو تا ہے۔ اس لیے کس قدر ضرورت ہے اس امر کی کہ انسان کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ کے پاک ارشاد پر عمل کرے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملائکہ کو دنیا میں بھیجتا ہے وہ پاک لوگوں کی مجلس میں آتے ہیں اور جب واپس جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے کیا دیکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک مجلس دیکھی ہے جس میں تیرا ذکرکررہے تھے مگر ایک شخص ان میں سے نہیں تھا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہیں وہ بھی ان میں ہی سے ہے کیونکہ اِنَّھُمْ قَوْمٌ لَایَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صادقوں کی صحبت سے کس قدر فائدے ہیں۔ سخت بد نصیب ہے وہ شخص جو صحبت سے دور رہے۔‘‘(ملفوظات جلد۳صفحہ۵۰۷،ایڈیشن۱۹۸۸ء)

جس طرح صرف کتابوں سے علم حاصل نہیں کیا جا سکتا ایسے ہی روحانی علوم کو روحانی معلمين کے بغیر سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’شریعت کی کتابیں حقائق اور معارف کا ذخیرہ ہوتی ہیں۔ لیکن حقائق اور معارف پر کبھی پوری اطلاع نہیں مل سکتی جبتک صادق کی صحبت اخلاص اور صدق سے اختیار نہ کی جاوے۔ اسی لیے قرآن شریف فرماتا ہے۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ (التوبہ: ۱۱۹)۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور اتقاء کے مدارج کامل طور پر کبھی حاصل نہیں ہو سکتے جبتک صادق کی معیت اور صحبت نہ ہو۔ کیونکہ اس کی صحبت میں رہ کر وہ اس کے انفاس طیبہ عقد ہمت اور توجہ سے فائدہ اُٹھاتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد۳صفحہ۲۲۱، ایڈیشن۱۹۸۴ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے فارسی کلام میں فرماتے ہیں:

صدق را ہر دم مددآید ز ربّ العٰلمین

صادقاں را دستِ حق باشد نہاں در آستیں

ہر بلا کز آسماں بر صادقے آید فرود

آخرش گردد نشانے از برائے طالبیں

(ضرورت الامام روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۵۰۶)

سچائی کو ہر دم رب العالمین سے مدد پہنچتی ہے

صادقوں کی آستیں میں خدا کا ہاتھ پوشیدہ ہوتا ہے

ہر وہ مصیبت جو آسمان سے کسی صادق پر اترتی ہے

وہ آخر میں طالبین حق کے لیے ایک نشان ہو جاتی ہے

صحبت صادقین کے ذرائع

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان صادقین و صالحین کی معیت کیسے اختیار کی جائے۔ اس ضمن میں جماعتی لٹریچر میں صحبت صادقین کے کئی ذرائع بیان ہوئے ہیں، جیسا کہ انبیاء، اولیاء و راستبازوں کی صحبت، مساجد میں باجماعت نمازوں میں شمولیت، قرآن کریم کی تلاوت، احادیث اورکتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مطالعہ، خلفاء کے خطبات، خطابات و اشادات سننا، اور جماعتی اجلاسات اور دیگر پروگراموں میں شرکت۔ اس کے علاوہ جلسہ سالانہ اور ایم ٹی اے بھی صحبت صادقین کے اہم ذرائع ہیں۔

انبیاء صحبت صادقین کا سب سے اہم ذریعہ ہیں

صحبت صادقین کا سب سے اہم ذریعہ تو انبیاء کرام و مامور من اللہ کی صحبت ہے۔ اور اس کی سب سے اعلیٰ مثال تو آنحضرتﷺ کی زندگی تھی، کہ کیسے آپ کی صحبت میں رہ کر صحابہ آسمان روحانی کے درخشاں ستارے بن گئے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس تبدیلی کے بارے میں فرماتے ہیں:’’مجھے ہمیشہ خیال آتا ہے اور آنحضرتﷺ کی عظمت کا نقش دل پر ہوجاتا ہے اور کیسی بابرکت وہ قوم تھی اور آپؐ کی قوتِ قدسیہ کا کیسا قوی اثر تھا کہ اس قوم کو اس مقام تک پہنچا دیا۔ غور کر کے دیکھو کہ آپؐ نے ان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ ایک حالت اور وقت ان پر ایسا تھا کہ تمام محرمات ان کے لیے شیر مادر کی طرح تھیں۔ چوری، شراب خوری، زنا، فسق و فجور سب کچھ تھا۔غرض کونسا گناہ تھا جو اُن میں نہ تھا۔ لیکن آنحضرتﷺ کے فیضِ صحبت اور تربیت سے اُن پر وہ اثر ہوا۔ اور ان کی حالت میں وہ تبدیلی پیدا ہوئی کہ خود آنحضرتﷺ نے اس کی شہادت دی اور کہا ﷲ ﷲ فی اصحابی۔گویا بشریت کا چولہ اُتار کر مظہر اﷲ ہو گئے تھے اور ان کی حالت فرشتوں کی سی ہو گئی تھی جو یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(النحل:۵۱) کے مصداق ہیں۔ ٹھیک ایسی ہی حالت صحابہؓ  کی ہو گئی تھی۔ ان کے دلی ارادے اور نفسانی جذبات بالکل دور ہو گئے تھے۔ ان کا اپنا کچھ رہا ہی نہیں تھا۔نہ کوئی خواہش تھی نہ آرزو۔ بجز اس کے کہ اﷲ تعالیٰ راضی ہو۔اور اس کے لیے وہ خد اتعالیٰ کی راہ میں بکریوں کی طرح ذبح ہو گئے۔ قرآن شریف ان کی اس حالت کے متعلق فرماتا ہے۔ مِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَمَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا‘‘ (الاحزاب:۲۴) (ملفوظات جلد۸ صفحہ۲۹۶۔۲۹۷، ایڈیشن۱۹۸۴ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے عربی قصیدہ میں اس تبدیلی کو جوآنحضرتﷺ کی صحبت سے صحابہ میں پیدا ہوئی ایسے بیان کرتے ہیں:

وَ قَدِ اقْتَفَاکَ أُوْلُوا النُّہٰی وَ بِصِدْقِہِمْ

وَ دَعُوْا تَذَکُّرَ مَعْھَدِ الْأَوْطَانٖ

دانشوروں نے تجھے چن لیا اور تیری پیروی کی اور اپنے صدق کی وجہ سے. انھوں نے اپنے وطنوں کی یادگاروں کی یاد بھی ترک کر دی۔

قَدْ وَدَّعُوْا أھْوَاءَھُمْ وَ نُفُوْسَھُمْ

وَ تَبَرَّؤُوْا مِنْ کُلِّ نَشْبٍ فَانٖ

انہوں نے اپنی خواہشوں اور نفسوں کو الوداع کر دیا

اور ہر قسم کے فانی مال و منال سے بیزار ہو گئے۔

اَحْیَیْتَ اَمْوَاتَ الْقُرُوْنِ بِجَلْوَۃٍ

مَاذَا یُمَاثِلُکَ بِھٰذَا الشَّانٖ

تُو نے صدیوں کے مردے ایک جلوہ سے زندہ کر دئے۔ کون ہے جو اس شان میں تیرا نظیر ہو سکے۔

تَرَکُوا الْغُبُوْقَ وَ بَدَّلُوْا مِنْ ذَوْقِہٖ

ذَوْقَ الدُّعَاءِ بِلَیْلَۃِ الْأَحْزَانٖ

انہوں نے شام کی شراب چھوڑ دی اور اس کے ذوق کی جگہ غم کی راتوں میں دعا کی لذت اختیار کی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کاملِ نمونے کے بارے میں مزید فرماتے ہیں:’’ہاں یہ سچ ہے کہ انسان کسی مُزَکی النفس کی امداد کے بغیر اس سلوک کی منزل کو طَے نہیں کرسکتا۔ اسی لیے اس کے انتظام و انصرام کے لیے اللہ تعالیٰ نے کاملِ نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا اور پھر ہمیشہ کے لیے آپؐ کے سچے جانشینوں کا سلسلہ جاری فرمایا تاکہ ناعاقبت اندیش برہموئوں کا رَدّ ہو… یہ گمان ہر گز نہ کرو کہ عبادت خود ہی آجائے گی نہیں جب تک رسول نہ سکھلائے۔ انقطاع الی اللہ اور تبتلِ تام کی راہیں حاصل نہیں ہوسکتیں‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۴۸،ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اس زمانے میں مامور من اللہ ہیں۔

مبارک وہ جو اب ایمان لایا

صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا

وہی مے ان کو ساقی نے پلا دی

فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ

آپؑ اپنے بارے میں فرماتے ہیں :’’یاد رکھو، مَیں جو اصلاحِ خلق کے لیے آیا ہوں جو میرے پاس آتا ہے وہ اپنی استعداد کے موافق ایک فضل کا وارث بنتا ہے، لیکن مَیں صاف طور پر کہتا ہوں کہ وہ جو سرسری طور پر بیعت کر کے چلا جاتا ہے اور پھر اُس کا پتہ بھی نہیں ملتا کہ کہاں ہے اور کیا کرتا ہے۔اُس کے لیے کچھ نہیں ہے وہ جیسا تہی دست آیا تھا۔تہی دست جاتا ہے۔

یہ فضل اور برکت صحبت میں رہنے سے ملتی ہے۔ رسول اللہﷺ کے پاس صحابہؓ بیٹھے۔ آخر نتیجہ یہ ہوا۔ رسول اللہﷺنے فرمایاکہ اللّٰہُ اللّٰہُ فِیۡ اَصۡحَابِیۡ۔گویا صحابہؓ خدا کا رُوپ ہوگئے۔ یہ درجہ ممکن نہ تھا کہ اُن کو ملتا اگر دُور ہی بیٹھے رہتے۔ یہ بہت ضروری مسئلہ ہے۔ خدا کا قرب، بندگانِ خدا کا قرب ہے اور خدا تعالیٰ کا ارشاد کُونُوۡا مَعَ الصَّادِقِیۡنَ (التوبہ:۱۱۹) اس پر شاہد ہے۔ یہ ایک سِرّ ہے جس کو تھوڑے ہیں جو سمجھتے ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد۱صفحہ ۳۵۱، ایڈیشن۱۹۸۸ء)

پھر فرماتے ہیں:’’یہاں کا رہنا تو ایک قسم کا آستانۂ ایزدی پر رہنا ہے۔ اس حوض کوثر سے وہ آب حیات ملتا ہے کہ جس کے پینے سے حیات جاودانی نصیب ہوتی ہے جس پر ابدالآباد تک موت ہرگز نہیں آسکتی…اپنے گھروں ،وطنوں اور املاک کو چھوڑ کر میری ہمسائیگی کے لیے قادیان میں بودو باش کرنا ’اصحاب الصفہ‘ کا مصدا ق بننا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد۶ صفحہ۱۸۵،۱۸۶،ایڈیشن۱۹۸۴ء)

اپنے فارسی کلام میں آپؑ فرماتے ہیں:

مَرو بہ بے خردی نزدِ مابیا ونشیں

کہ ظل اہلِ صفا موجبِ شفا باشد

مقیم حلقۂ ابرار باش روزے چند

مگر عنایت قادر گرہ کشا باشد

(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵،صفحہ ۱۳۷)

بیوقوفی سے چلا نہ جا بلکہ ہمارے پاس آ کر بیٹھ

کہ اہل اللہ کا سایہ شفا کا موجب ہوا کرتا ہے

کچھ دن نیکوں کے حلقہ میں آکر بسر کر

شاید اس قادر کی مہربانی تیری گرہ کو کھول دے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام صحبت صادقین کی ضرورت بتاتے ہوئے مزید فرماتے ہیں :’’یہ کہنا کہ ہمارے لیے قرآن اور احادیث کافی ہیں اور صحبت صادقین کی ضرورت نہیں یہ خود مخالفت تعلیم قرآن ہے۔ کیونکہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے و کُوۡنُوۡا مَعَ الصَّادِقِیۡنَ (التوبہ:۱۱۹)اور صادق وہ ہیں جنھوں نے صدق کو علی وجہ البصیرت شناخت کیا اور پھر اس پر دل و جان سے قائم ہو گئے۔ اور یہ اعلیٰ درجہ بصیرت کا بجز اس کے ممکن نہیں کہ سماوی تائید شامل حال ہو کر اعلیٰ مرتبہ حق الیقین تک پہنچا دیوے۔ پس ان معنوں کرکے صادق حقیقی انبیاء اور رسل اور محدث اور اولیاء کاملین مکملین ہیں جن پر آسمانی روشنی پڑی اور جنہوں نے خدا تعالیٰ کو اسی جہان میں یقین کی آنکھوں سے دیکھ لیا اور آیت موصوفہ بالا بطور اشارت ظاہر کر رہی ہے کہ دنیا صادقوں کے وجود سے کبھی خالی نہیں ہوتی کیونکہ دوام حکم کُوۡنُوۡا مَعَ الصَّادِقِیۡنَ دوام وجود صادقین کو مستلزم ہے۔ (شہادۃالقرآن، روحانی خزائن جلد۶، صفحہ۳۴۷)

’’اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی مُردوں کے پاس جانے کی ہدایت نہیں فرمائی۔ بلکہ کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ (التوبہ:۱۱۹) کا حکم دے کر زندوں کی صُحبت میں رہنے کا حکم دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے دوستوں کو بار بار یہاں آنے اور رہنے کی تاکید کرتے ہیں۔ اور ہم جو کسی دوست کو یہاں رہنے کے واسطے کہتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ محض اس کی حالت پر رحم کرکے ہمدردی اور خیر خواہی سے کہتے ہیں۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایمان درست نہیں ہوتا جبتک انسان صاحب ایمان کی صحبت میں نہ رہے اور یہ اس لیے کہ چونکہ طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں۔ ایک ہی وقت میں ہر قسم کی طبیعت کے موافقِ حال تقریر ناصح کے منہ سے نہیں نکلا کرتی۔ کوئی وقت ایسا آجاتا ہے کہ اس کی سمجھ اور فہم کے مطابق اُس کے مذاق پر گفتگو ہوجاتی ہے۔ جس سے اُس کو فائدہ پہنچ جاتا ہے اور اگر آدمی بار بار نہ آئے اور زیادہ دنوں تک نہ رہے، تو ممکن ہے کہ ایک وقت ایسی تقریر ہو جو اُس کے مذاق کے موافق نہیں ہے۔ اور اُس سے اُس میں بددلی پیدا ہو اور وہ حسنِ ظن کی راہ سے دور جا پڑے اور ہلاک ہوجاوے۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۳۹،ایڈیشن۱۹۸۸ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس آیت یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ۔(التوبہ:۱۱۹) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:عالم ربانی کے لیے ضروری ہے کہ تقویٰ سے کام لے اور تقویٰ کی حقیقت اس وقت تک کھل نہیں سکتی جب تک خدا تعالیٰ کے صادق اور مامور بندوں کی صحبت میں نہ رہے۔ (حقائق الفرقان جلد ۲، صفحہ ۳۱۳)

صادق ہر زمانے موجود رہتے ہیں

سو ان سب اقتباسات سے پتا لگا کہ انبیاء کا زمانہ بہت بابرکت ہوتا ہے اور ان کی صحبت میں انسان بہت جلد ترقی کر سکتا ہے۔اس وجہ سے ہی ابتدائی ایمان لانے والوں میں سابقون کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جیسا کہ آیت ثُلَّۃٌ مِّنَ الۡاَوَّلِیۡنَ (الواقعہ:۱۴) سے پتا لگتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ رحمان و رحیم ہے۔ اس قادر ذات نے بعد میں آنے والوں کو محروم نہیں رکھا۔ اس کے فضل اور رحم سے ہر زمانے میں ایسے صادق موجود رہتے ہیں جن کی صحبت میں رہ کر انسان جلد ترقی کر سکتا ہے اور اللہ تعالٰی کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’صحبت میں بڑا شرف ہے۔ اس کی تاثیر کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچا ہی دیتی ہے۔ کسی کے پاس اگر خوشبو ہو تو پاس والے کو بھی پہنچ ہی جاتی ہے۔ اسی طرح پرصادقوں کی صحبت ایک روح صدق کی نفخ کر دیتی ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ گہری صحبت نبی اور صاحب نبی کو ایک کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے جو قرآن شریف میں کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (التوبۃ: ۱۱۹) فرمایا ہے۔ اور اسلام کی خوبیوں میں سے یہ ایک بے نظیر خوبی ہے کہ ہر زمانہ میں ایسے صادق موجود رہتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ۶۰۹،ایڈیشن۱۹۸۸ء)

جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر زمانے میں ایسے صادق موجود رہتے ہیں، اس زمانے میں صادقین کی سب سے اعلی مثال خلیفہ وقت کا وجود ہے کیونکہ خلیفہ خدا خود بناتا ہے اور وہ اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ سو ہم خلیفہ وقت کی صحبت میں رہ کر تقوی و طہارت و قرب الٰہی میں ترقی کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’مسلمہ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے مقرب کے پاس رہنا گویا ایک طرح سے خود خدا تعالیٰ کے پاس رہنا ہوتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد۵ صفحہ۳۱۶،ایڈیشن ۲۰۱۶ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’ہماری جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ جماعت کا جو خلیفہ ہو وہ اپنے زمانہ میں جماعت کے تمام لوگوں سے افضل ہوتاہے۔ اور چونکہ ہماری جماعت ہمارے عقیدہ کے رُو سے باقی تمام جماعتوں سے افضل ہے اس لیے ساری دنیا میں سے افضل جماعت میں سے ایک شخص جب سب سے افضل ہو گا تو موجودہ لوگوں کے لحاظ سے یقیناًاُسے ’بعد از خدا بزرگ توئی‘کہہ سکتے ہیں۔‘‘(الفضل۲۷اگست۱۹۳۷ء صفحہ۶)

خلافت اور صحبت صادقین

اس زمانے میں آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق خلافت علیٰ منہاج نبوت کا سلسلہ جاری ہے سو یہ صحبت صادقین ایک اہم ذریعہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظِلیّ طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہو کیونکہ خلیفہ در حقیقت رسول کا ظِلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لیے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دُنیا کے وجودوں سے اشرف واَولیٰ ہیں ظِلیّ طور پر ہمیشہ کے لیے تا قیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دُنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔‘‘(شہادۃالقرآن،روحانی خزائن جلد۶صفحہ۳۵۳)

یہ جو اوپر اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دُنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے‘‘، اس کا ایک تعلق اس سے پہلے والے ایک اقتباس سےبھی معلوم ہوتا ہے جس میں آپؑ نے فرمایا کہ ’’اسلام کی خوبیوں میں سے یہ ایک بےنظیر خوبی ہے کہ ہر زمانہ میں ایسے صادق موجود رہتے ہیں‘‘۔(ملفوظات جلد۸صفحہ۳۱۵۔ایڈیشن۱۹۸۴ء)اس سے بھی ثابت ہوا کہ اس زمانہ میں خلیفہ وقت ہی صحبت صادقین کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں خلافت قدرت ثانیہ جیسی نعمت کی خوشخبری دی ہے اور امامِ وقت کی مکمل اطاعت کی نصیحت فرمائی ہے۔ آپؑ ایک جگہ خلیفہ کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’خلیفہ کے معنی جانشین کے ہیں… نبیوں کے زمانہ کے بعد جو تاریکی پھیل جاتی ہے اس کو دور کرنے کے واسطے جو ان کی جگہ آتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد ۴صفحہ۳۸۳۔ایڈیشن۱۹۸۴ء)

نبوت کے ہاتھوں جو پَودا لگا ہے

خلافت کے سائے میں پھولا پَھلا ہے

یہ کرتی ہے اس باغ کی آبیاری

رہے گا خلافت کا فیضان جاری

یہ ہم سب احمدیوں کا ذاتی تجربہ ہے کہ خلیفہ وقت سے تعلق سے ہی ہمارے ہر کام میں برکت ہوتی ہے۔ خلیفہ وقت کی دعائیں ہمارے حق میں قبول ہوتی ہیں، ہماری کمزوریاں دور ہوتی ہیں اور ہمارے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’دو چیزیں ہیں ایک تو دعا کرنی چاہئے۔ دوسرا طریق یہ ہے کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ (التوبہ: ۱۱۹) راستبازوں کی صحبت میں رہ کر کےتم کو پتہ لگ جاوے کہ تمہاراخدا قادر ہے۔ بینا ہے۔ سننے والا ہے۔ دعائیں قبول کرتا ہے اور اپنی رحمت سے بندوں کو صدہا نعمتیں دیتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد۶ صفحہ۶۲،ایڈیشن۱۹۸۴ء)فرمایا:صادقوں کی صحبت میں ایک خاص اثر ہوتا ہے۔ ان کا نور صدق و استقلال دُوسروں پر اثر ڈالتا ہے اور اُن کی کمزوریوں کو دُور کرنے میں مدد دیتا ہے۔(ملفوظات جلد ۷، صفحہ۲۶۹، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:’’انبیاء اورخلفاء اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول میں لوگوں کے ممد ہوتے ہیں۔ جیسے کمزور آدمی پہاڑ کی چڑھائی پرنہیں چڑ ھ سکتا تو سونٹے یا کھڈ سٹک کا سہارا لیکر چڑھ جاتاہے۔اسی طرح انبیاء اورخلفاء لوگوں کے لیے سہارے ہیں۔ وہ دیواریں نہیں جنہوں نے الٰہی قرب کے راستوں کو روک رکھا ہو بلکہ وہ سونٹے اور سہارے ہیں جن کی مدد سے کمزور آ دمی بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرلیتا ہے‘‘۔(الفضل ۱۱؍ستمبر۱۹۳۷ء)

خلفائےکرام کے پاک وجود سے تعلق پیدا کرنے سے انسان میں ایک پاک تبدیلی اندر ہی اندر شروع ہوجاتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس ضمن میں فرماتے ہیں: ’’جو شخص خلافت کے لیے منتخب ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر دوسرا اس منصب کے سزاوار اس وقت ہرگز نہیں ہوتا۔ کیسی آسان بات تھی کہ خدا تعالیٰ جس کو چاہے مصلح مقرر کردے۔ پھر جن لوگوں نے خدا کے ان مامور کردہ منتخب بندوں سے تعلق پیدا کیا۔انہوں نے دیکھ لیا کہ ان کی پاک صحبت میں ایک پاک تبدیلی اندر ہی اندر شروع ہوجاتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط اور مستحکم کرنے کی آرزو پیدا ہونے لگتی ہے۔ ‘‘(حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ ۲۲۶)

اس زمانے میں خلیفہ وقت سے ملاقات صحبت صادقین کاایک بہترین ذریعہ ہے۔ گو کہ سب احباب جماعت کے لیے بالمشافہ ملاقات ممكن نہیں ہے،آن لائن ملاقات بھی صحبت صادقین کا ایک ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خلیفہ وقت کے خطبات جمعہ اور جلسہ کی تقاریر کو سننا اور سب سے بڑھ کر کہ ان پر عمل کرنا یہ سب صحبت صادقین کے ذرائع ہیں۔ ان خطبات اور تقاریرکو براہ راست سننے سے ایک خاص تعلق پیدا ہوتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے تعلق کو ایک جگہ یوں بیان کیا ہے:’’اسی لیے صحبت صالح کا حکم ہے اس میں یہی حکمت ہے خدا کے برگزیدہ بندوں کی بات تو تحریر کے ذریعہ یا دوسروں کی زبانی بھی معلوم ہوسکتی ہے۔پھر کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ (التوبہ: ۱۱۹) میں صادقوں کی صحبت میں رہنے کا کیوں اشارہ کیا گیا ہے۔ پھر رسول کریم ؐ کے پاس رہ کر تعلیم حاصل کرنے یا مسیح موعود کا اپنی صحبت میں رہنے کی تاکید کرنے کا کیا مطلب ہے؟ درحقیقت بات یہ ہے کہ صرف الفاظ اس قدر اثر نہیں رکھتے جس قدر وہ رَو رکھتی ہے جو قلب سے نکلتی ہے اور چونکہ ہر قلب ایسا نہیں ہوتا جو اسے دور سے محسوس کرسکے اس لیے قریب ہونے کی وجہ سے چونکہ رَو کی شدت بڑھ جاتی ہے اور جلدی اثر ہوجاتا ہے اس لیے قرب کا حکم دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو بتا یا گیا کہ جو تیرے زمانہ کے لوگ ہوں گے وہ اچھے ہوں گے اور جو ان سے بعد کے ہوں گے وہ ان سے کم درجہ کے ہوں گے اور جو ان سے بعد کے ہوں گے وہ ان سے کم درجہ کے ہوں گے۔ اسی طرح رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے۔ (بخاری کتاب المناقب باب فضائل اصحاب النبیﷺ) اب سوال ہوتا ہے کہ ان سب کی اصلاح تو قرآن کریم اور احادیث کے ذریعہ ہوئی اور اسی طرح سے وہ پاک و صاف ہوئے پھر وجہ کیا ہے کہ رسول کریمﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کے لوگ اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں اور ان کے بعد کے ان سے کم اور ان کے بعد کے ان سے بھی کم۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ پہلوں پر جس قدر رسول کریمﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کے وجود پاک سے نکلی ہوئی لہر کا اثر ہوا وہ بُعدِ زمانی کی وجہ سے بعد والوں پر کم ہوتا گیا۔ دیکھو پانی میں جب پتھر پھینکا جائے تو قریب قریب کی لہریں بہت نمایاں اور واضح ہوتی ہیں اور جوں جوں لہریں پھیلتی جاتی ہیں مدھم ہوتی جاتی ہیں یہی حالت روحانی لہروں کی ہوتی ہے ان پر جوں جوں زمانہ گزرتا جاتا ہے اور وہ پھیلتی جاتی ہیں تو گو مٹتی نہیں مگر ایسی کمزور اور مدھم ہوتی ہیں کہ ہر ایک دل انہیں محسوس نہیں کرتا اور جو محسوس کرتا ہے وہ بھی پورے طور پر محسوس نہیں کرسکتا۔ اس لیے جن لوگوں کو روحانیت کی لہر پیدا کرنے والے وجود کا قربِ مکانی یا قربِ زمانی حاصل ہوتا ہے وہ اس لہر سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور بعد میں آنے والوں سے بہت بڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔

قربِ مکانی اور زمانی کے اثر کا عام اور ظاہری ثبوت اس سے مل سکتا ہے کہ آپ لوگوں نے کئی دفعہ تجربہ کیا ہوگا اگر کسی کو کوئی کام کرنے کے لیے خط لکھا جائے تو وہ انکار کردیتا ہے اگر خود اس کے پاس جاکر کہا جائے تو کام کردیتا ہے۔ ہر ایک کہنے والا نہیں جانتا کہ اس کی کیا وجہ ہے اور کہا جاتا ہے کہ منہ دیکھے کا لحاظ کیا گیا ہے لیکن دراصل وہ رَوکا اثر ہوتا ہے جو قرب کی وجہ سے زیادہ پڑتا ہے اور اس طرح جس کو کچھ کہا جائے وہ مان لیتا ہے۔ اسی طرح وہی تقریر جو ایک جگہ مقرر کے منہ سے سنی جائے جب چھپی ہوئی پڑھی جائے تو اس کا وہ اثر نہیں ہوتا جو سننے کے وقت ہوتا ہے۔ اس وقت بڑا مزا اور لطف آتا ہے لیکن چھپی ہوئی پڑھنے سے ایسا مزا نہیں آتا۔ جس پر کہہ دیا جاتا ہے کہ لکھنے والے نے اچھی طرح نہیں لکھی لیکن بات یہ ہوتی ہے کہ لکھنے والا تو صرف الفاظ ہی لکھتا ہے۔ وہ لہریں جو تقریر کرنے والے سے نکل رہی ہوتی ہیں ان کو محفوظ نہیں کرسکتا۔ اس لیے صرف الفاظ کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا لہروں کے ساتھ ملنے سے ہوتا ہے جو قرب کی وجہ سے سننے والے تک پورے طور پر پہنچ رہی ہوتی ہیں۔ اس لیے تقریر سننے سے زیادہ اثر ہوتا ہے اور پڑھنے کے وقت ایک تو بُعد ہوتا ہے اور دوسرے صرف لفظ ہوتے ہیں اس لیے وہ لطف نہیں آتا نہ اتنا اثر ہوتا ہے۔‘‘(اصلاح اعمال کی تلقین، انوار العلوم جلد۴صفحہ۲۳۳-۲۳۵)

الله تعالیٰ ہم پر خلافت کا سایہ ہمیشہ قائم رکھے اور ہم ہمیشہ اس کے ذریعے صحبت صادقین کے فیض سے مستفید ہوتے رہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button