مکتوب

مکتوب جنوبی امریکہ (جنوری و فروری ۲۰۲۴ء)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

(جنوری، فروری ۲۴ء کے دوران بر اعظم جنوبی امریکہ میں وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات کا خلاصہ)

ویسٹ انڈیز کی آسٹریلیا کے خلاف برسبین میں تاریخ ساز فتح

ویسٹ انڈیز نے ۲۷ سال بعد آسٹریلیا کو ان ہی کے گھر میں کرکٹ کے ٹیسٹ میچ میں شکست دے کر تاریخی فتح حاصل کر لی۔ سیریز میں ڈیبیوکرنے والے فاسٹ باؤلر شمر جوزف نے تباہ کن باؤلنگ کرتے ہوئے ویسٹ انڈیز کو آسٹریلیا کے خلاف برسبین میں تاریخ ساز فتح سے ہمکنار کیا۔گابا اسٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں ویسٹ انڈیز نے چوتھے روز آسٹریلیا کو ۸ رنز سے ہرایا۔ویسٹ انڈیز نے پہلی اننگز میں ۳۱۱ رنز بنائے تھے جبکہ آسٹریلیا نے اپنی پہلی اننگز ۲۸۹ رنز ۹ وکٹوں پر ڈیکلیئرکر دی تھی اور یوں مہمان ٹیم کو پہلی اننگز میں ۲۲ رنز کی برتری حاصل ہوئی۔دوسری اننگر میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم ۱۹۳ رنز پر آل آؤٹ ہو گئی اور میزبان ٹیم کو جیت کے لیے ۲۱۶ رنز کا ہدف دیا۔

ویسٹ انڈیز نے آسٹریلیا کو ۲۰۷ رنز پر آؤٹ کرکے میچ ۸ رنز سے جیت لیا۔مہمان ٹیم کی جانب سے شمر جوزف نے زخمی انگوٹھے کے ساتھ دوسری اننگز میں ۶۸ رنز دے کر ۷کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔اس سے قبل ویسٹ انڈیز نے ۱۹۹۷ء میں آسٹریلیا کو اس کی سر زمین پر شکست دی تھی۔

انیسویں صدی کے امیر ممالک میں شامل وہ ملک جہاں اب گوشت کھانا بھی خواب بنتا جا رہا ہے

تقریباً سو سال پہلے تک ارجنٹینا دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک تھا۔ یہ فرانس اور جرمنی سے بھی زیادہ امیر تھا۔ارجنٹینا کی اس دولت کا انحصار گوشت کی برآمد پر تھا جس کی سب سے بڑی منڈی برطانیہ تھی مگر اس بات کو اب سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ برسوں سے جاری معاشی بحران کے باعث اب یہ امیر ممالک کی فہرست میں سترویں نمبر پر ہے اور وہ ملک جو گوشت کی درآمد کے لیے جانا جاتا تھا، وہاں لوگوں کے لیے اس کا استعمال ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔اب مہنگائی کی وجہ سے مرغی بھی ایک آسائش بن گئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ارجنٹینا کی چالیس فیصد آبادی غربت کی شرح کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے مگر بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کی اصل شرح اس سے کہیں زیادہ ہے۔ارجنٹینا میں لوگ زندہ رہنے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈنے پر مجبور ہیں۔ ایک شخص اپنی گاڑی میں انڈے رکھ کر بیچ رہا ہے۔ وہ ایک ڈالر میں ایک درجن انڈے بیچ رہا ہے۔کم قیمت کی وجہ سے اس کے پاس گاہکوں کی قطار ہے مگر پولیس کے چھاپے کے ڈر سے وہ یہاں زیادہ دیر رک نہیں سکتا۔بیونس آئرس کی گلیاں آج بھی انیسویں صدی میں تعمیر کی جانے والی عالیشان عمارتوں سے مزین ہیں مگر وہیں ان گلیوں میں پتھروں، ڈلیوری رائیڈرز اور غیر سرکاری ٹیکسیوں کی بھرمار ہے۔ سالٹا نیشنل یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی افرادی قوت کا نصف سے زیادہ حصہ غیر رسمی شعبے سے منسلک ہے۔اس کے علاوہ پچھلے سال قانون میں کی جانے والی ترامیم کے بعد سے ارجنٹینا میں ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے جو انکم ٹیکس دیتے ہیں۔ ایسے ملک کے لیے جو شدید مالی بحران سے گزر رہا ہو، یہ کوئی اچھی خبر نہیں۔دراصل اس وقت ارجنٹینا اپنی آمدن سے کہیں زیادہ خرچ کر رہا ہے۔

منشیات کی سمگلنگ سے سونے کی کان کنی تک لاطینی امریکہ کی جیلیں بدنام گروہوں کے کمانڈسینٹر

کسی بھی ملک میں جیلیں مجرموں اور سماج دشمن عناصر کی سرکوبی اور اصلاح کے لیے قائم کی جاتی ہیں مگر لاطینی امریکہ کے مختلف ممالک میں یہ معاملہ بالکل برعکس ہے کیونکہ یہاں کی جیلیں عوامی سلامتی کے لیے ایک بڑے خطرے کا مرکز بن کر اُبھر رہی ہیں۔ایکواڈور ہو، برازیل یا وینیزویلا، جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے تشکیل دیے جانے والے جرائم پیشہ گروہ اب پورے لاطینی امریکہ میں پھل پھول رہے ہیں جس کے پیش نظر ایسے ممالک کی حکومتیں جیلوں میں موجود گروہوں کی طاقت کو ختم کرنے کے لیے انتہائی اقدامات کر رہی ہیں۔لاطینی امریکہ کے متعدد ممالک میں مجرموں کی سرکوبی کے لیے بنائی گئی جیلیں بڑی اور بدنام زمانہ مجرم تنظیموں اور گروہوں کے ’’کمانڈ سینٹر‘‘بن چکے ہیں۔حالیہ دنوں میں اس معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس وقت ہوا جب ایکواڈور کے بدنام زمانہ اور طاقتور گینگ ’’لاس چونیروس‘‘کے سرغنہ ایڈولف ماتھیاس ولامار، جسے فیتو کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک انتہائی سیکیورٹی والی جیل سے اچانک غائب ہو گیا۔ اس کے جیل سے فرار ہونے کی وجہ سے ملک میں واقع متعدد جیلوں میں فسادات کی ایک لہر دوڑ گئی جبکہ جیلوں کے باہر چند شہروں میں بھی لوٹ مار اور مار دھاڑ کے واقعات رونما ہوئے۔اس صورتحال کے بعد ایکواڈور کے صدر ڈینیئل نے ملک میں جاری ’اندرونی مسلح تصادم‘ کی نشاندہی کرتے ہوئے ملک میں ساٹھ روز کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا۔عمومی طور پر لاطینی امریکی کی جیلوں میں بننے یا یہاں سے موصول ہونے والی ہدایات پر چلنے والے گروہوں کی آمدنی کا اہم ذریعہ منشیات کی سمگلنگ ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ ان میں سے چند گروہ بھتہ خوری سے لے کر غیر قانونی کان کنی جیسے دیگر جرائم تک بھی اپنی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کر چکے ہیں۔ میکسیکو میں سینٹر فار اکنامک ریسرچ اینڈ ٹیچنگ سے منسلک ماہر گسٹاوو فونڈیولا کا کہنا ہے کہ’’اب جیلیں ویسی نہیں رہیں جیسا کہ ہم ماضی میں سوچتے تھے۔ پورے خطے میں یہ جیلیں تشدد کے فروغ کی بڑی وجہ بن گئی ہیں۔ آپ کسی جگہ جیل بناتے ہیں اور اس علاقے میں جرائم کی شرح ڈرامائی انداز میں بڑھ جاتی ہے۔ یہ ملک میں واقع جیلوں کے اندر چلنے والی متوازی ریاست جیسا ہے۔‘‘ ایکواڈور کی جیلوں پر حکومتی کنٹرول کا فقدان کوئی نئی بات نہیں۔ ۲۰۲۰ءسے اب تک جیلوں کے اندر مختلف گروہوں کے درمیان ہونے والے پرتشدد واقعات میں ۴۵۰ سے زائد قیدیوں کی ہلاکت ہوئی، اس ضمن میں سب سے سنگین واقعہ ستمبر ۲۰۲۱ءمیں پیش آیا جب درجن کے لگ بھگ قیدیوں کے سر قلم کیے گئے تھے۔ایکواڈور کی جیلوں میں ہونے والے تشدد سے آگے، ماہرین اس پورے سلسلے کو ایک گینگ وار کی طرح دیکھتے ہیں جو سڑکوں پر بھی پھیل چکی ہے۔ جہاں قتل و غارت، فائرنگ اور مخالفین پر حملوں میں اضافہ ہوا وہاں یہ ملک (ایکواڈور) منشیات کی سمگلنگ کا ایک بڑا مرکز بن کر ابھرا ہے۔

’’نیو دبئی‘‘کہلائے جانے والا ملک جہاں تیل کی دولت زندگیاں بدل رہی ہے

گیانا، جنوبی امریکہ کے شمال میں سرینام اور وینیزویلا کے درمیان واقع ایک ملک ہے۔اس کی آبادی ۸ لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ گنے کی پیداوار کے لیے ابتدائی طور پر ڈچ کالونی کے طور پر اُبھرا۔ ۱۹۶۶ءتک یہ مُلک آزاد ریاست کے طور پر سامنے نہیں آیا تھا اور اس کا نظم و نسق برطانوی راج کے زیر اثر تھا۔سنہ ۲۰۱۵ءمیں امریکی آئل کمپنی ایگزون موبل نے ملک کے ساحل پر اقتصادی طور پر قابل عمل تیل کے وسیع ذخائر دریافت کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد کے سالوں میں، ایگزون موبل، ہیس اور چین کے سی این او او سی کمپنی پر مشتمل کنسورشیم نے گیانا کے ساحل سے صرف ۲۰۰ کلومیٹر دور کنویں کھودے۔اب تک اس ملک میں تقریباً ۱۱ ارب بیرل تیل کے ذخائر دریافت ہو چکے ہیں لیکن حالیہ اندازوں کے مطابق یہ حجم ۱۷؍ ارب بیرل تک پہنچ سکتا ہے۔یہ برازیل کے تمام تیل کے ذخائر سے زیادہ ہو گا، جس کا تخمینہ ۱۴ ارب بیرل ہے۔ ۲۰۱۹ءتک گیانا کی معیشت زراعت، سونے اور ہیروں کی کان کنی اور لاگنگ پر مبنی تھی۔ تاہم تیل کی دریافت سے ہونے والی آمدنی نے ملک کی مجموعی شرح نمو یا جی ڈی پی کو نمایاں فروغ دینا شروع کر دیا ہے۔سنہ ۲۰۲۰ءمیں برازیل کے اس وقت کے وزیر خزانہ پاؤلو گوڈیز نے ملک کا موازنہ متحدہ عرب امارات کے ان شہروں میں سے ایک سے کیا تھا جو تیل سے پیدا ہونے والی دولت کی علامت بن چکے ہے۔گیڈیز نے کہا کہ’’یہ خطے کا نیا دبئی ہے۔‘‘اور اس ضمن میں سامنے آنے والے اعداد و شمار واقعی قابلِ توجہ ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا اندازہ ہے کہ ۲۰۱۹ءسے ۲۰۲۳ء کے درمیان ملک کا جی ڈی پی ۵.۱۷ ارب ڈالر سے بڑھ کر ۱۴.۷ ارب ڈالر ہو گیا ہے جو کہ لگ بھگ ۱۸۴ فیصد اضافہ ہے۔صرف ۲۰۲۲ءمیں جی ڈی پی کی شرح نمو ۶۲ فیصد رہی ہے۔اسی طرح، فی کس جی ڈی پی ۲۰۱۹ءمیں ۶،۴۷۷ امریکی ڈالر سے بڑھ کر ۲۰۲۲ءمیں ۱۸،۱۹۹ امریکی ڈالر ہو گئی ہے۔یہ اعداد و شمار ۲۰۲۲ءمیں برازیل کی فی کس جی ڈی پی کے دوگنا سے زیادہ اور گوئٹے مالا کے تین گنا سے زیادہ ہیں۔گیانا کے لیے عالمی بینک کی نمائندہ ڈیلیٹا ڈوریٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ گیانا سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ’’ایسا لگتا ہے جیسے ملک نے لاٹری جیت لی ہو اور یہ زندگی میں ایک بار ملنے والا موقع ہے۔‘‘تیل سے پیدا ہونے والی ترقی کے نتیجے میں ملکی معیشت کے دیگر شعبوں پر بھی مثبت اثرات پڑے ہیں۔آئی ایم ایف کے مطابق ۲۰۲۲ءمیں نان آئل جی ڈی پی گروتھ ۱۱.۵ فیصد رہی۔اس کے اثرات ملک کے بڑے شہروں جیسے دارالحکومت جارج ٹاؤن میں نظر آ رہے ہیں۔ کرینوں اور تعمیراتی کارکنوں کو بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں جیسے ہسپتالوں، شاہراہوں، پُلوں اور بندرگاہوں پر کام کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، ساتھ ہی امریکہ میں قائم میریٹ اور بیسٹ ویسٹرن جیسی بین الاقوامی ہوٹلز کی چینز اس ملک میں تعمیر ہو رہی ہیں۔ امریکہ کی مشہور برانڈ’’سٹار بکس فرنچائز‘‘کےاپریل ۲۰۲۳ء میں کھولے گئے سٹور میں ۵۰ ملازمین ہیں۔ یہاں اکثر بھیڑ ہوتی ہے۔سٹار بکس نے بی بی سی برازیل کو بتایا کہ ملک میں سٹور کا افتتاح ملک میں ایک متحرک مارکیٹ ہونے کی وجہ سے ہوا۔ اس بات کے دیگر اشارے بھی موجود ہیں کہ گیانا میں تیل کی نئی دولت کتنی تیزی سے آرہی ہے۔ملک نے انفراسٹرکچر کے کاموں کی تعمیر کے لیے ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے متعدد ممالک کی کمپنیوں کو راغب کرنا شروع کر دیا ہے جس کی ملک کو دہائیوں سے ضرورت تھی۔ سرکاری اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ حکومت نے ۲۰۱۹ءمیں سڑکوں اور بندرگاہوں جیسے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر ۱۸۷ ملین ڈالر خرچ کیے، جو ملک میں تجارتی تیل کی تلاش کا پہلا سال تھا۔۲۰۲۳ءتک یہ اعداد و شمار ۶۵۰ ملین ڈالر تک پہنچ گئے، یعنی ۲۴۷ فیصد کا اضافہ ہے۔ گیانا کے نائب وزیر برائے پبلک ورکس کے عہدے پر فائز دیودت اندر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے پاس یورپی بلاک، چین، انڈیا، امریکہ، کینیڈا اور برازیل کی کمپنیاں ہیں۔‘چین ترقی کے اس سفر میں نمایاں حصہ دار بن رہا ہے مثال کے طور پر چینی کمپنیوں کے ایک کنسورشیم نے دریائے ڈیمرارا پر ایک نیا پل تعمیر کرنے کا ٹینڈر جیت لیا۔ اس کام کی مالی اعانت بینک آف چائنا نے کی تھی۔اس منصوبے کو ملک کی ترقی کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ پُل ایک ایسے پُل کی جگہ لے گا جو گذشتہ ۳۰ سال سے زیادہ عرصے سے زیر استعمال ہے اور اسے دن میں کئی بار بحری جہاز گزارنے کے لیے بند کرانا پڑتا ہے۔نئے پل میں یہ خاصیت ہو گی کہ بحری جہاز اس کے نیچے سے گزر جائیں گے اور ٹریفک کی روانی میں خلل نہیں پڑے گا۔ اس منصوبے کی مالیت ۲۶۰ ملین امریکی ڈالر ہے۔ سال ۲۰۲۲ءمیں انڈیا میں ایک ٹھیکیدار نے ہائی وے کی تعمیر کے لیے ۱۰۶ ملین ڈالر کا ٹینڈر جیتا تھا۔آسٹریا کی ایک کمپنی کو حکومت کی طرف سے ہسپتال تعمیر کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا، اس منصوبے کی مالیت ۱۶۱ ملین امریکی ڈالر ہے۔

اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کرکے ہٹلر کا کردار ادا کر رہا ہے

ایتھوپیا کے شہر عدیس ابابا میں افریقی یونین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے برازیل کے صدر لولا ڈی سلوا نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کرکے ہٹلر کا کردار ادا کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ ماضی میں کبھی بھی نہیں ہوا۔ تاریخ غزہ کی اس وحشیانہ جنگ کی مثال نہیں پیش کر سکتی۔ صدر لولا ڈی سلوا نے کہا کہ غزہ جنگ ویسی ہی ہے جیسا ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت غزہ میں جو کچھ ہو رہاہے یہ نسل کشی ہے۔ صدر لولا ڈی سلوا نے کہا جو کچھ اسرائیلی فوج کر رہی ہے یہ سپاہیوں کی سپاہیوں کے خلاف جنگ نہیں۔ یہ انتہائی جدید اسلحے سے لیس فوج کی غزہ میں عورتوں اور بچوں کے خلاف جنگ ہے۔اسرائیلی مظالم کے خلاف بیان دینے پر حماس نے برازیلی صدر کی تعریف کی ہے۔حماس کا کہنا ہے کہ غزہ میں نسل کشی کی ہولوکاسٹ سے مماثلت کے برازیلی صدر کے بیان کی قدر کرتے ہیں۔حماس نے کہا کہ برازیلی صدر کا بیان بائیڈن انتظامیہ کی حمایت سے مظالم جھیلتے فلسطینیوں کی درست عکاسی ہے۔عالمی عدالت انصاف برازیلی صدر کے بیان پر توجہ دے، فلسطینیوں کو جدید تاریخ کے بدترین مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button