خلاصہ خطبہ جمعہ

سریہ حضرت ابو سلمہؓ، سریہ حضرت عبداللہ بن انیسؓ اور سریہ رجیع کی روشنی میں آنحضورﷺکی سیرت کا ایمان افروز تذکرہ نیز اسیران راہ مولیٰ اور فلسطین کے مظلومین کے لیے دعا کی تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۰؍مئی ۲۰۲۴ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭…سرایاميں آپؐ کي سيرت کے بعض پہلوؤں،آپؐ کي حکمت، مسلمانوں کے دفاع کا طريقہ کار اور دشمن کےليے ہمدردي کا اظہاراور آپؐ کے اُسوہ پرروشني پڑتي ہے

٭…آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے اپنے ہاتھ کا عصا عبداللہؓ  کو بطور انعام کے عطا فرمايا اور فرمايا يہ عصا تمہيں جنت ميں ٹيک لگانے کا کام دے گا

٭… آپؐ کي انساني جان کي قدر کا تو يہ حال ہے کہ دشمن قبيلے کے لوگوں کي جان بچانے کےليے يہ ايک ترکيب نکالي کہ ايک جان کو قتل کرنا بہتر ہے تاکہ اُن کے باقي لوگ بچ جائيں۔ يہ انساني ہمدردي کي معراج ہے

٭… آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم تو باقاعدہ جنگوں ميں بھي يہ حکم فرماتے تھےکہ کسی بچے بوڑھے عورت اور مذہبی شخص کو جو براہ راست جنگ میں ملوث نہیں ہے قتل نہیں کرنا

٭… یمن اور پاکستان کے اسیرانِ راہ مولیٰ نیز فلسطین کے مظلومین کے لیے دعا کی تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۰؍مئی ۲۰۲۴ء بمطابق۱۰؍ہجرت ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۰؍مئی ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانافیروزعالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعض سر ایا کا ذکر کروں گا۔ اس ضمن میں پہلے

قبیلہ بنو اسد کی شرارت اور سریہ ابو سلمہؓ  کا ذکر ہوگا۔

سریہ اس کو کہتے ہیں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شریک نہیں ہوتے تھے لیکن آپؐ دوسروں کو مہم کےلیے بھیجا کرتے تھے۔

اِن میں بھی آپؐ کی سیرت کے بعض پہلوؤں،آپؐ کی حکمت، مسلمانوں کے دفاع کا طریقہ کار اور دشمن کےلیے ہمدردی کا اظہاراور آپؐ کے اُسوہ پرروشنی پڑتی ہے۔

یہ سریہ محرم ۴؍ ہجری میں آپؐ کے پھوپھی زاد بھائی اور حضرت حمزہؓ کے رضاعی بھائی حضرت ابو  سلمہ بن عبدالاسدمخزومی ؓکی قیادت میں ہوا۔حضرت ابو سلمہ ؓغزوہ بدر اور اُحد میں شامل ہوئے۔ غزوہ اُحد میں یہ زخمی ہوئے اور ایک ماہ کے علاج کے بعد وہ زخم ایسا مندمل ہو گیا کہ اسے کوئی پہچانتا نہ تھا۔ اس سریہ کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ مدینے میں رہنے والے منافقین اور یہود جنگ اُحد کے حالات و واقعات کی وجہ سے خوشیاں منانے لگے اور ایک بار پھر ان کے اور مدینے کے اِرد گِرد رہنے والے قبائل کے دلوںمیں بھی یہ خیالات آنے لگے کہ مسلمانوں کو جلد ختم کرنے کے لیےپلاننگ کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ سب سے پہلےقبیلہ بنو اسد بن خزیمہ نے مسلمانوں پر حملے کا پروگرام بنایا۔اس قبیلےکے رئیس طلیحہ بن خویلداور اس کے بھائی سلمہ بن خویلد نے لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک لشکر تیار کر لیا۔ بنو اسد کے ایک آدمی قیس بن حارث بن عمیر نے اپنی قوم کو مسلمانوں پر حملہ نہ کرنے کی نصیحت کی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس حملے کی اطلاع پہنچی تو آپؐ نے فیصلہ کیا کہ اُن کے حملے سے پہلےہی خود مسلمان اپنے تحفظ کے لیےاُن کے علاقے پر چڑھائی کریں۔

چنانچہ آپؐ نے ۱۵۰؍ صحابہ کرامؓ پر مشتمل لشکر ابو سلمہؓ  کی قیادت میں ان قبائل کی سرکوبی کے لیے روانہ کردیا۔یہ لشکر اپنی مہم کو خفیہ رکھتے ہوئے چار دن کے سفر کے بعد قطن پہاڑ کے قریب پہنچ گیاجہاں بنو اسد بن خزیمہ کا چشمہ تھا۔ مسلمانوں نے وہاں پہنچتے ہی حملہ کر کے ان کے مویشیوں پر قبضہ کر لیا اور ان کے چرواہوں میں سے تین کو پکڑ لیا اور باقی بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان بھاگنے والوں نے بنو اسد کے پڑاؤ میں پہنچ کر مسلمانوں کے حملے کی خبر دیتے ہوئے بہت مبالغہ سے کام لیا اور مسلمانوں کے لشکر کی تعداد بہت بڑھا چڑھا کربیان کی جس سےبنو اسد خوفزدہ ہوگئے اور مسلمانوں کی ہیبت کی وجہ سے اِدھر اُدھر بھاگ گئے۔حضرت ابوسلمہؓ نے اُن کی تلاش میں اپنے ساتھیوں کو بھیجا لیکن مسلمانوں کا کسی سے بھی سامنا نہ ہوا۔ حضرت ابو سلمہؓ نے تمام مال غنیمت کے ساتھ مدینہ کی طرف واپسی کا سفر شروع کیا۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے خمس علیحدہ کیااور بقیہ مال غنیمت صحابہ کرامؓ میں تقسیم کر دیا۔

حضرت ابو سلمہؓ  کی وفات کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ جب مدینہ واپس آئے تو غزوہ اُحد میں اُن کولگنے والا زخم دوبارہ تازہ ہو گیا جس سے وہ بیمار پڑ گئے اور اسی سال ۳؍جمادی الآخر کو انتقال کر گئے۔

بنو اسد کے رئیس طلیحہ بن خویلد جس کا ذکر ہوا ہے بعد میں مسلمان ہوگیا لیکن پھر مرتد ہوگیا بلکہ نبوت کا جھوٹامدعی بن کر فتنہ و فساد کا موجب بنا مگر شکست کھاکر عرب بھاگ گیااور پھر کچھ عرصہ بعد تائب ہوکر اسلامی جنگوں میں حصہ لے کر اپنی بہادری کے جوہر دکھائے اور۲۱؍ ہجری میں ایک جنگ میں شہادت کا مقام پایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا انجام بخیر کرنا تھا تو اس کو توفیق ملی اور اسلام قبول کر لیا۔

پھر سریہ حضرت عبداللہ بن انیسؓ  کا ذکر ہے۔

حضرت عبداللہ بن انیس بیعت عقبہ ثانیہ، بدر،اُحد اور دیگر غزوات میں شامل ہوئے۔ انہوں نے شام میں ۵۴؍ ہجری یا بعض روایات کے مطابق ۷۴؍ ہجری میں وفات پائی۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے محرم ۴؍ ہجری میں اس مہم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہےکہ قریش کی اشتعال انگیزی اور اُحد میں مسلمانوں کی وقتی ہزیمت اب نہایت سرعت کے ساتھ اپنے خطرناک نتائج ظاہر کر رہی تھی۔ چنانچہ انہی ایام میں جن میں بنو اسد نے مدینہ پر چھاپہ مارنے کی تیاری کی تھی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ قبیلہ بنولحیان کے لوگ اپنے سردار سفیان بن خالد کی انگیخت پر اپنے وطن عُرنہ میں جو مکہ سے قریب ایک مقام تھا ایک بہت بڑا لشکر جمع کر رہے ہیں اور ان کا ارادہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نہایت موقع شناس اور مختلف قبائل عرب کی حالت اور اُن کے رؤسا کی طاقت و اثر سے خوب واقف تھے اس خبر کے موصول ہوتے ہی سمجھ لیا کہ یہ ساری شرارت اورفتنہ انگیزی بنولحیان کے رئیس سفیان بن خالدکی ہے اور اگر اس کا وجود درمیان میں نہ رہے تو بنولحیان مدینہ پر حملہ آور ہونے کی جرأت نہیں کر سکتے۔

آپؐ یہ بھی جانتے تھے کہ سفیان کے بغیر اس قبیلے میں فی الحال کوئی ایسا صاحب اثرشخص نہیں ہے جو اس قسم کی تحریک کا لیڈر بن سکے۔ لہٰذا یہ خیال کرتے ہوئے کہ اگر بنولحیان کے خلاف کوئی فوجی دستہ روانہ کیا گیا تو غریب مسلمانوں کے واسطے موجب تکلیف ہونے کے علاوہ ممکن ہے کہ یہ طریق ملک میں زیادہ کشت و خون کا دروازہ کھول دے۔ آپؐ نے یہ تجویز فرمائی کہ کوئی ایک شخص چلا جائے اور موقع پا کر اس فتنے کے بانی مبانی اور اس شرارت کی جڑ سفیان بن خالد کو قتل کر دے۔چنانچہ آپؐ نے اس غرض سے عبداللہ بن انیس انصاریؓ  کو روانہ فرمایا۔چونکہ عبداللہ نے کبھی سفیان کو دیکھا نہیں تھا اس لیےآپؐ نے خوداُن کو سفیان کا ساراحلیہ وغیرہ سمجھا دیا اور آخر میں فرمایا کہ ہوشیار رہنا۔ سفیان ایک مجسم شیطان ہے۔چنانچہ عبداللہ بن انیسؓ نہایت ہوشیاری کے ساتھ بنولحیان کے کیمپ میں پہنچے جو واقعی مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری میں بڑی سرگرمی سے مصروف تھے اور رات کے وقت موقع پا کر سفیان کا خاتمہ کر دیا۔ بنولحیان کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے عبداللہ کا تعاقب کیا مگر وہ چھپتے چھپاتے ہوئے بچ کر نکل آئے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےسامنے جب عبداللہ بن انیسؓ  آئے تو آپؐ نےاُن کی شکل دیکھتے ہی پہچان لیا کہ وہ کامیاب ہو کرآئے ہیں۔

چنانچہ آپؐ نے اُنہیں دیکھتے ہی فرمایا :اَفْلَحَ الْوَجْہُ چہرہ تو بامرادنظرآتاہے۔ عبداللہؓ نے عرض کیا اور کیا خوب عرض کیا: اَفْلَحَ وَجْھُکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ۔ یارسول اللہؐ سب کامیابی آپؐ کی ہے۔

اُس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کا عصا عبداللہؓ  کو بطور انعام کے عطا فرمایا اور فرمایا یہ عصا تمہیں جنت میں ٹیک لگانے کا کام دے گا۔عبداللہؓ نے یہ مبارک عصا نہایت محبت و اخلاص کے ساتھ اپنے پاس رکھا اور مرتے ہوئے وصیت کی کہ اسے ان کے ساتھ دفن کر دیا جائےچنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خوشی سے جس کا اظہار آپؐ نے عبداللہ ؓکی با مُراد واپسی پر فرمایا اور اس انعام سے جو انہیں غیر معمولی طور پر عطا فرمایا یہ پتالگتا ہے کہ ا ٓپؐ سفیان بن خالد کی فتنہ انگیزی کو نہایت خطرناک خیال فرماتے تھے اور اُس کے قتل کو امن عامہ کےلیے ایک موجب رحمت سمجھتے تھے۔

آپؐ پر دشمن الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپؐ نے امن برباد کیااور انسانی جانوں کا خون کروایا۔

آپؐ کی انسانی جان کی قدر کا تو یہ حال ہے کہ دشمن قبیلے کے لوگوں کی جان بچانے کےلیے یہ ایک ترکیب نکالی کہ ایک جان کو قتل کرنا بہتر ہے تاکہ اُن کے باقی لوگ بچ جائیں۔ یہ انسانی ہمدردی کی معراج ہے۔

آج کل کی نام نہاد دنیا چند لوگوں کو قتل کرنے کے بہانے معصوم بچوں،عورتوں اور بوڑھوں کا خون کر رہے ہیں اوربڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ یہ تو جنگ میں ہوتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو باقاعدہ جنگوں میں بھی یہ حکم فرماتے تھےکہ کسی بچے بوڑھے عورت اور مذہبی شخص کو جو براہ راست جنگ میں ملوث نہیں ہے قتل نہیں کرنا۔ پس یہ ہے اُسوہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی تعلیم۔

اس کے بعد حضور انور نے

سریہ رجیع

کا ذکر کرتے ہوئےفرمایا کہ اس کی تفصیل لمبی ہےاس لیے آج کچھ حصہ پیش کروں گا ۔اس سریہ کو اس کے امیر مرثد بن ابی مرثدؓ کی وجہ سے سریہ مرثد بن ابی مرثد بھی کہا جاتا ہے لیکن زیادہ معروف رجیع کا نام ہی ہے۔

یہ سریہ صفر۴؍ ہجری کے شروع میں رجیع کی جانب پیش آیا۔ ہمارے ریسرچ سیل نے سریہ رجیع کے ضمن میں ایک نوٹ دیا ہے اور جو اس حوالے سے توجہ طلب ہے کہ بعض تاریخوں کا اس میں فرق پڑتا ہے۔ اکثر سیرت نگار سریہ رجیع کی تاریخ صفر۴؍ ہجری لکھتے ہیں اور اس کی تفصیل اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ حضرت خبیبؓ اور حضرت زیدؓ  کو مکے میں فروخت کر دیا گیا لیکن حرمت والے مہینے شروع ہونے کی وجہ سے مکہ والوں نے انہیں قید میں رکھا اور جب حرمت والے مہینے ختم ہو گئے تو ان دونوں کو قتل کر دیا۔ اگر یہ سر یہ صفر۴؍ ہجری کا تسلیم کیا جائے تو پھر یہ کہنا کہ حرمت والے مہینے شروع ہو چکے تھے یہ خلاف عقل ہے۔اس لیے زیادہ درست معلوم یہی ہوتا ہے کہ یہ سریہ۳؍ ہجری شوال کے آخری دنوں میں ہوا۔چونکہ صفر۴؍ ہجری میں حضرت خبیبؓ اورحضرت زیدؓ  کو شہید کیا گیا تھا اور جب ان کی شہادت کی خبر مدینہ پہنچی تو روایات میں یہ تاریخ آہستہ آہستہ زیادہ غالب آگئی۔ بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے۔

اس سریہ کے بارے میں لکھا ہے کہ بنو لحیان کے سردار سفیان بن خالدکےقتل کی وجہ سےیہ قبیلہ انتقام کی ا ٓگ میں بھڑک رہا تھااور مسلمانوں سے بدلے کے طریق کا سوچ رہاتھا۔چنانچہ ایک منصوبہ بندی کے ساتھ قبیلہ عضل اورقارۃ کے چند لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے کہ ہمارے قبیلے میں اسلام کی بڑی شہرت ہے لہٰذا آپؐ اپنے کچھ لوگ ہمارے ساتھ روانہ کر دیں جو کہ وہاں دعوت اسلام کا کام کریں۔ ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ۷؍آدمی بھیجے تھے۔ ابن ہشام نے لکھا ہے کہ ا ٓپؐ نے ۶؍ صحابہ جبکہ ابن سعد نے بیان کیا ہے کہ وہ۱۰؍ تھے۔صحیح بخاری میں بھی ۱۰؍افراد کا ذکر ہے۔ سیرت کی اکثر کتب میں بھی۱۰؍ صحابہ کا ذکر ہے البتہ نام صرف ۷؍صحابہ کے ملتے ہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عاصم بن ثابتؓ  کو اور بعض نے کہا کہ مرثد بن ابی مرثدؓ کو امیر بنایا۔ پھرآگے جو واقعات ہیں انشاءاللہ آئندہ بیان کروں گا۔

خطبہ جمعہ کے آخر پرحضور انور نےیمن اور پاکستان کے سیران ِراہ مولیٰ نیز فلسطین کے مظلومین کے لیے دعا کی تحریک فرمائی

تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ ہو:

https://www.alfazl.com/2024/05/10/96713/

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button