تاریخ احمدیتمتفرق مضامین

پنڈت لیکھرام کا قتل اخبارات وپریس کے تناظر میں (قسط سوم۔ آخری)

(ابو حمدانؔ)

ایک نہیں دو لیکھرام!

ایک آریہ جو اپنے آپ کو ’’ایک آریوں کا دلی ہمدرد‘‘ لکھتا ہے،اخبار چودہویں صدی (راولپنڈی) میں آریہ احباب کو لیکھرام کی سوانح لکھنے کی تلقین کرتے ہوئے ایک احتیاطی تدبیر اپنانے کی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ جہاں ہم پنڈت صاحب کی لائف یعنے سوانح عمری لکھنے کی صلاح دیتے ہیں۔ وہاں ان آریہ صاحبان کو جو اس بزرگ اور ضروری کام کی طرف توجہ فرمائیں۔ اس امر کا مشورہ دینا بھی ضروری ہے۔ کہ وہ ان کی لائف لکھنے میں بہت احتیاط سے کام لیں۔ تاکہ ان کے کسی اور ہمنام شخص کے حالات ان کے حالات میں داخل نہ ہو جائیں۔ اور خلط واقعات نہ ہو جائے۔ پنڈت صاحب کے نام کے اور بہت سے لوگ جا بجا موجود ہوں گے۔ اور اس غلطی سے نہایت احتیاط سے بچنا پڑے گا کہ کسی دوسرےاسی نام والے شخص کی زندگی کا کوئی واقعہ نہ لکھ لیا جائے۔

اس کے بعد مصنف ایک اَور لیکھرام شخص کا ذکر کرتا ہےجوپشاور پولیس میں ملازم تھا۔اس شخص کی بد چلنی اور بدکردار ی کا ایسا ذکر ملتا ہےجس کی تفصیل کا یہ اخبار متحمل نہیں ہوسکتا۔ کہا جاتا ہے کہ رشوت ستانی اور تشدد کی وجہ سے کئی دفعہ اس کا تنزل بھی ہوا۔ (اخبار چودہویں صدی (راولپنڈی) ۱۵؍مارچ ۱۸۹۷ء)

آخر پر صاحب تحریر ۵۰؍ روپے کےانعام کا اعلان کرتےہیں کہ اس شخص کے واسطے مشتہر کرتا ہوں۔ جو اس لیکھرام سارجنٹ پولیس اور شہیدپنڈت صاحب میں جو کچھ کہ اصلی فرق ہے وہ بتا دے۔ یعنے یہ کہ اس لیکھرام کی ولدیت سکونت – پیشہ تعلیم وغیرہ اورتھی۔ اور ان شہید پنڈت صاحب کی …سکونت، پیشہ۔ اس سے بالکل مختلف تھا۔ اور یہ کہ فلان فلان مولوی صاحبان کےپاس انہوں نے زبان عربی کی تحصیل کی تھی۔ اور ان کی زندگی کا تمام ابتدائی حصہ تحصیل علوم مختلف میں گذرا تھا۔ اور فارغ التحصیل ہوتے ہی انہوں نے اپنا بزرگ قومی کام شروع کر دیا تھا۔ مجھ کو یقین ہے کہ جو شخص ایک تھوڑی سی بھی کوشش کرے گا وہ ان دونوں شخصوں میں ممّیز حالات بتا دینے میں کامیاب ہو جائے گا۔ وہ پچاس روپیہ کے انعام کے علاوہ ایک مقتدر اور طاقتور قوم پر احسان کرے گا اور لوگوں کو مغالطہ سے بچا لےگا۔ (اخبار چودہویں صدی (راولپنڈی) ۱۵؍مارچ ۱۸۹۷ء)

قتل کے اسباب ومحرکات

الغرض لیکھرام پشاوری نے اپنی طرف سے مذاہب پر حملوں بلکہ ناپاک حملوں کا کوئی دقیقہ خالی نہ جانے دیا اور ازبس کوشش کے ساتھ ہر ایک کے جذبات کو انگیخت کرنے کی کوشش کی، جس میں وہ بخوبی کامیاب بھی ہوا۔ چنانچہ انہی امور کی بنا پر اس کے اچانک قتل سے متعلق حیرت میں رہنا ممکن نہیں کہ جو شخص اتنا جوشیلا اور بدزبان ہو اورمذہبی ہستیوں کی بابت ایسی زبان استعمال کرتاہو اسے کس طرح معاشرہ برداشت کرسکتا ہے اور معاشرہ بھی وہ جو دینی حمیت اور غیرت میں کوئی ثانی نہ رکھتاہو۔ کیا ہندو اور کیا مسلمان، دونوں ہی اپنے اپنے عقائد میں شدت پسند واقع ہورہے تھے۔ بلکہ مسیح موعودؑ کی بعثت کا سب سے بڑا مقصد تو انہی مذاہب کو یکجا کرنا اور ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا تھا تا باہمی منافرت کا خاتمہ ہوسکے اور جَرِیُ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَاءِ تمام ادیان کو پھر سے واحد خدا کی طرف راغب کرسکے۔

یہ تو تھا ایک بیّن اور واضح سبب جو اس قتل کا محرک ہوسکتا تھا، باقی رہا سوال حضرت اقدسؑ کی لیکھرام کی موت کی بابت پیشگوئی کا تو اس ضمن میں یہ امر ذہن نشین رہے کہ خدا تعالیٰ کا عذاب اتمام حجت کے بعد آیا کرتاہے اور حضرت اقدسؑ نے بارہا اس کو سمجھایا اور کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح راہ راست پر آجائے، مگر ’’عِجْلاً جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ ‘‘ کا مصداق یہ شخص اپنی حرکات سے باز نہ آیا۔ چنانچہ پھر خدا کی غیرت کس طرح گوارا کرسکتی تھی کہ اس کے محبوب نبی ﷺ کی ذاتِ اقدس پر بے شمارا ور گندے اور ننگے اعتراضات کرنے والا شخص بارہا سمجھانے کے اپنی روش کو نہ بدل رہا تھا، لہٰذا پیشگوئی کے پورا ہونے کے لیے خدائی اسباب بہم مہیا ہوئے اور اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ آج تک اس کا قاتل معیّن طور پر دریافت نہ ہوسکا۔

چنانچہ اس کے قتل کے بعد ایک موقع پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا:’’یہ بالکل غلط بات ہے کہ لیکھرام سے مجھ کو کوئی ذاتی عداوت ہے مجھ کو ذاتی طور پر کسی سے بھی عداوت نہیں بلکہ اس شخص نے سچائی سے دشمنی کی اور ایک ایسے کامل اور مقدس کو جو تمام سچائیوں کا چشمہ تھا، توہین سے یاد کیا۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے ایک پیارے کی دنیا میں عزت ظاہرکرے۔ والسلام علیٰ من اتبع الہُدیٰ ۔‘‘ (برکات الدعا صفحہ ۵)

واقعۂ  قتل اور مابعد کےحالات

پایونیر اخبار لکھتاہے کہ کچھ عرصہ قبل لاہور لیکھرام کے قتل کی خبر سے چونک اٹھا۔ قاتل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک محمڈن تھا جس نے خود کو ہندو مذہب اختیار کرنے کا بتلا کر پنڈت کے گھر میں داخلہ حاصل کر لیا تھا، جہاں وہ کچھ عرصے تک اپنے جرم کا ارتکاب کرنے کے موقع کا انتظار کر رہا تھا۔ چونکہ یہ شخص فرار ہو گیا تھا اور اس کے بعد سے گرفتاری سے بچ گیا تھا، اس لیے یہ کہنا ممکن نہیں کہ کہانی میں کیا حقیقت ہے، حالانکہ یہ کسی بھی طرح سے ناممکن نہیں ہے۔ بہر حال لاہور کے ہندوؤں نے اسے قبول کرتے ہوئے لیکھرام کو شہید کہا جانے لگا۔ ایک اجلاس بلایا گیا جس میں مغربی انداز میں مختلف قراردادیں منظور کی گئیں۔ پنڈت کی موت پر افسوس کا اظہار کیا گیا، اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس سازش کا سراغ لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے جس کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ البتہ معاملہ کچھ عرصہ کے لیے تاخیر کا شکار ہو گیا، لیکن اس ہفتے ایک نئی پیشرفت ہوئی ہے۔ لاہور اخبار کے مطابق، لاہور، پشاور اور فیروز پور میں نوٹس شائع کیے گئے ہیں، جن میں کچھ ہندوؤں اور سکھوں کو دھمکی دی گئی ہے کہ وہ لیکھرام سے آگے نکل گئے ہیں۔ فیروز پور میں، آٹھ یا نو لوگوں کے نام تھے، ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کو فہرست میں شامل کیا گیا، اور ایک تاریخ (۲۶؍اپریل) مقرر کی گئی جس کے ذریعے ان کے قتل کو انجام دیا جانا تھا۔ مزید کہا گیا ہے کہ پشاور میں کچھ ہندوؤں پر حملہ کر کے زخمی کیا گیا ہے۔ دھمکی آمیز لوگ طویل عرصے تک زندہ رہتے ہیں، اور تختیوں سے کچھ نہیں نکل سکتا، لیکن انہوں نے ہندو برادری میں کافی جوش و خروش اور خطرے کی گھنٹی پھیلائی ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ دونوں فرقوں کے درمیان تعلقات شدید کشیدہ ہیں اور ان کے درمیان عداوت کو بظاہر کچھ شرپسندوں نے ہوا دی ہے۔ حکومت کی توجہ گذشتہ کچھ عرصے سے اس معاملے کی طرف مبذول کرائی گئی ہے اور بلا شبہ اس بات کی مکمل انکوائری کی جائے گی کہ یہ مصیبت کس حد تک پھیلی ہے۔

(The Pioneer (Allahabad), March 18th 1897)

ٹائمز آف انڈیا نے ۲۲؍مارچ۱۸۹۷ء کو شائع کیا کہ پنڈت لیکھرام کے قتل کے بعد لاہور کےحالات کافی خراب ہیں البتہ پولیس نے خاطرخواہ اقدامات کر رکھے ہیں۔اور حال ہی میں متأثرہ علاقوں میں جن میں موچی گیٹ وغیرہ شامل ہیں، پریڈ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ (ٹائمز آف انڈیا ۱۸؍مارچ۱۸۹۷ء)

بعض روایات کے مطابق قتل کے بعد پنجاب کے حالات اس قدر خراب ہوچکے تھے کہ ہندو اساتذہ مسلمان بچوں کو جان بوجھ کر فیل کرنے لگ گئے تھے۔(سیرت المہدی جلد ۱ صفحہ ۳۳۶) نیز ہندوؤں نے اپنے کاروبار وغیرہ سب الگ کرلیے تھے اور مسلمانوں کے لیے اچھی خاصی مشکل درپیش تھی۔انہی دنوں میں لاہور کی ایک مسجد کے باہر کسی ہندو نے تمام مسلمانوں کو زہرآمیز چیز کھلا دی جس کے نتیجہ میں کافی تشویشناک حالتیں دیکھنے میں آئیں۔جس پر مختلف آراملتی ہیں۔اخبار چودہویں صدی (رولپنڈی) کے بقول کسی ہندو نے مسجد کے باہر کھڑے ہوکر ہر آنے جانے والے نمازی کو زہر آمیز خوربانی ختم کی خوربانی کہہ کرکھانے کو دے دیں۔ نمازی واپسی پر یہ خوربانیاں لےکر اپنے گھروں کو ہولئے اور گھروں میں جاکر اپنے بال بچوں میں بھی تقسیم کیں۔امام مسجد کا لڑکا خوربانی کھانے کے ۱۵/۲۰منٹ بعد گرگیا۔جسے بعد میں دودھ اور گھی وغیرہ پلایا گیا تو اسہال سے بچت ہوگئی۔کل تقریباً ۴۰ افراد کی طبیعت ناساز ہوئی۔ جن میں سے ایک شخص نبی بخش نامی ہلاک ہوگیا۔ اخبار چودہویں صدی (راولپنڈی)یکم اپریل۱۸۹۷ء)

اخبار ھذا کے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے تاج الاخبار لکھتا ہے کہ مذکورہ بالا معلومات اگر درست ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کھانے والے ۴۰ تھے اور مرنے والا صرف ایک۔یہ بھی ممکن ہے کہ یہ پھل کسی محمڈن نے ہی خرید کر مولوی صاحب و دیگر نمازیوں کو پیش کیا ہو اور پھل خراب ہونے کےباعث طبیعت خراب ہوئی۔ (تاج الاخبار ۳؍اپریل ۱۸۹۷ء/منقول از رپورٹ مقامی اخبارات۱۸۹۷ء شائع کردہ پنجاب گورنمنٹ پریس لاہور)

اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲۹؍مارچ۱۸۹۷ء… کل رات غیر معمولی پیمانے پر زہر کھانے کا ایک wholesale معاملہ پیش آیا۔ جب مسجد میں کئی مسلمان عصر کی نماز پڑھ رہے تھے، ایک متولی مٹھائی لایا جسے مولوی صاحب نے برکت دی اور حاضرین میں تقسیم کیا، جن میں سے سبھی بعد میں کم و بیش شدید بیماری میں گرفتار ہو گئے، ان کی تعداد قریباً چودہ ہو گئی۔ کافی بے حس، جن میں سے ایک مر گیا ہے۔ پولیس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے، لیکن ابھی تک کوئی سراغ یا شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ ایک قیاس یہ ہے کہ یہ مقدمہ لاہور میں حالیہ سنسنی خیز قتل کے سلسلے میں انتقامی کارروائی ہو سکتی ہے۔ (اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲۹؍مارچ۱۸۹۷ء)

اسی طرح ٹائمز آف انڈیا۱۰؍مئی۱۸۹۷ءنے خوبانیوں کے علاوہ جنگلی بیروں اور پھر پرندوں کو زہر دینے کے واقعات کو بھی مذکورہ بالا واقعہ میں شامل کیا ہے۔ (ٹائمز آف انڈیا۱۰؍مئی۱۸۹۷ء)

یادگار ی فنڈ

لیکھرام کے ناگہانی قتل کے بعد آریہ سماج نے لیکھرام کے نام سے ایک میموریل فنڈ کا اجراکیا جس کا مقصد لیکھرام کی کوششوں کو آگے بڑھانا تھا۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے اوائل میں ۵۰ہزار کے وعدہ جات وصول کیے گئے۔

اخبار پایونیر۱۸؍مارچ ۱۸۹۷ء کے بقول:

… it was resolved to perpetuate Lekh Ram‘s memory by a statue or bust, and, most important of all, to raise a special fund to secure the wide circulation of his writings.

… یہ فیصلہ کیا گیا کہ لیکھ رام کی یاد کو مجسمے کے ذریعے برقرار رکھا جائے، اور سب سے اہم بات، لیکھرام کی تحریروں کی وسیع گردش کو محفوظ بنانے کے لیے ایک خصوصی فنڈ اکٹھا کیا جائے۔ (ٹائمز آف انڈیا۱۰؍مئی۱۸۹۷ء)

ست دھرم پرچارک(جالندھر) ۳۰؍اپریل۱۸۹۷ء نے عوام کو یہ بتانےکے بعد کہ آریہ پرتی ندھی سبھا پنجاب نے پنڈت لیکھ رام کے شروع کردہ کام کو آگے بڑھانے کی منظوری دے دی ہے،اس بات پر زور دیا کہ آریوں کو اپنی توانائیوں کو کم ہونے سے بچانا چاہیے۔ ضروری ہےکہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فنڈز اکٹھا کرتے رہیں اور اس طرح محمدی جنگجوؤں کو، جنہوں نے اپنے مذہب کو تلوار سے پھیلایا، یہ باور کرائیں کہ سماج ان سے نہیں ڈرتا، اور یہ کہ آریہ اپنے مذہب کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ایسے لوگوں کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھاکریں۔ (ست دھرم پرچارک(جالندھر) ۳۰؍اپریل۱۸۹۷ء)

پنجاب سماچار (لاہور)، ۲۴؍جولائی ۱۸۹۷ء: پٹیالہ میں ’’(شہید) لیکھ رام کلب‘‘کے نام سے ایک کلب شروع کیا گیا ہے۔جس کا مقصد ہندو برادری کی فلاح و بہبود کو فروغ دینا ہوگا۔ سماچار نے کچھ آیات بھی شائع کی ہیں جن میں لیکھرام کی بہت تعریف کی گئی ہے۔(پنجاب سماچار (لاہور)، ۲۴ جولائی ۱۸۹۷ء/منقول از رپورٹ مقامی اخبارات۱۸۹۷ء شائع کردہ پنجاب گورنمنٹ پریس لاہور)

ست دھرم پرچارک یکم اکتوبر ۱۸۹۷ء کی ’’آریہ مسافر‘‘ نامی اشاعت میں لکھتا ہے کہ ابھی تک لیکھرام میموریل فنڈ میں محض ۱۷؍ ہزار روپے کے وعدے ہوسکے ہیں۔ (ست دھرم پرچارک یکم اکتوبر ۱۸۹۷ء/منقول از رپورٹ مقامی اخبارات۱۸۹۷ء شائع کردہ پنجاب گورنمنٹ پریس لاہور)

اختتامیہ

حضور ؑنے اس کی نسبت اپنے ایک اشتہار میں فرمایا تھا کہ ’’یہ بالکل غلط بات ہے کہ لیکھرام سے مجھ کو کوئی ذاتی عداوت ہے مجھ کو ذاتی طور پر کسی سے بھی عداوت نہیں بلکہ اس شخص نے سچائی سے دشمنی کی اور ایک ایسے کامل اور مقدس کو جو تمام سچائیوں کا چشمہ تھا، توہین سے یاد کیا- اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے ایک پیارے کی دنیا میں عزت ظاہرکرے۔ والسلام علیٰ من اتبع الہُدیٰ ۔‘‘ (برکات الدعا صفحہ ۵)

ایک اور موقع پر فرمایا:یقیناً یہ سمجھنا چاہیےکہ جو چُھری لیکھرام پر چلائی گئی یہ وہی چھری تھی جو وہ کئی برس تک ہمارے سیدو مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی میں چلاتا رہا۔‘‘(سراج منیر، روحانی خزائن جلد۱۲ صفحہ ۱۲۔۱۳)

پیشگوئی کے پورا ہونے سے متعلق فرمایا: ’’ لیکھرام کی خط و کتابت جو مجھ سے ہوئی اور جس اصرار سے اپنے لئے اُس نے پیشگوئی طلب کی وہ رسالہ مدت سے چھپ چُکا ہے اور قادیان کے ہندو بھی قریب دو سو کے اس بات کے گواہ ہیں کہ لیکھرام قریباً دو ماہ تک پیشگوئی کے تقاضا کے لئے پشاور سے آ کر قادیان میں رہا۔ مَیں کبھی اس کے پاس پشاور نہیں گیا اس کے سخت اصرار اور بد زبانی کے بعد اس کے تحریر لینے کے بعد اس کے حق میں پیشگوئی کی گئی تھی۔ اور یہ دونوں پیشگوئیاں چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھیں اس لئے پوری بھی ہو گئیں۔ اور مجھے اس سے خوشی نہیں بلکہ رنج ہے کہ کیوں ان دونوں صاحبوں نے اس قدر اصرار کے ساتھ پیشگوئی حاصل کی جس کا نتیجہ ان دونوں کی موت تھی۔مگر مَیں اس الزام سے بالکل الگ اور جُدا ہوں کہ کیوں پیشگوئی کی گئی۔ لیکھرام نے اپنی تحریروں کے ذریعہ سے یہ ارادہ بار بار ظاہر کیا تھا کہ اس وجہ سے مَیں نے پیشگوئی اصرار سے طلب کی ہے کہ تا جُھوٹا ہونے کی حالت میں میں ان کو ذلیل کروں۔ مَیں نے اس کو اور عبد اللہ آتھم کو یہ بھی کہا تھا کہ پیشگوئیاں طلب کرنا عبث ہے کیونکہ اس سے پہلے تین ہزار کے قریب مجھے آسمانی نشان ظاہر ہوچکے ہیں جن کے گواہ بعض قادیان کے آریہ بھی ہیں۔ اُن سے حلفاًدریافت کرو اور اپنی تسلّی کر لو… مگر مجھے اس بات پر سخت مجبور کر دیا کہ مَیں ان کے بارے میں کوئی پیشگوئی کروں…یہ بھی گزارش کرنا ضرورہے کہ اگر لیکھرام کے مارے جانے کے وقت میں میری نسبت آریوں کو شکوک پیدا ہوئے تھے تو ان شکوک کی بناء بجز اس پیشگوئی کے اور کچھ نہ تھا جس کو لیکھرام نے آپ مانگا تھا اور مجھ سے پہلے آپ مشتہر کیا تھا۔ پھر اس میں میرے پر کیا الزام ہے۔ نہ مَیں نے خود بخود پیشگوئی کی اور نہ مَیں نے اس کو مشتہر کیا۔اور اگر صرف شک کا لحاظ کیا جائے تو ہندوؤں نے سرسید احمد خان کے سی ایس آئی پر بھی قتلِ لیکھرام کا شُبہ کیا تھا۔فقط۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد سوم /۲۰جنوری ۱۸۹۹ء)

پریس رپورٹس میں لیکھرام کے واقعہ کا ذکر

پنجاب حکومت کی جانب سے شائع کی جانے والی پریس رپورٹس (بابت مقامی پریس ) میں لیکھرام کے قتل کے واقعہ سے متعلق اخباروں میں بےشمار عناوین کے تحت خبریں درج ہیں، جن میں سے چنیدہ یہ ہیں:

Murder of Lekhram, Arya at Lahore

Mirza Ghulam Ahmads Prophecy

Pandit Lekh rams Murder

Mirza Ghulam Ahmad of Kadian

The Murder of Pandit Lekhram

The Prophecy of Mirza Ghulam Ahmad of Kadian

The Murder of Lekhram

Hindus and Muhammadans of Lahore

Sanatanists and Lekhram

Compilation of biography of Lekhram

The Lekhram Memorial Fund

لیکھرام کے قتل سے متعلق مجلس مسلمانان اٹاوہ میں پڑھی جانے والی ایک نظم(چودہویں صدی ۲۳؍اپریل۱۸۹۷ء)(رپورٹ مقامی اخبارات۱۸۹۷ء شائع کردہ پنجاب گورنمنٹ پریس لاہور)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button