سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی پاکیزہ نمازیں… عشق الٰہی کا نمونہ (قسط اول)

(عبدالسمیع خان)

مسجدمیرا مکان، صالحین میرے بھائی اور یاد الٰہی میری دولت ہے۔

نماز با جماعت،تہجد و نوافل،اذان،امامت،نماز اشراق،بیماری اور سفر میں اہتمام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا اور اپنی جماعت کا شناختی نشان نماز کو قرار دیا ہے۔ (ظہور احمد موعود صفحہ۵۵)اور فرمایا کہ تم پنجوقتہ نماز اوراخلاقی حالت سے شناخت کئے جائو گے۔(مجموعہ اشتہارات جلد۳صفحہ۴۸) حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ ارکانِ اسلام میں سب سے زیادہ زور نماز پر دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ نمازیں سنوار کر پڑھا کرو۔(سیرت المہدی جلد۳صفحہ۱۲۶)

اس معیار کو سب سے عمدگی اور بلندی سے حاصل کرنے والے خود حضرت مسیح موعودؑ تھے۔ آپ کی ابتدائی زندگی پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی دلچسپیوں کاواحد محور نماز اور مرکز نماز تھا۔ اور اگر خداتعالیٰ آپ کو اس گوشہ گمنامی سے نکل کر توحید کا پرچم بلند کرنے کا حکم نہ دیتا تو آپ اسی طرح ساری عمر گزار دیتے دعویٰ ماموریت کے بعد تو آپؑ نے قیامِ نماز اور عبودیتِ الٰہی کے ایسے نمونے دکھائے جورہتی دنیا تک مشعل راہ رہیں گے۔ آئیں آپ کی خلوت وجلوت کے کچھ نظارے ملاحظہ کرتے ہیں۔

مسجد سے فطری لگاؤ

آپؑ کی ابتدائی زندگی اس حدیث کا منظر پیش کرتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن سات آدمی سایۂ رحمتِ الٰہی کے نیچے ہوں گے ان میں سے ایک وہ ہو گا جس کا دل خانہ خدا سے اٹکارہتا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان باب من جلس فی مسجد حدیث ۶۲۰)

حضرت مسیح موعودؑ کو شروع سے ہی نماز کے ساتھ گہرا تعلق اور ایک فطری لگاؤ تھا جو عمر کے آخرتک گویا ایک نشہ کی صورت میں آپؑ کے دل ودماغ پرطاری رہا۔ آپؑ کے ابتدائی سوانح میں یہ عجیب واقعہ ہے کہ جب آپؑ کی عمر نہایت چھوٹی تھی تو اس وقت آپ اپنی ہم عمرلڑکی سے( جو بعد کو آپ سے بیاہی گئی) فرمایا کرتے تھے کہ دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے۔ یہ فقرہ بظاہر نہایت مختصر ہے مگر اس سے عشق الٰہی کی ان لہروں کا پتہ چلتا ہے جو مافوق العادت رنگ میں شروع سے آپ کے وجود پرنازل ہو رہی تھیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے انہی فطری رجحانات کا نقشہ کھینچتے ہوئے ایک مقام پرلکھا ہے کہ المَسجدُ مَکَانِیْ وَالصَّالِحُوْنَ اِخْوَانِیْ وَ ذِکْرُاللّٰہِ مَالِیْ وَخَلْقُ اللّٰہِ عَیَالِیْ۔ فرماتے ہیں کہ اوائل ہی سے مسجد میرا مکان، صالحین میرے بھائی، یاد الٰہی میری دولت ہے اور مخلوق خدا میرا عیال اور خاندان ہے۔ (تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ۵۳)

قادیان کے قریب کے گاؤں کا ایک معمر ہندو جاٹ بیان کیا کرتا تھا کہ میں (حضرت) مرزا غلام احمد صاحب سے بیس سال بڑا ہوں۔ آپ کے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے پاس میرا بہت آنا جانا تھا میرے سامنے کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی بڑا افسر یا رئیس مرزا غلام مرتضیٰ صاحب سے ملنے کے لئے آتا تھا تو باتوں باتوں میں ان سے پوچھتا تھا کہ مرزا صاحب آپ کے بڑے لڑکے (یعنی مرزا غلام قادر) کے ساتھ تو ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ لیکن آپ کے چھوٹے بیٹے کو کبھی نہیں دیکھا۔ وہ جواب دیتے تھے کہ ’’ہاں میرا دوسرا لڑکا غلام قادرسے چھوٹا ہے تو سہی پر وہ الگ ہی رہتا ہے‘‘…… پھر وہ کسی کو بھیج کر مرزا صاحب کو بلواتے تھے چنانچہ آپ آنکھیں نیچی کئے ہوئے آتے اور والد صاحب کے پاس ذرا فاصلہ پر بیٹھ جاتے بڑے مرزا صاحب فرماتے ’’اب تو آپ نے اس دلہن کو دیکھ لیا‘‘۔ وہ کہتے تھے کہ میرا یہ بیٹا مسیتڑ ہے نہ نوکری کرتا ہے نہ کماتا ہے اور پھر وہ ہنس کر کہتے کہ چلو تمہیں کسی مسجد میں مقرر کروا دیتا ہوں۔ دس من دانے تو گھر میں کھانے کو آ جایا کریں گے۔(تذکرة المہدی صفحہ ۲۹۹-۳۰۰ از پیر سراج الحق نعمانی)

آپ کے خادم مرزا اسماعیل بیگ صاحب کی روایت ہے کہ کبھی حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مجھے بلاتے اور دریافت کرتے کہ ’’سنا تیرا مرزا کیاکرتا ہے میں کہتا تھا کہ قرآن پڑھتے ہیں۔ اس پر وہ کہتے کہ کبھی سانس بھی لیتا ہے۔ پھر یہ پوچھتے کہ رات کو سوتا بھی ہے ؟ میں جواب دیتا کہ ہاں سوتے بھی ہیں۔ اور اٹھ کر نماز بھی پڑھتے ہیں۔ اس پرمرزا صاحب کہتے کہ اس نے سارے تعلقات چھوڑ دئیے ہیں۔ میں اوروں سے کام لیتا ہوں۔ دوسرا بھائی کیسا لائق ہے مگر وہ معذور ہے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ۶۵)

حضرت مسیح موعودؑ کامطالعہ میں یہ انہماک اور دلی شغف حضور کے والد صاحب کی وفات تک بدستور قائم رہا۔ ایک ہندو پنڈت دیوی رام جو ۱۸۷۵ء میں نائب مدرس ہو کر قادیان گیا بیان کرتا ہے کہ مرزا صاحب پانچ وقت نماز کے عادی تھے۔ روزہ رکھنے کے عادی تھے اور خوش اخلاق متقی اور پرہیز گار تھے۔ (سیرة المہدی جلد ۳صفحہ۱۷۹) آپ ہندو مذہب اور عیسائی مذہب کی کتب اور اخبارات کا مطالعہ فرماتے رہتے تھے۔ اور آپ کے اردگرد کتابوں کاڈھیر لگا رہتا تھا۔ انہیں دنیا کی اشیاء میں سے مذہب کے ساتھ محبت تھی۔ مرزا صاحب مسجد یا حجرہ میں رہتے تھے۔ آپ کے والد صاحب آپ کو کہتے تھے کہ غلام احمد تم کو پتہ نہیں کہ سورج کب چڑھتا ہے اور کب غروب ہوتا ہے اور بیٹھتے ہوئے وقت کا پتہ نہیں جب میں دیکھتا ہوں چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔(سیرت المہدی جلد ۳صفحہ۱۸۲,۱۷۸) ان دنوں،نیکی،تقویٰ اور طہارت میں مرزا غلام احمدصاحب…مسلمانوں میں مشہور تھے…مرزا غلام احمد صاحب کو ہم نے پنج وقت نماز پڑھتے دیکھا ہے۔تمام خاندان میں سے صرف مرزا غلام احمد صاحب کو مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا ہے…میری موجودگی میں مرزا غلام احمد صاحب نے کوئی عیب نہیں کیا۔اورنہ میں نے کبھی اس وقت سنا تھا۔صرف ایک سکھ کو مسلمان کر دیا تھا اس کے سوا میں نے کوئی عیب نہ دیکھا ہے اور نہ سنا ہے۔ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۷۵۹ )

اس دور میں آپ حافظ معین الدین صاحب ؓکے خرچ کے اس لیے متکفل ہو گئے اور انہیں اپنے ساتھ رکھا کہ نماز باجماعت ادا کرلیا کریں گے۔جب حضرت حافظ معین الدین صاحب کو حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہونے کی عزت ملی اس وقت ان کی عمر چودہ پندرہ برس کی تھی۔ حافظ صاحب نہایت سقیم حالت میں تھے۔حضرت مسیح موعودؑ نے ان کو اس حالت میں دیکھا۔ اور اپنے ساتھ بلا کر لے گئے اور کھانا کھلایا اور پھر کہا کہ حافظ تو میرے پاس رہا کر۔ حافظ صاحب نے سمجھا کہ شایدمجھے کوئی کام کرنا پڑے۔اس نے کہاکہ مجھ سے کوئی کام تو ہو نہیں سکے گا۔ کیونکہ میں معذور ہوں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ حافظ! کام تم نے کیا کرنا ہے۔ اکٹھے نماز پڑھ لیا کریں گے۔ اور تو قرآن شریف یاد کیا کر۔ دراصل حضرت مسیح موعودؑ کی غرض یہ تھی کہ باجماعت نماز کے لئے ایک انتظام ہو جائے۔ (اصحاب حمد جلد ۱۳صفحہ۲۸۷۔۲۸۸)

آپؑ کی سیر وتفریح بھی مسجد سے وابستہ تھی۔ عموماً مسجد میں ہی ٹہلتے رہتے اور محو ہو کر اتنا ٹہلتے کہ جس زمین پرٹہلتے وہ دب دب کر باقی زمین سے متمیز ہو جاتی۔ (سیر ت مسیح موعودؑ از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ۶۹)مرز ا دین محمد صاحبؓ آف لنگروال کی چشم دید شہادت ہے کہ قریباً ۱۸۷۲ء کا ذکر ہے میں چھوٹا تھا مرزا نظام الدین صاحب وغیرہ میرے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔میں عام طور پر حضرت مرزا صاحب کے والد صاحب کے گھر بوجہ رشتہ داری آتا جاتا تھا۔ میں ان کے پاس عام طور پر رہتا تھا مگر حضرت مرزا صاحب کی گوشہ نشینی کی وجہ سے میں یہی سمجھتا تھا کہ مرز ا غلام مرتضیٰ صاحب کا ایک ہی لڑکا غلام قادر ہے۔ مگر مسجد میں میں مرزا صاحب کو بھی دیکھتا۔ میر ناصر نواب صاحب آیا کرتے تھے۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ یہ اپنے مکان میں تشریف لے جا رہے ہیں۔ دوسرے دن میں نے دیکھا کہ آپ نماز پڑھ کر گھر میں تشریف لے جا رہے ہیں میں آپ کے والد صاحب کے پاس بیٹھا تھا۔ میں بھی جلدی سے اٹھ کر آپ کی طرف گیا۔ آپ اپنے کمرہ میں داخل ہو کردروازہ بند کرنے لگے تھے کہ میں بھی جا پہنچا۔ آپ نے دروازہ کھول دیا اور دریافت کیا کہ کیا کام ہے؟ میں نے کہا میں ملنا چاہتا ہوں۔ آپ نے مجھے وہاں بٹھایا اور دریافت کیاکہ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے بتایا کہ لنگروال سے۔ اس کے بعد مجھے آپ کی واقفیت ہو گئی۔ آپ ایک بالاخانہ پر عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ اور گھر سے جب روٹی آتی تو اس کی ایک کھڑکی سے بذریعہ چھینکا روٹی اوپر لے لیتے۔ اس کے بعد آپ سے مجھے انس ہو گیا اور گھر سے آپ کی روٹی میں لایا کرتا۔میں آپ کے پاس ہی رہتا تھا اور اسی کمرہ میں سوتا تھا۔ آپ نے استخارہ بھی سکھایا۔ عشاء کی نماز کے بعد دو رکعت پڑھنے کے بعد گفتگو نہیں کرنی ہوتی تھی۔ صبح کو جو خواب آتی میں وہ آپ کو بتلا دیتا۔ آپ کے پاس فارسی کا ایک تعبیر نامہ بھی تھا آپ اسے دیکھتے تھے۔ آپ نے مجھے یہ بھی کہا کہ دونوں گھروں میں (مرزا امام دین اور آپ کا مکان مراد تھا) استخارہ کا طریق بتلادو۔ اور اس طریق سے وہ سویا کریں۔ اور یہ بھی آپ نے کہا تھا کہ صبح جا کر ان کی خوابیں سنا کرو…۔

آپ مسجد میں فرض نماز ادا کرتے۔ سنتیں اور نوافل مکان پر ہی ادا کرتے تھے عشاء کی نماز کے بعد آپ سو جاتے تھے اور نصف رات کے بعد آپ جاگ پڑتے اور نفل ادا کرتے۔ اس کے بعد قرآن مجید پڑھنا۔ مٹی کا دیا آپ جلاتے تھے۔ تلاوت فجر کی اذان تک کرتے۔ جس کمرہ میں آپ کی رہائش تھی وہ چھوٹا سا تھا اس میں ایک چارپائی اور ایک تخت پوش تھا۔ چارپائی تو آپ نے مجھے دی ہوئی تھی اور خود تخت پوش پر سوتے تھے۔ فجر کی اذان کے وقت آپ پانی کے ہلکے ہلکے چھینٹوں سے مجھے جگاتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے دریافت کیا کہ حضور مجھے ویسے ہی کیوں نہیں جگادیتے۔ آپ نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریق تھا اس سنت پر میں کام کرتا ہوںتا کہ جاگنے میں تکلیف محسوس نہ ہوں۔ نماز فجر کے بعد آپ واپس آ کر کچھ عرصہ سو جاتے تھے کیونکہ رات کا اکثر حصہ عبادت الٰہی میں گذرتا تھا۔ (تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ۱۲۰۔۱۲۱)

حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ اپنی اہلیہ کے علاج کی غرض سے ۱۸۷۶ء کے اوائل میں قادیان آئے اور حضرت مسیح موعودؑ کے والد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب سے علاج کراتے رہے۔اگلے سال ۱۸۷۷ء میں حضرت میر صاحب کی مرزا غلام قادر صاحب کے ذریعہ حضرت مسیح موعودؑ سے پہلی ملاقات ہوئی۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے بیان کے مطابق یہ وہ زمانہ تھاجب کہ حضرت اقدس ’’براہین احمدیہ‘‘ لکھ رہے تھے۔ حضرت میر صاحب کے زیادہ مراسم گو آپ کے بڑے بھائی سے تھے لیکن ابتدائی ملاقات ہی سے آپ کے دل پر حضرت مسیح موعودؑ کی تقویٰ شعاری، عبادت اور ریاضت اور گوشہ گزینی نقش ہو گئی جس کا کبھی کبھی گھر میں آ کر اظہار کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ’’مرزا غلام قادر کا چھوٹا بھائی بہت نیک اور متقی ہے‘‘چند ماہ بعد ان کی تبدیلی قادیان سے لاہور میں ہوگئی تو وہ چند روز کے لیے اپنے اہل خانہ کوحضور کے مشورہ کے احترام میں بے تامل آپ ہی کے ہاں چھوڑ گئے اور جب وہاں مکان کا بندوبست ہو گیا تو پھر انہیں لے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بھی عجب وقت تھا حضرت صاحب گوشہ نشین تھے، عبادت اور تصنیف میں مشغول رہتے تھے۔ لالہ شرمپت اور ملاوامل کبھی کبھی حضرت صاحب کے پاس آیا کرتے تھے اور حضرت صاحبؑ کے کشف اور الہام سنا کرتے تھے بلکہ کئی کشوف اور الہاموں کے پورے ہونے کے گواہ بھی ہیں۔حضرت میر صاحب ابتداءً قادیان میں رہائش پذیر ہوئے تو انہیں حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ اکثر نماز پڑھنے کاموقعہ ملتا اور وہ نماز کے بعد حضور سے علمی اور فقہی مسائل پر بھی گفتگوکیا کرتے تھے۔ (تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ۱۳۱)

وضو اور طہارت

نماز کا بڑا گہر اتعلق ظاہری وباطنی پاکیزگی سے ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ کے معمولات اور عادت میں یہ بات داخل تھی کہ آپ ہمیشہ باوضو رہتے حضرت ام المؤمنین ؓروایت کرتی ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ عام طور پر ہروقت باوضورہتے تھے۔(سیرت المہدی جلداول صفحہ۲) حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ ہروقت باوضو رہتے۔رفع حاجت سے فارغ ہو کر آتے تھے تو وضو کر لیتے تھے سوائے اس کے کہ بیماری یاکسی اور وجہ سے رک جاویں۔ (الفضل ۲۷؍جون ۱۹۹۸ءصفحہ۳) حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ عرفانی گواہی دیتے ہیں کہ مختلف سفروں کے دوران خود میں نے بھی اس امر کا مشاہدہ کیا کہ آپؑ جب کبھی پیشاب یا رفع حاجت کر کے آتے تو وضو کر لیتے تھے۔ (سیر ت مسیح موعودؑ صفحہ۷۰)حضورؑ سردیوں میں عام طور پر گرم پانی سے وضو کرتے تھے۔ (سیرت مسیح موعودؑ صفحہ۳۴۵) آپ نماز کے لیے وضو ہمیشہ گھر میں کر کے جایا کرتے تھے۔ (الفضل ۳؍جنوری ۱۹۳۱ء)

نماز کی اذان

حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ اوائل میں حضرت مسیح موعودؑ خود ہی اذان دیا کرتے تھے اور خود ہی نماز میں امام ہوا کرتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد اول صفحہ۱۶۲)پھر فرماتے ہیں:دوسری شادی سے قبل حضور دن کو مسجد مبارک کے حجرہ میں اور رات کو مسجد مبارک کی چھت پر مقام فرمایا کرتے تھے اور یہ عاجز بھی اسی جگہ روز وشب رہا کرتا تھا۔ ان ہی ایام میں حضرت اقدس مسیح موعوداذان بھی خود ہی دیا کرتے تھے اور جماعت بھی آپ ہی کرایا کرتے تھے صرف دو تین مقتدی ہوا کرتے تھے۔ ایک یہ عاجز اور ایک حافظ حامد علی صاحب اور ایک آدھ کوئی اور۔ (سیرت مسیح موعودؑ صفحہ۳۱)

حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ بیان کرتے ہیں:مسجد مبارک باوجود اپنی پہلی تنگی کے ہم پر فراخ رہا کرتی تھی۔ جس میں بارہا حضرت مسیح موعودؑ تن تنہا نماز کے لئے تشریف لے آیا کرتے تھے اور بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ باوجود انتظار کے جب او رکوئی نہ پہنچا تو حضور نے کسی کو بلوا کراذان کہلوائی۔ بلکہ ایک مرتبہ مجھے یاد ہے کہ حضور نے خود بھی اذان دی حضورکی آواز گو ہلکی تھی مگر نہایت دلکش اور سریلی آواز تھی جس میں لحن دائودی کی جھلک اور گویا نفخ صور کا سماں بندھ رہا تھا۔ (اصحاب احمد جلد ۹صفحہ۱۹۳)حضرت پیرسراج الحق صاحب نعمانی ؓبیان فرماتے ہیں : جب حضرت اقدس مسیح موعودؑ نماز پڑھتے خواہ مسجد میں یا مکان میں یا جنگل میں اذان ضرور کہلواتے۔ حالانکہ لودھیانہ میں جس مکان میں حضرت کا قیام تھا اس کے قریب ہی مسجد تھی اور اس مسجد میں برابر اذان ہوتی تھی لیکن پھر بھی آپ ا ذان نماز کے وقت دلوالیتے۔(تذکرةالمہدی صفحہ۷۰)

حضرت میاں امام الدین سیکھوانیؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے وقت میں حافظ معین الدینؓ عرف معنا مؤذن مقرر تھا۔ اور کچھ وقت احمد نور کابلی بھی مؤذن رہے ہیں۔ اور میں بھی کچھ عرصہ اذان دیتا رہا ہوں۔ اور دوسرے دوست بھی بعض وقت اذان دیتے تھے۔ گویا اس وقت مؤذن کافی تھے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ دو مؤذن ایک ہی وقت میں اذان دینے کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے۔ ایک روز ایک شخص نےاذان دینی شروع کی۔ تو حافظ معین الدین نے بھی شروع کر دی۔ پھر حافظ صاحب ہی اذان دیتے رہے اور دوسرا شخص خاموش ہو گیا۔ اس وقت شوق کی وجہ سے مؤذنوں میں بھی جھگڑا ہوتا رہتا تھا۔ ایک کہتا تھا کہ میں نےاذان دینی ہے اور دوسرا کہتا تھا میں نے دینی ہے۔ بعض وقت مولوی عبدالکریم صاحبؓ اذان دےدیا کرتے تھے۔ (سیر ت المہدی جلد ۳صفحہ۲۸۴)

نماز باجماعت کا قیام

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: نمازوں کے اوقات کی پابندی کا آپ پورا خیال رکھتے تھے۔ پانچوں وقت کی نماز کے واسطےمسجدمیں تشریف لاتے تھے مگر وضو ہمیشہ گھر میں کر کے مسجدجاتے تھے۔ جمعہ کے دن پہلی سنتیں بھی گھر میں پڑھ کر مسجدتشریف لے جایا کرتے تھے۔ جب تک مسجد مبارک تیار نہیں ہوئی۔ آپ سب نمازوں کے واسطے بڑی مسجد اقصیٰ کو تشریف لے جایا کرتے تھے۔ (روزنامہ الفضل ۳؍ جنوری ۱۹۳۱ء)حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ؓسیالکوٹی کہتے ہیں کہ حضور نےبار ہا فرمایا مجھے اس بات سے زیادہ کسی بات کا رنج نہیں ہوتا کہ جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھی جائے مجھے یاد ہے جن دنوں آدمیوں کی آمدورفت کم تھی آپؑ بڑی آرزو ظاہر کیا کرتے تھے کہ کاش اپنی ہی جماعت ہو جس سے مل کر نماز پڑھا کریں۔ (سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ ۴۳)

حضور کے دعویٰ مسیحیت کے ایام کا ذکر کرتے ہوئے حضرت پیر سراج الحق صاحبؓ نعمانی تحریر فرماتے ہیں: میں ۱۸۸۲ء سے حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اس وقت آپ کی ہلکی داڑھی تھی تب سے وفات کے کچھ ماہ پیشتر تک حاضر خدمت رہا ہمیشہ نماز باجماعت کا حضرت کو پابند پایا۔ (تذکرة المہدی صفحہ۶۹۔۷۰)حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت مسیح موعودؑ مسجد مبارک میں نماز صبح کے وقت کچھ پہلے تشریف لے آئے ابھی کوئی روشنی نہ ہوئی تھی۔ اس وقت آپ مسجد کے اندر اندھیرے میں ہی بیٹھے رہے۔ پھر جب ایک شخص نے آ کر روشنی کی تو فرمانے لگے کہ دیکھو روشنی کے آگے ظلمت کس طرح بھاگتی ہے۔ (سیر ت المہدی جلد ۳صفحہ۲۸۴)

حضرت مسیح موعود ؑکی خوابوں میں بھی کئی دفعہ مسجد اور نماز کا ذکر ملتا ہے جو آپ کے پاک جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک مثال ملا حظہ ہو۔ ۷؍اکتوبر ۱۹۰۵ء کا رئویا ہے دیکھا کہ میں گورداسپور سے آیا ہوں اور ایک مضبوط گھوڑے پر سوار ہوں گھوڑے پر ہی میں نے نماز پڑھی ہے اور سجدہ بھی کیا ہے۔ (بدر ۱۳؍اکتوبر ۱۹۰۵ءتذکرہ صفحہ ۳۸۳)

بیماری میں نماز

حضورؑ کے دعویٰ مسیحیت کے ایام کا ذکر کرتے ہوئے حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ تحریر فرماتے ہیں:میں آپؑ کی خدمت میں تین مہینے تک رہا اس زمانہ میں حضرت اقدس سخت بیمار تھے اور نماز باجماعت کا اس حالت بیماری اور ضعف میں نہایت التزام رکھتے تھے۔(تذکرة المہدی صفحہ۶۹۔۷۰)حضور نے ایک بار فرمایا: میرے سر کی حالت آج بھی اچھی نہیں چکر آ رہا ہے جب جماعت کا وقت آتا ہے تو اس وقت خیال گزرتا ہے کہ سب جماعت ہو گی اور میں شامل نہ ہوں گا اور افسوس ہوتا ہے اس لئے افتاں و خیزاں چلا آتا ہوں۔ (ملفوظات جلد ۷ صفحہ۲۱۲)بہت ابتدائی زمانہ کی بات ہے حضرت مستری فقیر محمد صاحب ؓ اپنے والد جیوا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور کوٹھے پر سے گر پڑے ہم آپ کی عیادت کے لئے گئے آپ کو ہوش آئی تو پہلا سوال یہ کیا کہ نماز کا وقت ہؤا ہے یا نہیں۔(رجسٹر روایات صحابہ جلد ۱ صفحہ ۵۸۔الفضل انٹرنیشنل ۲۸؍جنوری ۲۰۲۰ء )حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کو میں نے بار ہا دیکھا کہ گھر میں نماز پڑھاتے تو حضرت ام المؤمنینؓ کو اپنے دائیں جانب بطور مقتدی کے کھڑا کر لیتے۔ (سیرت المہدی جلد ۱ روایت ۶۹۶)

صف اول میں

حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نماز کے وقت پہلی صف میں دوسرے مقتدیوں کے ساتھ مل کر کھڑے ہوتے تھے لیکن پھر بعض ایسی باتیں ہوئیں کہ آپ نے اندر حجرہ میں امام کے ساتھ کھڑا ہونا شروع کر دیا اور جب حجرہ گرا کر مسجد ایک کی گئی تو پھر بھی آپ امام کے ساتھ ہی کھڑے ہوتے رہے۔ (سیرت المہدی جلد۱ روایت ۳۰۰) حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ قدیم مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعودؑ نماز باجماعت میں ہمیشہ پہلی صف کے دائیں طرف دیوار کے ساتھ کھڑے ہوا کرتے تھے۔ امام اگلے حجرہ میں کھڑا ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ مسجد کی توسیع ہو گئی یہاں بھی آپ دوسرے مقتدیوں سے آگے اما م کے پاس ہی کھڑے ہوتے رہے۔ مسجد اقصیٰ میں جمعہ اور عیدین کے موقعہ پر آپ صف اول میں عین امام کے پیچھے کھڑے ہوا کرتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد۳صفحہ۲۶۸)

سفروں میں اہتمام نماز

حضرت مسیح موعودؑ کو دعویٰ سے قبل اور دعویٰ کے بعد بھی بار ہا مختلف مصالح کے لیے سفر کرنے پڑے مگر ان میں بھی آپ نماز کا بھرپور اہتمام کرتے۔حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے بیان کیا کہ’’حضرت مسیح موعودؑ کے ملازم غفار کا کام اتنا ہی تھا کہ جب آپ مقدمات کے لئے سفر کرتے تو وہ ساتھ ہوتا اور لوٹا اور مصلّٰی اس کے پاس ہوتا۔ ان دنوں آپ کا معمول یہ تھا کہ رات کو بہت کم سوتے اور اکثر حصہ جاگتے اور رات بھر نہایت رقت آمیز لہجہ میں گنگناتے رہتے۔‘‘(شمائل احمد صفحہ۲۸)حضرت بھائی محمود احمد صاحب ؓبیان کرتے ہیں کہ جن دنوں کرم دین والا مقدمہ گورداسپور میں دائر تھا۔ عموماً حضرت اقدس مقدمہ کی تاریخوں پر قادیان سے علی الصبح روانہ ہوتے تھے اور نماز فجر راستہ میں ہی حضرت مولوی فضل الدین صاحبؓ بھیروی کی امامت میں ادا فرماتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد ۳صفحہ۳۱)حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں: ایک سفر میں (غالباً ۱۹۰۳ء ) جبکہ ہم چند خدام حضرت مسیح موعودؑ کے ہمراہ قادیان سے گورداسپور جارہے تھے۔اور قادیان سے بہت سویرے ہم سوار ہوئے تھے۔ نماز فجر کے وقت نہر پر پہنچے۔ اور وہاں نماز فجر اد اکی گئی اور حضور کے فرمانے سے عاجزراقم پیش امام ہوا۔ پانچ سات آدمی ساتھ تھے۔ (ذکر حبیب صفحہ۱۱۰)

پھر فرماتے ہیں: (غالباً ۱۹۰۳ء ) ایک دفعہ مقدمہ کرم دین میں جب کہ حضرت صاحب کمرہ عدالت میں تشریف فرما تھے۔ نماز ظہر کا وقت گزر گیا۔ اور نماز عصر کاوقت بھی تنگ ہو گیا۔ تب حضور نے عدالت سے نماز پڑھنے کی اجازت چاہی اور باہر آ کر برآمدے میں ہی اکیلے ہی ہر دو نماز یں جمع کر کے پڑھیں۔ (ذکر حبیب صفحہ۱۱۰)

میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانویؓ بیان کرتے ہیں کہ جب اول ہی اول حضور اقدس لدھیانہ تشریف لائے تھے تو صرف تین آدمی ہمراہ تھے۔ غالباً تین روز حضور لدھیانہ میں ٹھہرے۔ ایک روز حضور بہت سے احباب کے ساتھ سیر کو تشریف لے گئے۔ خاکسار بھی ہمراہ تھا راستہ میں جنگل میں عصر کی نماز کا وقت آ گیا۔حضور نے وہیں پر مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی کی اقتداء میں نماز اد اکی۔ (تاریخ احمدیت جلد ۱صفحہ ۲۳۷)

حضرت عبد اللہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار گورداسپور جاتے ہوئے ڈھاب کے پاس ایک چھوٹی سی مسجد میں حضور نے نماز فجر پڑھائی۔ (رجسٹر روایات جلد۷صفحہ ۱۹۲۔الفضل انٹرنیشنل ۳۱؍جنوری۲۰۲۰ء)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ فیروز پور سے قادیان آرہے تھے۔ میں ساتھ تھا۔ لاہور ریلوے سٹیشن پر عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تو حضور نے وہاں مسجد میں نماز ادا۔ کی یہ وہی واقعہ ہے جب حضور کے وضو کرتے ہوئے لیکھرام آیا اور سلام کیا تھا مگر حضور نے غیرت ایمانی کی وجہ سے جواب نہ دیا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے۔ (حیات طیبہ صفحہ ۱۷۳)

سفر سے پہلے نفل

حضور کے خادم مرزا دین محمد صاحبؓ آف لنگروال بیان کرتے ہیں: ’’میں اولاً حضرت مسیح موعودؑ سے واقف نہ تھا۔ یعنی ان کی خدمت میں مجھے جانے کی عادت نہ تھی۔ خود حضرت صاحب گوشہ گزینی اور گمنامی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ لیکن چونکہ وہ صوم وصلوٰة کے پابند اور شریعت کے دلدادہ تھے۔ یہی شوق مجھے بھی ان کی طرف لے گیا اور میں ان کی خدمت میں رہنے لگا۔ جب مقدمات کی پیروی کے لئے جاتے تو مجھے گھوڑے پر اپنے ساتھ اپنے پیچھے سوار کر لیتے تھے۔جس دن آپ نے بٹالہ جانا ہوتا تو سفر سے پہلے آپ دو نفل پڑھ لیتے۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ۷۶)

نماز کو مقدّم رکھا

آپ کو مقدمات کے لیے کئی سفر کرنے پڑے مگر مقدمات خواہ کتنے پیچیدہ اہم اور آپ کی ذات یاخاندان کے لیے دُور رس نتائج کے حامل ہوتے آپ نماز کی ادائیگی کو ہر صورت میں مقد م رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ کا ریکارڈ ہے کہ آپ نے ان مقدمات کے دوران میں کبھی کوئی نماز قضاء نہیں ہونے دی۔ عین کچہری میں نماز کاوقت آتا تو اس کمال محویت اور ذوق شوق سے مصروفِ نماز ہو جاتے کہ گویا آپ صرف نماز پڑھنے کے لیے آئے ہیں کوئی اور کام آپ کے مدنظر نہیں ہے۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں:’’میں بٹالہ ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا۔ نماز کا وقت ہو گیا اور میں نماز پڑھنے لگا۔ چپڑاسی نے آواز دی مگر میں نماز میں تھا فریق ثانی پیش ہو گیا اور اس نے یک طرفہ کارروائی سے فائدہ اٹھانا چاہا اور بہت زور اس بات پر دیا۔ مگر عدالت نے پروانہ کی اور مقدمہ اس کے خلاف کر دیا اور مجھے ڈگری دے دی۔ میں جب نماز سے فارغ ہو کرگیا تو مجھے خیال تھا کہ شاید حاکم نے قانونی طور پر میری غیرحاضری کو دیکھا ہو۔ مگر جب میں حاضر ہوا اور میں نے کہا کہ میں تو نماز پڑھ رہا تھا تو اس نے کہا میں تو آپ کو ڈگری دے چکا ہوں‘‘۔ (حیات احمد صفحہ۷۴)عدالت سے غیر حاضری کے باوجود آپ کے حق میں فیصلہ ہو جانا ایک بھاری الٰہی نشان تھا جو آپ کے کمال درجہ قرب الٰہی کے نتیجہ میں نمودار ہوا۔

ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں… مارٹن کلارک والے مقدمہ سے قریباً پچیس سال پہلے میں ایک دفعہ خواب میں دیکھ چکا تھا کہ میں ایک عدالت میں کسی حاکم کے سامنے حاضر ہوں اور نماز کا وقت آ گیا ہے تو میں نے اس حاکم سے نماز کے لئے اجازت طلب کی تو اس نے کشادہ پیشانی سے مجھے اجازت دیدی۔ چنانچہ اس کے مطابق اس مقدمہ میں عین دوران مقدمہ میں جبکہ میں نے کپتان ڈگلس سے نماز کے لئے اجازت چاہی تو اس نے بڑی خوشی سے مجھے اجازت دی۔(نزول المسیح۔روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۸۸)

سرجیمز ولسن فنانشل کمشنر پنجاب ایک روزہ دورہ پر ۲۱؍مارچ ۱۹۰۸ء کو صبح گیارہ بجے قادیان آئے۔ ان کے ہمراہ ڈپٹی کمشنر صاحب ضلع گورداسپور مہتمم بندوبست اور پرائیویٹ سیکرٹری بھی تھے۔ جماعت کے ایک وفد نے ان کا استقبال کیا۔ اثنائے گفتگو میں فنانشل کمشنر صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات کے لیے خواہش کا اظہار کیا تھا۔ چنانچہ حضور اپنے بعض خدام کے ساتھ شام کے پانچ بجے تشریف لے گئے… فنانشل کمشنر صاحب حضور کی ملاقات پر بہت ہی خوش ہوئے۔ ازاں بعد حضور واپس تشریف لے آئے۔رستہ میں حضور نے خود ہی بتایا ہم نے خوب کھول کھول کر فنانشل کمشنر کو اسلام کی خوبیاں سنائیں اور اپنی طرف سے حجت پوری کر دی۔فنانشل کمشنر نے اور بھی باتیں کرنا چاہیں اور دنیاوی باتیں تھیں۔ میں نے کہا آپ دنیاوی حاکم ہیں خدا نے ہمیں دین کے لئے روحانی حاکم بنایا ہے جس طرح آپ کے وقت کاموں کے مقرر ہیں۔ اسی طرح ہمارے بھی کام مقرر ہیں اب ہماری نماز کا وقت ہو گیا۔ ہم کھڑے ہو گئے۔ فنانشل کمشنر بھی کھڑے ہو گئے اور خوش خوش ہمارے ساتھ خیمہ تک باہر آئے اور ٹوپی اتار کر سلام کیا اور ہم چلے آئے۔ (سیرت احمد از حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحب صفحہ۵۷)

جن کو امامت کی سعادت ملی

حدیث نبویﷺ میں اشارہ تھا کہ مسیح موعودؑ عام طور پر خود نماز نہیں پڑھائے گا۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ بالعموم خود امامت کم کرواتے اور جو بھی دیندار شخص پاس حاضر ہوتا تھا اسے امامت کے لئے آگے کر دیتے تھے۔(سیرت المہدی جلد ۳صفحہ۴۲)آغاز میں مختلف لوگ نماز پڑھاتے رہے لیکن جب حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی تشریف لائے تو وہ امام نماز مقرر ہوئے حضرت مرزابشیراحمد صاحبؓ فرماتے ہیں: اور سنا گیا ہے کہ حضور نے دراصل حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کو امام مقرر کیا تھا۔ لیکن مولوی صاحب نے مولوی عبدالکریم صاحب کوآگے کروادیا۔ چنانچہ اپنی وفات تک جو ۱۹۰۵ء میں ہوئی مولوی عبدالکریم صاحبؓ ہی امام رہے۔ (سیرت المہدی جلد اول صفحہ۱۶۲) ان کے بعد عام طور پر حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ نمازیں پڑھاتے رہے اور خطبات جمعہ دیتے رہے۔حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں پانچ وقت کی نماز اور جمعہ کی نماز تو مولوی عبدالکریم صاحبؓ پڑھاتے تھے۔ مگر عیدین کی نماز ہمیشہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ پڑھایا کرتے تھے۔ الاماشاء اللہ اور جنازوں کی نماز عموماً حضرت مسیح موعودؑ خود پڑھاتے تھے۔(سیرت المہدی جلد ۳صفحہ۱۴۷)

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ سول سرجن کی چشمدیدشہادت کے مطابق مندرجہ ذیل خوش نصیب بزرگوں کے پیچھے حضرت مسیح موعودؑ نے نماز باجماعت پڑھی ہے۔

۱۔ حضر ت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اولؓ ۲۔حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓسیالکوٹی۔۳۔ حضرت حکیم فضل الدین صاحبؓ بھیروی ۴۔ پیر سراج الحق صاحبؓ نعمانی۔۵۔مولوی عبدالقادر صاحب ؓلدھیانوی ۶۔ بھائی شیخ عبدالرحیم صاحبؓ۔۷۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ۔ ۸۔ مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ۔۹۔ مولوی محمد احسن صاحب امروہوی۔ ۱۰۔ پیر افتخار احمد صاحبؓ

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ یہ روایت سپرد قرطاس کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں: ’’دوسری روایتوں سے قاضی امیر حسین صاحب اور میاں جان محمد کے پیچھے بھی آپؑ کا نماز پڑھنا ثابت ہے۔‘‘۔ (سیرت المہدی جلد سوم صفحہ۴۲ روایت ۵۵۰طبع اول اپریل ۱۹۳۹ء قادیان)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں: مقدمہ کرم دین کے ایام میں جب کہ دوسرے بزرگ ساتھ نہ ہوتے تھے کئی ماہ تک یہ عاجز پیش امام نماز ہوتا رہا۔ لیکن جنازوں کی نماز حضور خود پڑھایا کرتے تھے۔ (الفضل ۳؍جنوری ۱۹۳۱ء)حضرت حافظ نور محمد صاحبؓ بہت ابتدائی زمانہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ان دنوں میں حضرت صاحب بعد نماز عصر سیر کے لئے باہر تشریف لیجایا کرتے تھے اور کوس کوس دو دو کوس نکل جایا کرتے تھے بعض وقت مغرب کی نماز باہر ہی پڑھ لیا کرتے تھے اور مجھے امام کر لیتے تھے اور آپ خود مقتدی ہو جاتے۔ (سیر ت المہدی جلد ۲صفحہ۳۲)

حضرت خلیفہ نور الدین صاحبؓ جمونی نے بھی ایک دفعہ حضور کے حکم پر نماز پڑھائی اور حضورؑ نے ان کی اقتدا میں نماز پڑھی۔(حیات احمد جلد سوم صفحہ۱۲۳)حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ فرماتے ہیں ایک دفعہ حضور نے عصر کی نماز میرے پیچھے پڑھی تھی۔ (رجسٹر روایات جلد۶ صفحہ ۳۰۱۔الفضل انٹرنیشنل ۲۱؍جنوری۲۰۲۰ء)

حضرت مسیح موعودؑ بطور امام الصلوٰة

حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب بیان کرتے ہیں کہ اوائل میں حضرت مسیح موعودؑ خود ہی امامت کرایا کرتے تھے۔(سیرت المہدی جلد اول صفحہ۱۶۲)

حضرت مولوی عبد الرحمان صاحبؓ کپورتھلوی بیان کرتے ہیں کہ بیعت سے پہلے براھین احمدیہ کی تصنیف کے ایام میں حضور ظہر اور عصر کی نماز مسجد اقصیٰ میں اور مغرب اور عشا٫ کی نماز مسجد مبارک میں پڑھایا کرتے تھے۔(رجسٹر روایات جلد۱ صفحہ۱۹۹۔الفضل انٹر نیشنل ۳۱؍جنوری ۲۰۲۰ء)حضرت عبدالستارشاہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ جب مسجد مبارک بنی تو حضور ہم چار آدمیوں کو نمازیں پڑھایا کرتے تھے۔(رجسٹر روایات جلد۶ صفحہ۱۷۷۔الفضل انٹر نیشنل ۳۱؍جنوری ۲۰۲۰ء)حضرت میاں محمد خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ابتدا میں حضرت صاحب مسجد مبارک میں خود نماز پڑھایا کرتے تھے ایک آدمی آپ کے دائیں طرف کھڑا ہوتا تھا اور پیچھے صرف چار پانچ مقتدی کھڑے ہو سکتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد۳صفحہ۳۵) حضرت میر عنایت علی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ جب حضور اول اول لدھیانہ تشریف لائے تھے تو صبح کی نماز خود پڑھایا کرتے تھے۔آپ کا قیام تین دن رہا۔ (سیرت المہدی جلد ۳صفحہ۳۴)حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں: میںکئی کئی ماہ متواتر حضور کی خدمت میں ٹھہرا کرتا تھا اور نماز کے اندر صرف تین یا چار آدمی ہوتے تھے تب بھی ہمیشہ نہیں لیکن گاہے گاہے حضور خود نماز پڑھایا کرتے تھے۔دعویٰ کے بعد بہت کم ایسا اتفاق ہوا کہ حضور نے خود نماز پڑھائی ہو۔ (الفضل ۳؍جنوری ۱۹۳۱ء)

حضرت بھائی محمود احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مقدمہ کے دوران حضور صبح سویرے قادیان سے روانہ ہوئے۔ بٹراں کی نہر کے قریب نماز فجر کا جو وقت ہوا تو حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ نماز فجر کا وقت ہوگیا ہے یہیں نماز پڑھ لی جائے۔ احباب نے عرض کی کہ حضور حکیم مولوی فضل الدین صاحب آگے نکل گئے ہیں اور خواجہ کمال الدین صاحب اورمولوی محمد علی صاحب ساتھ ہیں۔ حضور خاموش ہو گئے اور خود ہی امامت فرمائی۔ پہلی رکعت فرض میں آیت الکرسی اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص تلاوت فرمائی۔ (سیرت المہدی جلد ۳صفحہ۳۱)حضرت قاضی امیر حسین صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اولؓ قادیان سے باہر گئے ہوئے تھے میں مغرب کی نماز میں آیا تو دیکھا کہ آگے حضرت مسیح موعودؑ خود نماز پڑھا رہے تھے قاضی صاحب نے فرمایا کہ حضرت صاحب نے چھوٹی چھوٹی دو سورتیں پڑھیں مگر سوز ودرد سے لوگوں کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ (سیر ت المہدی جلد اول صفحہ۲۳)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں: ۱۸۹۹ء میں غالباً ٹیکس کامقدمہ تھا جب کہ حضرت مسیح موعودؑ نے نماز ظہر گورداسپور کے احاطہ کچہری میں بعض لوگوں کی درخواست پر خود پیش امام ہو کر پڑھائی۔ اور بہت سے لوگ دوڑ دوڑ کر اس نماز میں شامل ہوئے۔ (ذکر حبیب صفحہ۶۳)حضرت خلیفہ نورالدین صاحب جمونی فرماتے ہیں: ایک دفعہ جب حضور گورداسپور تشریف لے گئے تو میں نے ایک بار حضور کے حکم سے نماز پڑھائی اور حضور نے میری اقتداء میں نماز پڑھی ایک دفعہ میں نے بھی گورداسپور میں حضور کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ (حیات احمد جلد سوم صفحہ۱۲۳)حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ فرماتے ہیں: میرے بچپن میں بیسیوں دفعہ ایسا ہوا کہ حضور نے مغرب وعشاء اندر عورتو ں کو جماعت سے پڑھائیں۔ میں آپ کے دائیں طرف کھڑا ہوتا تھا۔عورتیں پیچھے کھڑی ہوتیں۔ (ماہنامہ الفرقان۔ستمبر اکتوبر۱۹۶۱ء صفحہ۴۹)حضرت بھائی عبد الرحمان صاحبؓ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ حضور ام ناصر والے صحن میں ہم ۱۵،۱۰ مستورات کو نماز پڑھایا کرتے تھے (اصحاب احمد جلد۹ صفحہ ۱۵۶۔۱۵۷ )

حضرت ام المومنینؓ بیان کرتی ہیں: حضرت مسیح موعودؑ جب کبھی مغرب کی نماز گھر میں پڑھاتے تھے تو اکثر سورہ یوسف کی وہ آیات پڑھتے تھے جس میں یہ الفاظ آتے ہیں۔ اِنَّمَا اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَحُزۡنِیۡ اِلَی اللّٰہِ۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی آواز میں بہت سوز اور درد تھا اور آپ کی قراء ت لہر دار ہوتی تھی۔ (سیرت المہدی جلد اول صفحہ۶۸)حضرت حافظ نور محمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ ہمارے گاؤں فیض اللہ چک میں تشریف لے گئے اور ہماری متصلہ مسجد میں تشریف فرما ہوئے اور بوقت مغرب بڑی مسجد میں لوگوں کے اصرار سے جا کر نماز پڑھائی اس کے بعد آپ موضع تھہ غلام نبی میں تشریف لےگئے کیونکہ وہاں آپ کی دعوت تھی۔ (سیرت المہدی جلد ۲صفحہ۳۶)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں: جو نماز آپ لوگوں کے سامنے پڑھتے تھے اس کو آپ چنداں لمبا نہ کرتے تھے۔ حضرت مولوی عبداللہ صاحبؓ سنوری کی وفات سے چند روز قبل ایسا اتفاق ہوا کہ میں نے مسجدمبارک میں ایک نماز کی امامت کرائی۔ نماز کے ختم ہونے پر فوراً مولوی عبداللہ صاحب تبسم کرتے ہوئے آگے بڑھے اور فرمانے لگے آپ نے بعینہٖ ایسی مختصر نماز پڑھائی جیساکہ ابتدائی زمانوں میں کبھی حضرت مسیح موعودؑ پڑھایا کرتے تھے جبکہ ہنوز آپ کا کچھ دعویٰ نہ تھا او رآپ براہین احمدیہ لکھا کرتے تھے۔ (الفضل ۳؍جنوری ۱۹۳۱ء)حضرت شیخ کرم الٰہی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نے لدھیانہ میں تقریر فرمائی اور اس کے بعد نماز مغرب کی امامت کروائی۔ ( سیرت المہدی جلد ۲ روایت ۱۱۰۸)حضرت میاں خیر الدین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دو دفعہ حضور کی اقتدا میں نماز ادا کی ایک بار مسجد مبارک میں مغرب کی نماز اور ایک بار کرم دین والے مقدمہ میں گورداسپور جاتے ہوئے ظہر کی نماز۔( سیرت المہدی روایت ۱۲۳۲)

حضرت بابو غلام محمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ بیمار تھے توحضور نے ظہر تا عشا٫ چاروں نمازیں خود پڑھائیں۔ (رجسٹر روایات جلد۹ صفحہ۸۰۔۸۱۔الفضل انٹرنیشنل ۳۱؍جنوری ۲۰۲۰ء)

ایک یادگار اور تاریخی تقریب

حضرت منشی محمد افضل صاحب مدیر ’’البدر‘‘قادیان کے قلم سے گورداسپور میں ۲۱؍جولائی ۱۹۰۴ء کی ایک مبارک تقریب کا وجد آفرین اور روح پرور منظر یوں ہے:’’ایک بجے کا وقت تھا۔ کہ حضرت مسیح موعودؑ نے چند ایک موجودہ خدام کو ارشاد فرمایا کہ نماز پڑھ لی جاوے۔ سب نے وضو کیا۔ نماز کے لئے چٹائیاں بچھیں۔ حاضرین منتظر تھے کہ حسب دستور سابقہ حضور کسی حواری کو امامت کے لئے ارشا د فرماویں گے کہ اسی اثناء میں آگے بڑھے۔ اور اقامت کہے جانے کے بعد آپ نے نماز ظہر اور عصر قصر اور جمع کر کے پڑھائیں حضور کو امام اور خود کومقتدی پا کر حاضرین کے دل باغ باغ تھے۔ ان مقتدیوں میں کئی ایسے احباب تھے۔ جن کی ایک عرصہ سے آرزو تھی کہ کبھی حضرت مسیح موعودؑ نماز میں خود امام ہوں اور ہم مقتدی۔ ان کی امید آج بر آئی اور مجھ پر بھی یہ راز کھلا کہ امام نماز کی جس قدر توجہ الی اللہ زیادہ ہوتی ہے۔ اسی قدر جذب قلوب بھی زیادہ ہوتا ہے۔ چونکہ خدا کے فضل سے اس مبارک نماز میںمیں خود بھی شریک تھا۔ اس لئے دیکھا گیا کہ بے اختیار دلوں پر عاجزی اور فروتنی اور حقیقی عجز وانکسار غالب آتا جاتا تھا۔ اوردل اللہ تعالیٰ کی طرف کھچا جاتا تھا۔اور اندر سے ایک آواز آتی تھی کہ دعا مانگو۔قلب رقیق ہو کر پانی کی طرح بہ بہ جاتا تھا۔ اور اس پانی کو آنکھوں کے سوا کوئی راستہ نکلنے کا نہ ملتا تھا اور اس مبارک وقت کے ہاتھ آنے پر شکریہ الٰہی میں دل ہرگز گوارانہ کرتا تھا کہ سجدہ سے سر اٹھایا جاوے۔ غرضیکہ عجیب کیفیت تھی۔ اور ایک متقی امام کے پیچھے نماز ادا کرنے سے جو جو بخششیں اور رحمت ازروئے حدیث شریف مقتدیوں کے شامل حال ہوتی ہیں۔ ان کا ثبوت دست بدست مل رہا تھا۔اس تاریخی نما زمیں شامل ہونے والے تمام ۲۰ مقتدیوں کے نام بھی حضرت منشی محمد افضل صاحب نے ۲۴جولائی ۱۹۰۴ء کے البدر میں محفوظ کر دئیے۔ (البدر ۲۴؍جولائی ۱۹۰۴ء)

نماز میں جذبات کا اخفا

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں:حضرت مسیح موعودؑ لوگوں پراپنے جذبات کوکبھی ظاہر نہ ہونے دیتے تھے۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نماز باجماعت میں یا لوگوں کے سامنے کسی نماز میں اپنے خشوع وخضوع کو اس حد تک ظاہر کریں کہ آپ کے آنسو ٹپکنے لگیں یا آپ کی گریہ کی آواز سنائی دے۔ ۱۸۹۴ء میں سورج کو جب پورا گرہن لگا اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوئی تومسجد اقصیٰ قادیان میں نماز کسوف ادا کی گئی۔ امام نماز مولوی محمد احسن صاحب تھے۔ انہوں نے سورہ فاتحہ اور قراءت بالجہر پڑھی اور بعض دعائیں بالجہر بھی کیں جس سے اکثر نمازیوں پر حالت وجد طاری ہوئی۔ بہتیرے نماز میں رو رہے اور دعائیں کر رہے تھے یا اللہ تعالیٰ کے اس احسان کے شکر میں ان کے دل رقیق ہو رہے تھے کہ ہم رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کو پورا ہوتا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں حضرت مسیح موعودؑ ہمارے ساتھ اس نماز میں شامل تھے اور میں حضور کے پہلو بہ پہلو کھڑا تھا، آپ کی کوئی آواز سنائی نہ دیتی تھی مگرجسم میں ایسی حرکات تھیں جو ایسی رقت کی حالت میں بعض دفعہ انسان پر طاری ہو جاتی ہیں۔(الفضل ۳؍جنوری ۱۹۳۱ء)

جمع نماز

مسیح موعودؑ کی جو علامات مقرر تھیں ان میں ایک علامت یہ بھی تھی کہ ’’تُجْمَعُ لَہ الصَّلوٰةُ‘‘یعنی مسیح موعودؑ کے لئے نمازیں جمع کی جائیں گی۔ (مسند احمد حدیث نمبر۷۵۶۲)جس میں اس طرف اشارہ تھا کہ مصروفیت کا ایک زمانہ اس پر ایسا آئے گا کہ اس کے دینی اغراض ومقاصد کی تکمیل کے لیے نمازیں جمع کی جائیں گی۔ ضمناً اس سے یہ بھی بتانا مقصود تھا کہ مسیح موعودؑ نماز کے وقت پیش امام نہیں ہو گا بلکہ کوئی اور امامت کرائے گا۔ سو اس پیش گوئی کے عین مطابق قریباً اکتوبر ۱۹۰۰ء سے فروری ۱۹۰۱ء تک کا دور ایسا آیا جب کہ ’’خطبہ الہامیہ‘‘، ’’تحفہ گولڑویہ‘‘، ’’تریاق القلوب‘‘ اور بعض دوسری کتب کی تکمیل اور ’’اعجاز المسیح‘‘کی تصنیف کے سلسلہ میں چار پانچ ماہ تک حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ مسجد مبارک میں ظہر وعصر کی نمازیں جمع کرواتے رہے۔(تاریخ احمدیت جلد ۲صفحہ۱۷۱)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں: وفات سے دو تین سال قبل جب کہ حضور نماز مغرب و عشاء کے واسطے باہر مسجدمیں تشریف نہ لا سکتے، گھر کے اندر عورتوں اور اولاد کو جمع کر کے نماز پڑھاتے اور مغرب وعشاء جمع کی جاتی۔ جب نمازیں جمع ہوتیں تو پہلی، درمیانی اور آخری کوئی سنتیں نہ پڑھتے تھے۔صرف فرض پڑھے جاتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ظہر کے وقت پہلی سنتیں پڑھنی شروع کر دیں تو حضور نے دو دفعہ فرمایا: نما زجمع ہو گی سنتوں کی ضرورت نہیں۔ پس میں نے سلام پھیر دیا اور سنتیں نہ پڑھیں۔(الفضل ۳؍جنوری ۱۹۳۱ء)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button