احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
کیا براہین احمدیہ پہلے مکمل لکھی جاچکی تھی؟ ۳۷ دلائل
۱۱: (گذشتہ سے پیوستہ) براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد اول صفحہ ۷۰پر آپؑ فرماتے ہیں:’’سو ان کی خدمت والا میں یہ عرض ہے کہ اگر ہم ان صدہا دقائق اورحقائق کو نہ لکھتے کہ جو درحقیقت کتاب کے حجم بڑھ جانے کا موجب ہیں توپھر خود کتاب کی تالیف ہی غیر مفید ہوتی …‘‘
۱۲: براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد اول صفحہ ۸۳پر آپؑ فرماتے ہیں:’’اب اے بھائیو! خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب میں نے ایسے ایسے باطل عقائد میں لوگوں کو مبتلا دیکھا اور اس درجہ کی گمراہی میں پایا کہ جس کو دیکھ کر جی پگھل آیا اور دل اور بدن کانپ اٹھاتو میں نے ان کی رہنمائی کے لئے اس کتاب کا تالیف کرنا اپنے نفس پر ایک حق واجب اور دَین لازم دیکھا جو بجز ادا کرنے کے ساقط نہ ہوگا۔ چنانچہ مسودہ اس کتاب کا خدا کے فضل و کرم سے تھوڑے ہی دِنوں میں ایک قلیل بلکہ اقل مدت میں جو عادت سے باہر تھی طیار ہوگیا اور حقیقت میں یہ کتاب طالبان حق کو ایک بشارت اور منکران دین اسلام پر ایک حجت الٰہی ہے کہ جس کا جواب قیامت تک ان سے میسر نہیں آسکتا اور اسی وجہ سے اس کے ساتھ ایک اشتہار بھی انعامی دس ہزار روپیہ کا شامل کیا گیا کہ تاہریک منکر اور معاند پر جو اسلام کی حقیت سے انکاری ہے اتمام حجت ہو اور اپنے باطل خیال اور جھوٹے اعتقاد پر مغرور اور فریفتہ نہ رہے۔‘‘
۱۳: براہین احمدیہ کے مقدمہ،روحانی خزائن جلد اول صفحہ ۱۳۰ پر اس کتاب کے چھ عظیم الشان فوائد بیان کرتے ہوئے حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں:’’پانچواں اس کتاب میں یہ فائدہ ہے کہ اس کے پڑھنے سے حقائق اورمعارف کلامِ ربانی کے معلوم ہوجائیں گے۔اورحکمت اورمعرفت اس کتاب مقدس کی کہ جس کے نور روح افروز سے اسلام کی روشنی ہے سب پر منکشف ہوجائے گی۔کیونکہ تمام وہ دلائل اوربراہین جو اس میں لکھی گئی ہیں اوروہ تمام کامل صداقتیں جو اس میں دکھائی گئی ہیں وہ سب آیات ِ بینات قرآن شریف سے ہی لی گئی ہیں اورہریک دلیل عقلی وہی پیش کی گئی ہے جو خدانے اپنی کلام میں آپ پیش کی ہے۔اوراسی التزام کے باعث سے تقریباً باراں سیپارہ قرآن شریف کے اس کتاب میں اندراج پائے ہیں۔ ‘‘
براہین احمدیہ کی موجودہ شکل جو کہ چارجلدوں میں ہمارے سامنے ہے اس میں تقریباً ۳۴۲ آیات قرآنیہ کا اندراج ہے۔اگر فی پارہ قرآن کریم کی ۱۲۵ آیات بھی شمارکریں تو تین پارے بھی پورے نہیں ہوپاتے۔جبکہ جو مسودہ حضرت اقدسؑ کے سامنے ہے جس کی موجودگی میں اورجس کے مقدمہ میں آپؑ اس کتاب کے چھ عظیم الشان فوائد بیان فرمارہے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں موجودجتنی آیات کی تفسیر ہے وہ کم وبیش بارہ پارے جتنی ہے اورظاہر ہے کہ موجودچارجلدوں سے کہیں زیادہ کا وہ مسودہ تھا اوراس وقت تیارشکل میں تھا۔یہاں ہمیں یہ یادرکھنا چاہیے کہ حضرت اقدسؑ تحریر ہویا تقریر،حوالہ ہو یاکوئی اورامر بےحدحزم واحتیاط سے معاملہ فرمایاکرتے تھے اورجوکوئی بھی بات کرتے وہ سرسری یامحض تُک بندی کے طورپر نہ فرمایاکرتے تھے۔بہت ہی معین بات ہوتی سوائے اس کے کہ آپؑ ساتھ ذکر فرماتے کہ یہ اندازہ ہے وغیرہ اس ضمن میں صرف ایک مثال دیناہی کافی ہوگا کہ آپؑ نے جب اپنی کتاب ازالہ اوہام میں لفظ توفّی کی بحث فرمائی تواس میں لفظ توفی کا ذکر فرمایاکہ مشکوٰة میں کتنی مرتبہ یہ لفظ آیاہے تو آپؑ نے باقاعدہ اس کا شمار فرمایااورپھر اس کا ذکر فرمایا۔تب تو کوئی کمپیوٹر اور معجم وغیرہ بھی نہ ہوتی تھی کہ فٹافٹ لفظ مل گیا۔اندازہ کیاجاسکتاہے کہ اس اعداد وشمار کے لیے کتنی محنت آپؑ کو کرنا پڑی ہوگی۔
آپؑ اپنی کتاب ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں :’’یہ عاجز پہلے اس سے اسی رسالہ میں بیان کر چکا ہے کہ عموم محاورہ قرآن شریف کا توفّی کے لفظ کے استعمال میں یہی واقعہ ہوا ہے کہ وہ تمام مقامات میں اوّل سے آخر تک ہرایک جگہ جوتَوَفِّی کا لفظ آیا ہے اس کو موت اور قبض روح کے معنے میں لاتا ہے اور جب عرب کے قدیم وجدید اشعار وقصائد ونظم ونثر کاجہاں تک ممکن تھا تتبع کیاگیا اور عمیق تحقیقات سے دیکھا گیا تو یہ ثابت ہوا کہ جہاں جہاں تَوَفِّی کے لفظ کا ذوی الروح سے یعنی انسانوں سے علاقہ ہے اور فاعل اللہ جَلَّشَانُہٗ کو ٹھہرایا گیا ہے اِن تمام مقامات میں تَوَفِّی کے معنے موت وقبض روح کے کئے گئے ہیں۔اور اشعار قدیمہ وجدیدہ عرب میں اور ایسا ہی اُن کی نثر میں بھی ایک بھی لفظ توفی کا ایسا نہیں ملے گا جو ذوی الروح میں مستعمل ہو اور جس کافاعل لفظًا یا معنًا خدائے تعالیٰ ٹھہرایا گیا ہو۔ یعنی فعل عبد کا قرار نہ دیا گیا ہو اور محض خدائے تعالیٰ کا فعل سمجھا گیا ہو اور پھراس کے معنے بجز قبض روح کے اور مراد رکھے گئے ہوں۔ لغات کی کتابوں قاموس۔ صحاح۔ صراح وغیرہ پر نظر ڈالنے والے بھی اس بات کو جانتے ہیں کہ ضرب المثل کے طور پر بھی کوئی فقرہ عرب کے محاورات کا ایسا نہیں ملا جس میں توفی کے لفظ کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرکے اور ذوی الروح کے بارہ میں استعمال میں لاکر پھر اس کے اور بھی معنے کئے ہوں۔بلکہ برابر ہر جگہ یہی معنے موت اورقبض روح کے کئے گئے ہیں اورکسی دوسرے احتمال کا ایک ذرہ راہ کُھلا نہیں رکھا۔ پھر بعد اس کے اِس عاجز نے حدیثوں کی طرف رجوع کیا تا معلوم ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہؓ اورخود آنحضرت صلعم اس لفظ تَوَفِّی کوذوی الروح کی طرف منسوب کرکے کن کن معنوں میں استعمال کرتے تھے۔ آیا یہ لفظ اس وقت اُن کے روز مرہ محاورات میں کئی معنوں پر استعمال ہوتا تھا یا صرف ایک ہی معنے قبض روح اور موت کے لئے مستعمل تھا۔ سو اس تحقیقات کے لئے مجھے بڑی محنت کرنی پڑی اور اِن تمام کتابوں صحیح بخاری۔ صحیح مسلم۔ ترمذی۔ ابن ماجہ۔ ابوداوٴد۔ نسائی۔دارمی۔ مؤطا۔ شرح السنہ وغیرہ وغیرہ کا صفحہ صفحہ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ان تمام کتابوں میں جو داخل مشکوٰة ہیں تین سو چھیالیس مرتبہ مختلف مقامات میں توفی کا لفظ آیا ہے اور ممکن ہے کہ میرے شمار کرنے میں بعض توفی کے لفظ رہ بھی گئے ہوں لیکن پڑھنے اور زیر نظر آجانے سے ایک بھی لفظ باہر نہیں رہا۔‘‘(ازالہ اوہام صفحہ۸۸۵تا ۸۸۷،روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۵۸۳-۵۸۴)
۱۴: براہین احمدیہ صفحہ ۱۳۵-۱۳۴ پر فرماتے ہیں :’’اس کتاب کے بارے میں بجز چند عالی ہمت مسلمانوں کے جن کی توجہ سے دو حصے اور کچھ تیسرا حصہ چھپ گیا…اور اس جگہ یہ امر بھی واجب الاطلاع ہے کہ پہلے یہ کتاب صرف تیس پینتیس جز تک تالیف ہوئی تھی اور پھر سو جز تک بڑھا دی گئی اور دس روپیہ عام مسلمانوں کے لئے اور پچیس روپے دوسری قوموں اور خواص کے لئے مقرر ہوئی۔ مگر اب یہ کتاب بوجہ احاطہ جمیع ضروریات تحقیق و تدقیق اور اتمام حجت کے لئے تین سو جز تک پہنچ گئی ہے جسکے مصارف پر نظر کرکے یہ واجب معلوم ہوتا تھا کہ آئندہ قیمت کتاب سو روپیہ رکھی جائے۔ ‘‘
۱۵:براہین احمدیہ کے صفحہ ۱۳۵ پر’’عذر‘‘ کے عنوان سے یہ شائع ہواہے کہ ’’عُذر۔ اب کی دفعہ کہ جو حصہ سوم کے نکلنے میں قریب دو۲ برس کے توقف ہوگئی غالباً اس توقف سے اکثر خریدار اور ناظرین بہت ہی حیران ہوں گے۔ لیکن واضح رہے کہ یہ تمام توقف مہتمم صاحب سفیرہند کی بعض مجبوریوں سے جن کے مطبع میں کتاب چھپتی ہے ظہور میں آئی ہے۔خاکسار غلام احمدؐ عفی اللہ عنہ‘‘
۱۶:براہین احمدیہ کے صفحہ ۱۳۶ پر ’’گذارش ضروری‘‘ کے عنوان سے ایک صفحہ کا اعلان ہے جس میں حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں :’’ چونکہ کتاب اب تین سو جز تک بڑھ گئی ہے لہٰذا ان خریداروں کی خدمت میں جنہوں نے اب تک کچھ قیمت نہیں بھیجی یا پوری قیمت نہیں بھیجی التماس ہے کہ اگر کچھ نہیں تو صرف اتنی مہربانی کریں کہ بقیہ قیمت بلا توقف بھیج دیں کیونکہ جس حالت میں اب اصلی قیمت کتاب کی سو روپیہ ہے اور اس کے عوض دس یا پچیس روپیہ قیمت قرار پائی پس اگر یہ ناچیز قیمت بھی مسلمان لوگ بطور پیشگی ادا نہ کریں تو پھر گویا وہ کام کے انجام سے آپ مانع ہوں گے اور اس قدر ہم نے برعایت ظاہر لکھا ہے ورنہ اگر کوئی مدد نہیں کرے گا۔ یا کم توجہی سے پیش آئے گا حقیقت میں وہ آپ ہی ایک سعادت عظمیٰ سے محروم رہے گااور خدا کے کام رک نہیں سکتے اور نہ کبھی رکے۔ جن باتوں کو قادرِ مطلق چاہتا ہے وہ کسی کی کم توجہی سے ملتوی نہیں رہ سکتیں۔ والسَّلام عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الھُدٰی۔خاکسار میرزا غلام احمدؐ ‘‘
۱۷:ایک اشتہار جو کہ اشاعة السنة میں درج ہوااس میں براہین احمدیہ کی بابت کچھ تفصیلات اس طرح مذکورہیں :’’اس خاکسار نے ایک کتاب متضمن اثبات حقانیت قرآن وصداقت دین اسلام ایسی تالیف کی ہے جس کے مطالعہ کے بعد طالبِ حق سے بجز قبولیت اسلام اورکچھ بن نہ پڑے …پہلے ہم نے اس کتاب کا ایک حصہ پندرہ جزو میں تصنیف کیا۔بغرض تکمیل تمام ضروری امروں کے نوحصے اورزیادہ کردئیے۔ جن کے سبب سے تعداد کتاب ڈیڑھ سو جزء ہوگئی۔ہرایک حصہ اس کا ایک ایک ہزار نسخہ چھپے۔ توچورانوے روپیہ صرف ہوتے ہیں۔پس کُل حصص کتاب نو سوچالیس روپے سے کم میں چھپ نہیں سکتے۔‘‘(اشتہار اپریل ۱۸۷۹ء بحوالہ مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ۱۱-۱۲)
۱۸:منشورمحمدیؐ میں اسی کتاب کی بابت جو اشتہار شائع ہوا اس میں درج ہے:’’…لہٰذاہم نے حسب درخواست باوا صاحب (باوانرائن سنگھ۔ایاز)ایک کتاب مسمّی براہین احمدیہ علی حقیۃ کتاب اللّٰہ القرآن والنبوة المحمدؐیہ ادلہ کاملہ قطعیہ سے مرتب تیارکی گئی ہے امیدہےکہ عنقریب چھپ کر شائع ہوجائیں گے …اس صورت میں ہم باواصاحب کے شکر گزار ہیں کہ گو ان کاکچھ ہی خیال تھا لیکن ان کے تقاضا سے ایک کتاب لاجواب تو تیارہوگئی کہ جس سے بہت سے ہم وطن بھائیوں آریہ سماج والوں کو پوراپورا فائدہ ہوگا اورباواصاحب کو بھی معلوم ہوجائے گا کہ ثبوت اسے کہتے ہیں۔‘‘(اشتہار شائع شدہ منشورمحمدی ۵ جمادی الاول ۱۲۹۶ھ صفحہ۸ بحوالہ حیات احمدجلد دوم صفحہ ۱۶،۱۵ حاشیہ)
۱۹: ایک خط جو کہ غالباً۱۸۸۴ء یا ۱۸۸۵ء کے قریب حضرت اقدسؑ نے ہندوستان سمیت دنیا بھر کے مذہبی اورعالمی راہنماؤں کی خدمت میں لکھا اس خط پر کوئی تاریخ رقم نہیں ہے اورمجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ۳۰پر وہ درج ہے۔ اس میں حضورؑ بیان فرماتے ہیں:’’…اسی غرض سے کتاب براہین احمدیہ تالیف پائی ہے۔جس کی ۳۷ جزچھپ کر شائع ہوچکی ہے اوراسکا خلاصہ مطلب اشتہار ہمراہی خط ہذا میں مندرج ہے۔لیکن چونکہ پوری کتاب کا شائع ہونا ایک طویل مدت پر موقوف ہے اس لئے یہ قرارپایا ہے کہ بالفعل بغرض اتمام حجت یہ خط (جس کی ۲۴۰کاپی چھپوائی گئی ہے)معہ اشتہار انگریزی (جس کی آٹھ ہزار کاپی چھپوائی گئی ہے) شائع کیا جائے…‘‘
۲۰:اس اردو اشتہارکے ساتھ ایک انگریزی اشتہار بھی تیار کیاگیا۔ جو Ripon press لاہورسے شائع ہوا۔اس میں ایک جگہ یہ لکھاہوابھی موجودہے :
’’All these evidences will be found perusal of the book which will consist of nearly 4800 pages of which about 592 pages have been published.‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلداول صفحہ۳۸)
یہ ۲۰دلائل یاپوائنٹس تو وہ ہیں جوحضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات سے اخذکیے گئے ہیں۔ان ۲۰ پوائنٹس کے علاوہ دیگردلائل بھی حسب ذیل ہیں۔
٭…٭…(باقی آئندہ)…٭…٭