پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان (ستمبر، اکتوبر ۲۰۲۳ءمیں سامنے آنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب)

احمدی گھروں کے باہر اشتعال انگیز اشتہار چسپاں

فیصل آباد۔ اکتوبر ۲۰۲۳ء:فیصل آباد میں بسنے والےبعض احمدیوں کے گھروں کے باہر فیصل آباد سے میلوں دور ربوہ میں ہونے والی ختم نبوت کانفرنس کے اشتہار چسپاں کر دیے گئے۔ اسی طرح ایک احمدی کے کلینک پر بھی یہ اشتہار لگائے گئے۔ یہ سب احباب مدینہ ٹاؤن کے مکین ہیں۔ ریجنل پولیس آفیسر فیصل آباد نے تین اضلاع کے پولیس افسران کو کہا کہ احمدیوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔اسی طرح پولیس کی جانب سے گھسیٹ پورہ اور گھیالہ جماعت سے رابطہ بھی کیا گیا اور انہیں مناسب حد تک یقین دہانی کروائی گئی کہ پولیس احمدیوں کی حفاظت کرے گی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جج نے ایک احمدی کی ضمانت کے مقدمے کی سماعت سے خود کو بچا لیا

لاہور۔ ۲؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء: چند احمدیوں پر ۶؍دسمبر ۲۰۲۲ءکو ربوہ کے پولیس سٹیشن میں قرآن کریم کے تحریف شدہ ترجمہ کی اشاعت اور امتناع قادیانیت آرڈیننس وغیرہ کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔یہ ایک جھوٹا اور بےبنیاد مقدمہ تھا۔اس مقدمہ میں جو دفعات لگائی گئی ہیں ان کی سزا عمر قید ہے۔ ان میں سے ایک صاحب پر جن کا کام بچوں کو قرآن حفظ کروانا ہے توہینِ قرآن کا مقدمہ درج کر کے ۷؍جنوری ۲۰۲۳ء کو گرفتار کر لیا گیا ۔سیشن جج نے باوجود علم کے کہ یہ دفعات غیر ضروری، ناجائزاور معروضی حقائق کے برخلاف ہیں اور یہ کہ ملزم پہلے سے ہی نو ماہ قید گزار چکا ہے، ضمانت کو مسترد کر دیا۔انہوں نے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی۔ ۲؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو لاہور ہائی  کورٹ کے جج علی ضیاء باجوہ نے اس مقدمہ کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے اس کو سپریم کورٹ منتقل کرنے کی درخواست کی جہاں جسٹس فاروق حیدر نے یہ مقدمہ سننا تھا لیکن انہوں نے اس پر کوئی پیش رفت نہ کی۔ یہ بات ناقابل یقین ہے کہ کیسے سپریم  کورٹ کا کوئی جج ایک ایسے شخص کا مقدمہ سننے میں لیت و لعل سے کام لے سکتا ہے جس کو اس کے عقائد کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے اور وہ بغیر کسی جرم کے نو ماہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے۔

ایک احمدی طالبعلم کو کالج چھوڑنا پڑ گیا

پی ایس ٹی کالج کمالیہ۔ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ۔ اکتوبر ۲۰۲۳ء: کالج میں بی ایس آنرز کی تعلیم حاصل کر نےوالے ایک احمدی طالبعلم کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک اَور طالبعلم نے باقی طلبہ کو بتا دیا کہ یہ احمدی ہیں جس پر ان کے لیے زندگی اجیرن کر دی گئی۔ ان کے والدنے کالج کے پرنسپل سے جو نہایت شفیق انسان تھےبات کی لیکن مخالفت کے سامنے وہ بھی کچھ نہ کر سکے اس لیے احمدی طالبعلم کووہ کالج چھوڑنا پڑا۔

لاہور ہائی کورٹ میں ایک احمدی کی رِٹ

یہ بات قابل توجہ ہے کہ گذشتہ کچھ سالوں سے احمدیوں کی مساجد اور قبرستانوں پر حملے کیے جارہے ہیں اور ان میں ناقابلِ یقین حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اس سال ۳۹؍ مساجد اور ایک سو سے زائد قبروں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ایک احمدی نے لاہور ہائی کورٹ میں رِٹ دائر کی کہ احمدی پاکستان کے شہری ہیں لہٰذا قانون کے مطابق ان کی جائیدادوں اور مقدس مقامات کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ مقدمے کی پہلی سماعت ۱۵؍اکتوبر کو جسٹس محمد اعجاز سیٹھی کی عدالت میں تھی جہاں پر جسٹس نے پوچھا کہ احمدیوں کی عبادت گاہوں،قبروں اور دیگر مقدس مقامات کو ضروری حفاظت کیوں مہیا نہیں کی گئی؟انہوں نے فوراً احمدیوں اور ان کے املاک کے حفاظتی بندوبست کرنے کا حکم دیا اور پنجاب حکومت سے جواب طلبی بھی کی۔

ملاں حسن معاویہ کے احمدیت مخالف مقدمے کی مزید تفصیل

لاہور۔ستمبر،اکتوبر۲۰۲۳ء:ہم پہلے بھی اپنی کئی ماہانہ اور سالانہ رپورٹوں میں وزیراعظم کے مذہبی ہم آہنگی کے مشیر مولوی طاہر اشرفی کے بھائی ملاںحسن معاویہ کی سیاہ  کاریوں کا ذکر کر چکے ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں اس نے لاہور ہائی کورٹ میں ۲۰۱۱ء کے قرآن کی تحریف کے قانون کے تحت مقدمہ درج کروایا کہ احمدی اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قرآن،قرآن کا ترجمہ اور اس کی تفسیر شائع کر رہے ہیں۔یہ ایک جھوٹا الزام تھا۔ احمدی گذشتہ کئی سال سے قرآن کی طباعت کا کام نہیں کر رہے۔ یہ مقدمہ گذشتہ چارسال سے جسٹس شجاعت علی خان کی عدالت میں چل رہا ہے۔حسن معاویہ نے یہی درخواست ۲۵؍ ستمبر ۲۰۲۳ء کو ڈی پی او چنیوٹ کو بھی دے کر کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد پولیس نے کئی احمدی دفاتر پر چھاپے مارے جن میں احمدیہ پریس بھی شامل ہے۔اسی ضمن میں قرآن بورڈ نے ایس ایچ او چناب نگر(ربوہ) کو ای میل بھیجی کہ جماعت احمدیہ کے مرکزی عہدیداروں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔اس حکم کی تعمیل میں اس نے جماعت احمدیہ کے چھ عہدیداروں سمیت پرنٹر، پبلشر،کمپوزر،اغلاط کی درستگی کرنے والے معاونین اور دیگر نامعلوم احمدیوں کے خلاف توہین کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیاجن کی سزا عمر قید ہے۔اس کے بعد ۷؍جنوری ۲۰۲۳ء کو جماعت احمدیہ کے ایک معتبر ادارے کے پرنسپل کو گرفتار کرلیا گیا۔توہین قرآن کا مقدمہ ایک ایسے شخص پر قائم کیا گیا جس کا کام بچوں کو قرآن حفظ کروانا ہے۔ ان کی ضمانت قبل از گرفتاری بھی منظور نہیں کی گئی تھی۔ ۴؍اپریل سے جب بھی ان کے مقدمے کی سماعت کا وقت آتا تو ہائی کورٹ اس کو ٹال دیتی۔ ۲۷؍ ستمبر کو جسٹس شجاعت علی خان نے اس مقدمے کی تحقیقات پر برہمی کا اظہار کیا اور ۱۶؍اکتوبر کواعلیٰ پولیس افسران اور وزیراعلیٰ پنجاب اور اس کے سیکرٹری کو اپنی عدالت میں طلب کیا۔ ۷؍ اکتوبر کو پولیس نے جماعت احمدیہ کے مرکزی دفاتر پر چھاپے مارے اور ساتھ ہی پرنٹنگ پریس کی بھی تلاشی لی لیکن انہیں کوئی بھی قابل اعتراض چیز نہ مل سکی۔ اس کے بعد پولیس نے ربوہ شہر کی نگرانی شروع کر دی۔ ۱۵؍ اکتوبر کو وفاقی وزیر داخلہ نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ کوئی بھی غیر مسلم یا کوئی غیرمستند ادارہ قرآن کریم کی اشاعت نہیں کر سکتا اور ایسا کرنے والوں کے خلاف فوراً کارروائی کی جائے گی۔ غیر مسلموں کو ایسے قوانین کے متعلق آگاہی دی جائے گی۔ اسی طرح احمدی بھی ایک اقلیت ہیں ان کو بھی ان قوانین سے آگاہ کیا جائے گا۔ مذہبی امور کے نگران وفاقی وزیر انیق احمد نے کہا کہ احمدی پاکستانی قانون کے مطابق غیر مسلم ہیں لہٰذا وہ مسجد سے مشابہت رکھنے والی عبادت گاہ نہیں بنا سکتے۔ مسلمانوں کے دلوں سے آنحضورﷺ کی محبت کو نہیں نکالا جا سکتا۔ اس معاملے پر تمام صوبوں کو مل کے کام کرنا ہو گا اور تمام قرآن بورڈوں کو بھی کارروائی کرنا ہو گی۔ اس پریس کانفرنس میں وزارت خارجہ،تعلیم، انفارمیشن،پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور تمام صوبوں کے سیکرٹری موجود تھے۔ ۱۶؍اکتوبر کو وفاقی اور صوبائی تمام مطلوبہ اداروں کے افسران اور ڈپٹی اٹارنی جنرل بھی عدالت میں موجود تھے۔ ڈپٹی اٹارنی نے عدالت کو بتایا کہ وہ لوگ کس مستعدی کے ساتھ عدالت کے حکم پر احمدیوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ اس نے ایک کمیٹی بنائی ہے جو ہر پندرہ روز بعد اس ضمن میں پیشرفت کا جائزہ لیتی ہے۔عدالت کو بتایا گیا کہ وزیراعظم بیرونِ ملک دورے کی وجہ سے عدالت نہیں آسکے اور وزیر اعلیٰ کو کوئی ضروری کام تھا جس کی وجہ سے وہ غیر حاضر ہیں۔جسٹس  شجاعت نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ افسران سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہے۔ کیا وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ یہ قرآن کے تقدس کا معاملہ ہے۔ ان کے پاس ہسپتالوں اور پلو ں کے افتتاح کا تو وقت ہے لیکن قرآن کی عظمت کی خاطر نہیں۔ وزیر اعلیٰ کو کس ہچکچاہٹ کا سامنا ہے؟ اگر وہ اپنا لائحہ عمل وضع نہیں کریں گے تو عدالت خود کرے گی۔جسٹس شجاعت نے کہا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے جو رپورٹیں پیش کی گئی ہیں وہ مبہم ہیں اور ان میں کوئی لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔اور وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ کی غیر موجودگی میں پیش ہونے والی رپورٹوں کو حکومتی لائحہ عمل تصور نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے اگلی پیشی کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ خود عدالت میں پیش ہوں اور گذشتہ فیصلے کو من وعن بغیر کسی دباؤ میں آئے لاگو کریں۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ میں متشددانہ کارروائی

دھنی دیو۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ۔۳۰؍ستمبر ۲۰۲۳ء:دو مذہبی انتہا پسندوں منظور احمد اور ظہیر احمد نے احمدیہ مسجد کے گیٹ کے باہر کھڑے ہو کر انتہائی غلیظ گالی گلوچ کی اور ایک احمدی کا نام لے کر انہیں قتل کی دھمکی دی۔کچھ روز قبل ظہیر احمد نے مذکورہ احمدی کو اپنے گھوڑے کے نیچے کچلنے کی کوشش بھی کی تھی جب اچانک پیچھے ہٹ کر وہ بچ گئے۔ ظہیر احمد نے مقامی صدر جماعت کو سنگین نتائج کی دھمکی دے رکھی ہے۔

اوکاڑہ میں احمدیت مخالف جلوس

اوکاڑہ۔ستمبر ۲۰۲۳ء:مخالفین نے گذشتہ سال احمدیہ مسجد کے میناروں اور محراب کو مسمار کرنے کےلیے ایک درخواست دائر کی تھی۔ لیکن گفت و شنید کے بعد اس بات پر سب رضامند ہو گئے کہ مسجد کی بیرونی دیوار کو اونچا کر دیا جائے جس سے مینارے چھپ جائیں۔ لیکن حال ہی میں تحریکِ لبیک کے شدت پسندوں نے ایک ویڈیو جاری کی اور اس میں دھمکی دی کہ ۲۷؍ ستمبر کو وہ ایک جلوس نکالیں گے اور میناروں اور محراب کو خود مسمار کریں گے۔جماعت نے پولیس کو اس معاملے کی خبر کردی۔مقررہ تاریخ کو مخالفین نے دو سے اڑھائی ہزار لوگوں پر مشتمل ایک جلوس نکالا۔لیکن پولیس کی بھاری نفری تعینات ہونے کی وجہ سے اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ انہوں پولیس اور انتظامیہ پر احمدیوں کی حمایت کا الزام عائد کیا اور کہا کہ اگر ان کے کسی کارکن کو ہاتھ بھی لگایا گیا تو اس کے نتیجے میں خون ریزی ہو گی۔ پولیس کے راستہ روکنے کی وجہ سے یہ پرتشدد ہجوم مسجد کی طرف پیش قدمی نہ کر سکا۔

پاکستان میں احمدیوں کی الیکشن کے عمل سے بے دخلی

پاکستان میں الیکشن کے وقت جو لسٹ بنائی جاتی ہے اس میں عام طور پر مسلمان،ہندو، سکھ،مسیحی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ لیکن احمدیوں کو الیکشن کے عمل میں حصہ لینے سے روکنے کے لیے ایک الگ لسٹ بنائی جاتی ہےجس میں صرف احمدی ہوتے ہیں۔احمدیوں کو دو میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔اول : اس لسٹ کے مطابق بطور غیر مسلم ووٹ دیں۔دوم:اپنے احمدی ہونے کا انکار کریں اور بطور سرکاری مسلمان ووٹ دیں۔

اس عمل کے لیے انہیں ایک حلف نامے پر دستخط کرنا ہوگا کہ وہ احمدی نہیں ہیں اور یہ کہ بانی جماعت احمدیہ کونبی یا مجدد نہیں مانتے۔ احمدیوں کے لیے تو یہ دونوں باتیں ہی ناقابل قبول ہیں اور یہ احمدیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہے۔

۲۰۱۷ء کے الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر اس شخص کو جو الیکشن لڑنا چاہتا ہے ایک حلف نامہ جمع کروانا ہو گا جہاں وہ اپنے ختم نبوت پر ایمان اور آنحضورﷺ کے بعد کسی بھی قسم کی نبوت کا انکار کرے گا۔اسی طرح اس ایکٹ میں ہر وہ ممکنہ کوشش کی گئی جو ہو سکتی تھی کہ احمدی کسی بھی طرح الیکشن کا حصہ نہ بن سکیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ احمدیوں کی پورے پاکستان میں کہیں بھی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ ربوہ جو کہ پچانوے فیصد احمدی آبادی پر مشتمل ہے وہاں کی کونسلوں میں ایک بھی احمدی منتخب نمائندہ نہیں ہے اور ساٹھ ہزار سے زائد کی آبادی کے اس شہر میں پانی،گلیوں اور سیورج کا نظام قابل بیان حد تک خراب ہے۔

(مرتبہ: مہر محمد داؤد )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button