خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 16؍ فروری 2024ء

حضرت جابر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے شہداء کو دفن کرنے کے لیے تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو ان کے زخموں سمیت ہی کفن دے دو کیونکہ میں ان پر گواہ ہوں اور کوئی مسلمان ایسا نہیں جو اللہ کی راہ میں زخمی کیا جائے مگر وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا خون بہ رہا ہو گا اور اس کا رنگ زعفران کا ہو گا اور اس کی خوشبو کستوری کی ہو گی

اے گروہ انصار! میرے پاس آؤ میں ثابت بن دحداح ہوں۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم واقعی قتل ہو گئے ہیں تو اللہ زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرے گا۔ لہٰذا تم اپنے دین کی طرف سے لڑو۔ اللہ تمہیں غالب کرے گا اور تمہاری مدد کرے گا

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مُخَیرِیقیہود میں سے سبقت لے گیا اور سلمان اہل فارس میں سے سبقت لے گیا اور بلال اہل حبشہ میں سے سبقت لے گیا

حضرت عبداللہ بن جحشؓ نے کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملنا کہ میں سیراب ہوں یعنی اچھی طرح کھایا پیا ہو اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اسے پیاسا ہونے کی حالت میں ملوں

حضرت عبداللہ بن عَمروؓ اُحد کے روز سب سے پہلے شہید ہوئے۔ ان کی تدفین کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بن عَمرو اور عمرو بن جَمُوح کو ایک ہی قبر میں دفن کرو کیونکہ ان کے درمیان اخلاص اور محبت تھی

حضرت امام شافعیؒ بیان کرتے ہیں کہ متواتر روایات سے یہ بات پختہ طور پر معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ اُحد کے شہداء کا جنازہ نہیں پڑھا اور جن روایات میں ذکر آیاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شہداء کا جنازہ پڑھا اور حضرت حمزہؓ پر سترّ تکبیرات کہی تھیں یہ بات درست نہیں ہے اور جہاں تک حضرت عقبہ بن عامرؓکی روایت کا تعلق ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ سال کے بعد ان شہداء کا جنازہ پڑھا تھا تو اس روایت میں اس بات کا ذکر ہوا ہے کہ یہ آٹھ سال بعد کا واقعہ ہے

جنگ اُحدمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعاتِ شہادت اور رسو ل اللہﷺ سے عشق و وفا کا ایمان افروز تذکرہ

انسانیت کے تباہی سے بچنے کے لیے دعاؤں کی تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 16؍فروری2024ء بمطابق 16؍ تبلیغ 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

جنگ اُحد کے واقعات کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلو اور صحابہؓ کا آپؐ کے ساتھ عشق و وفا کا تعلق،

اس کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس حوالے سے

حضرت خارجہ بن زیدؓ کی شہادت

کابھی ذکر ملتا ہے۔ حضرت خارجہؓ نے غزوۂ اُحد میں بڑی بہادری اور جوانمردی سے لڑتے ہوئے شہادت کا رتبہ پایا۔ تیروں کی زد میں آ گئے اور آپؓ کو تیرہ سے زائد زخم لگے۔ آپؓ زخموں سے نڈھال پڑے تھے کہ پاس سے صَفْوان بن امیہ گزرا۔ اس نے انہیں پہچان کر حملہ کر کے شہید کر دیا۔ پھر ان کا مُثْلہ بھی کیا اور کہا کہ یہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے بدر میں ابوعلی کو قتل کیا تھا یعنی میرے باپ اُمَیَّہ بن خَلَف کو قتل کیا تھا۔ اب مجھے موقع ملا ہے کہ ان اصحابِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میں سے بہترین لوگوں کو قتل کروں اور اپنا دل ٹھنڈا کروں۔ اس نے حضرت ابن قَوقَلؓ، حضرت خَارِجہ بن زیدؓ اور حضرت اَوس بن اَرْقم ؓکو شہید کیا۔ حضرت خارجہؓ اور حضرت سعد بن ربیع ؓجو کہ آپ کے چچا زاد بھائی تھے ان دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔

(الاستیعاب جلد 2 صفحہ 3-4 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

روایت ہے کہ اُحد کے دن حضرت عباس بن عُبادہؓ اونچی آواز سے کہہ رہے تھے کہ اے مسلمانوں کے گروہ! اللہ اور اپنے نبی سے جڑے رہو۔ جو مصیبت تمہیں پہنچی ہے یہ اپنے نبی کی نافرمانی سے پہنچی ہے۔ وہ تمہیں مدد کا وعدہ دیتا تھا لیکن تم نے صبر نہیں کیا۔ پھر حضرت عباس بن عبادہؓ نے اپنا خَود اور اپنی زرہ اتاری اور حضرت خارجہ بن زیدؓ سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس کی ضرورت ہے؟ خارجہ نے کہا نہیں۔ جس چیز کی تمہیں آرزو ہے وہی میں بھی چاہتا ہوں یعنی شہادت۔ پھر وہ سب دشمن سے بھڑ گئے۔ عباس بن عبادہ ؓکہتے تھے کہ ہمارے دیکھتے ہوئے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف پہنچی تو ہمارا اپنے رب کے حضور کیا عذر ہو گا۔ اور حضرت خارجہؓ یہ کہتے تھے کہ اپنے رب کے حضور ہمارے پاس نہ تو کوئی عذر ہو گا اور نہ ہی کوئی دلیل۔ حضرت عباس بن عبادہؓ کو سفیان بن عبدشمس سَلَمِینے شہید کیا اور خارجہ بن زیدؓ کو تیروں کی وجہ سے جسم پر دس سے زائد زخم لگے۔

(کتاب المغازی جلد 1 صفحہ 227-228 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

پھر ایک حوالہ میں ہے کہ غزوۂ اُحد کے دن حضرت مالک بن دُخْشُمؓ حضرت خارجہ بن زیدؓ کے پاس سے گزرے۔ حضرت خارجہؓ زخموں سے چُور بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کو تیرہ کے قریب مہلک زخم آئے تھے۔ حضرت مالکؓ نے ان سے کہا کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید کر دیے گئے ہیں۔ یہ کافروں کے دوبارہ حملے کے بعد کا ذکر ہے۔

حضرت خارجہؓ نے کہا کہ اگر آپؐ کو شہید کر دیا گیا ہے تو یقیناً اللہ زندہ ہے اور وہ نہیں مرے گا۔

یہ تھا ان لوگوں کا ایمان۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام پہنچا دیا تم بھی اپنے دین کے لیے قتال کرو۔(کتاب المغازی جلد 1 صفحہ 243 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)لیکن اب دشمن لڑ رہا ہے تمہارے سے تو تم لڑو۔ ہمارا کام بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر جانیں قربان کرنا ہے۔

پھر

حضرت شَمَّاسْ بن عُثْمانؓ کی شہادت

کا ذکر ہے۔ حضرت شماس بن عثمانؓ غزوۂ بدر اور اُحد میں شامل ہوئے۔ آپؓ غزوہ اُحد میں بہت جانفشانی سے لڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے شماس بن عثمان کو ڈھال کی مانند پایاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں یا بائیں جس طرف بھی نظر اٹھاتے شماس کو وہیں پاتے جو جنگِ اُحد میں اپنی تلوار سے مدافعت کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی جب آپؐ پر حملہ ہوا اور پتھر آ کے لگا۔ حضرت شماسؓ نے اپنے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھال بنا لیا تھا یہاں تک کہ آپؓ شدید زخمی ہو گئے اور آپ یعنی حضرت شماس ؓکو اسی حالت میں مدینہ اٹھا کر لایا گیا۔ آپؓ میں ابھی کچھ جان باقی تھی۔ ان کو حضرت عائشہؓ کے ہاں لے جایا گیا۔ حضرت ام سلمہؓ نے کہا کہ کیا میرے چچا زاد بھائی کو میرے سوا کسی اَور کے ہاں لے جایا جائے گا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں حضرت ام سلمہؓ کے پاس اٹھا کر لے جاؤ۔ پس آپ کو وہیں لے جایا گیا اور آپ نے انہی کے گھر وفات پائی۔ آپ اُحد سے زخمی ہو کے آئے تھے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت شماس ؓکو مقام اُحد میں لے جا کر انہی کپڑوں میں دفن کیا گیا۔ دو دن بعد مدینہ میں وفات ہو گئی لیکن دفن ان کو اُحد میں جا کے کیا گیا۔ جب جنگ کے بعد آپؓ کو زخمی حالت میں اٹھا کر مدینہ لایا گیا تو وہاں ایک دن اور ایک رات تک زندہ رہے تھے اور اس دوران کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کچھ کھایا پیا نہیں۔ انتہائی کمزوری کی حالت تھی بلکہ بیہوشی کی حالت تھی۔ حضرت شماسؓ کی وفات چونتیس سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ نوجوان تھے۔

حضرت شماس بن عثمانؓ کے بارے میں تاریخ نے ایسا واقعہ محفوظ کیا ہے جو اُن کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی ایک مثال بن گیا ہے اور اسلام کی خاطر قربانی کے اعلیٰ ترین معیار قائم کرنے کی بھی مثال ہے۔ جنگِ اُحد میں جہاں حضرت طلحہ ؓکی عشق و محبت کی داستان کا ذکر ملتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کے سامنے رکھا کہ کوئی تیر آپؐ کو نہ لگے وہاں حضرت شماسؓ نے بھی بڑا عظیم کردار ادا کیا۔ حضرت شماسؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو گئے اور ہر حملہ اپنے اوپر لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت شماسؓ کے بارے میں فرمایا کہ شماس کو اگر میں کسی چیز سے تشبیہ دوں تو ڈھال سے تشبیہ دوں گا کہ وہ اُحد کے میدان میں میرے لیے ایک ڈھال ہی تو بن گیا تھا۔ وہ میرے آگے پیچھے دائیں اور بائیں حفاظت کرتے ہوئے آخر دم تک لڑتا رہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس طرف نظر ڈالتے آپؐ فرماتے ہیں شماس انتہائی بہادری سے وہاں مجھے لڑتے ہوئے نظر آتا۔ جب دشمن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے میں کامیاب ہو گیا اور آپؐ کو غشی کی کیفیت طاری ہوئی۔ آپؐ گر گئے تب بھی شماس ہی ڈھال بن کر آگے کھڑے رہے یہاں تک کہ خود شدید زخمی ہو گئے۔ اسی حالت میں انہیں مدینہ لایا گیا۔ حضرت ام سلمہؓ نے کہا یہ میرے چچا کے بیٹے ہیں۔ میں ان کی قریبی ہوں۔ رشتہ دار ہوں اس لیے میرے گھر میں ان کی تیمار داری اور علاج وغیرہ ہونا چاہیے لیکن زخموں کی شدت کی وجہ سے ڈیڑھ دو دن بعد ہی ان کی وفات ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شماس کو بھی اس کے کپڑوں میں ہی دفن کیا جائے جس طرح باقی شہداء کو کیا گیا ہے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد3صفحہ186 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

پھر

حضرت نعمان بن مالکؓ کی شہادت

کا ذکر ہے۔ حضرت نعمان بن مالکؓ غزوۂ بدر و اُحد میں شریک ہوئے اور غزوۂ اُحد میں شہید ہوئے۔ انہیں صفوان بن امیہؓ نے شہید کیا تھا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت نعمان بن مالکؓ کو اَبَان بن سعیدنے شہید کیا تھا۔ حضرت نعمان بن مالکؓ، حضرت مُجَذَّرْ بن زیادؓ اور حضرت عبادہ بن حَسْحَاسؓ کو غزوۂ اُحد کے موقع پر ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا تھا۔

(الطبقات الکبریٰ جزء3صفحہ414 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

(اسد الغابہ جلد3 صفحہ157 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

(سیرت ابن ہشام صفحہ468، 560 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

(عمدۃ القاری جلد14 صفحہ183 مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت)

حضرت نعمان بن مالکؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوۂ اُحد کے لیے نکلتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عبداللہ بن ابی بن سلول سے مشورہ کے وقت عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! بخدا میں جنت میں ضرور داخل ہوں گا۔ بڑی تحدی سے فرما رہے ہیں۔ کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مَیں جنت میں ضرور داخل ہوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کیسے؟ تو حضرت نعمانؓ نے عرض کیا اس وجہ سے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیںاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور میں لڑائی سے ہرگز نہیں بھاگوں گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے سچ کہا۔ چنانچہ وہ اسی روز شہید ہو گئے۔

(اسد الغابہ جلد5صفحہ322 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

خالد بن ابومالک جَعْدِی روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے اپنے والد کی کتاب میں یہ روایت پائی کہ حضرت نُعْمَان بن قَوْقَل انصاریؓ نے دعا کی تھی کہ مجھے تیری قسم اے میرے ربّ! ابھی سورج غروب نہیں ہو گا کہ میں اپنے لنگڑے پن کے ساتھ جنت کی سرسبزی میں چل رہا ہوں گا۔ چنانچہ وہ اسی روز شہید ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کر لی کیونکہ میں نے اسے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کشفی نظارہ دیکھا اور یہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے اس کو دیکھا کہ وہ جنت میں چل رہا تھا اور اس میں کسی قسم کا لنگڑا پن یا لڑکھڑاہٹ نہیں تھی۔

(معرفۃ الصحابہ جلد4 صفحہ 317 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

پھر

حضرت ثَابِت بن دَحْدَاحؓ کا ذکر

ہے۔ ثابت بن دحداحؓ نے بھی غزوہ اُحد میں نمایاں شرکت کی۔(سیر الصحابہ جلد3صفحہ552دارالاشاعت کراچی)ان کا نمایاں کردار ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر کے بعد مسلمانوں میں سے بعض نے کہا اب جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو تم اپنی قوم کے پاس لوٹ چلو وہ تمہیں امان دیں گے۔ اس پر کچھ دوسرے لوگوں نے کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو کیا تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اور اس کے پیغام کے لیے نہیں لڑو گے یہاں تک کہ تم اپنے رب کے حضور شہید ہو کر حاضر ہو جاؤ؟

حضرت ثابت بن دحداحؓ نے انصار سے کہا۔ اے انصار کے گروہ! اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ زندہ ہے اسے موت نہیں آ سکتی۔ اپنے دین کے لیے قتال کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں فتح و کامرانی عطا کرنے والا ہے۔ یہ سن کر انصاری مسلمانوں کا ایک گروہ اٹھا اور انہوں نے حضرت ثابتؓ کے ساتھ مل کر مشرکین کے اس گروہ پر حملہ کر دیا جس میں خالد بن ولید، عِکْرِمَہبن ابوجہل،عمرو بن عاص اور ضِرَار بن خَطَّاب تھے۔ مسلمانوں کی اس چھوٹی سی جماعت کو حملہ کرتے دیکھ کر خالد بن ولیدنے ان پر سخت جوابی حملہ کیا اور ثابت بن دَحْدَاحؓ اور ان کے انصاری ساتھیوں کو شہید کر دیا۔

(السیرۃ الحلبیہ جلد 2 صفحہ 309 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

ایک اَور روایت میں بیان ہوا ہے کہ عبداللہ بن عمر خَطْمِیکہتے ہیں: ثابت بن دحداحؓ اُحد کے دن سامنے آئے اور مسلمان اس وقت منتشر اور پریشان حال تھے۔ یہ اونچی آواز میں پکارنے لگے کہ

اے گروہ انصار! میرے پاس آؤ۔ میں ثابت بن دحداح ہوں۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم واقعی قتل ہو گئے ہیں تو اللہ زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرے گا۔ لہٰذا تم اپنے دین کی طرف سے لڑو اللہ تمہیں غالب کرے گا اور تمہاری مدد کرے گا۔

چنانچہ ایک جماعت انصار کی ان کے پاس جمع ہو گئی۔ یہ انصاری تھے اور مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے کر کفار پر حملہ کرنے لگے۔ ان کے مقابلے پر کافروں کا ایک سخت لشکر آیا جس میں ان کے سردار خالد بن ولید، عمرو بن عاص، عکرمہ بن ابوجہل اور ضرار بن خطاب تھے۔ یہ سب لوگ مل کر ان پر حملہ کرنے لگے۔ ثابتؓ پر خالد بن ولید نے نیزے سے حملہ کیا اور نیزہ ان کے پار کر دیا۔ ثابت شہید ہو کر گر پڑے اور ان کے ساتھ اَور جو انصار تھے وہ بھی شہید ہو گئے۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس دن سب مسلمانوں کے آخر میں یہی لوگ شہید ہوئے۔

ایک روایت میں ہے کہ خالد نے بڑھ کر نیزہ مارا جس سے حضرت ثابتؓ زخمی ہو کر زمین پر گر پڑے۔ لوگ اٹھا کر لائے اور علاج شروع کیا۔ اس وقت تو خون بند ہو گیا اور وہ اچھے ہو گئے لیکن غزوۂ حدیبیہ کے بعد یکایک زخم پھر پھٹ گیا اور اس کے صدمہ سے انہوں نے وفات پائی۔ بہرحال یہ بھی ایک روایت ہے۔ حضرت جابر بن سمرہؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ثابت بن دحداحؓ کے جنازے کے ساتھ پیدل تشریف لے گئے تھے اور گھوڑے پر بیٹھ کر واپس آئے تھے۔

(اسد الغابہ جلد1 صفحہ 440 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

(سیر الصحابہ جلد3صفحہ552دارالاشاعت کراچی)

(ترمذی ابواب الجنائز۔ باب ما جاء فی الرخصۃ فی ذٰلک حدیث:1014)

اس روایت سے بھی لگتا ہے کہ یہ جو روایت ہے کہ غزوۂ حدیبیہ کے بعد زخم پھٹنے سے (فوت) ہوئے تھے۔ یہ کمزور روایت ہے۔ اسی موقع پہ ہی شہید ہوئے تھے۔

ایک خاندان کے چار افراد کی شہادت

کے بارے میں ذکر ملتا ہے۔ ثابت بن وَقْشْ ؓ اور رِفاعہ بن وقشؓ دونوں بھائی اُحد کے دن شہید ہوئے تھے اور ان کے ہمراہ ثابت بن وقشؓ کے دو بیٹے سَلَمہ بن ثابتؓ اور عَمْرو بن ثابتؓ بھی شہید ہوئے تھے۔ عمرو بن ثابتؓ کا نام اُصَیْرِِمبھی بیان ہوا ہے اور ان سب کا تعلق انصار کے قبیلے بنو عبد الأشھل سے تھا۔

(ماخوذ از اسد الغابہ جلد1 صفحہ458-459 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

رِفاعہ بن وقشؓ بوڑھے آدمی تھے۔ رِفاعہ اور ثابت دونوں بھائیوں نے جنگ اُحد میں اکٹھے قتال کیا۔ رِفاعہ کو خالد بن ولید نے شہید کیا۔

(ماخوذ از اسد الغابہ جلد2 صفحہ288 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

ثابت بن وقش ؓکی شہادت کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے۔ ابنِ اسحاق نے لکھا ہے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کی جنگ کے لیے تشریف لے گئے تو ثابت بن وقشؓ اور حُسَیْلِ بن جابِر ؓجن کا نام یَمَان تھا اور یہ حُذَیفہ بن یَمَان کے باپ تھے وہ دونوں عمر رسیدہ تھے اور اس قلعہ میں تھے جس میں مسلمانوں کی عورتیں اور بچے حفاظت کے لیے پناہ گزین تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم کس چیزکا انتظار کر رہے ہو؟ ہماری زیادہ عمر تو باقی نہیں رہی۔ اگر ہم آج نہ مرے تو کل ضرور مر جائیں گے۔ کیا ہم بھی اپنی تلواریں نہ اٹھائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا ملیں۔ شاید اللہ تعالیٰ ہمیں شہادت نصیب فرما دے۔ پھر یہ دونوں تلوار پکڑ کر کفار پر جا پڑے اور لوگوں میں مل جل گئے یعنی جنگ میں شامل ہو گئے۔

(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ537-538 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

عَمروبن ثابت یا اُصَیْرِِمبھی ان کا نام تھا۔ عمرو بن ثابت بن وقش انصاری جیساکہ میں نے کہا اُصَیرِِم کے نام سے مشہور تھے۔ ان کی والدہ حضرت حذیفہ بن یمان ؓکی بہن تھیں۔ یہ غزوۂ اُحد کے دن نماز فجر کے بعد مسلمان ہوئے۔ انہوں نے نماز نہیں پڑھی۔ اس کے بعدوہ اسلام لائے اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے۔ مسلمانوں سے مل کر جہاد کرتے رہے حتی کہ شہید ہو گئے۔

(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 6صفحہ 358 دارالسّلام ریسرچ سنٹر)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ یعنی ابوہریرہؓ نے صحابہؓ سے کہا کہ مجھے ایسے شخص کےمتعلق بتاؤ جس نے کبھی نماز نہیں پڑھی اور وہ جنتی ہے؟ تو لوگوں کو اس کا علم نہیں تھا۔ آپ سے پوچھنے لگے کہ وہ کون ہے ؟تو آپ نے کہا کہ وہ اُصَیرِم بن اُصَیرِم ہے یعنی عمرو بن ثابت۔ ایک روایت میں ہے کہ اُصَیرِم اپنی قوم کے سامنے اسلام کا انکار کر تے تھے۔ جب غزوہ اُحد ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہو چکے تھے۔ اُصَیرِم کے سامنے اسلام کی حقیقت واضح ہو گئی تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ پھر اپنی تلوار لے کر اپنی قوم کے پاس آئے اور لوگوں میں جا گھسے اور جنگ کرنے لگے۔ یہاں تک کہ زخموں نے انہیں نڈھال کر دیا۔ اسی اثنا میںبنوعبد الأشھل کے لوگ اپنے شہداء کی لاشیں تلاش کر رہے تھے کہ اچانک ان پر نظر پڑی۔ حیران ہو کر کہنے لگے یہ تو اُصَیرِم ہے لیکن یہاں اسے کون لایا ہے؟ ہم تو اسے چھوڑ کر آئے تھے کہ وہ اسلام سے انکاری ہے۔ پھر انہوں نے ان سے پوچھا اے اُصَیرِم !تم یہاں کیسے پہنچے؟کیا اپنی قوم کی غیرت کی وجہ سے یا اسلام میں رغبت کی وجہ سے؟ انہوں نے کہا کہ اسلام میں رغبت کی وجہ سے یعنی کہ اسلام کو میں نے سچا مانا ہے اس لیے میں آیا ہوں۔ میں اللہ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر مسلمان ہوا ہوںاور اپنی تلوار لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معّیت میں لڑتا رہا یہاں تک کہ میری یہ حالت ہو گئی جو تم لوگ دیکھ رہے ہو۔ پھر انہوں نے لوگوں کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جنتی ہے۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 4 صفحہ 501 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

میں پہلے جو رک گیا تھا اس لیے کہ آپ نے فرمایا کہ وہ جنتی ہے وہاں رضی اللہ عنہ لکھا ہوا تھا حالانکہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا چاہیے تھا تو غلط فہمی شاید ہو رہی تھی کہ کسی صحابی نے نہ کہا ہو۔ بہرحال اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جنتی ہے۔

اور پہلی جو روایت ہے وہ بھی درست اس لحاظ سے لگتی ہے کہ بغیر نمازیں پڑھے جو جنت میں چلا گیا وہ یہ ہے۔ آخری وقت میں آئے اور شہادت کا رتبہ پایا۔

اس خاندان کے چوتھے شہید حضرت سَلَمہ بن ثابتؓ تھے۔ حضرت سَلَمہ بن ثابتؓ کا پورا نام سلمہ بن ثابت بن وَقْش ہے۔ حضرت سلمہؓ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔ غزوۂ اُحد میں ابوسفیان نے حضرت سلمہ بن ثابتؓ کو شہید کیا تھا۔ حضرت سلمہؓ کے والد حضرت ثابت بن وقشؓ اور چچا حضرت رِفاعہ بن وقشؓ اور ان کے بھائی حضرت عمرو بن ثابتؓ بھی غزوۂ اُحد میں شہید ہوئے تھے۔ اس خاندان کے بہت سارے افراد غزوۂ اُحد میں شریک ہوئے۔

(الطبقات الکبری لابن سعدجلد3 صفحہ337 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ جلد2 صفحہ291 مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)

مُخَیرِِیقایک یہودی تھا اور بنو نضیر میں سے تھا۔ محمد بن عمر اسلمی نے ذکر کیا کہ یہ اسلام لے آیا تھا اور بعض نے کہا کہ یہ بنو قینقاع میں سے تھا۔ بعض کے نزدیک یہ بنو ثعلبہ بن فِطْیُون میں سے تھا۔ یہ یہود کے بڑے علماء میں سے تھا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات اور اپنے علم سے پہچان لیا تھا لیکن اس پر اپنے دین کی محبت غالب رہی۔ ایمان نہیں لایا۔ ہفتہ کے دن اس نے کہا کہ اے یہود کی جماعت! اللہ کی قسم تم جانتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدد کرنا تم پر حق واجب ہے یعنی کہ جمعہ کو لشکر اُحد روانہ ہوا تھا تو اس نے ہفتہ کو اگلے دن کہا۔ لوگوں نے کہا کہ آج تو سبت کا دن ہے۔ آج تو کوئی جنگ والی بات نہیںہے۔ اس نے کہا تمہارے لیے کوئی سبت نہیں۔ پھر اپنی قوم کے لوگوں کو کہا کہ اگر میں آج قتل ہو گیا تو میرا مال محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ہو گا وہ جو چاہیں اس میں تصرّف کریں۔ پھر اپنے ہتھیار تھام کر چل پڑا۔ جب لڑائی ہوئی تو یہ لڑتے ہوئے شہید ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مُخَیرِِیقیہود میں سب سے بہتر ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مُخَیرِِیقیہود میں سے سبقت لے گیا اور سلمان اہل فارس میں سے سبقت لے گیا اور بلال اہل حبشہ میں سے سبقت لے گیا۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ212 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

ایک سیرت نگار نے مُخَیرِِیقکے بارے میں لکھا ہے کہ ایک رائے یہ ہے کہ اس نے اسلام کی خاطر کفار سے لڑتے لڑتے اپنی جان قربان کر دی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے اس کے حق میں توصیفی کلمات جاری ہوئے۔ اس کی بنا پر متعدد سیرت نگاروں اور تاریخ دانوں نے مُخَیرِیق کو مسلمان گردانا ہے جن میں ابنِ ہشام، سُہَیلی، ابنِ حَجَر، ابن ِکثیر، بلاذَرِی، قاضی عِیاض اور امام نَوَوِی اور دیگر شامل ہیں۔

(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد 6صفحہ 604)

پھر

حضرت عَبْدُاللہ بن جحشؓ

کا ذکر ہے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ خدا اور اس کے رسولؐ کی محبت نے ان کو تمام دنیا سے بے نیاز کر دیا تھا۔ انہیں اگر کوئی تمنا تھی تو صرف یہ کہ جان عزیز کسی طرح راہ خدا میں نثار ہو جائے۔ چنانچہ ان کی یہ آرزو پوری ہوئی اور مُجَدَّعٌ فِی اللّٰہ یعنی خدا کی راہ میں کان کٹا، ان کے نام کا امتیازی نشان ہو گیا۔

ان کی شہادت سے قبل کی ایک مقبول دعا یہ بھی تھی۔ حضرت عبداللہ بن جحشؓ کے بارے میں ہے کہ آپ کی دعا کس طرح قبول ہوئی تھی؟ آپ کی شہادت سے قبل ان کی دعا کی قبولیت کا ایک واقعہ مشہور ہے۔ اسحاق بن سعد بن ابی وقاص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن جحشؓ نے میرے والد یعنی سعد سے غزوۂ اُحد کے دن کہا کہ آؤ! اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ چنانچہ دونوں ایک جانب ہو گئے۔ پہلے حضرت سعدؓ نے دعا کی کہ اے اللہ! جس وقت میں کل دشمنوں سے ملوں تو میرا مقابلہ ایسے شخص سے ہو جو حملہ کرنے میں سخت ہو، بڑا سخت بہادر دشمن ہو اور اس کا رعب غالب ہو۔ پس میں اس سے لڑوں اور اس کو تیری راہ میں قتل کر دوں اور اس کے ہتھیاروں کو لے لوں۔ اس پر عبداللہ بن جحشؓ نے آمین کہی۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن جحشؓ نے یہ دعا کی۔ پہلے، پہلے کی دعا تھی۔ اب عبداللہ بن جحش کی یہ دعا تھی کہ اے اللہ!کل میرے سامنے ایسا شخص آئے جو حملہ کرنے میں سخت ہو اور اس کا رعب غالب ہو اور اس سے میں تیری خاطر قتال کروں اور وہ مجھ سے قتال کرے۔ وہ غالب آ کر مجھے قتل کر دے اور مجھ کو پکڑ کر میری ناک کان کاٹ ڈالے۔ پس جس وقت میں تیرے حضور حاضر ہوں تو تُو مجھ سے پوچھے کہ اے عبداللہ !کس کی راہ میں تیری ناک اور تیرے دونوں کان کاٹے گئے ہیں؟ میں عرض کروں کہ اے اللہ! تیری راہ میں اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں۔ جواب میں تُو یہ کہے کہ تُو نے سچ کہا۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے یہ خواہش رکھی کہ اللہ تعالیٰ بھی کہے کہ تُو نے سچ کہا۔ حضرت سعدؓ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن جحش ؓکی دعا میری دعا سے بہتر تھی اس لیے کہ اخیر دن میں مَیں نے ان کی ناک اور دونوں کانوں کو دیکھا کہ ایک دھاگے میں معلق تھے۔(اسدالغابہ جلد 3 صفحہ 194 تا 196 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت) یعنی کٹے ہوئے تھے اور انہیں پرویا ہوا تھا۔

صحابہ ؓکا اللہ تعالیٰ سے پیار کا عجیب انداز

ہوتا تھا۔ حضرت مطلب بن عبداللہ بن حنطبؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس روز اُحد کی جانب روانہ ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں مدینہ کے قریب ایک جگہ شیخین کے پاس رات قیام کیا جہاں حضرت ام سلمہ ؓایک بھنی ہوئی دستی لائیں جس میں سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمایا اسی طرح نبیذ لائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبیذ بھی پی۔ یہ بھی ایک قسم کا کھانا ہے جو ہریرے کی طرح پتلا ہوتا ہے۔ پھر ایک شخص نے وہ نبیذ والا پیالہ لے لیا اور اس میں سے کچھ پیا۔ پھر وہ پیالہ حضرت عبداللہ بن جحشؓ نے لے لیا اور اس کو ختم کر دیا۔ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن جحشؓ سے کہا کہ کچھ مجھے بھی دے دو۔ تمہیں معلوم ہے کہ کل صبح تم کہاں جاؤ گے؟ یعنی جنگ ہونی ہے کیا پتہ کس نے شہید ہونا ہے کس نے زندہ رہنا ہے۔ حضرت عبداللہ بن جحشؓ نے کہا کہ ہاں مجھے معلوم ہے مجھے اپنی شہادت کا یقین ہے۔ پھر کہنے لگے کہ

مجھے اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملنا کہ میں سیراب ہوں یعنی اچھی طرح کھایا پیا ہو اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اسے پیاسا ہونے کی حالت میں ملوں۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 67 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

اللہ تعالیٰ سے ملنا تو ہے تو میں اچھی طرح سیراب ہو کے ملوں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ میری خواہش ہے اس لیے میں یہ پی رہا ہوں۔ صحابہؓ کا اللہ تعالیٰ سے پیار کا یہ عجیب انداز ہے اور اس کے لیے ان کی تیاری کے بھی عجیب رنگ ہیں۔

حضرت عبداللہ بن جحشؓ اور حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا تھا۔ حضرت حمزہ ؓ حضرت عبداللہ بن جحشؓ کے ماموں تھے اور شہادت کے وقت آپؓ کی عمر چالیس سال سے کچھ زائد تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپؓ کے ترکہ کے ولی بنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بیٹے کو خیبر میں مال خرید کر دیا۔

(اسدالغابہ جلد 3 صفحہ 196 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

پھر حضرت ابوسَعْد خَیْثَمَہ بن ابو خیثمہ ؓکی شہادت اور اس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کا ذکر یوں ملتا ہے۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی اس کا ذکر ملتا ہے کہ محمد بن عمر نے بیان کیا ہے کہ خیثمہ نے اُحد کے دن عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں بدرکی جنگ میں شرکت نہیں کر سکا تھا۔ اللہ کی قسم! میں اس پر حریص تھا یہاں تک کہ میں نے بدر میں جانے کے لیےقرعہ ڈالا تو میرے بیٹے سعد بن خیثمہ کا قرعہ نکلا اور اس نے بدر میں شہادت حاصل کی اور گذشتہ رات میں نے خواب میں اس کو بہت اچھی صورت میں دیکھا۔ وہ جنت کے باغوں اور نہروں میں سیر کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ آپ ہمارے پاس آ جائیں۔ ہم جنت میں ساتھ ہوں گے۔ میں نے اپنے رب کے وعدے کو حق پایا ہے اور اللہ کی قسم! میں اس کی جنت میں رفاقت کا مشتاق ہوں یعنی میں چاہتا ہوں کہ وہاں جا کے اسے ملوں۔ تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے شہادت اور جنت میں اس کی رفاقت عطا کرے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا کی تو وہ اُحد میں شہید ہو گئے۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ219 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(مستدرک جلد3صفحہ 399حدیث 4929کتاب معرفۃ الصحابہؓ)

ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن عمرو ؓکی شہادت

کا ذکر ہے۔ یہ اس طرح مذکور ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن عمرو ؓنے غزوۂ اُحد کے لیے نکلنے کا ارادہ کیا تو اپنے بیٹے حضرت جابر ؓکو بلایا اور ان سے کہا کہ اے میرے بیٹے! میں دیکھتا ہوں کہ میں اوّلین شہداء میں سے ہوں گا اور اللہ کی قَسم! میں اپنے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے بعد تمہارے علاوہ کسی کو نہیں چھوڑ کے جا رہا جو مجھے زیادہ عزیز ہوں یعنی یہ دو ہستیاں ہیں جو مجھے دنیا میں پیاری ہیں سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس کے بعد تم میرے بیٹے۔ میرے ذمہ کچھ قرض ہے میرا وہ قرض میری طرف سے ادا کر دینا اور میں تمہیں تمہاری بہنوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔ اپنی بہنوں سے حسن سلوک کرنا۔ ان کے حق نہ مارنا۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ اگلی صبح میرے والد صاحب سب سے پہلے شہید ہوئے اور دشمنوں نے ان کی ناک اور کان کاٹ ڈالے۔

(اسد الغابہ جلد3 صفحہ 344 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت جابر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے شہداء کو دفن کرنے کے لیے تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو ان کے زخموں سمیت ہی کفن دے دو کیونکہ میں ان پر گواہ ہوں اور کوئی مسلمان ایسا نہیں جو اللہ کی راہ میں زخمی کیا جائے مگر وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا خون بہ رہا ہو گا اور اس کا رنگ زعفران کا ہو گا اور اس کی خوشبو کستوری کی ہو گی

یعنی کہ یہ پسندیدہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے۔ انہیں نہلانے اور کفنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہی کا لباس ان کا کفن ہے۔ حضرت جابر ؓکہتے ہیں کہ میرے والد کو ایک چادر کا کفن دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ان میں سے کون زیادہ قرآن جاننے والا ہے؟ جب یہ شہداء دفن کیے جا رہے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ کون زیادہ قرآن جاننے والا ہے؟ جب کسی ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا کہ یہ زیادہ قرآن جاننے والا ہے تو آپؐ فرماتے کہ اس کو قبر میں اس کے ساتھیوں سے پہلے اتارو یعنی یہ کیونکہ قرآن جانتا ہے اس لیے اس کو آپؐ پہلے دفناتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو ؓاُحد کے روز سب سے پہلے شہید ہوئے۔ ان کی تدفین کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بن عَمرو اور عمرو بن جَمُوحکو ایک ہی قبر میں دفن کرو کیونکہ ان کے درمیان اخلاص اور محبت تھی۔

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں کو جو دنیا میں باہم محبت کرنے والے تھے ایک ہی قبر میں دفن کرو۔ وہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عَمرو ؓسرخ رنگ کے تھے اور آپؓ کے سر کے اگلے حصہ پر بال نہ تھے اور قد زیادہ لمبا نہ تھا جبکہ حضرت عَمرو بن جَمُوحؓ لمبے قد والے تھے۔ ان کا قد زیادہ لمبا نہیں تھا اور عَمرو بن جَموح جو تھے وہ لمبے قد والے تھے۔ اس لیے دونوں پہچان لیے گئے اور دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کر دیا گیا۔

(الطبقات الکبریٰ جزء 3 صفحہ 424 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت جابر بن عبداللہ ؓبیان کرتے ہیں کہ غزوۂ اُحد کے دن میرے والد کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حالت میں لایا گیا کہ آپ کا مُثلہ کیا گیا تھا یعنی جسم کے اعضاء کاٹے گئے تھے خاص طور پر کان اور ناک۔ آپ کی نعش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی گئی۔ کہتے ہیں کہ میں ان کے چہرے پر سے کپڑا اٹھانے لگا تو لوگوں نے مجھے منع کر دیا۔ پھر لوگوں نے ایک عورت کے چیخنے کی آواز سنی تو کسی نے کہا کہ یہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓکی بیٹی ہیں۔ ان کا نام حضرت فاطمہ بنت عمرو ؓتھا یا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓکی بہن تھیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مت رو کیونکہ فرشتے مسلسل اس پر اپنے پروں سے سایہ کیے ہوئے ہیں۔(الاستیعاب جزء:3 صفحہ 954۔ 955 دار الجیل بیروت)وہ تو جنت میں گیا ہے خوش قسمت ہے اس پر رونے کی ضرورت نہیں۔

ایک اَور روایت میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کو جب اُحد کے روز لایا گیا تو میری پھوپھی بھی ان پر رونے لگیں تو میں بھی رونے لگا۔ لوگ مجھے منع کرنے لگے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے منع نہیں فرمایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اس پر رو یا نہ رو،کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ کی قسم! فرشتے اس پر مسلسل اپنے پروں سے سایہ کیے ہوئے تھے یہاں تک کہ تم نے اسے دفن کر دیا۔

(الاستیعاب جزء3 صفحہ 956 دار الجیل بیروت)

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورہ بقرہ کی ایک آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’جو مسلمان شہید ہو گئے ہیں تم انہیں مردہ مت کہو۔ وہ خدا تعالیٰ کے زندہ سپاہی ہیں اور خدا تعالیٰ ان کا ضرور بدلہ لے گا۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں’چنانچہ اگر ایک صحابیؓ مارا گیا تو اس کے مقابلہ پر مشرکوں کے پانچ پانچ آدمی مارے گئے اور ہر جنگ میں کفار مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہلاک ہوئے سوائے جنگ اُحد کے کہ اس میں بہت سے مسلمان مارے گئے تھے مگر ان کا بدلہ بھی اللہ تعالیٰ نے دوسری جنگوں میں لے لیا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 2صفحہ 288 ایڈیشن2004ء)

جنگ اُحد کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےکمزوری کی وجہ سے بیٹھ کے نماز اد اکی اوریہ نماز جو ادا کی وہ ظہر کی نماز پڑھائی تھی۔ آپؐ کے پیچھے صحابہ ؓنے بھی بیٹھ کر ہی نماز پڑھی۔ آپؐ کیونکہ بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے تو صحابہؓ نے بھی بیٹھ کے نماز پڑھی۔ پیچھے کھڑے نہیں ہوئے۔ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ غالباً یہ نماز دشمن کے واپس چلے جانے کے بعد پڑھی گئی۔ جہاں تک صحابہؓ کے بھی بیٹھ کر نماز پڑھنے کا تعلق ہے توانہوں نے ایسا اس لیے کیا تا کہ امام اور مقتدی کی نمازوں میں یکسانیت رہے۔ اس کے بعد یہ حکم منسوخ ہو گیا یعنی ضروری نہیں۔ مقتدی کھڑے ہو کےنماز بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے لکھنے والے کا اندازہ ہے کہ یا یہ صورت ہو گی جن لوگوں نے بیٹھ کر نماز پڑھی وہ بھی زخمی ہی ہوں گے اور چونکہ اکثریت زخمی صحابہؓ کی تھی جنہوں نے بیٹھ کر نماز پڑھی اس لیے یہ لفظ استعمال کیے گئے کہ مسلمانوں نے بیٹھ کر نماز پڑھی یعنی ان میں کھڑے ہو کر نمازپڑھنے والے بھی تھے مگر صرف وہ لوگ تھے جو زخمی نہیں تھے اور ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اکثریت زخمیوں کی تھی۔ لہٰذا اکثریت کا لحاظ کرتے ہوئے سب مقتدیوں کے بارے میں ہی کہہ دیا گیا ہے کہ مقتدیوں نے بیٹھ کر نماز پڑھی ہے۔ سیرت الحلبیہ کا یہ حوالہ ہے۔

(سیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ324 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(سیرۃ الحلبیہ مترجم جلد دوم صفحہ 185دارالاشاعت کراچی)

شہدائے اُحد کی تعداد

کے بارے میں یہ ذکر ہے جہاں تک غزوۂ اُحد میں مسلمان شہداء کی تعداد کا تعلق ہے تو اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ

اُس دن کل مقتولین کی تعداد سترّ تھی

جن میں سے چار مہاجرین میں سے تھے جن کے نام یہ ہیں حضرت حمزہ ؓ،حضرت مُصْعَبؓ، حضرت عبداللہ بن جحشؓ اور حضرت شَمَّاس بن عثمانؓ۔ ایک قول یہ ہے کہ شہدائے اُحد کی کل تعداد اسّی تھی جن میں سے چوہتر انصار میں سے تھے اور چھ مہاجرین میں سے۔ علامہ ابنِ حَجر عَسْقَلَانِی ؒکہتے ہیں کہ اگر چھ مہاجر شہید تھے تو شاید پانچویں حاطِب بن اَبِی بَلْتَعہؓ کے غلام سَعْد اور چھٹے ثَقِیف بن عَمرو تھے جو بنو عبد شمس کے حلیف تھے۔

ایک کتاب ہے عُیُون الاَثر اس میں شہداء کی کل تعداد چھیانوے بتائی گئی ہے۔ مشرکین میں سے مرنے والوں کی کل تعداد تیئس تھی۔ ایک قول یہ ہے کہ مشرکین کی یہ تعداد بائیس تھی۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس جنگ میں تنہا حضرت حمزہؓ نے اکتیس مشرکوں کو قتل کیا تھا۔

(سیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ 346-347 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

(عیون الاثر جلد دوم صفحہ 47 مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت)

یہ روایت صحیح نہیں لگتی کیونکہ ان کےمرنے والوں کی کل تعداد ہی تیئس تھی۔ ایک سیرت نگار شہدائے اُحد کی تعداد کے بارے میں لکھتا ہے کہ غزوۂ اُحد میں کفار کے ہاتھوں شرفِ شہادت سے ہمکنار ہونے والے صحابہ کرام ؓکی تعداد کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ تاریخ دانوں، سیرت نگاروں اور محدثین کرام کے ہاں شہدائےاُحد کی تعداد کے بارے میں انچاس سے لے کر ایک سو آٹھ تک کے اقوال ہیں لیکن اکثر یہی ہے کہ اُحد کے دن ستر صحابہ شہید ہوئے تھے۔

(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد7صفحہ39-40)

غزوۂ اُحد کے شہداء کی نماز جنازہ اور تدفین

کا ذکر بھی ملتا ہے۔ غزوہ اُحد کے شہداء کی نماز جنازہ کے بارہ میں مختلف آراء ہیں۔ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہؓ یہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ اُحد کے شہداء میں سے دو دو آدمیوں کو ایک ہی کپڑے میں اکٹھا رکھتے اور پھر پوچھتے کہ ان میں سے کون قرآن زیادہ جانتا تھا۔ پھر جب ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو لحد میں پہلے رکھتے تھے۔ اگر ایک ہی کپڑے میں تھے تب بھی دائیں بائیں رکھ دیتے ہوں گے۔ پہلے اس کو دفنایا جاتا پھر دوسرے کو ساتھ ہی۔ پھر آپؐ فرماتے تھے کہ میں قیامت کے دن ان لوگوں کا گواہ ہوں اور ان کے خونوں میں ہی دفن کرنے کا حکم دیتے تھے۔ نہ ان کو نہلایا گیا اور نہ ہی ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی۔

(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب الصلاۃ علی الشھید حدیث1343)

صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت بھی ہے۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ اُحدکے شہداء کا جنازہ پڑھا۔

بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے اُحد کا جنازہ غزوہ اُحد کے آٹھ سال بعد پڑھا تھا۔

(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب الصلاۃ علی الشھید حدیث 1344)

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ اُحد حدیث 4042)

یہاں مختلف روایتیں ہیں۔ مختلف وقتوں میں جو باتیں سامنے آئیں راویوں نے پیش کیں وہ پیش کی گئی ہیں لیکن یہی لگتا ہے کہ اس وقت جنازہ نہیں پڑھا گیا بعد میں کسی وقت پڑھا گیا۔

سنن ابن ماجہ میں بیان ہے کہ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ اُحد کے شہداء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس دس شہداء کاجنازہ پڑھتے اور حضرت حمزہ ؓکی میّت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی موجود رہی جبکہ باقی شہداء کو لے جایا جاتا۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی الصلاۃ علی الشھداء… حدیث 1513)

ہو سکتا ہے اس میں بھی ان کو غلط فہمی لگی ہو۔ سنن ابو داؤد میں بیان ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ اُحد کے شہداء کو غسل نہیں دیا گیا اور ان کو ان کے خون یعنی زخموں سمیت دفنایا گیا اور ان میں سے کسی کی بھی نماز جنازہ نہیں ادا کی گئی۔

(سنن ابی داؤد کتاب الجنائز باب فی الشھید یغسل؟ حدیث 3135)

سنن ابی داؤد ہی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے حضرت حمزہؓ کے اَور کسی شہید کا جنازہ نہیں پڑھا۔

(سنن ابی داؤد کتاب الجنائز باب فی الشھید یغسل؟ حدیث نمبر 3137)

سنن ترمذی کی روایت میں ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ اُحد کے شہداء کا جنازہ نہیں پڑھا۔

(سنن ترمذی کتاب الجنائز باب ما جاء فی قتلی اُحد و ذکر حمزۃ حدیث 1016)

اکثریت یہی ہے کہ نہیں پڑھا گیا۔ سیرت ابن ہشام اور سیرت حلبیہ میں لکھا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے شہداء کا جنازہ اس طرح ادا کیا کہ سب سے پہلے حضرت حمزہ ؓکی نماز جنازہ اد ا کی گئی۔ آپؐ نے نماز جنازہ میں سات تکبیرات کہیں۔ سیرت حلبیہ کے مطابق چار تکبیریں کہیں۔ اس کے بعد باقی شہداء کو ایک ایک کر کے لایا جاتا اور حضرت حمزہ ؓکی میت کے ساتھ رکھا جاتا اور آپؐ ان دونوں کی نماز جنازہ ادا فرماتے اور اس طرح تمام شہداء کی نماز جنازہ ایک بار اور حضرت حمزہ کی نماز جنازہ بہتّر بار اور بعض کے نزدیک بانوے بار ادا کی گئی۔(سیرت ابن ہشام صفحہ 395۔ 396 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(السیرۃ الحلبیۃجلد 2 صفحہ 337 دار الکتب العلمیۃ بیروت)بہرحال یہ روایتیں تو لکھی گئی ہیں لیکن بعض کمزور روایتیں بھی ہیں۔

سیرت کی ایک کتاب دلائل النبوة میں لکھا ہے کہ حضرت حمزہ ؓکی میت کے پاس نو شہداء کو اکٹھا لایا جاتا اور ان کی نماز جنازہ ادا کی جاتی پھر ان نو کو لے جایا جاتا اور مزید نو شہداء کو لایا جاتا اور اس طرح ان تمام شہداء کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور آپؐ نے ہر دفعہ نماز جنازہ میں سات تکبیرات کہیں۔

(دلائل النبوۃ جزء 3صفحہ 287 مطبوعہ دار الریان قاھرہ 1988ء)

سیرت حَلَبِیَّہاور دَلَائِلُ النُّبُوَّة میں غزوۂ اُحد کے شہداء کی نماز جنازہ کی احادیث کے بارے میں بحث کی گئی ہے اور ان دونوں کتب میں حضرت جابر بن عبداللہ ؓکی روایت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ اُحد کے شہداء کو ان کے خونوں کے ساتھ ہی دفن کرنے کا حکم دیا، نہ ان کو نہلایا گیا اور نہ ہی ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی۔ اس کو زیادہ مضبوط قرار دیا ہے۔

(السیرۃ الحلبیۃجلد 2 صفحہ 338 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

(دلائل النبوۃجزء3 صفحہ287۔ 288، مطبوعہ دار الریان قاھرہ 1988ء)

تو آخری نتیجہ یہی نکلا کہ جنازہ نہیں پڑھا گیا تھا۔

حضرت امام شافعیؒ بیان کرتے ہیں کہ متواتر روایات سے یہ بات پختہ طور پر معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ اُحد کے شہداء کا جنازہ نہیں پڑھا اور جن روایات میں ذکر آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شہداء کا جنازہ پڑھا اور حضرت حمزہؓ پر ستر تکبیرات کہی تھیں یہ بات درست نہیں ہے اور جہاں تک حضرت عقبہ بن عامرؓ کی روایت کا تعلق ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ سال کے بعد ان شہداء کا جنازہ پڑھا تھا تو اس روایت میں اس بات کا ذکر ہوا ہے کہ یہ آٹھ سال بعد کا واقعہ ہے۔

یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ آٹھ سال بعد کا واقعہ ہے۔ یہ اس وقت نہیں تھا۔

امام بخاریؒ نے اپنی کتاب میں بَابٌ اَلصَّلٰوۃُ عَلَی الشَّہِیْدیعنی شہیدوں کی نماز جنازہ کے عنوان سے باب باندھا ہے اور اس کے نیچے صرف دو حدیثیں لائے ہیں۔ پہلی حدیث میں جو کہ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے اس میں واضح طور پر ذکر ہے کہ غزوۂ اُحد کے شہداء کو نہ غسل دیا گیا اور نہ ہی ان پر نماز جنازہ پڑھی گئی جبکہ دوسری حدیث میں حضرت عقبہ بن عامرؓ سے مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ أَنَّ النَّبِیَّ خَرَجَ یَوْمًا فَصَلّٰی عَلٰی أٔھْلِ أُحُدٍ صَلَاتَہٗ عَلَی الْمَیِّتِ۔ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور اُحد کے شہداء پر نماز جنازہ کی طرز پر نماز پڑھی اور یہی حدیث بخاری میں ہی دوسری جگہ غزوۂ اُحد کے باب میں بھی آئی ہے۔ وہاں یہی صحابی روایت کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ

صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ عَلٰی قَتْلٰی أُحُدٍ بَعْدَ ثَمَانِیَ سِنِیْنَ کَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْیَاءِ وَالْأَمْوَاتِ ۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے شہداء پر آٹھ سال بعد اس طرح نماز پڑھی جیسے زندوں یا وفات پانے والوں کو الوداع کہا جاتا ہے۔

اسی طرح علامہ ابن حجر عسقلانی ؒکہتے ہیں کہ امام شافعی ؒکی اس سے یہ مراد ہے کہ کسی کی وفات پر لمبی مدت گزر جانے کے بعد اس کی قبر پر جنازہ نہیں پڑھا جاتا۔ امام شافعیؒ کے نزدیک جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ آپؐ کے وصال کا وقت قریب ہے تو آپؐ نے ان شہداء کی قبروں پر جاکر انہیں الوداع کہتے ہوئے ان کے لیے دعا فرمائی اور ان کے لیے مغفرت طلب کی۔

(فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 248-249 کتاب الجنائز مطبوعہ دار الریان قاھرہ 1986ء)

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ اُحد حدیث 4042)

جماعت کا بھی یہی موقف ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کو لکھا ہے۔ گو اس وقت نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی تھی۔ یہ تو واضح ہے۔ روایتیں اسی حق میں ہیں کہ نماز جنازہ اُحد کے شہداء کی ادا نہیں کی گئی تھی۔ آپؓ نے بھی یہی لکھا ہے کہ نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی تھی لیکن بعد میں زمانہ وفات کے قریب، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا زمانہ قریب آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر شہدائے اُحد پر جنازے کی نماز ادا کی اور بڑے درد دل سے ان کے لیے دعا فرمائی۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 502)اس کے کچھ اَور ذکر بھی باقی ہیں۔ یہ بھی ہوں گے۔ ان شاء اللہ۔

دنیا کے جو حالات ہیں اس کے بارے میں

بھی کچھ کہہ دوں۔ جنگ کی آگ تو اب پھیلتی جا رہی ہے۔

انسانیت کے تباہی سے بچنے کے لیے اب بہت دعاؤں کی ضرورت ہے اور احمدی ہی اگر حقیقت میں صحیح طرح دعا کریں تو اس کے لیے کچھ کر سکتے ہیں۔

اسرائیلی حکومت ہے تو وہ اپنی ڈھٹائی پہ تلی ہوئی ہے۔ ہر بات پہ وہ اپنا کوئی نہ کوئی بہانہ، عذر تلاش کر کے بیان کر دیتے ہیں کہ یہ وجہ ہوئی اس لیے ہم نے یہ کیا۔ اور کسی بات کو، کسی بھی عقل کی بات کو ماننے کو تیار نہیں۔ دنیا کی جو باقی طاقتور حکومتیں ہیں ان کی مرضی ہے یا ان کو بھی اسرائیل کا خوف ہے اور وہ جو بھی اسرائیلی وزیر اعظم یا ان کی حکومت بیان دیتی ہے یہ پہلے اپنا بیان اس بات پہ دیتے ہیں کہ جنگ بندی ہونی چاہیے ظلم بند ہونا چاہیے اس کے بعد جب وہ بیان دے دیں تو اس پر صاد کر دیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر بھی رحم فرمائے اور ان کو بھی خدا تعالیٰ کی طرف جھکائے۔ یہی ایک رستہ ہے جس کی پناہ میں آ کے یہ لوگ اپنی دنیا و عاقبت سنوار سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے اور ہمیں بھی دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے اور ہم پر بھی رحم فرمائے۔

٭…٭…٭

الفضل انٹرنیشنل ۸؍ مارچ ۲۰۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button