پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان (ستمبر۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب )

بستی شکرانی ضلع بہاولپور میں اشتعال انگیزی

۱۷؍ستمبر۲۰۲۳ء:گذشتہ کچھ عرصے سےاس علاقے میں احمدیوں کے لیے صورت حال کافی پریشان کن ہے اور احمدیت کی مخالفت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اشتعال انگیز اشتہارات اور جلوسوں کے علاوہ مذہبی جماعتیں ایک تسلسل کے ساتھ ختم نبوت کانفرنسوں کا اہتمام کر رہی ہیں۔۱۷؍ستمبر کو بھی یہاں ایک ایسی ہی کانفرنس منعقد کی گئی اور اس میں احمدیت کی مخالفت میں شدت رکھنے والے مولویوں کو مدعو کیا گیا۔ان میں اللہ وسایا اور عرفان محمود برق بھی شامل تھے۔تمام مقرروں نے جماعت کے خلاف دشنام طرازی کی اور احمدیوں سے مقاطعہ کا مطالبہ کیا۔لغو گو عرفان برق نے بانی جماعت احمدیہ کے خلاف بہت ہرزہ سرائی کی۔ ایک عرصے سے لوگوں کو احمدیوں کے خلاف بھڑکانے اور احمدیوں کے جان ومال اور جائیدادوں کو خطرے میں ڈالنا اس کا وطیرہ بن گیا ہے۔۲۰۱۶ء میں اس نے لوگوں کو بھڑکایا اور یہ شخص دوالمیال کی احمدیہ مسجد پر حملے کا سبب بنا۔تحقیقاتی رپورٹ میں اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا گیا تھالیکن بے سود۔

ایک احمدی وکیل کے چیمبر پر لگے فلیکس سے محمد اور احمد کے الفاظ کو کاٹ دیا گیا

اوکاڑہ۔ستمبر۲۰۲۳ء:۱۴؍جولائی کو تحریک لبیک کے حواس باختہ مذہبی جنونیوں نے موٹر سائیکلوں پر ایک ریلی نکالی اور مطالبہ کیا کہ مقامی صدر جماعت جو ایک وکیل ہیں وہ اپنے نام سے محمد اور احمد کے الفاظ ہٹا دیں کیونکہ یہ الفاظ صرف مسلمان ہی استعمال کر سکتے ہیں اور ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ بطور وکیل کام کرنا چھوڑ دیں۔اگست میں چھٹیوں کے باعث سول عدالت میں صرف کچھ وقت کےلیے ہی ان کا آنا جانا تھا۔ ۲۵؍ستمبر کو انہوں نے معمول کے مطابق اپنا دفتر بند کیا۔ لیکن ۲۷؍ستمبر کو دیگر وکلا ایک ایسی تصویر نشر سوشل میڈیا پر پھیلا رہے تھے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کے چیمبر کے باہر لگے فلیکس سے ان کے نام سے محمد اور احمد کے الفاظ کاٹ دیے گئے ہیں۔ مزید برآن انہوں نے انتہائی فحش زبان استعمال کی۔ اس بات کی اطلاع ڈی پی او اور ڈی ایس پی کو دے دی گئی۔

سندھ میں احمدیہ مسجد پر حملے کا خطرہ

گوٹھ مسان۔ ضلع لاڑکانہ۔ سندھ۔ ستمبر۲۰۲۳ء: مخالفین احمدیت یہاں بہت زیادہ سرگرم ہیں۔ ۷؍ستمبرکو ایک مخالفِ احمدیت نے ایک دیوار پر احمدیت کے خلاف تحریرات لکھیں اور پھر خود ہی ان پر سیاہی پھیر کے احمدیوں کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا اور ساتھ ہی الزام لگایا کہ احمدی اسے تنگ کر رہے ہیں۔ نیز یہ کہ انہوں نے اپنی مسجد میں مینارے اور محراب تعمیر کر رکھے ہیں۔لیکن ایس ایچ او نے کارروائی سے انکار کر دیا۔ اس پر مخالفین احمدیت ڈی ایس پی کے پاس چلے گئے۔ بعد ازاں مخالفینِ احمدیت پولیس کی معیت میں مسجد آگئے۔ وہاں موجود احمدیوں نے ان سے بات کی۔ پولیس نے فریقین کو تھانے بلا لیا۔ لیکن مسئلے کا کوئی حتمی حل نہیں نکل سکا۔

اوکاڑہ میں احمدیت مخالف جلوس

ایف بلاک۔ اوکاڑہ۔ ستمبر۲۰۲۳ء:گذشتہ سال مخالفینِ احمدیت نے احمدیہ مسجد کے میناروں اور محراب کے خلاف شکایت کی تھی۔ اس پر مقامی جماعت نے دیواروں کو مزید بلند کر کے میناروں اور محراب کو چھپا دیا تھا تاکہ وہ باہر سے نظر نہ آئیں۔ لیکن اب دوبارہ مخالفین نے سوشل میڈیا پر میناروں اور محراب کے خلاف مہم برپا کر دی اور ۲۷؍ستمبر کو انہیں منہدم کر نے کی دھمکی دی ۔ مزید برآں کوئی اڑھائی ہزار کے قریب لوگوں پر مشتمل ہجوم نے ایک جلوس نکالا۔پولیس نے احمدیہ مسجد کی طرف جانے والے راستے کی ناکہ بندی کر دی۔ اس پر ان لوگوں نے پولیس کے خلاف بھی مظاہرہ کیا۔

ربوہ میں احمدیت مخالف کانفرنس

ربوہ۔ستمبر۲۰۲۳ء:۱۹۷۴ء میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی آئین کی دوسری ترمیم منظور ہونے کی ’خوشی‘ میں ہر سال ۷؍ستمبر کو مخالفین احمدیت ریلیاں اور کانفرنسیں منعقد کر تے ہیں۔اس ترمیم نے پاکستان میں احمدیوں پر ظلم و ستم کے نئے دروازے کھول دیے۔ہر سال کی طرح اس سال بھی مولوی ختم نبوت کی چھتیسویں کانفرنس منعقد کرنے کےلیے ربوہ کے مشرقی جانب مسلم کالونی میں واقع مولوی شبیراحمد عثمانی کے مدرسے میں جمع ہوئے۔ اس کانفرنس کے تین حصے تھے۔ پہلے حصے میں ۷۵ سے ۸۰ لوگ، دوسرے حصے میں۲۰۰ کے قریب اور تیسرے حصے میں ۶۰۰ کے قریب لوگ شامل ہوئے۔اس میں مختلف جگہوں سے آئے ہوئے مولویوں نے تقاریر کیںجن میں محمد امین قاسمی،اعظم حسین، عبدالرؤف،طاہر محمود اشرفی،محمد اشفاق چشتی، زاہد محمود قاسمی، الیاس چنیوٹی،شہبازگجر اورکفیل شاہ بخاری شامل تھے۔ ان کی رطب و یابس اور یاوہ گوئی کا خلاصہ یہ تھا کہ قادیانی بے دین ہیں۔ختم نبوت کے منکر ہیں۔ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ان سے دُور رہیں اور ان کا معاشی مقاطعہ کریں۔۷؍ستمبر کا دن تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور اس حکومت کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے سچے مسلمان ہونے کا ثبوت دیا۔اور آئی جی پنجاب کا شکریہ کہ اس نے پولیس چیک پوسٹ بحال کی۔ورنہ قادیانی چیک پوسٹ پر اور اس سے ملحقہ مسجد پر قابض ہوجاتے۔وزیر اعلیٰ پنجاب کا شکریہ جس نے احمدیوں کو اسلامی شعائر کے استعمال اور قربانی سے روکا۔امریکی اور برطانوی ایجنسیاں قادیانیوں کو شرارت کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔قادیانیوں کو اس ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ان کو تباہ کرنے میں ہم ایک ساتھ ہیں۔ قادیانیوں کے حمایتیوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے کیونکہ ان کو قربانی کرنے اور عبادت گاہیں بنانے سے روکا جارہا ہے۔جب یہ مینارے بناتے ہیں تو پولیس ان کو توڑ دیتی ہے۔ پولیس پہلے ہی کیوں نظر نہیں رکھتی۔ اسلام کا لبادہ اوڑھ کے قادیانی اسلامی ستون اور شعائرکا استعمال کرتے ہیں۔اسی لیے یہ دوسرے بے دینوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔

تھرپارکر،سندھ میں احمدیت مخالف کیمپ

مٹھی ضلع تھرپارکر۔ستمبر۲۰۲۳ء:پنجاب کے بعد مخالفین احمدیت سندھ میں سرگرم ہیں۔ ۵؍ستمبر۲۰۲۳ء کو ایک مولوی ۲۰کے قریب لوگوں کو ساتھ لے کر المہدی ہسپتال کے مینجر کو ملنے کےلیے آیا۔اس سے قبل انہوں نے مٹھی شہر کے صدر دروازے پر لگے پیپلز پارٹی کے بینر ہٹائے اور وہاں ختم نبوت سے متعلق تحریرات لکھیں۔کشمیر چوک مٹھی میں انہوں نے ختم نبوت کیمپ لگایا۔وہاں انہوں نے لوگوں کو جماعت کے خلاف بھڑکایا اور احمدیہ مخالف لٹریچر تقسیم کیا۔مٹھی میں ہی ایک احمدی دوست کی فرنیچر کی دکان ہے۔۸؍ستمبر کو دکان پر تلاوت قرآن کریم لگی ہوئی تھی۔ مخالفین نےاس کی ویڈیو بنالی اور دھمکی دی کہ وہ یہ ویڈیو پولیس کو دے کر مقدمہ درج کروائیں گے۔

انتظامیہ نے قصور میں احمدیوں کو ہراساں کیا

بھلیر۔ضلع قصور۔ستمبر۲۰۲۳ء:احمدیوں کے لیے مخصوص قبرستان میں دو قبروں پر اسلامی تحریرات لکھی ہوئی تھیں اور کچھ عرصہ قبل مخالفین نے خفیہ طور پر انہیں مٹانے کی کوشش بھی کی تھی۔اس سےقبل انہوں نے احمدیہ مسجد پر بھی حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔اس میں ناکامی کے بعد بدلے کے طور پر ہی مخالفین نے قبروں کو نشانہ بنایا۔ اس معاملے کی اطلاع ڈی پی او کو دی گئی تو اس نے متعلقہ ڈی ایس پی کو معاملات حل کر نے کےلیے کہا۔ چنانچہ اس نے جماعت احمدیہ کے وفد کو دعوت دی تا کہ اس پر گفتگو کی جا سکے۔۴؍ستمبر کو ڈی سی قصور نے اس معاملے کے حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی اور جماعت احمدیہ کا وفد اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوا۔کمیٹی کے ارکان میں اسسٹنٹ کمشنر بھی شامل تھا جس نے مسجد کے معاملے پر بات شروع کر دی۔ احمدی وفد نے اسے بتایا کہ وہ معاملہ ڈی سی قصور نے حل کر دیا ہے۔ لیکن کمیٹی کے ایک رکن نے کہا کہ انہیں یہ شکایت موصول ہوئی ہے کہ احمدیوں نے اپنی عبادت گاہ پر ایک مینار بنایا تھا اورجب انتظامیہ کے ایک رکن نے مسجد کا معائنہ کیا تو احمدیوں نے وہ مینار ہٹا دیا۔ اور ساتھ ہی کمیٹی کے ارکان نے کہا جہاں تک قبروں کا تعلق ہے تو احمدیوں کو قبروں سے کتبے ہٹانے ہوں گے۔اس پر انہیں بتایا گیا کہ یہ قبرستان کلی طور پر جماعت احمدیہ کا ہے۔ یہ کوئی مشترکہ قبرستان نہیں ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اپنی چار دیواری میں ہم اپنے عقائد کے مطابق عمل کرنے کے مجاز ہیں۔کمشنر نے مخالف فریق سے پوچھا کہ وہ کن کے خلاف شکایت لے کے آئے ہیں۔ اس پر انہیں بتایا گیا کہ متوفی کے رشتہ دار یہاں موجود نہیں۔ اسی دوران ایس ایچ او نے بھی ان سے پوچھا کہ تم لوگ تو اس گاؤں سے ہو ہی نہیں تم لوگ کہاں سے آئے ہو تو انہوں نے کہاکہ وہ لوگ بھائی پھیرو اورپتوکی سے آئے ہیں۔ ایس ایچ او نے کہا کہ جن لوگوں کی خاطر تم لوگ یہاں آئے ہو وہ سب کے سب منشیات فروش ہیں اور ان میں ایک جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں جیل میں ہے۔ لہٰذا تم لوگ کیوں ان کی حمایت کر رہے ہو۔بعد ازاں ڈی ایس پی نے کہا کہ وہ لوگ اگلے روز خود گاؤں کا دورہ کریں گے۔ چنانچہ اگلے روز کمیٹی کے ارکان گاؤں پہنچ گئے اور مسجد کے اندر جا کر دیکھنے پر اصرار کرنے لگے۔اس پر جماعتی وفد اور ایس ایچ او نے کہا کہ وہ اس چیز کے مجاز نہیں ہیں۔ اسی دوران ایک شخص قریبی گھر کی چھت پر چڑھ گیا تا کہ وہ اندر جھانک سکے۔ کمیٹی کے ارکان اس بات پر مصر تھےکہ احمدی قبروں کے کتبے ہٹائے جائیں۔

انتظامیہ سے ایک درخواست جس کا کوئی حاصل نہیں

ہر سال ۱۲؍ربیع الاول کے دن مختلف شہروں سے غیراحمدی ہجوم اور جتھوں کی شکل میں ربوہ آجاتے ہیں۔ربوہ وہ شہر ہے جس کی ۹۵ فیصد آبادی احمدی نفوس پر مشتمل ہے۔ مولوی اس دن آنحضورﷺ کے اوصاف حمیدہ پر بات کر نے کی بجائے احمدیوں کے خلاف نفرت انگیزی کرنے اور لوگوں کو احمدیوں کے خلاف اکسانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ایسے طریق پر ایک خاص گروہ کو اس کے اپنے ہی شہر میں رسوا کرنا اور ان کے عقائد کے خلاف تحقیر آمیز گفتگو کرنا نہ صرف ان کے خلاف نفرت کو پروان چڑھاتا ہے بلکہ ان کی جان و مال کو بھی خطرے میں ڈالتا ہے۔اس روز تمام مارکیٹیں، سکول اور دفاتر بند کر دیے جاتے ہیں اور لوگ اپنے گھروں میں قید ہو کر رہ جاتے ہیں تا کہ ان نفرت کے بیوپاری مذہبی جنونیوں سے کسی احمدی کا سامنا نہ ہو جائے۔جماعت احمدیہ کی مرکزی قیادت نے بارہا انتظامیہ تک یہ بات پہنچائی ہے کہ ایسی کارروائیوں کو روکا جائے کیونکہ یہ شہر کے امن کےلیے خطرے کا باعث ہیں۔لیکن سب بے سود۔

اس بار بھی انتظامیہ کو ایک خط لکھا گیا اور صورتحال کو واضح کیا گیا۔ اس کا خلاصہ یوں ہے کہ اس بار بھی ہر سال کی طرح ۱۲؍ربیع الاول کے موقع پر پروگرام منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا۔پورے ملک میں ہر جگہ اس موقع کی مناسبت سے جلسے جلوس منعقد کیے جاتے ہیں۔اس موقع پر ربوہ میں بھی ایسے جلسے جلوس نکالے جاتے ہیں۔لیکن مقرر آنحضورﷺ کی سیرت و سوانح بیان کرنے کی بجائے جماعت کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا شروع کر دیتے ہیں اور لوگوں کو احمدیوں کو نقصان پہنچانے پر اکسانے لگ جاتے ہیں۔جماعت احمدیہ کے ارکان کبھی اس کا جواب نہیں دیتے اور یہ روایت اب برس ہا برس سے یوں ہی چلی آرہی ہے۔ہر سال تین جلوس ربوہ میں نکالے جاتے ہیں جو احمدیت مخالف نعرے بازی کرتے ہیں اور احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہیں اور سارا دن یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ خاص طور پر مجلس احرار دیوبند کا جلوس ربوہ کی مرکزی شاہراہوں سے گزرتا ہوا بس اڈے تک جاتا ہے اور نعرے بازی اور اشتعال انگیزی میں سب سے آگے ہوتا ہے۔ نہ تو موجودہ ملکی صورتحال اور نہ ہی اسلامی تعلیمات کسی صورت میں ایسی اشتعال انگیزی کی اجازت دیتی ہیںجو مخدوش ملکی صورتحال کو مزید بگاڑ دیں۔آئینِ پاکستان بھی ملک کے ہر شہری کی جان اور مال کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ ۱۲؍ربیع الاول کے دن ایسی کارروائیوں کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کریں۔اور ساتھ ہی ایسے جلسے جلوسوں کی ریکارڈنگ بھی کریں تا کہ تصویر کا حقیقی رخ سب کے سامنے آسکے۔امید ہے کہ آپ اس نازک صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے مناسب کارروائی کریں گے۔

خوشاب میں ایک احمدی دوست کا کاروبارخطرے سے دوچار۔ ایک دکان بند کروا دی گئی

قائد آباد۔ضلع خوشاب۔ستمبر۲۰۲۳ء:گذشتہ ایک ماہ سے اس علاقے میں احمدیت سے دشمنی عروج پر ہے۔ قائدآباد سے ملحقہ ۳۰ گاؤں میں مستقل بنیادوں پر سکولوں کالجوں اور دیگر عوامی اجتماعات کی جگہوں پر ختم نبوت کی کانفرنسیں منعقد کی جارہی ہیں اور قائد آباد میں مقامی صدر جماعت کے میڈیکل سٹور کے سامنے سے جلوس گزر تے رہے ہیں۔مخالفین کوشش کر رہے تھے کہ میڈیکل سٹور پر لگی نام کی تختی سے سید کا لفظ ہٹایا جائے۔ ۷؍ستمبر کی ریلی کے بعد ڈی ایس پی نے صدر صاحب اور ان کے بھائی کو بلایا اور کہا کہ اپنے نام سے ’’سید‘‘ لفظ ہٹا دیں۔ کیونکہ ان پر بہت زیادہ دباؤ ہے اور وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اس پر انہیں بتایا گیا کہ یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کےخلاف ہے۔ لیکن پولیس والوں نے ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی اور لوگوں نے صدر صاحب کا بائیکاٹ کر دیا۔ اور انہیں چیزیں فروخت کرنے اور ان کے میڈیکل سٹور سے چیزیں خریدنا بند کر دیا۔

اسی طرح جوہرآباد میں ایک احمدی دوست کو اپنی موبائیلوں کی دکان بند کرنا پڑی اور ان کے دوسری دکانوں میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

جے یو آئی کے جھوٹے الزامات کے باعث پولیس کا احمدیہ مسجد کا دورہ

نظر محلہ۔ لاڑکانہ۔ سندھ۔ ۱۳؍ستمبر۲۰۲۳ء: چند پولیس اہلکار احمدیہ مسجد بیت التوحید کا دورہ کرنے آئے۔انہیں جمعیت علماء اسلام کے ایک مولوی نے شکایت کی تھی کہ احمدی بیت التوحید میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور لوگوں کو بیرون ممالک بھیجنے کا جھانسا دے رہے ہیں۔اس پر جماعتی وفد پولیس سٹیشن گیا اور انہیں بتایا کہ مولوی عبد القادر نے جھوٹ بولا ہے۔ پولیس امیر صاحب جماعت ضلع لاڑکانہ کے بارے میں دریافت کر رہی تھی جو کہ شہر سے باہر تھے۔

(مرتبہ: مہر محمد داؤد )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button