https://youtu.be/DN4nqb211Fc تمام نبیوں کی کتابوں سے اور ایسا ہی قرآن شریف سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے آدم سے لے کر اخیر تک دنیا کی عمر سات ہزار برس رکھی ہے اور ہدایت اور گمراہی کے لئے ہزار ہزار سال کے دَور مقرر کئے ہیں یعنی ایک وہ دَور ہے جس میں ہدایت کا غلبہ ہوتا ہے اور دوسرا وہ دَور ہے جس میں ضلالت اور گمراہی کا غلبہ ہوتا ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا خدا تعالیٰ کی کتابوں میں یہ دونوں دَور ہزار ہزار برس پر تقسیم کئے گئے ہیں…… پھر ہزار پنجم کا دَور آیا جو ہدایت کا دَور تھا۔ یہ وہ ہزار ہے جس میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر توحید کو دوبارہ دنیا میں قائم کیا۔ پس آپؐ کے منجانب اللہ ہونے پر یہی ایک نہایت زبردست دلیل ہے کہ آپؐ کا ظہور اُس سال کے اندر ہوا جو روزِ ازل سے ہدایت کے لئے مقرر تھا اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں سے یہی نکلتا ہے اور اِسی دلیل سے میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس تقسیم کی رُو سے ہزار ششم ضلالت کا ہزار ہے اور وہ ہزار ہجرت کی تیسری صدی کے بعد شروع ہوتا ہے اور چودہویں صدی کے سر تک ختم ہوتا ہے۔ اس ششم ہزار کے لوگوں کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیج اعوج رکھا ہے اور ساتواں ہزار ہدایت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں۔ چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سرپر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اس کے لئے بطور ظل کے ہو کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجدّد صدی بھی ہے اور مجدّد الف آخر بھی۔ اِس بات میں نصاریٰ اور یہود کو بھی اختلاف نہیں کہ آدم سے یہ زمانہ ساتواں ہزار ہے۔ اور خدا نے جو سورہ والعصر کے اعداد سے تاریخ آدم میرے پر ظاہر کی اس سے بھی یہ زمانہ جس میں ہم ہیں ساتواں ہزار ہی ثابت ہوتا ہے۔ اور نبیوں کا اِس پر اتفاق تھا کہ مسیح موعود ساتویں ہزار کے سر پر ظاہر ہوگا اور چھٹے ہزار کے اخیر میں پیدا ہوگا کیونکہ وہ سب سے آخر ہے جیسا کہ آدم سب سے اوّل تھا۔ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۲۰۷تا ۲۰۸) کیوں عجب کرتے ہو گر مَیں آ گیا ہو کر مسیح خود مسیحائی کا دَم بھرتی ہے یہ بادِ بہار آسمان پر دعوتِ حق کیلئے اِک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اُتار (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزاین جلد ۲۱ صفحہ ۱۳۱)