خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 09؍ فروری 2024ء

اس مقدس انسانؐ کے کانوں میں جب آواز پڑی اُعْلُ ھُبَلْ۔ اُعْلُ ھُبَلْ۔ہبل کی شان بلند ہو، ہبل کی شان بلند ہو تو اس کے جذبۂ توحید نے جوش مارا کیونکہ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سوال نہیں تھا اب ابوبکرؓ اور عمرؓ کا سوال نہیں تھا۔اب اللہ تعالیٰ کی عزت کا سوال تھا۔ آپؐ نے بڑے جوش سے فرمایا تم کیوں جواب نہیں دیتے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! ہم کیا جواب دیں؟ آپؐ نے فرمایا کہو اَللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ اَللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ہبل کیا چیز ہے خدا تعالیٰ کی شان بلند ہے خداتعالیٰ کی شان بلند ہے

حضرت سعید بن ربیعؓ نے شہادت سے قبل فرمایا: میرے بھائی مسلمانوں کو میراسلام پہنچا دینا اورمیری قوم اورمیرے رشتہ داروں سے کہنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پا س خدا تعالیٰ کی ایک بہترین امانت ہیں اورہم اپنی جانوں سے اس امانت کی حفاظت کرتے رہے ہیں۔ اب ہم جاتے ہیں اور اس امانت کی حفاظت تمہارے سپرد کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اس کی حفاظت میں کمزوری دکھاؤ

اللہ تعالیٰ ہمارے اندر بھی عشقِ رسولؐ کی اس روح کو پیدا فرمائے۔ اور جب یہ سوچ پیدا ہوگی تو ہم اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بھی بڑھیں گے اور اپنی کمزوریوں کو دُور کرنے کی بھی حقیقت میں کوشش کریں گے تاکہ ہم صحیح اسلامی رنگ اپنی عبادتوں میں، اپنے اخلاق میں، اپنی عادات میں پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے

جنگ اُحدمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قربانیوں اور عشقِ رسو لﷺکا ایمان افروز تذکرہ

یمن کے پہلے شہید احمدی ڈاکٹر منصور شبوطی صاحب،صلاح الدین محمد صالح عبدالقادر صاحب آف کبابیر اور ریحانہ فرحت صاحبہ آف ربوہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 09؍فروری2024ء بمطابق 09؍ تبلیغ 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

جنگِ اُحد کے حوالے سے ابوسفیان کے نعروں کا ذکر ہورہا تھا جس میں وہ اپنے بتوں کی بڑائی بیان کررہا تھا اور اس پر

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدا تعالیٰ کے لیے غیرت کا اظہار

تھا۔ جیساکہ میں نے کہا تھا کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرت کا اظہار فرمایا اور ان حالات میں بھی اللہ کا نام بلند کرنے کا نعرہ لگوایا۔ اس ضمن میں مزید حوالے مَیں پیش کروں گا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’احادیث میں آتا ہے کہ غزوۂ اُحد میں جب ابوسفیان نے بڑے زور سے کہا کہ لَنَا عُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَکُمْ۔یعنی ہماری تائید میں ہمارا عزیٰ بت ہے مگر تمہاری تائید میں کوئی بت نہیں تو اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ تم کہو لَنَا مَوْلٰی وَلَا مَوْلٰی لَکُمْ۔ہمارا والی اور ہمارا مددگار ہمارا حی ّو قیوم خدا ہے مگر تمہارا کوئی والی اور مددگار نہیں۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’یہ اَنتَ مَولٰنَا کی سچائی کا کیسا عملی ثبوت تھا کہ تلواروں کے سایہ میں بھی انہوں نے یہی کہا کہ اللہ ہمیں بچا سکتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 2صفحہ 660۔ایڈیشن2004ء)

پھر آپؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’جب مسلمانوں کے کانوں میں یہ آواز پڑی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں تو وہ جلدی جلدی واپس لوٹے اور انہوں نے آپؐ کے اوپر سے لاشوں کو ہٹایا۔ معلوم ہوا کہ آپؐ ابھی زندہ ہیں اور سانس لے رہے ہیں۔ اس وقت سب سے پہلے آپؐ کے خَود کا کیل نکالا گیا۔ یہ کیل نکلتا نہیں تھا آخر ایک صحابیؓ نے اپنے دانتوں سے نکالا جس کی وجہ سے ان کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ پھر آپؐ کے منہ پر پانی چھڑکا گیا تو آپؐ ہوش میں آ گئے۔ اکثر صحابہؓ تو تتربتر ہوچکے تھے صرف چند صحابہؓ کا گروہ آپؐ کے پاس تھا۔ آپ نے ان سے فرمایا ہمیں اب پہاڑ کے دامن میں چلے جانا چاہئے۔ چنانچہ آپؐ ان کو لے کرایک پہاڑی کے دامن میں چلے گئے اور پھر باقی لشکر بھی آہستہ آہستہ اکٹھا ہونا شروع ہوا۔ کفار کا لشکر جب واپس جا رہا تھا تو ابوسفیان نے بلند آواز سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا اور کہا ہم نے اسے مار دیا ہے۔ صحابہؓ نے جواب دینا چاہا مگر آپؐ نے ان کو روک دیا۔ فرمایا: یہ موقعہ نہیں۔ ہمارے آدمی تتر بتر ہوچکے ہیں کچھ مارے گئے ہیں اور کچھ زخمی ہیں۔ ہم تھوڑے سے آدمی یہاں ہیں اور پھر تھکے ماندے ہیں۔ کفار کا لشکر تین ہزار کا ہے اور وہ بالکل سلامت ہے۔ ایسی حالت میں جواب دینا مناسب نہیں۔ وہ اگر کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھے مار دیا ہے تو کہنے دو۔ چنانچہ آپؐ کی ہدایت کے مطابق صحابہؓ خاموش رہے۔ جب ابوسفیان کو کوئی جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے ابوبکرؓکو بھی مار دیا ہے۔ آپؐ نے صحابہؓ کو پھر جواب دینے سے روک دیا اور فرمایا خاموش رہو۔ وہ کہتا ہے تو کہنے دو چنانچہ صحابہؓ اس پر بھی خاموش رہے۔ ابوسفیان کو جب پھر کوئی جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے عمرؓ کو بھی مار دیا ہے۔ حضرت عمرؓ بڑے تیز طبیعت کے تھے۔ آپؓ بولنے لگے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو منع کر دیا۔ بعد میں آپ نے بتایا‘‘ حضرت عمرؓ نے بعد میں یہ کہا ’’کہ میں کہنے لگا تھا کہ تم کہتے ہو ہم نے عمرؓ کو مار دیا ہے حالانکہ عمرؓ اب بھی تمہارا سر توڑنے کے لئے موجود ہے۔ بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی جواب دینے سے منع کر دیا۔ جب ابوسفیان نے دیکھا کہ کوئی جواب نہیں آیا تو اس نے نعرہ مارا۔ اُعْلُ ھُبَلْ۔ اُعْلُ ھُبَلْ۔یعنی ہبل دیوتا جسے ابوسفیان بڑا سمجھتا تھا اس کی شان بلند ہو۔ ہبل کی شان بلند ہو۔ (یعنی آخر ہمارے ہبل نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کو مار ہی دیا۔) صحابہؓ کو چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بولنے اور جواب دینے سے منع فرمایا تھا اس لئے وہ اب بھی خاموش رہے مگر خدا کا وہ رسولؐ جس نے اپنی موت کی خبر سن کر کہا تھا خاموش رہو جواب مت دو۔ حضرت ابوبکرؓ کی موت کی خبر سن کر کہا تھا خاموش رہو جواب مت دو۔ حضرت عمرؓ کی موت کی خبر سن کر کہا تھا خاموش رہو جواب مت دو اور جو بار بار کہتا تھا کہ اس وقت ہمارا لشکر پراگندہ ہے اور خطرہ ہے کہ دشمن پھر حملہ نہ کر دے اس لئے خاموشی کے ساتھ اس کی باتیں سنتے چلے جاؤ۔

اس مقدس انسانؐ کے کانوں میں جب آواز پڑی اُعْلُ ھُبَلْ۔ اُعْلُ ھُبَلْ۔ ہبل کی شان بلند ہو، ہبل کی شان بلند ہو تو اس کے جذبۂ توحید نے جوش مارا کیونکہ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سوال نہیں تھا اب ابوبکرؓ اور عمرؓ کا سوال نہیں تھا۔اب اللہ تعالیٰ کی عزت کا سوال تھا۔ آپؐ نے بڑے جوش سے فرمایا تم کیوں جواب نہیں دیتے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! ہم کیا جواب دیں؟ آپؐ نے فرمایا کہو اَللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ اَللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ہبل کیا چیز ہے خدا تعالیٰ کی شان بلند ہے خداتعالیٰ کی شان بلند ہے۔ یہ کتنا شاندار مظاہرہ آپؐ کے جذبۂ توحید کا ہے۔

آپؐ نے تین دفعہ صحابہؓ کو جواب دینے سے روکا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کو خطرہ کی اہمیت کا پورا احساس تھا۔ آپؐ جانتے تھے کہ اسلامی لشکر تتر بتر ہوگیا ہے اور بہت کم لوگ آپؐ کے ساتھ ہیں۔ اکثر صحابہؓ زخمی ہوگئے ہیں اور باقی تھکے ہوئے ہیں۔ اگر دشمن کو یہ معلوم ہوگیا کہ اسلامی لشکر کا ایک حصہ جمع ہے تو وہ کہیں پھر حملہ کرنے کی جرأت نہ کرے مگر ان حالات کے باوجود جب خدا تعالیٰ کی عزت کا سوال آیا تو آپؐ نے خاموش رہنا برداشت نہ کیا اور سمجھا کہ دشمن کو خواہ پتہ لگے یا نہ لگے۔ خواہ وہ حملہ کرے اور ہمیں ہلاک کر دے اب ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ چنانچہ آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا تم خاموش کیوں ہو؟ جواب کیوں نہیں دیتے کہ اَللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ اَللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ ۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 10 صفحہ 341 – 342۔ایڈیشن2004ء)یہ سارا بیان آپؓ نے سورت کوثر کی تفسیر میں بیان فرمایا ہے۔ اس کی تفصیل اگر پڑھنی ہے تو تفسیر کبیر میں سے پڑھیں۔ اَور بھی بہت ساری باتیں علم میں اضافے کے لیے وہاں سے مل جائیں گی۔

پھر ایک جگہ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’مکہ کے جن اکابر نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنا چاہا کیا آج دنیا میں ان لوگوں کا کوئی نام لیوا ہے؟ اُحد کے مقام پر ابوسفیان نے آواز دی تھی اور کہا تھا کیا تم میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے؟ اور جب اس کا جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مارڈالا ہے۔ پھر اس نے آواز دی۔ کیا تم میں ابو بکرؓ ہے؟ اور جب اس کا بھی جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے ابو بکرؓ کو بھی مار ڈالا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کیا تم میں عمرؓ ہے؟ جب اس کا بھی جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے عمرؓ کو بھی مار ڈالا ہے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ اُحُد) لیکن آج جاؤ اور دنیا کے کناروں پر اس آواز دینے والے کے ہمنوا کفار کے سردار ابوجہل کو بلاؤ اور آواز دو کہ کیا تم میں ابوجہل ہے؟ تو تم دیکھو گے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر تو کروڑوں آوازیں بلند ہونا شروع ہوجائیں گی اور ساری دنیا بول اٹھے گی کہ ہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود ہیں کیونکہ آپ کی نمائندگی کا شرف ہمیں حاصل ہے۔ لیکن ابوجہل کو بلانے پر تمہیں کسی گوشہ سے بھی آواز اٹھتی سنائی نہیں دےگی۔ ابوجہل کی اولاد آج بھی دنیا میں موجود ہے مگر کسی کو جرأت نہیں کہ وہ یہ کہہ سکے کہ میں ابوجہل کی اولاد میں سے ہوں ۔ شاید عُتْبَہ اور شَیْبَہ کی اولاد بھی آج دنیا میں موجود ہو مگر کیا کوئی کہتا ہے کہ میں عتبہ اور شیبہ کی اولاد ہوں ۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 290۔291۔ایڈیشن2004ء)پس رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بلند کیا اور بلند رکھا۔

پھر اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بیان فرماتے ہیں کہ ’’انبیاء پر جو مصائب آتے ہیں ان میں بھی اللہ تعالیٰ کے ہزار ہا اسرار ہوتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت سے مصائب آتے تھے۔ جنگ اُحد میں ایک روایت ہے کہ آپؐ کو ستر تلواروں کے زخم لگے تھے اور مسلمانوں کی ظاہری حالت خراب دیکھ کر کفار کو بڑی خوشی ہوئی۔ چنانچہ ایک کافر نے یہ یقین کرکے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب کبار سب شہید ہوگئے ہوں گے بآواز بلند پکار کر کہا کہ کیا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تم میں ہے؟ آنحضرتؐ نے کہا کہ خاموش رہو۔ اس کا جواب نہ دو۔ خاموشی سے اسے خوشی ہوئی کہ فوت ہوگئے ہوں گے اس واسطے جواب نہیں آیا۔ پھر اسی طرح اس نے حضرت ابوبکرؓ کے متعلق آواز دیا۔ تب بھی ادھر سے خاموشی اختیار کی۔ پھر اس نے حضرت عمرؓ کے متعلق آواز دیا۔ حضرت عمرؓ سے نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا کمبخت کیا بکتاہے۔ سب زندہ ہیں۔ ایسی تلخیوں کا دیکھنا بھی ضروری ہوتاہے مگر ان کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب اس کے بعد کفار ہم پر چڑھائی نہ کریں گے۔‘‘ یہ غالباً غزوۂ خندق کے بعد آپ نے فرمایا تھا۔ اُحد کےبعد پھر غزوۂ خندق ہوئی۔ یہ ملفوظات کا کیونکہ حوالہ ہے، ہوسکتا ہے لکھنے والے سے رہ گیا ہو تو یہ غزوہ خندق کے بعد آپؐ نے فرمایا تھا کہ اب اس کے بعد کفار ہم پر چڑھائی نہ کریں گے ’’بلکہ ہم کفار پر چڑھائی کریں گے۔ مکہ سے نکلنے کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسی تلخی کا وقت تھا۔‘‘(ملفوظات جلد9صفحہ 266-267۔ ایڈیشن 2022ء)لیکن اب اللہ تعالیٰ نے حالات بدل دیے۔

حضرت حَنْظَلَہؓ کی شہادت کا واقعہ

بیان ہوتا ہے۔ اسی جنگ میں ایک اَور صحابی کی جاںنثاری، بہادری اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنی جان تک قربان کردینے کا واقعہ ملتا ہے۔ یہ وہ صحابی تھے کہ ان کی بیوی بتاتی ہیں کہ میرے شوہر کو جب پتہ چلا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لیے روانہ ہوگئے ہیں تو میرے شوہر پر غسلِ جنابت فرض تھا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کی خبر سن کر اتنی جلدی اور بے تابی سے گھر سے نکلے ہیں کہ غسل کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا اور تلوار لے کر میدانِ جنگ کی طرف چل پڑے۔ جنگ کے دوران وہ ایک دفعہ کفار کے سپہ سالار ابوسفیان کے سامنے پہنچ گئے۔ ابوسفیان گھوڑے پر تھا۔ حضرت حنظلہؓ نے اس کے گھوڑے پر وار کر کے اسے زخمی کر دیا جس کے نتیجہ میں گھوڑے نے ابوسفیان کو نیچے گرا دیا۔ ابوسفیان نیچے گرتے ہی چلانے لگا۔ ادھر حضرت حنظلہؓ نے فوراً تلوار بلند کر کے ابوسفیان کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا مگر اسی وقت شَدَّاد بن اوس کی ان پر نظر پڑی۔ ایک قول کے مطابق صحیح نام شدّاد بن اَسْود ہے۔ غرض شدّاد نے حضرت حنظلہؓ کو ابوسفیان پر تلوار بلند کرتے دیکھا تو اس نے جلدی سے حضرت حنظلہؓ پر تلوار کا وار کر کے انہیں شہید کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حنظلہؓ کے قتل پر فرمایا کہ تمہارے ساتھی یعنی حنظلہ کو فرشتے غسل دے رہے ہیں۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ

مَیں فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ آسمان اور زمین کے درمیان چاندی کے برتنوں میں صاف شفاف پانی لیے حنظلہ کو غسل دے رہے ہیں۔

حضرت حنظلہ ؓکی بیوی کا نام جمیلہ تھا اور یہ سردارِ منافقین عبداللہ بن اُبَِیّبِن سَلُول کی بیٹی اور حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول کی بہن تھیں۔ حضرت جمیلہؓ نے کہا وہ یعنی حضرت حنظلہؓ جنابت کی حالت میں ہی میدان جنگ میں آ گئے تھے یعنی ان کو غسل کرنے کی ضرورت تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جمیلہ ؓکی آواز سن کر فرمایا’’اسی لیے فرشتے ان کو غسل دے رہے تھے۔‘‘ حضرت حنظلہ ؓکی حضرت جمیلہؓ کے ساتھ شادی کی یہ پہلی رات تھی جس کی صبح کو جنگ اُحد ہوئی۔

ایک روایت میں ہے کہ حضرت جمیلہؓ نے بیان کیا کہ جب حنظلہ نے دشمن کے مقابلے کے لیے کوچ کا اعلان سنا تو فوراً بغیر غسل کیے نکل کھڑے ہوئے۔ اسی رات میں حضرت جمیلہؓ نے خواب دیکھا کہ اچانک آسمان میں ایک دروازہ کھلا اور ان کے شوہر حضرت حنظلہؓ اس دروازے میں داخل ہوئے۔ اس کے بعد فوراً ہی وہ دروازہ بند ہوگیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت جمیلہؓ نے اپنی قوم کی چار عورتوں کو اس بات کا گواہ بنایا تھا کہ حنظلہ میرے ساتھ ہمبستری کر چکے ہیں۔ ان کو ایسا اس لیے کرنا پڑا کہ ان کے حمل کے سلسلہ میں لوگوں کو شبہات نہ پیدا ہوں۔ شکوک و شبہات بھی لوگ پیدا کرتے ہیں۔ باتیں بھی بناتے ہیں۔ آج کل بھی ایسے لوگ ہیں جو الزام تراشیاں کرتے ہیں۔ بہرحال حضرت جمیلہؓ نے خود اس شک کو دُور کرنے کے لیے گواہ بنا لیے۔ حضرت جمیلہ ؓخود کہتی ہیں کہ ایسا اس لیے کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ آسمان میں ایک دروازہ کھلا جس میں وہ داخل ہوگئےاور دروازہ بند ہوگیا۔ چنانچہ مَیں سمجھ گئی کہ حنظلہ کا وقت آ چکا ہے اور میں ان کے ذریعہ اس رات حاملہ ہوگئی تھی۔ اس حمل سے عبداللہ بن حنظلہ پیدا ہوئے۔ قریش نے حضرت حنظلہؓ کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاش کا مُثْلہ نہیں کیا تھا یعنی کان ناک آنکھ نہیں کاٹے تھے کیونکہ ان کا باپ ابوعامر راہب قریش کے ساتھ تھا۔

(ماخوذ از السیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ327-328دارالکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت سعد بن ربیعؓ کی شہادت کا واقعہ

بھی ہے۔ حضرت سعد بن ربیعؓ غزوہ بدر اوراُحد میں شامل ہوئے اور غزوہ اُحد میں شہید ہوئے۔ غزوہ اُحد کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میرے پاس سعد بن ربیع کی خبر کون لائے گا؟ ایک شخص نے عرض کیا کہ مَیں۔ چنانچہ وہ مقتولین میں جا کر تلاش کرنے لگا۔ حضرت سعدؓ نے اس شخص کو دیکھ کر کہا تمہارا کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے تاکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تمہاری خبر لے کر جاؤں۔ تو

حضرت سعدؓ نے کہا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دینا کہ مجھے نیزے کے بارہ زخم آئے ہیں اور میرے سے لڑنے والے دوزخ میں پہنچ گئے ہیں یعنی جس نے بھی میرے ساتھ لڑائی کی اس کو میں نے مار دیا۔ اور میری قوم کو یہ کہنا کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی عذر نہیں ہوگا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوجائیں اور تم لوگوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ رہا۔

بیان کیا جاتا ہے کہ جو شخص ان کے پاس گیا تھا وہ حضرت اُبَیبن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ حضرت سعدؓ نے حضرت ابی بن کعبؓ سے کہا۔ اپنی قوم سے کہنا کہ تم سے سعد بن ربیع کہتا ہے کہ اللہ سے ڈرو۔ ایک اَورروایت بھی ہے کہ اور

جو عہد تم لوگوں نے عقبہ کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا اس کو یاد کرو۔ اللہ کی قسم! اللہ کے حضور تمہارے لیے کوئی عذر نہ ہوگا اگر کفار تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پہنچ گئے اور تم میں سے کوئی ایک آنکھ حرکت کر رہی ہو یعنی کوئی شخص بھی زندہ باقی رہے۔

یعنی تمہیں اپنی جانیں اللہ تعالیٰ کے رسولؐ اور اس کے دین کے لیے قربان کردینی ہیں۔ یہ جذبہ تھا صحابہؓ کا کہ مرتے وقت بھی فکر تھی کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت ہم نے کرنی ہے۔ حضرت ابی بن کعبؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ابھی وہیں تھا یعنی حضرت سعدؓ کے پاس ہی تھا کہ حضرت سعد بن ربیعؓ کی وفات ہوگئی۔ اس وقت وہ زخموں سے چُور تھے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس حاضر ہوا اور آپؐ کو سب بتا دیا کہ یہ گفتگو ہوئی تھی۔ یہ اُن کی حالت تھی اور اس طرح وہ شہید ہوگئے۔ اس پر

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ وہ زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کا خیر خواہ رہا۔

حضرت سعد بن ربیعؓ اور حضرت خارجہ بن زیدؓ کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ396 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(الاستیعاب جلد 2 صفحہ590-591 دار الجیل بیروت)

(اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 433 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت سعدؓ کی شہادت کو بیان کرتے ہوئے اس واقعہ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی میدان میں اتر آئے ہوئے تھے اور شہداء کی نعشوں کی دیکھ بھال شروع تھی۔ جو نظارہ اس وقت‘‘ یعنی جب جنگ ختم ہوگئی ’’مسلمانوں کے سامنے تھا وہ خون کے آنسو رلانے والا تھا۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زخمی بھی تھے لیکن آپؐ پھر بھی میدان میں آ گئے۔ شہداء کی نعشوں کی دیکھ بھال شروع ہوئی۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’’ستر مسلمان خاک وخون میں لتھڑے ہوئے میدان میں پڑے تھے اور عرب کی وحشیانہ رسم مُثْلہ کا مہیب نظارہ پیش کر رہے تھے۔‘‘ ان کے اعضاء کاٹے گئے تھے ان کی شکلوں کو بگاڑا گیا تھا۔ ’’ان مقتولین میں صرف چھ مہاجر تھے اور باقی سب انصار سے تعلق رکھتے تھے۔ قریش کے مقتولوں کی تعداد تئیس تھی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا اور رضاعی بھائی حمزہ بن عبدالمطلبؓ کی نعش کے پاس پہنچے تو بے خود ہوکر رہ گئے کیونکہ ظالم ہند زوجہ ابوسفیان نے ان کی نعش کو بُری طرح بگاڑا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر تک تو آپؐ خاموشی سے کھڑے رہے اور آپؐ کے چہرہ سے غم وغصہ کے آثار نمایاں تھے۔ ایک لمحہ کے لئے آپؐ کی طبیعت اس طرف بھی مائل ہوئی کہ مکہ کے ان وحشی درندوں کے ساتھ جب تک انہی کا سا سلوک نہ کیا جائے گا وہ غالباً ہوش میں نہیں آئیں گے۔‘‘ ان کو سبق نہیں ملے گا۔ ’’مگر آپؐ اس خیال سے رک گئے اور صبر کیا بلکہ اس کے بعد آپؐ نے مُثْلہ کی رسم کو‘‘ شکلوں کو بگاڑنے والی جو رسم تھی، اعضاء کاٹنے والی رسم اس کو ’’اسلام میں ہمیشہ کے لئے ممنوع قرار دےدیا اور فرمایا کہ دشمن خواہ کچھ کرے تم اس قسم کے وحشیانہ طریق سے بہر حال باز رہو اور نیکی اور احسان کا طریق اختیار کرو۔‘‘ پھر آپؓ لکھتے ہیں کہ ’’…قریش نے دوسرے صحابہؓ کی نعشوں کے ساتھ بھی کم و بیش یہی وحشیانہ سلوک کیا تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن جَحْش ؓکی نعش کو بھی بری طرح بگاڑا گیا تھا۔ جوں جوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک نعش سے ہٹ کر دوسری نعش کی طرف جاتے تھے آپؐ کے چہرہ پر غم والم کے آثار زیادہ ہوجاتے تھے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 500)

حضرت مصلح موعودؓ نے ان شہداء اور ان کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے سعد بن ربیع انصاریؓ رئیس انصار کے بارے میں ان کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا ذکر کرتے ہوئے یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’جنگ اُحدکا ایک واقعہ ہے۔ جنگ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی ابن کعبؓ کو فرمایا کہ جاؤ اورزخمیوں کو دیکھو۔ وہ دیکھتے ہوئے حضرت سعد بن ربیعؓ کے پاس پہنچے جو سخت زخمی تھے اور آخری سانس لے رہے تھے۔ انہوں نے ان سے کہا کہ اپنے متعلقین اور اعزاء کو اگر کوئی پیغام دینا ہو تو مجھے دےدیں۔ حضرت سعدؓ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں منتظر ہی تھاکہ کو ئی مسلمان ادھر آئے توپیغام دوں۔ تم میرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر وعدہ کروکہ میراپیغام ضرور پہنچادو گے۔‘‘ اب اس حالت میں بھی اتنی ہوش تھی کہ کہا میرے ہاتھ میں ہاتھ دو۔ پکا وعدہ ہونے کا یہ ایک طریق ہے، ایک اظہار ہے کہ میرا پیغام ضرور پہنچا دو گے۔ ’’اور اس کے بعد انہوں نے جو پیغام دیا و ہ یہ تھاکہ

میرے بھائی مسلمانوں کو میراسلام پہنچا دینا اورمیری قوم اورمیرے رشتہ داروں سے کہنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پا س خدا تعالیٰ کی ایک بہترین امانت ہیں۔ اورہم اپنی جانوں سے اس امانت کی حفاظت کرتے رہے ہیں۔ اب ہم جاتے ہیں اور اس امانت کی حفاظت تمہارے سپرد کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اس کی حفاظت میں کمزوری دکھاؤ۔‘‘

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’دیکھو! ایسے وقت جب انسان سمجھتاہوکہ میں مر رہا ہوں۔ کیا کیا خیالات اس کے دل میں آتے ہیں۔ وہ سوچتاہے میری بیوی کاکیاحال ہوگا۔ میرے بچوں کو کون پوچھے گا مگراس صحابیؓ نے کوئی ایسا پیغام نہ دیا۔ صرف یہی کہا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے اس دنیا سے جاتے ہیں تم بھی اسی راستہ سے ہمارے پیچھے آ جاؤ۔ ان لوگوں کے اند ریہی ایمان کی طاقت تھی جس سے انہوں نے دنیا کو تہ و بالا کر دیا اور قیصروکسریٰ کی سلطنتوں کے تختے الٹ دیئے۔ قیصرِ روم حیران تھا کہ یہ کو ن لوگ ہیں۔ کسریٰ نے اپنے سپہ سالار کو لکھا کہ اگر تم ان عربوں کو بھی شکست نہیں دے سکتے تو پھر واپس آجاؤ اورگھر میں چوڑیاں پہن کر بیٹھو۔‘‘ یعنی عورتوں کی طرح پھر گھر میں بیٹھو۔ لڑائی کرنے کیوں جاتے ہو؟ اس نےیعنی بادشاہ نے اپنے جرنیل کو یہ کہا کہ یہ گوہیں کھانے والے لوگ ہیں ان کوبھی تم نہیں روک سکتے۔‘‘ حقیر گھٹیا غذا کھانے والے لوگ ہیں۔ ’’اس نے جواب دیا کہ یہ توآدمی معلوم ہی نہیں ہوتے۔‘‘ کمانڈر نے کہا کہ یہ تو آدمی نہیں معلوم ہوتے ’’یہ توکوئی بلا ہیں۔ یہ تلواروں اور نیزوں کے اوپر سے کودتے ہوئے آتے ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 338۔ایڈیشن 2004ء)

اس واقعہ کو ایک اَوررنگ میں حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’اُحد کی جنگ جب ختم ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو زخمیوں کی دیکھ بھال کے لئے روانہ کیا۔ انہوں نے ایک انصاری صحابی کو دیکھا کہ وہ سخت نازک حالت میں ہیں۔ وہ اس کے قریب گئے اور اس سے کہا کہ بھائی کوئی تمہارا پیغام ہو تو مجھے بتا دو۔ میں تمہارے عزیزوں اور رشتہ داروں تک پہنچا دوں گا۔ اس نے کہا کہ میں اسی تلاش میں تھا کہ مجھے کوئی مدینے والا ملے اور میں اس کے ذریعہ اپنے رشتہ داروں کو ایک پیغام بھجواؤں۔ اچھا ہوا کہ تم مجھے مل گئے۔ لاؤ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دو اور وعدہ کرو کہ میرا پیغام میرے خاندان تک پہنچا دو گے۔ انہوں نے ہاتھ میں ہاتھ رکھ کر اقرار کیا کہ میں تمہارا پیغام ضرور پہنچا دوں گا۔ اس پر ان زخمی صحابی نے کہا

میرے عزیزوں اور رشتہ داروں اور بھائی بندوں کو جا کر کہہ دینا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری قوم کا بہترین خزانہ ہیں اور یہ ایک قومی امانت ہیں جو ہمارے پاس ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تمہارے دل میں بھی اس قیمتی متاع کی صحیح قدر و قیمت کا احساس ہوگا تاہم میں بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ یہ پیغام تمہیں پہنچا دوں کہ جب تک ہم زندہ رہے ہم نے اس امانت میں خیانت نہیں ہونے دی اور اس کی حفاظت میں اپنا پورا زور صرف کر دیا۔ اب ہم مرنے لگے ہیں اور اپنے پیچھے اس امانت کو چھوڑے جا رہے ہیں۔ میں اپنے تمام بیٹوں، بھائیوں اور ان کی اولاد سے یہ امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی جان سے بھی زیادہ اس مقدس امانت کی حفاظت کریں گے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی واقع نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 10 صفحہ 185۔ایڈیشن 2004ء)

ایک اَور جگہ آپؓ نے اس کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ’’ایک انصاری رئیس زخمی پڑے تھے اور ان کی حالت ایسی تھی کہ چند منٹ میں ہی فوت ہونے والے تھے۔ ایک صحابیؓ دیکھتے دیکھتے ان کے پاس پہنچے اور بیٹھ گئے۔ حال دریافت کیا اور کہا کوئی پیغام اپنے بیوی بچوں اور رشتہ داروں کو دینا ہو تو دے دو۔ انہوں نے کہا کہ ہاں میں اسی انتظار میں تھا کہ کوئی مسلمان ملے تو اس کے ہاتھ پیغام بھیجوں۔ ‘‘ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہر شخص جانتا ہے کہ موت کا وقت گھر میں بھی کیسا سخت ہوتا ہے۔‘‘ انسان مر رہا ہو چاہے گھر میں بھی ہو بڑا سخت وقت ہوتا ہے۔ ’’مرنے والے کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ چند منٹ بھی اَور مل جائیں تو بیوی بچوں اور بہن بھائیوں سے کوئی اَور بات کر لوں۔ ان کے لئے کوئی وصیت کر جاؤں لیکن وہ صحابیؓ بیوی بچوں کے پاس نہیں تھے۔ گھر میں نہیں پڑے تھے۔ کسی ہسپتال میں نرم بستر پر نہیں لیٹے تھے بلکہ پتھریلی زمین پرپڑے تھے مگر ایسی حالت میں بھی انہوں نے یہ پیغام نہیں دیا کہ میری بیوی کو سلام دینا اور اسے کہنا کہ بچوں کی اچھی طرح پرورش کرے یا یہ کہ میری جائیداد اس رنگ میں تقسیم ہو یا فلاں فلاں جگہ میرا مال ہے وہ لے لیا جائے‘‘ (رئیس تھے ناں) ’’بلکہ کہا تو یہ کہا کہ میرے بچوں اور بھائیوں کو میری طرف سے یہ پیغام دینا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس خدا تعالیٰ کی قیمتی امانت ہیں۔ میں نے جب تک جان میں جان تھی اسے قربان کرکے بھی اس امانت کی حفاظت کی اور اب اپنے عزیز بھائیوں اور بچوں کو میری آخری وقت کی یہ وصیت ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے ساتھ اس امانت کی حفاظت کریں اور یہ کہہ کر دم توڑ دیا۔‘‘

(خطبات محمود جلد 23صفحہ 45 – 46،خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 30؍جنوری 1942ء )

ایسے ایسے عشقِ رسولؐ کے اظہار ہیں کہ انسان حیران ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمارے اندر بھی عشق رسول کی اس روح کو پیدا فرمائے اور جب یہ سوچ پیدا ہوگی تو ہم اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بھی بڑھیں گے اور اپنی کمزوریوں کو دُور کرنے کی بھی حقیقت میں کوشش کریں گے تا کہ ہم صحیح اسلامی رنگ اپنی عبادتوں میں، اپنے اخلاق میں، اپنی عادات میں پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اب کچھ

مرحومین کا ذکر

ہے۔ ان کے جنازے مَیں پڑھاؤں گا۔ پہلا ذکر

مکرم ڈاکٹر منصور شبوتی صاحب آف یمن

کا ہے۔ منصور شبوتی صاحب یمن میں اسیر راہ مولیٰ تھے۔ احمدیت کی وجہ سے ان کو وہاں پکڑا گیا اور اسیری کے دوران ہی 26؍جنوری کو تریسٹھ سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اس لحاظ سے کیونکہ یہ اسیری میں تھے اور احمدیت کی وجہ سے ان کو اسیر کیا گیا اور وہاں صحیح علاج بھی میسر نہیں آیا، کچھ غلط سلوک بھی ان سے ہوا ہوگا۔ بہرحال جو بھی تفصیلات ہیں وہ کم ہیں یا زیادہ، ان کی وہاں اسیری میں وفات ہوئی ہے اس لیے یہ شہید ہی کہلائیں گے اور اس لحاظ سے

یہ یمن کے پہلے احمدی شہید ہیں۔

مرحوم نے پسماندگان میں بوڑھی والدہ اور اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے ایمن اور بلال چھوڑے ہیں۔ مرحوم کے بھائی ناصر شبوتی ہیں جو یہاں لندن میں رہتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ان کی میت یکم فروری کو ان کے بیٹے کے حوالے کی گئی لیکن سب احمدی چونکہ قید میں ہیں۔ وہاں انہوں نے تقریباً تمام احمدیوں کو، مردوں کو پکڑا ہوا ہے اس لیے غیر احمدی احباب نے ان کا جنازہ پڑھا اور تدفین ہوئی۔ پھر ناصر شبوتی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ان کے دادا عبداللہ محمد عثمان شبوتی یمن کے پہلے یمنی احمدی تھے اور ڈاکٹر منصور شبوتی کے والد محمود عبداللہ شبوتی یمن کے پہلے شاہد مربی تھے۔ مرحوم کی والدہ شاہ رخ نسرین صاحبہ ہیں جو سید بشیر احمد شاہ صاحب ربوہ اور فرخ خانم صاحبہ ربوہ کی بیٹی ہیں۔ فرخ خانم صاحبہ یہ جنود خاندان کی ہیں۔ ان کو اپنی والدہ حلیمہ بانو صاحبہ اور بھائی سید حاجی جنود اللہ صاحب کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر عمل کی توفیق ملی کہ جب امام مہدیؑ آئے تو اس کی بیعت کرو اگرچہ برف کے اوپر سے رینگ کر جانا پڑے۔ چنانچہ یہ لوگ کاشغر سے برف کے پہاڑوں پر چل کر قادیان آئے اور بیعت کی۔ منصور شبوتی صاحب کی جو والدہ تھیں وہ اس خاندان کی فرد تھیں۔ان کی نانی ان میں شامل تھیں جو برف پہ چل کے آئے۔

واقعہ شہادت کے بارے میں ان کے بیٹے بلال شبوتی نے لکھا ہے کہ سیکیورٹی فورسز ہمارے گھر میں زبردستی گھسیں۔ والد صاحب کو دھکا دیا۔ ان کے سینے پر بندوق رکھ دی۔ پھر مجھے اور والد صاحب کو لے جانے لگے تو والد صاحب نے کہا کہ مجھے بےشک قتل کر دو مگر میرے بیٹے کو نہ لے جاؤ۔ جب غیر احمدیوں میں جنازہ پڑھا گیا تو ان کا ایک احمدی بیٹا جس کی صرف سولہ سال کی عمر ہے، وہ شامل ہوا تھا۔ اَور کوئی احمدی مرد نہیں تھا۔ بہرحال کہتے ہیں کہ انہوں نے والد صاحب سے پیسے چھین لیے اور انہوں نے کہا کہ تمہیں باہر سے کوئی پیسے بھیجتا ہے۔ والد صاحب نے کہا مجھے کوئی باہر سے پیسے نہیں بھیجتا۔ میری اپنی محنت کی کمائی ہے۔

یہ غلط فہمی تو ہر جگہ علماء نے، نام نہاد علماء نے غیر احمدیوں میں پیدا کی ہوئی ہے کہ نعوذ باللہ ہم مغربی طاقتوں سے پیسے لے کے کھاتے ہیں اور ان کے اسلام کے خلاف ہمارا ایجنڈا ہے حالانکہ ہر احمدی تو خود مالی قربانی کر کے اسلام کے پیغام کو دنیا میں پہنچا رہا ہے اور انسانیت کی خدمت کر رہا ہے۔ بہرحال اس کی باقی تفصیل تو لمبی ہے۔

اس کے بعد مَیں ان کی اہلیہ کا بیان جو انہوں نے پیغام مجھے بھیجا، بیان کر دیتا ہوں۔ یہ کہتی ہیں کہ انہوں نے یعنی قید کرنےو الوں نے مجھے وہ جگہ دکھائی جہاں میرے میاں کو قید میں رکھا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میرے میاں اپنے کمرے میں اکثر نماز اور نوافل میں روتے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کو اس وجہ سےقید کیا گیا تھا کہ بعض احمدیوں نے اطلاع دی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کو برطانیہ سے پیسے آتے ہیں جنہیں وہ یمن میں Militaفورسز تیار کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ یونہی جھوٹے الزام۔ مگر تحقیق سے یہ بات غلط نکلی۔ ہم انہیں رہا کرنے ہی والے تھے کہ پریشانی کی وجہ سے ان کی صحت خراب ہوگئی۔ بہرحال یہ ان کا بیان ہے جو انہوں نے ان کی اہلیہ کو کہا۔ ہوسکتا ہے کہ ہائی کمان کا رویّہ اَور ہو اور نچلے جو ہیں وہ اَور بھی زیادہ اپنی من مانیاں کرنےو الے ہوتے ہیں اور ان کی سختی کی وجہ سے ان کی صحت پہ اثر پڑا ہو۔

بہرحال ان کے بھائی ناصر شبوتی ان کی سیرت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے بھائی ڈاکٹر منصور شبوتی بہت مہربان اور خیر خواہ بھائی تھے۔ پڑھائی میں بہت ہوشیار، پورے ملک کے پہلے دس طلبہ میں سے تھے جنہیں گورنمنٹ کی طرف سے انعام بھی دیا گیا تھا۔ نماز پنجوقتہ اور تہجد کے پابند، فجر کے بعد باقاعدگی سے تلاوت قرآن کرتے، چندوں میں بڑے باقاعدہ تھے۔ رشتہ داروںسے پہلے دوسروں کا علاج کرتے اور مدد کرتے۔ مریضوں کے ساتھ ہمیشہ ہنس کر بات کرتے۔ غریب مریضوں سے کوئی پیسہ نہ لیتے۔ دوائی بھی دیتے اور اگر کسی کو ہسپتال داخل کرنے کی ضرورت ہوتی تو اس میں مدد کرتے۔ غرباء کے آپریشن کی صور ت میں اپنی تنخواہ سے آپریشن کی فیس چھوڑ دیتے تھے۔ پھر کہتے ہیں کہ ہمارے ہمسایوں میں سے جب بھی کوئی بیمار ہوتا تو وہ بھائی کے پاس علاج کے لیے آتا۔ اور جب وہ دوسرے شہر صنعا میں چلے گئے تو ہمسائے بہت افسردہ ہوئے۔ والدین کے ساتھ بہت حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔ انہیں حج بھی کروایا۔

ڈاکٹر صاحب کی والدہ شاہ رخ نسرین صاحبہ کہتی ہیں کہ جب میں حاملہ تھی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ربوہ کی ایک نیک خاتون جس کا نام زینب تھا میری والدہ کو گود میں اٹھا کر کہتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آ رہے ہیں۔ میں حضور علیہ السلام کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھتی ہوں لیکن کوئی نظر نہیں آتا۔ اس کے بعد آنکھ کھل گئی۔ ڈاکٹر صاحب کو بچپن سے ہی تبلیغ کا شوق تھا۔ سکول میں دینیات کے استاد کو احمدیت کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔ استاد بھی بغیر کسی مخالفت کے ان کی بات سنتے تھے۔

ان کے ایک بیٹے ایمن شبوتی جرمنی میں ہیں وہ کہتے ہیں والد مرحوم نے کبھی بھی مجھے نہ ڈانٹا نہ مارا۔ صرف ایک دفعہ کی ایک مار یاد ہے۔ میں تیرہ سال کا تھا اور اس وقت میں نے باجماعت نماز پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر اس پہ ذرا سی مجھے مار پڑی تھی۔ باقی کبھی نہیں۔ کہتے ہیں کہ والد صاحب ہمیشہ مجھے مشکلات میں دعا کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ خود بھی عمل کرتے تھے۔ میں نے انہیں سجدوں میں روتے دیکھا ہے۔ سکول میں جب تھا، جب بچے تھے تو کہتے ہیں کہ ہمیں فجر کی نماز پہ جگاتے۔ باجماعت نماز ادا کرتے۔ اس کے بعد تلاوت کرتے۔پی ایچ ڈی انہوں نے سرجری میں کی۔ اس کے لیے اردن گئے تھے وہاں پانچ سال رہے۔ کہتے ہیں میں بھی ان کے پاس وہاں گیا تو مسجد جہاں جمعہ ہوتا تھا یا جو سینٹر تھا وہ ایک گھنٹہ دُور تھا۔ ہر جمعہ ڈرائیو کر کے وہاں جایا کرتے تھے۔ مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ جماعتی کتب بکثرت پڑھتے تھے۔ کہتے ہیں جب اردن سے واپس آئے تو بیگ کافی وزنی تھا تو میں سمجھا کہ کافی تحائف لائے ہیں۔ بچوں کو ہوتا ہے ناں شوق کہ والدین لائیں لیکن بیگ میں تحائف تو نہیں تھے۔ تفسیرکبیر کا عربی ترجمہ اور کچھ اَورجماعتی کتب تھیں۔

رشتہ داروںسے خواہ وہ غیر احمدی ہوں ملنے جاتے۔ کہتے ہیں مجھے اور میری والدہ کو بھی ساتھ لے جاتے۔ جب میں ان سے پوچھتا کہ غیر احمدی رشتہ داروں سے ملنا کیوں ضروری ہے؟ تو کہتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے۔ اگر رحمی رشتے داروں سے تعلق نہ رکھیں گے تو اس سے پھر اللہ تعالیٰ ناراض ہوگا۔

مروہ شبوتی صاحبہ کہتی ہیں بہت محترم، صاحبِ اخلاق، نیک، ہمیشہ مسکرانے والے، پیار کرنے والے، تعاون کرنے والے، شریف، سخی، رحیم و کریم اور بہت ذہین تھے۔ ہمیشہ پڑھائی میں نمایاں رہے اور سارے یمن میں مشہور ڈاکٹر تھے۔ خدمت خلق اور احمدیت کی خدمت میں بہت نمایاں تھے۔ احمدیوں اور غیر احمدیوں سب میں محبوب تھے اور سب کو، غیر احمدیوں کو بھی ان کی وفات پہ بڑا صدمہ ہے۔

غیر از جماعت لوگوں کے تاثرات بھی ہیں۔ یمن کی ڈاکٹرز یونین نے یہ بیان دیا کہ ہمّ وغم اور افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ جنرل سرجری کنسلٹنٹ ڈاکٹر منصور شبوتی وفات پاگئے۔ فلاں دن کو وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔پھر آگے یہی میڈیکل کونسل والے کہتے ہیں کہ ان کی پراسرار وفات سے طبی حلقوں میں سخت پریشانی اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ اب تک ملنے والی معلومات کے مطابق گرفتاری سے قبل ڈاکٹر منصور کی صحت بہت اچھی تھی۔ نہ ان کی گرفتاری کا سبب بتایا گیا اور نہ ہی دو ہفتوں تک یہ معلوم ہوسکا کہ انہیں کہاں لے جایا گیا ہے۔ وفات سے صرف ایک دو دن پہلے انہیں نہایت خراب حالت کے ساتھ منظر عام پر لایا گیا۔

ان کے بعض غیر احمدی دوستوں نے بھی سوشل میڈیا پہ لکھا ہے۔ ایک غیر از جماعت ڈاکٹر خالد ادیب کہتے ہیں میں پہلی دفعہ صنعا ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں کام کرنے گیا تو وہاں بہت سے ڈاکٹرز کو ایک نوجوان ڈاکٹر کے ارد گرد کھڑے دیکھا۔ میرے پوچھنے پر ایک ساتھی نے بتایا کہ یہ ڈاکٹر منصور شبوتی ہیں جو جنرل سرجری کنسلٹنٹ ہے اور سب ڈاکٹروں سے زیادہ انتھک اور مستعد تعاون کرنے والے ہیں۔ سب ڈاکٹر اور طلبہ ان کے ساتھ ڈیوٹی دینا پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کی بڑی کوشش ہوتی ہے کہ سب کو زیادہ سے زیادہ معلومات دیں اور سمجھائیں۔ نہ انہیں مال کا لالچ ہے، نہ عہدے کا، نہ شہرت کا۔ مرحوم نہایت ٹھنڈے مزاج والے، نہایت مستعد، اپنی صحت کا خیال رکھنے والے، ہمیشہ مسکرانے والے اور نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ انانیت اور دنیا کی محبت سے کوسوں دُور تھے۔

ایک دوست نے لکھا کہ آپ کی وفات یمن کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ یمن نے ایک ایسا نیک شخص کھویا ہے جو نہایت صاف دل تھا اور جس نے اپنی زندگی مریضوں کی خدمت میں گزار دی۔

پھر ایک دوست نے لکھا کہ ڈاکٹر منصور کے ہاتھ میں بہت شفا تھی۔ بہت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ جنوبی یمن میں تمام اخبارات نے ان کی وفات کی خبر مختلف عناوین کے تحت شائع کی ہے مثلاً ایک خبر یہ ہے کہ مشہور ترین ڈاکٹر کا قتل۔ سب سے مشہور ڈاکٹر کی وفات۔ سب سے معروف ڈاکٹر کا اغوا وغیرہ۔

بہرحال کسی نے یہ بھی مجھے لکھا کہ ان کے ذریعہ سے یمن میں اب احمدیت کا نام کافی پھیلا ہے اور اللہ تعالیٰ کرے تبلیغ کا ذریعہ بھی شاید بن جائے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ ان کے لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور حالات بہتر ہوں۔ باقی اس وقت جو بھی وہاں تھوڑی سی چھوٹی سی جماعت ہے اس کے وہاں جو اسیران ہیں اللہ تعالیٰ ان اسیران کی رہائی کےبھی جلد سامان پیدا فرمائے۔

دوسرا ذکر

مکرم صلاح الدین محمد صالح عبدالقادر عودہ صاحب

کا ہے جو شریف عودہ صاحب امیر جماعت کبابیر کے والد تھے۔ 31؍جنوری کو دل کی تکلیف ہوئی اور ہسپتال میں آپریشن کے دوران ہی قریباً پچاسی سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ اور تین بیٹے محمد شریف عودہ صاحب، منیر عودہ صاحب اور امیر عودہ صاحب اور ایک بیٹی منال عودہ ہیں۔پوتے پوتیاں ہیں۔ ان کے دو پوتے عزیزم مسرور منیر عودہ اور بشیر الدین محمود عودہ ایک جامعہ یوکے میں اور ایک جامعہ کینیڈا میں پڑھ رہے ہیں۔

شریف عودہ صاحب لکھتے ہیں کہ مرحوم کے دادا الحاج صالح عبدالقادر عودہ صاحب فلسطین کے اوّلین احمدیوں میں سے تھے جنہوں نے 1928ء میں بیعت کی۔ ان کے بعد مرحوم کے پڑدادا عبدالقادر عودہ نے بھی بیعت کر لی اور کچھ عرصہ کے بعد مرحوم کے والد محمد عودہ نے بھی بیعت کر لی۔ یوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مرحوم کے والد، دادا اور پڑدادا بھی سبھی احمدی تھے۔ ان کی پیدائش 1939ء میں ہوئی اور یہ پیدائشی احمدی تھے۔ جب مرحوم کی عمر چودہ سال تھی اس وقت ایک دن سخت سردی میں کسی کام سے باہر نکلے اور سردی کے کپڑے صحیح نہیں پہنے ہوئے تھے تو جسم فریز ہوگیا۔ بےہوش ہوکے گر گئے۔ کافی دیر کی تلاش کے بعد ان کا پتہ لگا تو لے کے آئے اور ہسپتال میں لے کے گئے۔ بڑی مایوس کن حالت تھی تو ڈاکٹر نے کہا کہ اوّل تو ان کا زندہ بچنا بھی معجزہ ہوگا اور اگر یہ بچ بھی گیا تو اب کبھی بھی ان کے اولاد نہیں ہوسکے گی۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں چودھری محمد شریف صاحب مربی تھے انہوں نے لکھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے شفا بھی ہوگئی۔ شادی بھی ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے اولاد بھی دی۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی۔ مرحوم اپنے والد کی طرح ساری زندگی مبلغین کی خدمت میں پیش پیش تھے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی دل و جان سے خدمت کرتے تھے اور اس کی گواہی تعزیت کے لیے آنے والے ہر شخص نے دی ہے۔

شریف عودہ صاحب تو کہتے ہیں کہ مہمانوں کو ان کی ضیافت کی عادت پڑ گئی تھی۔ مہمان یہی چاہتے تھے کہ ہم ان کے پاس جائیں اور ضیافت کروائیں۔ ایک پادری نے ملنے کے لیے آنا تھا۔ اس نے کہا کہ ان کے والد صاحب اب یہاں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ابھی وہ باہر گئے ہوئے ہیںتو کہتے ہیں: اچھا میں ابھی نہیں آؤں گا جب وہ آئیں گے تب آؤں گا تا کہ ان کی ضیافت سے لطف اندوز ہوسکوں۔ مرحوم مساکین اور ضرورت مندوں کا بھی خیال رکھنے والے تھے۔ ان پر خرچ کرنے والے تھے۔ ایسے نومبائعین جن کے خاندانوں نے ان سے قطع تعلق کر لیا تھا وہ کبابیر آ کر آباد ہوگئے اور ان سب کو مرحوم نے ایک شفیق باپ کی طرح رکھا۔ ان کی وفات پہ ایک عورت نے کہا کہ میرا خاوند اپنا اکثر وقت مرحوم کے ساتھ گزارتا تھا اور اب وہ کہتا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کس کے پاس جاؤں۔ پھر یہ شریف صاحب کہتے ہیں کہ والد صاحب اپنے عملی نمونے سے ہماری تربیت کیا کرتے تھے۔ بجائے سمجھانے کے اپنے عمل سے دکھایا کرتے تھے کہ اس طرح کام کرو۔ والد صاحب کو مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ جماعتی لٹریچر میں سے کوئی نہ کوئی کتاب ان کے زیر مطالعہ رہتی تھی۔ اس لیے ان کی معلومات بھی بہت وسیع تھیں۔

پھر شریف صاحب کہتے ہیں کہ یہ نہیں کہ بڑھاپے میں ان کو ہماری مدد کی ضرورت پڑی ہو۔ ان کو ہماری کسی مدد کی ضرورت نہیں پڑی بلکہ وہ ہماری مدد کیا کرتے تھے اور اس بات پر وہ خوش تھے کہ ان کے بچے جماعت کی خدمت کر رہے ہیں۔

ان کی نواسی ڈاکٹر یاسمین کہتی ہیں۔ میں کچھ سالوں سے اپنے نانا نانی کے ساتھ ان کے گھر میں رہتی تھی۔ میں نے دیکھا کہ میرے نانا مرحوم نمازوں اور تہجد کے پابند اور اکثر وقت مسجد اور مرکز جماعت میں گزارتے تھے۔ مہمانوں کے لیے کھانا پکانا ان کی خدمت کرنا اور مرکز جماعت میں مرمت وغیرہ کے دیگر کام سرانجام دینا ان کا معمول تھا۔ جماعتی کتب کا مطالعہ ان کا محبوب مشغلہ تھا حتی کہ وفات والے دن بھی ان کے بستر پر ایک کتاب کھلی ہوئی موجود تھی۔ کہتی ہیں کہ گھر میں کچھ مرمت کا کام کروانا تھا تو میرے مرحوم نانا نے نانی جان سے کہا کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم نے تو اب جلد فوت ہوجانا ہے اس لیے بہتر ہے کہ گھر کی مرمت پر اٹھنے والی رقم ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیں۔ ڈاکٹروں نے دل کے آپریشن کے وقت دیکھا کہ نہ صرف ان کا دل بہت کمزور ہے بلکہ ان کی شریانیں بھی تقریباً بند ہیں اور حیران تھے کہ یہ اس وقت تک کیسے چلتے پھرتے رہے۔ بہرحال یہ ان کی دعا تھی کہ چلتے پھرتے ہی ان کی موت آ جائےاور ایسا ہی ہوا۔ آخری دن تک چلتے پھرتے رہے کسی کے محتاج نہیں ہوئے۔

شریف عودہ صاحب کہتے ہیں کہ والد صاحب دوسروں پر دل کھول کر خرچ کرنے والے تھے۔ ایک روز ایک بڑی عمر کے رشتہ دارنے مدد کا کہا تو والد صاحب نے اس وقت جو کچھ جیب میں تھا سب کچھ نکال کر ان کو دے دیا۔ مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب مرحوم جب کبابیر میں مربی تھے، مبلغ تھے تو ایک بار انہوں نے مرحوم سے کبابیر کی مسجد کے لیے چندہ مانگا۔ مرحوم کے پاس اس وقت کہیں سے بہت بڑی رقم آئی تھی۔ انہوں نے وہ ساری رقم مسجد کے لیے دے دی۔ ایک خادم نے لکھا کہ ان کا ہرنیا کا آپریشن ہوا توانہوں نے حال پوچھا تو انہوں نے کہا دردیں بہت ہیں۔ میں نے کہا آپ یہاں کام کر رہے ہیں، حال ہی میں آپ نے کام کیا ہے؟ کہتے ہیں ہاں تھوڑا سا کام کیا ہے۔ کچھ چیزیں اٹھا کے ادھر ادھر رکھی ہیں اور ایک دروازہ ٹوٹا ہوا تھا وہ مرمت کیا ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ آپ کا آپریشن ہوا ہے اتنے بھاری کام نہ کیا کریں۔ انہوں نے کہا: اس کے بغیر میں رہ نہیں سکتا کہ جماعت کی خدمت بھی میرا کام ہے۔

سیف الدین ابو عصب فلسطین کے ہیں، لکھتے ہیں۔ ہم نے مکرم صلاح الدین عودہ صاحب میں سوائے خیر اور بھلائی کے کچھ نہیں دیکھا۔ اپنے کبابیر میں قیام کے دوران انہیں جماعت کا بہت ہی مخلص فرد پایا۔ بہت محبت کرنے والے اور ہر کسی کی مدد کرنے والے تھے۔ امیر جماعت کے والد ہونے کے باوجود مہمان نوازی کی خدمات انجام دیتے تھے۔ کہتے ہیں مجھے بہت بعد میں پتہ لگا کہ جس طرح وہ خدمت کرتے تھے مجھے کبھی خیال نہیں آیا کہ وہ امیر جماعت کے والد ہوں گے۔ انتہائی انکسار تھا۔ پھر کسی نے مجھے بتایا کہ یہ تو ان کے والد ہیں۔

ڈاکٹر ایمن المالکی کہتے ہیں: نماز فجر پڑھتے اور سیدھے لنگر خانے چلے جاتے اور سارا دن بغیر تھکاوٹ کے رات گئے تک کام کرتے تھے۔ ہفتہ کے سات دن ان کی یہی روٹین تھی۔ خلافت کے عاشق اور نظام جماعت کا بہت احترام کرتے تھے یہاں تک کہ بیٹا امیر تھا تو امیر کو بھی دیکھ کر کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔ جماعتی خدمت اور تبلیغ اور جماعتی فرائض کی بجا آوری میں زندگی کے آخر تک بڑے جوش اور جذبے سے مصروف رہے۔ ایسے جوش کی مثالیں بہت کم لوگوں میں نظر آتی ہیں۔ چار خلفاء کا زمانہ انہوں نے دیکھا اور خلافت کے بارے میں بڑی دلچسپ گفتگو کیا کرتے تھے۔

محمد علاونہ صاحب کہتے ہیں بیس سال پہلے بیعت کی اور اس کے بعد جب کبابیر گیا تو بڑے پیار اور اخلاص سے مجھے ملے اور جماعت کی خدمت کرتے ہوئے میں نے ان کو دیکھا۔ بڑی عمر کے باوجود ایسے اخلاص سے کام کرتے تھے جو نوجوانوں میں بھی نظر نہیں آتا۔ بہت مہربان اور ہمدرد تھے۔

نَمر عَجْوَہ صاحبہ کہتی ہیں میرا تعلق الخلیل شہر سے ہے۔ میں اپنے دو بچوں کے ساتھ جب یہاں آئی تو میرے پاس کوئی گھر نہیں تھا۔ مرحوم نے مجھے کہا کہ اپنی بچیوں کو ہمارے پاس چھوڑ دو اور تم دارالضیافت میں رہ لیا کرو۔ چنانچہ ڈیڑھ ماہ تک وہ میری بچیوں کا خیال رکھتے رہے اور انہیں کھانے پینے کی اور دیگر سہولتیں مہیا کرتے رہے۔ کہتی ہیں وہ میرے لیے ایک شفیق باپ کی طرح تھے ان کی وفات سے مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرے بدن سے روح نکل گئی۔

شمس الدین صاحب کبابیر کے مربی ہیں۔ کہتے ہیں: مسجد اور مشن ہاؤس کی کوئی بھی پرانی چیز پھینکنا پسند نہیں کرتے تھے بلکہ ان چیزوں کو مرمت کر کے از سر نو استعمال کے قابل بناتے تھے۔ اور یہی بچت کا طریقہ ہے جو باقی جگہوں پہ بھی استعمال ہونا چاہیے۔ بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ مسجد میں جو لوگ مدد مانگنے آتے تھے ان کے ساتھ بھی مرحوم معزز مہمانوں والا سلوک کرتے تھے اور ان کو بٹھا کر کھانا کھلاتے تھے۔

رنا عودہ جہانگیر صاحبہ ان کی پوتی ہیں، کہتی ہیں میں نے ہمیشہ اپنے دادا کو تہجد کے لیے صبح جلدی اٹھتے اور پنج وقت نماز کا باقاعدگی سے التزام کرتے ہوئے دیکھاہے۔کہتی ہیں کہ میرے دادا غرباء کا بہت خیال رکھتے تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ اپنے پیسے اپنی ذات پر بھی خرچ کیا کریں لیکن ان کا جواب ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ میں یہ پیسے ضرورت مندوں کو دینا پسند کرتا ہوں۔ خدا پر ان کو کامل یقین تھا۔ خلافت کے ساتھ بے انتہا محبت تھی۔

اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو، نسل کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اور اگلا ذکر

ریحانہ فرحت صاحبہ اہلیہ کرامت اللہ خادم صاحب مربی سلسلہ ربوہ

کا ہے۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں 29؍جنوری کو وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑدادا حضرت منشی جلال الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آف بلانی ضلع گجرات کے ذریعہ ہوا تھا جن کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ضمیمہ انجام آتھم میں تین سو تیرہ صحابہؓ کی فہرست میں پہلے نمبر پر درج کیا ہے۔

پسماندگان میں میاں کے علاوہ ایک بیٹا اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ آپ کے بیٹے احسان اللہ صاحب مربی سلسلہ آجکل سپین میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے والدہ کے جنازے اور تدفین میں شامل نہیں ہوسکے۔ بعض اَور بھی وجوہات تھیں۔ آپ کے شوہر کرامت اللہ خادم بھی واقفِ زندگی مربی سلسلہ ہیں۔ ان کے داماد آصف محمود بٹ صاحب بھی مربی سلسلہ ہیں۔ تنزانیہ میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔

ان کے بیٹے احسان اللہ صاحب مربی لکھتے ہیں کہ ہمارے لیے ہر وقت دعاؤں کا سائبان بنائے رکھتی تھیں۔ پُرسوز تہجد پڑھتیں۔کام کرتے، چلتے پھرتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کے دعائیہ اشعار گنگناتی رہتیں۔ اس طرح ان کے ارد گرد رہنے والے بچوں کو بھی وہ شعر یاد ہوجاتے تھے۔ چندہ جات اور جماعتی خدمت میں باقاعدہ تھیں۔ جب تک صحت رہی جماعتی پروگراموں میں باقاعدگی سے حصہ لیتی رہیں۔ انتہائی شکرگزار، کفایت شعار، صابر اور شاکر تھیں۔ احمدیت پر فخر کرنے والی خاتون تھیں۔ ان کی بیٹی نعمانہ نصرت کہتی ہیں شکر گزاری کا وصف بہت زیادہ تھا۔ اگر کوئی تعریف کے رنگ میں ذکر کرتا کہ ایک ہی بیٹا تھا جو وقف کر دیا تو عاجزی اور شکر گزاری سے کہتیںکہ میں اللہ کا کیسے شکر کروں کہ اللہ تعالیٰ کو ایک دیا تھا اور اس کی رحمت نے مجھے کئی واپس کیے یعنی اپنے پوتوں نواسوں کا ذکر کیا۔ کہتیںکہ سب احمدی ہی واقف زندگی ہیں۔

ربوہ میں پیدا ہوئیں اور ربوہ کی ترقی پر بہت خوشی ہوتیں۔ باہمت اور سلیقہ شعار لجنہ کے طور پر جانی جاتی تھیں۔ کفایت شعاری کے ساتھ باسلیقہ زندگی گزاری اور اس طرح شکر گزاری کرتیں کہ گویا سب سے زیادہ سہولتیں اور سکون انہیں ہی حاصل ہے۔ کبھی یہ شکوہ نہیں کیا کہ مربی کے الاؤنس میں کمی ہے۔ کہتی تھیں جو کچھ مجھے مل رہا ہے اتنی نعمتیں تو کہیں بھی نہیں ملتیں۔ بیٹے کو جماعتی کیسز کی وجہ سے 2017ء میں ہجرت کرنا پڑی۔ جیسا کہ میں نے کہا ناں اَور وجوہات بھی تھیں اور پھر پاکستان جانا ممکن نہ ہوسکا اور والدہ اپنی کمزوریٔ صحت کی وجہ سے ان سے ملاقات کے لیے نہیں جا سکی تھیں لیکن ہمیشہ صبر اور لگن کے ساتھ وقف کی ذمہ داریاں نبھانے کی بیٹے کو تلقین کرتی رہیں۔

ان کی بہو کہتی ہیں کہ بڑے درد اور الحاح سے نماز تہجد ادا کرتیں۔ سچی خوابیں ان کو آیا کرتی تھیں۔ بہت واضح اور سچی خوابیں آیا کرتی تھیں جو صفائی سے پوری ہوتی تھیں۔ ہم حیرت کا شکار ہوجاتے تھے۔ پھر بیٹے کا یہی لکھا ہے کہ casesکی وجہ سے ہجرت کرنی پڑی اور خود بیماری کے باعث جا نہیں سکتی تھیں لیکن کبھی اداسی کا اظہار نہیں کیا۔ ہمیشہ ثابت قدمی سے وقف نبھانے کی تلقین کی۔ یہ کہا کرتی تھیں کہ آج کل تو بہت آسانی ہے، ہر وقت رابطہ رہتا ہے اور کبھی اپنی مامتا کو وقف کے کاموں میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔کسی نے ان کو کہا کہ اب لمبا عرصہ ہوگیا ہے تو وہاں جا کے ملنے کے لیے خلیفہ وقت کولکھیں تو آپ کا انتظام ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بیٹا وقف کیا ہوا ہے اور میں اس قسم کے مطالبات نہیں کر سکتی۔
اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے درجات بلند فرمائے۔ لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

الفضل انٹرنیشنل یکم مارچ ۲۰۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button