متفرق مضامین

یاتون من کل فج عمیق:اچاریہ ونوبا بھاوے (Vinoba Bhave) کا دورہ قادیان۔ جب ایک ہندو قومی لیڈر نے قرآن کریم کا تحفہ قبول کیا

(اواب سعد حیات)

قادیان دارالامان کی زیارت کا شرف پانے والے اس معزز مہمان کو اس کی متفرق قومی اور ملی خدمات کی بنیاد پر ’’نوبیل انعام‘‘ کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق۱۹۶۱ء سے ۱۹۷۱ء تک ہر سال امن کے شعبہ میں نوبیل انعام کےلیے نامزد کیا جاتا رہا تھا۔

۱۸۹۵ء کے لگ بھگ پیدا ہونے والے ونوبا بھاوے نے برٹش راج کے دوران موہن چند کرم داس گاندھی کے دست راست بن کر متعدد قومی تحریکوں میں خاطر خواہ حصہ لیا اور تقسیم ہند کے بعد بھی ان کی ملک و قوم کے لیے خدمات کا سلسلہ جاری رہا، ان کی عوامی تحریکوں کا مقصد غریبوں اور پسماندہ افراد کے لیے بہتر معیار زندگی کو یقینی بنانا تھااور اجتماعیت کے فروغ پر ان کا زور رہا۔

یہ موصوف ایک طویل اور مصروف عمر گزار کر۱۹۸۲ء میں فوت ہوئےاور۱۹۸۳ء میں انہیں بعد از مرگ ہندوستان کے اعلیٰ ترین سول(civil) ایوارڈ’’بھارت رتن‘‘ سے نوازا گیا نیز بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی بھی اپنے ٹویئٹر /ایکس پر اس مشہور سماجی کارکن کے یوم وفات پران کی عظمت کا اعلان کرچکے ہیں۔ اسی طرح ان کو ۱۹۵۸ء میں فلپائنی صدر ’’رامن میگ سیسے‘‘ کی یاد میں قائم ہونے والے مؤقر انعام سےبھی نوازا گیا تھا۔

اچاریہ ونوبا بھاوے کی زندگی میں خدمات اور تصنیفات کے متعلق بنائی گئی ویب سائٹ پر ان کی فلسفہ، شہریوں کے حقوق کی حفاظت اورعوام الناس کے وسیع تر بھلائی کے حوالہ سے تحریر کردہ کتب کی تعداد کئی درجن ہے۔

جیسا کہ ذکر ہوچکا کہ برٹش راج کے چلے جانے کے بعد بھی اچاریہ ونوبا نے عوامی بہبود کی تحریکات جاری رکھیں، مثلاً ان کی بھومی دان تحریک  نے بطور خاص توجہ سمیٹی، جس میں وہ ملک کے صاحب جائیداد لوگوں سے زمین کی شکل میں دان کرنے کا پرچار کرتے تھے، تا کہ بڑے زمینداروں اور جاگیر داروں سے زمین کا ٹکڑا لےکر چھوٹے کاشتکاروں اور مزدوروں کی مدد کی جاسکے۔ ایسی ہی عوامی خدمات کے لیے انہوں نے برس ہا برس خود کو مصروف رکھا اور ملک کے کونے کونے کا دورہ کیا۔ یوں لاکھوں غریب کسانوں کے لیےلاکھوں ایکڑ زمین حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

ایسےمیں۱۹۵۹ء میں اپنی تحریک بھومی دان سے روشناس کرانے کے لیے ونوبا بھاوے نے پنجاب اور کشمیر کے طویل سفر کیے ۔ یکم اپریل۱۹۵۹ء میں آپ پنجاب میں داخل ہوئے اور مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے کشمیر روانہ ہونے کے لیے ماہ مئی کے آخر میں پٹھانکوٹ پہنچے جہاں جماعت احمد یہ قادیان کے ایک وفد نے ناظر دعوت و تبلیغ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی قیادت میں ان سے مفصل ملاقات کر کے انہیں دعوت حق دی، اس وفد میں صاحبزادہ صاحب کے ساتھ مولوی برکات احمد صاحب راجیکی بی اے، ناظر امورعامہ قادیان، شیخ عبدالحمید صاحب عاجز بی اے ناظر بیت المال قادیان، ملک صلاح الدین صاحب ایم اے، یونس احمد صاحب بریلوی، چودھری عبدالقدیر صاحب معاون ناظر دعوت و تبلیغ قادیان، مولوی محمد حفیظ صاحب بقاپوری ایڈیٹر بدر قادیان، فضل الٰہی خان صاحب کارکن دفتر نظارت امور عامہ قادیان شامل تھے۔

اس وفد نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ اور دیگر اسلامی لٹریچر کا تحفہ پیش کیا جو انہوں نے کمال مسرت و احترام سے قبول کیا اور اس کے بعد قریباً دس ہزار کے مجمع میں جس میں پنجاب حکومت کے کئی وزیر اور ایم ایل اے بھی موجود تھے اس ملاقات اور تحفہ کا انہوں نے خاص طور پر ذکر کیا اور بتایا کہ ’’مجھے آج بہت خوشی ہوئی ہے۔ قادیان سے میرے پاس مسلمان بھائی آئے انہوں نے قرآن شریف کی کاپی بھینٹ (نذر) کی۔ میں نے ان سے کہا آپ نے مجھے سب سے قیمتی چیز پیش کی ہے اس سے بڑھ کر اور کوئی چیز پیاری نہیں ۔ آپ نے اپنی سب سے پیاری چیز آج مجھے دی ہے ۔‘‘

اس تبلیغی ملاقات اور موصوف کے جماعت احمدیہ کی خدمت قرآن کے متعلق ان خیالات کا بھارتی پریس میں خوب چرچا ہوا۔ پرتاب (دہلی اور جالندھر) اور آزاد ہند (کلکتہ) وغیرہ نے نمایاں طور پر اس کا خلاصہ شائع کیا۔ نیز تب جماعت احمدیہ کی اس عظیم خدمت دین کو ہندوستان کے مسلم پریس اور مسلم عمائدین نے بھی نہایت درجہ قدر اور استحسان کی نظر سے دیکھا اور زبر دست خراج تحسین پیش کیا۔

 چنانچہ جماعت اسلامی ہند کے آرگن سہ روزہ دعوت (دہلی ) نے اپنی۴؍جون ۱۹۵۹ءکی اشاعت میں زیرعنوان ”قادیانی وفد ونوبا بھاوے جی کی خدمت میں‘‘ حسب ذیل نوٹ شائع کیا: ’’ابھی جب اچار یہ ونو بھاوے پنجاب کا دورہ کر رہے تھے تو قادیان کی جماعت احمد یہ کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کی اور ان کی خدمت میں قرآن کریم باترجمہ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پیش کی جس پر ونوبا بھاوے جی نے اپنے خصوصی تاثرات کا اظہار کیا۔

 انہوں نے مختلف مغربی مستشرقین اور ایشیائی مستشرقین کے انگریزی تراجم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جس نے نہ صرف یہ کہ ان انگریزی ترجموں کو پڑھا ہے بلکہ گجراتی، مرہٹی زبانوں کے علاوہ اردو زبان میں بھی بعض تراجم اور تفاسیر بھی دیکھی ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ نے مولانا ابوالکلام آزاد کے ترجمان القرآن کی دو جلدوں کے مطالعہ کا بھی ذکر کیا ۔

 آپ نے کہا ” اس وقت بھی میرے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ موجود ہے جو قاعدہ یسرنا القرآن کی طرز پر طبع شدہ ہے۔ “

سیرت کی کتاب کو ونوبا بھاوے جی نے بڑے اشتیاق سے قبول کیا اور اسی وقت کھول کر دیکھنا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’’میں نے اعظم گڑھ والوں کی طرف سے طبع شدہ سیرت النبی کی چھ جلدوں کا مطالعہ کیا ہے ( علامہ شبلی اور علامہ سید سلیمان ندوی کی مرتبہ کردہ) حضرت ابوبکرؓ کے سلسلہ میں آپ نے کہا: یہ رتبہ ہر شخص کو حاصل نہیں ہوا کرتا۔

 اسی دن پراتھنا کی تقریر میں آپ نے انبیاء علیہم السلام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کا کہنا ہے کہ لانفرق بین احد من رسله۔ سب رسولوں نے عالمگیر بھائی چارے کی دعوت دی ہے جسے ماننا چاہئے ۔ ‘‘

بے چارے احمدی خارج از اسلام سہی لیکن یہ بات کتنی قابل قدر بلکہ لائق تقلید ہے کہ جس پیغام کو انہوں نے حق سمجھا ہے اسے پہنچانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے ۔جس مقام پر عارف اور صوفی دم بخود ہیں وہاں یہ بادہ فروش پہنچ رہے ہیں۔‘‘

مولانا عبدالماجد صاحب دریا بادی نے نہ صرف اپنے اخبار صدق جدید ( لکھنو) ۱۲؍جون۱۹۵۹ء میں اخبار ”دعوت“ کا مندرجہ بالا نوٹ ہی شائع کیا بلکہ اپنی اخبار کی۱۹؍جون۱۹۵۹ءکی اشاعت میں ’’ایک تبلیغی خبر‘‘کے عنوان سے درج ذیل نوٹ سپردِ قلم فرمایا:’’مشرقی پنجاب کی خبر ہے کہ اچار یہ ونو با بھاوے جب پیدل دورہ کرتے ہوئے وہاں پہنچے تو انہیں ایک وفد نے قرآن مجید کا ترجمہ انگریزی اور سیرت نبوی پر انگریزی کتابیں پیش کیں ۔ یہ وفد قادیان کی جماعت ’’احمدیہ‘‘ کا تھا۔

خبر پڑھ کر ان سطور کے راقم پر تو جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا۔ اچاریہ جی نے دورہ اودھ کا بھی کیا بلکہ خاص قصبہ دریا باد میں قیام کرتے ہوئے گئے ۔ لیکن اپنے کو اس قسم کا کوئی تبلیغی تحفہ پیش کرنے کی توفیق نہ ہوئی نہ اپنے کو نہ اپنے کسی ہم مسلک کو ندوی،دیو بندی، تبلیغی،اسلامی جماعتوں میں سے !

آخر سوچنے کی بات ہے یا نہیں کہ جب بھی کوئی موقع اس قسم کی تبلیغی خدمت کا پیش آتا ہے ۔یہی ’’خارج از اسلام‘‘جماعت نکل جاتی ہے اور ہم سب دیندار منہ دیکھتے رہ جاتے ۔‘‘

تاریخ احمدیت کی جلد ۲۰ میں مذکور تفصیلات کے مطابق اسی تسلسل میں اس معزز مہمان کے خاص طور پر ورود قادیان کا احوال یوں لکھا ہے کہ مئی۱۹۵۹ء میں اچاریہ ونوبا بھاوے نے احمدیہ وفد سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیر کا دورہ مکمل کرنے کے بعد واپسی پر قادیان بھی تشریف لائیں گے۔

 چنانچہ آپ حسب وعدہ ۴؍نومبر۱۹۵۹ءکو دھاریوال پہنچے اور پھر قادیان آئے ۔

احمدیہ محلہ میں ان کا گرم جوش استقبال کیا گیا۔ آپ اپنے ساتھیوں اور دیگر سینکڑوں غیر مسلم معززین کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں پہنچے۔ جہاں ان کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔

 حضرت مولانا عبدالرحمٰن صاحب جٹ فاضل، امیر جماعت قادیان نے جماعت کی طرف سے ایڈریس پڑھ کر سنایا جس میں اسلام کے اقتصادی نظام کا خلاصہ پیش کیا ۔

 ایڈریس کے بعد اچاریہ جی کو تفسیر صغیر اور دوسرا لٹریچر پیش کیا گیا۔ جسے موصوف نے بڑے ادب اور احترام اور ممنونیت کے ساتھ قبول کیا۔ اچاریہ جی نے ایڈریس کے جواب میں اس خوشی کا اظہار کیا کہ روحانیت کا ایک مرکز دیکھنے کا ایک موقع انہیں میسر آیا ہے۔

 ازاں بعد انہوں نے کالج گراؤنڈ میں چھ سات ہزار کے مجمع میں تقریر کی جس میں احمد یہ جماعت کے حسن سلوک اور قرآن شریف کے انمول اور بے بہا تحفے کا ذکر کرتے ہوئے کہا:’’ احمدی بھائیوں نے بڑے پریم سے باتیں کیں اور قرآن شریف اردو تفسیر کے ساتھ بھینٹ کیا۔ اسی طرح اور بھی بعض ضروری کتابیں ہمیں تحفہ دیں۔ اس سے پہلے پٹھانکوٹ میں انگریزی ترجمہ کے ساتھ قرآن دے چکے ہیں۔‘‘(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد۲۰)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button