خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍ جنوری 2024ء

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے خون ٹپک رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنا خون پونچھتے جاتے تھے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ شَجُّوْا نَبِیَّھُمْ وَكَسَرُوْا رَبَاعِيَتَهٗ وَهُوَ يَدْعُوْهُمْ إِلَى اللّٰهِ۔وہ قوم کیسے کامیاب ہو سکتی ہے جس نے اپنے نبی کو زخمی کیا اور اس کا رباعی دانت توڑ ڈالا جبکہ وہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہے

اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن معاذؓ اور حضرت سعد بن عبادہؓ کے درمیان سے نمودار ہوئے اور ہم نے آپؐ کی چال سے آپؐ کو پہچان لیا۔ اس وقت ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے نہ ہمیں کوئی شکست ہوئی اور نہ ہمارا کوئی نقصان ہوا۔ جب سب مسلمانوں نے آپؐ کو دیکھ اور پہچان لیا تووہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد پروانوں کی طرح جمع ہو گئے

ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ بارہ بھی نہیں صرف تین آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد رہ گئے اور کفار نے خاص طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تیر اندازی شروع کر دی لیکن باوجود ان نازک حالات کے آپؐ برابر دشمن کے مقابلہ میں کھڑے رہے اور اپنے مقام سے نہیں ہلے

حضرت طلحہؓ نیچے بیٹھ گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اوپر پیر رکھ کر چٹان پر چڑھے۔ حضرت زبیرؓکہتے ہیں کہ مَیں نے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ طلحہ نے اپنے اوپر جنت واجب کر لی

جنگِ اُحد میں آنحضورﷺ کو پہنچنے والی تکالیف اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی جاںنثاری کا ایمان افروز تذکرہ

فلسطین کے مظلومین کے لیے دعا کی مکرّر تحریک نیزمسلمانوں کو امّتِ واحدہ بننے کی تلقین

اب یہ مسلمان ملکوں کا حال ہو گیا ہے کہ بجائے اس کے کہ اکٹھے ہو کے فلسطین کو بچانے کی فکر کریں خود مسلمانوں نے لڑنا شروع کر دیا ہے اور پاکستان اور ایران میں بھی اب سنا ہے چپقلش شروع ہو گئی ہے۔ایک دوسرے پہ انہوں نے بم بھی مارے ہیں۔ تو یہ خطرناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ان مسلمان ملکوں کو، لیڈروں کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے۔ ان کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ حقیقت میں ان کو اپنے مقصد کو سمجھنے کی توفیق دے اور ایک امّت واحدہ بننے والے ہوں

حضرت مصلح موعودؓ کے نواسےمکرم سید مولود احمد صاحب ابن مکرم سید داؤد مظفر شاہ صاحب اور مکرم اکمید آگ محمد صاحب صدر جماعت مہدی آباد ،ڈوری ریجن برکینا فاسو کا ذکرخیر اور نمازجنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 19؍جنوری2024ء بمطابق 19؍ صلح 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

جنگ اُحد کے بارے میں ذکر ہو رہا ہے۔

اس ضمن میں مزید بیان کروں گا۔

جیساکہ بیان ہوا تھا کہ

دشمن نے اعلان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں۔ جس نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر مشہور کی تھی جب مسلمانوں نے یہ سنی تو مسلمانوں کی حالت کیا ہوئی؟

اس کی تفصیل میں بیان ہوا ہے کہ جب ابنِ قمئہ نے یہ سمجھا کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیا ہے اور اس نے منادی کر دی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) شہید ہو گئے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ منادی کرنے والا شیطان تھا جو جُعَالْ یا جُعَیْلِ بنِ سُراقہ کی شکل میں تھا۔

جُعَال ابتدائی صالح مسلمانوں میں سے تھے اور اہل صفہ میں بھی شامل تھے۔ ان کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے موقع پر تبدیل کر کے عمر رکھ دیا تھا۔ بہرحال یہ سن کر لوگ جُعَال پر لپکے کہ انہیں قتل کر دیں مگر انہوں نے اس منادی سے براء ت کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا میں نے تو کوئی اعلان نہیں کیا۔اور خَوَّاتْ بن جُبَیر اور ابوبُرْدَہ نے گواہی دی کہ جب یہ منادی ہوئی تو وہ ان کے پاس اور پہلو میں قتال کر رہے تھے۔ انہوں نے گواہی دی کہ یہ تو میرے ساتھ مل کے دشمن کے ساتھ لڑ رہے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اعلان کرنے والا اَزَبُّ الْعَقَبَہتھا جس نے تین مرتبہ اعلان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں اور اس بارے میں کئی قول ہیں کہ یہ اعلان کس نے کیا تھا۔ ممکن ہے مختلف لوگوں نے مختلف طور پر دیکھا ہو۔ مختلف لوگوں نے کیا ہو یعنی ابنِ قَمِئَہ نے،ابلیس اور اَزَبُّ الْعَقَبَہمیں سے ہر ایک نے اعلان کیا ہو۔ کوئی شیطان فطرت انسان بھی یہ اعلان کر سکتا ہے۔

اس خبر کے پھیلتے ہی مسلمانوں میں سے بعض نے کہا کہ اب جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو تم اپنی قوم کے پاس لوٹ چلو وہ تمہیں امان دیں گے۔ اس پر کچھ دوسرے لوگوں نے کہا کہ

اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو کیا تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اور اس کے پیغام کے لیے نہیں لڑو گے یہاں تک کہ تم اپنے رب کے حضور شہید ہو کر حاضر ہو؟

حضرت ثابت بن دَحْدَاحؓ نے انصار سے کہا کہ

اے انصار کے گروہ! اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور اسے موت نہیں آ سکتی۔ اپنے دین کے لیے قتال کرو۔اللہ تعالیٰ تمہیں فتح و کامرانی عطا کرنے والا ہے۔

یہ سن کر انصاری مسلمانوں کا ایک گروہ اٹھا اور انہوں نے حضرت ثابتؓ کے ساتھ مل کر مشرکین کے اس گروہ پر حملہ کر دیا جس میں خالد بن ولید،عِکْرِمَہبن ابوجہل اور عَمرو بن عاص اور ضِرَار بن خَطَّاب تھے۔ مسلمانوں کی اس چھوٹی سی جماعت کو حملہ کرتے ہوئے دیکھ کر خالد بن ولید نے ان پر سخت جوابی حملہ کیا اور ثابت بن دَحْدَاحؓ اور ان کے انصاری ساتھیوں کو شہید کر دیا۔

(السیرۃ الحلبیہ جلد 2 صفحہ 489تا490دارالمعرفۃ بیروت لبنان 2012ء)

ابتری کی اس کیفیت کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں جو لکھا ہے وہ اس طرح ہے۔ کہتے ہیں کہ

’’اس وقت مسلمان تین حصوں میں منقسم تھے۔ ایک گروہ وہ تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر میدان سے بھاگ گیا تھا مگر یہ گروہ سب سے تھوڑا تھا۔ ان لوگوں میں حضرت عثمان بن عفانؓ بھی شامل تھے۔ مگرجیساکہ قرآن شریف میں ذکر آتا ہے اس وقت کے خاص حالات اور ان لوگوں کے دلی ایمان اوراخلاص کومدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا۔ ان لوگوں میں سے بعض مدینہ تک جاپہنچے اوراس طرح مدینہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خیالی شہادت اورلشکر اسلام کی ہزیمت کی خبر پہنچ گئی جس سے تمام شہر میں ایک کہرام مچ گیا اور مسلمان مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے نہایت سراسیمگی کی حالت میں شہر سے باہر نکل آئے اوراُحد کی طرف روانہ ہو گئے اوربعض توجلد جلد دوڑتے ہوئے میدان جنگ میں پہنچے اوراللہ کانام لے کر دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔‘‘ یعنی انہوں نے جنگ شروع کر دی۔ ’’دوسرے گروہ میں وہ لوگ تھے جوبھاگے تونہیں تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر یاتو ہمت ہار بیٹھے تھے اوریااب لڑنے کوبیکار سمجھتے تھے اوراس لئے میدان سے ایک طرف ہٹ کر سرنگوں ہو کر بیٹھ گئے۔ تیسرا گروہ وہ تھا جو برابر لڑ رہا تھا۔ ان میں سے کچھ تو وہ لوگ تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد جمع تھے اوربے نظیر جان نثاری کے جوہر دکھا رہے تھے اوراکثر وہ تھے جومیدان جنگ میں منتشر طورپر لڑ رہے تھے۔

ان لوگوں اور نیز گروہ ثانی کے لوگوں کوجوں جوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ موجود ہونے کاپتہ لگتا جاتا تھا یہ لوگ دیوانوں کی طرح لڑتے بھڑتے آپؐ کے ارد گرد جمع ہوتے جاتے تھے۔

اس وقت جنگ کی حالت یہ تھی کہ قریش کا لشکر گویا سمندر کی مہیب لہروں کی طرح چاروں طرف سے بڑھا چلا آتا تھا اور میدان جنگ میں ہرطرف سے تیر اورپتھروں کی بارش ہو رہی تھی۔ جان نثاروں نے اس خطرہ کی حالت کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد گھیرا ڈال کر آپؐ کے جسم مبارک کواپنے بدنوں سے چھپا لیا مگر پھربھی جب کبھی حملہ کی رَو اٹھتی تھی تو یہ چند گنتی کے آدمی ادھر ادھر دھکیل دیئے جاتے تھے اورایسی حالت میں بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قریباً اکیلے رہ جاتے تھے۔ کسی ایسے ہی موقعہ پر حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کے مشرک بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا ایک پتھر آپؐ کے چہرہ مبارک پر لگا جس سے آپؐ کا ایک دانت ٹوٹ گیا اور ہونٹ بھی زخمی ہوا۔ ابھی زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ ایک اَور پتھر جو عبداللہ بن شِہاب نے پھینکا تھا اس نے آپؐ کی پیشانی کو زخمی کیا اور تھوڑی دیر کے بعد تیسرا پتھر جو ابنِ قَمِئہ نے پھینکا تھا آپؐ کے رخسارمبارک پر آکر لگا جس سے آپؐ کے مغفر (خَود) کی دو کڑیاں آپؐ کے رخسار میں چبھ کررہ گئیں۔ سعد بن ابی وقاصؓ کواپنے بھائی عتبہ کے اس فعل پراس قدر غصہ تھا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ مجھے کبھی کسی دشمن کے قتل کے لئے اتنا جوش نہیں آیا جتنا مجھے اُحد کے دن عتبہ کے قتل کاجوش تھا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ493-494)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ دعا کی قبولیت کی فلاسفی کا مضمون بیان کر رہے ہیں اور یہ بیان کرتے ہوئے آپؓ نے ایک لمبی تفصیل کے ساتھ اُحد کے اس واقعہ کا بھی ذکر کیا ہے۔

آپؓ فرماتے ہیں کہ

’’میں نے جو یہ کہا کہ اگر انگریز قوم سچے دل سے توحید پر قائم ہو کر مجھ سے دعا کی درخواست کرے تو اسے فتح حاصل ہو گی۔‘‘ یہ 1940ء میں دوسری جنگ عظیم کے وقت کی بات ہے۔ بہرحال آپؓ فرماتے ہیں کہ اگر یہ لوگ مجھ سے دعا کی درخواست کریں تو ان کو فتح حاصل ہو گی۔ ’’یہ خداتعالیٰ کی پیشگوئیوں، اس کے کلام اور میری رؤیاؤں کے عین مطابق ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس قوم کے لئے بہت دعائیں کی ہیں مگر ان قوموں نے خدا تعالیٰ کے تخت پر ایک بندے کو بٹھایا ہوا ہے اس لئے خدا تعالیٰ ان کو ابتلاؤں میں ڈال رہا ہے۔‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بنایا ہوا ہے۔ اس لیے یہ لوگ ابتلا میں پڑے ہوئے ہیں۔ دعائیں ان کے لیے بڑی ہوئی ہیں۔ پھر آپؓ نے پیغامیوں کا ذکر کیا کہ ’’پیغامی انکار کریں تو بے شک کریں‘‘ یعنی پیغامیوں کا نظریہ اس سے مختلف ہے جو حضرت مصلح موعودؓ بیان فرما رہے ہیں۔ بہرحال آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے متعلق جو دعائیں کی ہیں ان کے قبول ہونے میں روک ان کا شرک ہی ہے اگر یہ روک جزواً یا کُلاً دُور ہو جائے تو یہ دعائیں فوراً قبولیت کا جامہ پہن لیں گی۔ میں نے کئی رؤیا ایسے دیکھے ہیں کہ میری دعاؤں سے ان کی مصیبتیں ٹل سکتی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں جو دعا کرتا ہوں وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ اگر میرے اختیار میں یہ بات ہوتی تو میں ان تکلیفوں کو ہی کیوں نہ ٹال دیتا جو خود ہمیں آتی ہیں۔ قرآن کریم میں ہے کہ کفار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ اگر تم خداتعالیٰ کے اتنے ہی محبوب ہو تو کیوں تمہارا فلاں کام نہیں ہو جاتا مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمدؐ! ان سے کہہ دے کہ اگر میرے اختیار کی بات ہوتی تو میں سب بھلائیاں اپنے ہی لئے نہ جمع کر لیتا؟

پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ قانون نہ تھا‘‘ کہ آپؐ کی ہر دعا قبول ہو ’’تو میرے لئے کیونکر ہو سکتا ہے؟ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی یہی قانون تھا کہ جب خداتعالیٰ دعا قبول کرنے کے لئے تیار ہو اور کسی نشان کے ذریعہ آپؐ کی عزت قائم کرنا چاہے تو وہ ضرور قبول کر لیتا۔تو میرے لئے یا کسی اَور کے لئے اس کے خلاف کیونکر ہو سکتا ہے؟ میں تسلیم کرتا ہوں کہ انگریزوں کی طاقت میں ہے کہ چاہیں تو ہمیں پھانسی دے دیں یا قید کر دیں۔ حالانکہ اس وقت وہ دشمن کے مقابلہ میں کمزور نظر آتے ہیں‘‘ جنگ عظیم میں اس وقت ان کا کافی بُرا حال تھا۔ ’’مگر باوجود اس کے میرا دعویٰ ہے کہ میری دعا سے ان کی مشکلات دُور ہو سکتی ہیں کیونکہ انگریزوں کا ہماری جانوں پر تصرف اَور قانون کے ماتحت ہے اور اس بارہ میں دعا کی قبولیت ایک اَور قانون کے ماتحت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑنے کے لئے ایران کے بادشاہ نے ارادہ کیا تھا مگر ابھی پکڑنے والے نہ آئے تھے۔ صرف پیغام لے کر یمن کے گورنر کے آدمی پہنچے تھے مگر آپؐ نے ان سے فرمایا کہ جاؤ اپنے آقا سے کہہ دو کہ ہم نہیں آتے۔تمہارے خداکو ہمارے خدا نے مار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بادشاہ کے لڑکے کو تحریک کی اور اس نے اپنے باپ کو مار دیا ۔مگر اُحد کی جنگ میں دشمن نے آپؐ پر حملہ کیا، پتھر مارے، آپؐ کے دانت ٹوٹ گئے، سر زخمی ہو گیا اور خَود کی کیلیں سر میں کھب گئیں۔ آپؐ بےہوش ہو کر گر پڑے اور آپؐ کے اوپر بعض اَور زخمی صحابہؓ گرے اور صحابہؓ نے خیال کر لیا کہ آپؐ شہید ہو گئے۔

اب کوئی کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو آپؐ کی اتنی عزت منظور تھی کہ آپؐ کی خاطر ایران کے بادشاہ کو اتنی دُور مروا دیا تو اُس نے اُحد کے میدان میں کافروں کو آپؐ کو اس طرح پتھر کیوں مارنے دئیے؟ تو یہ اعتراضات درست نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مصلحتیں اور حکمتیں ہوتی ہیں۔ یہ راز ہیں۔ بعض مواقع پر وہ تھوڑی سی بات پر پکڑ لیتا ہے۔ بعض دفعہ کسی مصلحت کے ماتحت ڈھیل دیتا ہے تا انسان کی بے بسی اور بے سروسامانی ظاہر ہو۔‘‘

( خطبات محمود جلد 21صفحہ 227تا 229خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍جولائی 1940ء)

بہرحال یہ واقعہ چل رہا ہے۔

قتل کی افواہ کے بعد پھر صحابہؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اچانک دیدار بھی ہوا۔

اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ حضرت ابو عُبَیدہؓ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس وقت سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا کہ آپؐ زندہ سلامت موجود ہیں۔

حضرت ابوعُبَیدہؓ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپؐ کی آنکھوں کی وجہ سے پہچانا جو خَود کے نیچے سے روشن اور منور نظر آ رہی تھیں۔

خَود وہ خول ہوتا ہے جو جنگ کے وقت سپاہی سر اور چہرے کی حفاظت کے لیے اوڑھتا ہے۔ بہرحال کہتے ہیں مجھے آنکھوں میں بڑی چمک اور روشنی نظر آر ہی تھی۔ مجھے پتہ لگ گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں۔ غرض میں نے جیسے ہی آپؐ کو پہچانا تو پوری قوّت سے چلایا کہ

اے مسلمانو! تمہیں خوشخبری ہو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف اشارہ کر کے مجھے روکا کہ خاموش رہو۔

(سیرۃ الحلبیۃ جلد2 صفحہ 320دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(سیرت الحلبیہ (مترجم) جلد دوم صفحہ 179 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ سب سے پہلے ایک اَور صحابی تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا۔ چنانچہ ایک مصنف لکھتا ہے کہ گڑھے میں گرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام جسم مبارک خون سے تر بتر تھا۔ آپؐ باہر نکلے تو

حضرت کعب بن مالکؓ نے خَود کے بیچ ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا اور خوشی سے صدا بلند کرنے لگا۔ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ ، أَبْشِرُوْا هٰذَا رَسُولُ اللّٰهِ۔اے مسلمانو کے گروہ!خوش ہو جاؤ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خاموش رہنے کا اشارہ فرمایا لیکن مسلمانوں کو جیسے جیسے اطلاع ملتی گئی سب آپؐ کی طرف لپکتے آئے۔

ان میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ،حضرت عمر بن خطابؓ ،حضرت علی بن ابی طالبؓ، حضرت طلحہ بن عُبَیداللہؓ، حضرت زُبَیر بن عوامؓ ،حضرت حارث بن صِمَہؓ اور دیگر مسلمان بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ان اصحابؓ کے ہمراہ جبل اُحد کی ایک گھاٹی میں پناہ گزین ہوئے۔ راستے میں دشمنوں نے جتنے بھی حملے کیے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا خوب دندان شکن جواب دیا۔

(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد6صفحہ 537مکتبہ دارالمعارف لاہور)

بعض کتب میں ہے کہ جنگ کا پانسہ پلٹ جانے کی وجہ سے صورتحال نازک اور ناگفتہ بہ ہو گئی تھی۔

اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن معاذؓ اور حضرت سعد بن عبادہؓ کے درمیان سے نمودار ہوئے اور ہم نے آپؐ کی چال سے آپؐ کو پہچان لیا۔ اس وقت ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے نہ ہمیں کوئی شکست ہوئی اور نہ ہمارا کوئی نقصان ہوا۔ جب سب مسلمانوں نے آپؐ کو دیکھ اور پہچان لیا تووہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد پروانوں کی طرح جمع ہو گئے

اور آپؐ ان سب کو لے کر ایک گھاٹی کی طرف روانہ ہوئے۔ اس وقت آپؐ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ ،حضرت عمر ؓ،حضرت علیؓ ،حضرت زبیرؓ اور حضرت حارث بن صمہؓ تھے۔

(سیرۃ الحلبیہ جلد 2 صفحہ 320دارالکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ

’’مسلمانوں کے لئے یہ حملہ چونکہ بالکل غیر متوقع تھا اس لئے ان پر سخت گھبراہٹ طاری ہو گئی اور بوجہ بکھرے ہوئے ہونے کے دشمن کا مقابلہ نہ کر سکے۔ میدان پر کفار نے قبضہ کر لیا اور اکثر صحابہؓ سراسیمگی اور اضطراب کی حالت میں مدینہ کی طرف بھاگ پڑے یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد صرف بارہ صحابہؓ رہ گئے اور

ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ بارہ بھی نہیں صرف تین آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد رہ گئے اور کفار نے خاص طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تیر اندازی شروع کر دی لیکن باوجود ان نازک حالات کے آپؐ برابر دشمن کے مقابلہ میں کھڑے رہےاور اپنے مقام سے نہیں ہلے۔

آخر دشمن نے یکدم ریلہ کر دیا اور وہ چند آدمی بھی دھکیلے گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو کر ایک گڑھے میں گر گئے۔ آپؐ پر بعض اَور صحابہؓ جو آپؐ کی حفاظت کر رہے تھے شہید ہو کر گر گئے اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھوڑی دیر کے لئے صحابہ ؓکی نگاہوں سے اوجھل ہو گئے اور لشکر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں۔ یہ خبر صحابہؓ کے لئے اَور بھی پریشان کن ثابت ہوئی اور ان کی رہی سہی ہمت بھی جاتی رہی۔ جو صحابہؓ اس وقت آپؐ کے گرد موجود تھے اور زندہ تھے انہوں نے لاشوں کو ہٹا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گڑھے میں سے نکالا اور حفاظت کے لئے آپؐ کے ارد گرد کھڑے ہو گئے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 77)

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کے گھیرے سے نکل کر اپنے جاںنثاروں کے ساتھ گھاٹی کی طرف جا رہے تھے تو عثمان بن عبداللہ بن مُغیرہ ایک سیاہ و سفید گھوڑے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھا۔ وہ سر سے پیر تک زرہ پوش تھا اور اس گھاٹی کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جا رہے تھے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ یا تو وہ زندہ رہیں گے یا مَیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی آواز سن کر ٹھہر گئے۔ اس وقت عثمان کے گھوڑے کو ان گڑھوں میں سے ایک سے ٹھوکر لگی (جو وہاں گڑھے کھودے ہوئے تھے) اور وہ اس میں گر پڑا۔ اس وقت حضرت حارثؓ اس کی طرف جھپٹے۔ تھوڑی دیر دونوں میں تلواروں کے وار ہوئے۔ اچانک حضرت حارث بن صِمَّہ ؓنے اس کے پاؤں پر تلوار ماری۔ عثمان اس زخم سے ایک دم بیٹھ گیا۔ اس وقت حضرت حارثؓ نے اس کا کام تمام کر دیا اور اس کی زرہ اور خَود اتار لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا:خدا کا شکر ہے کہ جس نے اس کو ہلاک کر دیا۔ اسی وقت عُبَیداللہ بن جابِر عَامِرِی نے حضرت حارثؓ پر حملہ کیا اور ان کے مونڈھے پر وار کر کے انہیں زخمی کر دیا۔ حضرت حارثؓ کے ساتھی انہیں اٹھا کر لے گئے۔ ساتھ ہی حضرت ابودُجَانہؓ نے لپک کر عُبَیداللہ پر حملہ کیا اور اسے اپنی تلوار سے قتل کر کے واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے۔

(سیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ321 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

مکہ کے ایک رئیس اُبَیّبن خَلَف کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کا بھی ذکر ملتا ہے۔

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹی کی طرف جا رہے تھے تو اُبَیّبن خَلَف ادھر آ گیا۔ اُبَیّبن خَلَف نے غزوۂ بدر میں قیدی بننے کا فدیہ ادا کیا تھا۔ اس نے کہا کہ میرے پاس عُوْد گھوڑا ہے جسے میں ہر روز ایک فَرَق یعنی ساڑھے سات کلو مکئی کھلاتا ہوں۔ بہت طاقتور ہے اور بڑا صحت مند ہے۔ میں اس پر سوار ہو کر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کر وںگا۔ جب آپؐ تک اس کی یہ بات پہنچی تو آپؐ نے فرمایا :نہیں! بلکہ میں اسے قتل کروں گا۔ ایک قول یہ ہے کہ اس نے یہ بات ہجرت سے قبل مکہ مکرمہ میں آپؐ سے کی تھی۔ الغرض جب غزوۂ اُحد ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ اُبَیّ بن خَلَف میرے پیچھے سے مجھ پر حملہ آور ہو گا۔ جب تم اسے دیکھو تو مجھے بتا دینا۔ وہ زرہ پہنے ہوئے گھوڑے کو رقص کراتا آ رہا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے دیکھ لیا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ محمد (مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ) کہاں ہیں؟ اگر وہ بچ گئے تو مَیں نہیں بچ سکوں گا۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓاس کے سامنے آ گئے۔ وہ آپؐ کا دفاع کر رہے تھے۔ مصعب بن عمیر ؓآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کر رہے تھے۔ اس نے مصعب بن عمیر ؓکو شہید کر دیا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی یا رسول اللہؐ! ابی آپؐ کی طرف آ رہا ہے۔ اگر آپؐ پسند کریں تو ہم میں سے ایک شخص اس کا کام تمام کر دے۔ دوسری روایت میں ہے کہ صحابہ کرامؓ اس کے سامنے آگئے۔ آپؐ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو۔ اس کے راستے سے ہٹ جاؤ۔ جب وہ آپؐ کے قریب ہو گیا تو آپؐ نے فرمایا:اے کذاب! بھاگ کر کہاں جاتا ہے؟ حضور اکرمؐ نے حضرت حارِثہ بن صِمَّہؓ سے نیزہ لیا۔ دوسرے قول کے مطابق حضرت زبیر بن عوامؓ سے نیزہ لیا۔آپؐ نے جھرجھری لی ۔صحابہ کرامؓ آپؐ سے یوں پرے ہو گئے جیسے اونٹ کی کمر سے مکھیاں دُور ہو جاتی ہیں۔ آپؐ ابی کے سامنے آئے اس کی گردن پرنیزہ مارا یا خَود اور زرہ کے درمیان نظر آنے والی جگہ پر نیزہ مارا جس کی وجہ سے وہ اپنے گھوڑے سے کئی بار نیچے لڑھکا۔ وہ بیل کی طرح ڈکارنے لگا۔ اس کی گردن پر معمولی سی خراش آئی اس کا خون رک گیا یا اس کی پسلیوں میں سے کوئی پسلی ٹوٹ گئی۔ وہ اپنی قوم کے پاس واپس گیا اور کہا بخدا! مجھے محمد عربی (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے قتل کر دیا ہے۔ قوم نے کہا تیرا دل ٹوٹ گیا ہے، بخدا ! تجھے کچھ نہیں ہوا۔ یہ معمولی خراش ہی ہے اگر ہم میں سے کسی کی آنکھ پر بھی اتنا زخم آتا تو اس کو کچھ بھی نہ ہوتا۔ اس نے کہا کہ مجھے لات اور عزیٰ کی قَسم! جو چوٹ مجھے لگی ہے اگر اہل ذُوْالمَجَاز یا رَبِیعہاور مُضَر کے قبائل کو لگتی تو سارے مر جاتے۔ اس نے مجھے مکہ مکرمہ میں کہا تھا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میں تجھے قتل کروں گا۔

بخدا! اگر وہ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر تھوک بھی دیتا تو میں مر جاتا۔ جب مشرکین واپس آ رہے تھے تو یہ سَرِف کے مقام پر واصل جہنم ہو گیا۔

سَرِف ایک بڑی وادی ہے۔ آج کل جس کو نَوَّارِیَّہکہتے ہیں۔ حجة الوداع میں مدینہ سے یہ آپؐ کی ساتویں منزل تھی جو تنعیم کے قریب مکہ سے نو یا دس میل کے فاصلے پر ہے۔

( سبل الھدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 208 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد6صفحہ274 دار السلام)

(فرہنگ سیرت صفحہ 147مطبوعہ زوار اکیڈمی کراچی)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ

’’جب قریش ذرا پیچھے ہٹ گئے اورجو مسلمان میدان میں موجود تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوپہچان کر آپؐ کے اردگرد جمع ہو گئے تو آپؐ اپنے ان صحابہؓ کی جمعیت میں آہستہ آہستہ پہاڑ کے اوپرچڑھ کرایک محفوظ درّہ میں پہنچ گئے۔ راستہ میں مکہ کے ایک رئیس اُبَیّ بن خَلَفکی نظر آپؐ پر پڑی اور وہ بغض وعداوت میں اندھا ہوکر یہ الفاظ پکارتا ہوا آپؐ کی طرف بھاگا کہ ’’لَانَجَوْتُ اِنْ نَجَا۔‘‘کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بچ کر نکل گیا تو گویا میں تو نہ بچا۔’’ صحابہؓ نے اسے روکنا چاہا مگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اسے چھوڑ دو اور میرے قریب آنے دو۔ اور جب وہ آپؐ پرحملہ کرنے کے خیال سے آپؐ کے قریب پہنچا توآپؐ نے ایک نیزہ لے کر اس پرایک وار کیا جس سے وہ چکر کھا کر زمین پر گرا اور پھراٹھ کرچیختا چلاتا ہوا واپس بھاگ گیا اور گو بظاہر زخم زیادہ نہیں تھا مگر مکہ پہنچنے سے پہلے وہ پیوند خاک ہو گیا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ497)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحابؓ کے ساتھ گھاٹی میں پہنچے۔ اس کے بارے میں ابنِ اسحاق کا بیان ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کے اعلان اور کچھ لوگوں کے منتشر ہو جانے کے بعد سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت کعب بن مالکؓ کی نگاہ پڑی۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے خَود کے درمیان میں سے آپؐ کی چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر بلند آواز سے پکارا۔ اے مسلمانو! خوش ہو جاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہیں۔یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ خاموش رہو۔

جب مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ گھاٹی کی طرف روانہ ہوئے۔ آپؐ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓ ،حضرت عمرؓ ،حضرت علیؓ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓاور حضرت زبیر بن عوامؓ اور حارث بن صِمَہؓ وغیرہ صحابہ ؓتھے۔

(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 67 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کی جماعت کے ساتھ اس چٹان پر قیام فرما تھے اچانک قریش کی ایک جماعت پہاڑ کے اوپر پہنچ گئی۔ اس جماعت میں خالد بن ولید بھی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کو اوپر دیکھ کر دعا کی کہ

اَللّٰهُمَّ إنَّهٗ لَا يَنْبَغِي لَهُمْ أَنْ يَعْلُوْنَا ، اَللّٰهُمَّ لَا قُوَّةَ لَنَا إلَّا بِكَ۔

اے اللہ! ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ ہم پر غالب آئیں۔ اے اللہ! ہماری طاقت و قوّت نہیں ہے مگر صرف تیرے ہی ذریعہ۔

اسی وقت حضرت عمر فاروق ؓنے مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ ان لوگوں کا مقابلہ کیا اور انہیں پیچھے دھکیل کر پہاڑی سے نیچے اترنے پر مجبور کر دیا۔

(سیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ 323 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(سبل الہدیٰ جلد 4 صفحہ 210 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

سیرت خاتم النبیینؐ میں بیان ہوا ہے کہ

’’جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درہ پر پہنچ گئے توقریش کے ایک دستے نے خالد بن ولید کی کمان میں پہاڑ پرچڑھ کر حملہ کرنا چاہا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عمر ؓنے چند مہاجرین کوساتھ لے کر اس کا مقابلہ کیا اور اسے پسپا کردیا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ497)

اسی جنگ کے واقعہ کی ایک روایت ایک تاریخ میں اس طرح ملتی ہے کہ حضرت زبیر ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے دن دو زرہیں پہنے ہوئے تھے۔

آپؐ نے چٹان پر چڑھنا چاہا مگر زرہوں کے وزن کی وجہ سے اور سر اور چہرے پر چوٹ سے خون بہنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمزوری ہو گئی تھی تو چٹان پر چڑھ نہ سکے تو

حضرت طلحہؓ نیچے بیٹھ گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اوپر پیر رکھ کر چٹان پر چڑھے۔ حضرت زبیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ طلحہ نے اپنے اوپر جنت واجب کر لی۔

(اسد الغابہ جزء 3 صفحہ 85 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چٹان کے اوپر جانے کا ارادہ کیا جو گھاٹی پر تھی مگر جب آپؐ چڑھنے لگے تو سر مبارک کے زخم سے خون نکل جانے اور کمزوری کی وجہ سے طاقت نے ساتھ نہیں دیا۔ پھر اس کے ساتھ آپؐ کے جسم پر دو زرہوں کا بوجھ تھا۔ یہ دیکھ کر

حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓجلدی سے آپؐ کے سامنے بیٹھ گئے اور آپؐ کو کاندھوں پر بٹھا کر چٹان کے اوپر لے گئے۔ اسی وقت آپؐ نے فرمایا :طلحہ کے اس نیک عمل کی وجہ سے ان کے لیے جنت واجب ہو گئی۔

(سیرۃ الحلبیۃ جلد دوم نصف آخر صفحہ 181 (مترجم) دار الاشاعت کراچی)

جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ

اسی جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دانت مبارک بھی شہید ہوا تھا۔

اس وقت کا جو نقشہ حضرت ابوبکر ؓنے کھینچا ہے اس کے متعلق حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ

حضرت ابوبکر ؓجب یوم اُحد کا تذکرہ کرتے تو فرماتے وہ دن سارے کا سارا طلحہ کا تھا۔ پھر اس کی تفصیل بتاتے کہ میں ان لوگوں میں سے تھا جو اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس لوٹے تھے تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپؐ کی حفاظت کرتے ہوئے لڑ رہا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپؓ نے فرمایا،یعنی حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچا رہا تھا۔ حضرت ابوبکر ؓکہتے ہیں کہ میں نے کہا کاش! طلحہ ہو۔ مجھ سے جو موقع رہ گیا سو رہ گیا اور میں نے دل میں کہا کہ میری قوم میں سے کوئی شخص ہو تو یہ مجھے زیادہ پسندیدہ ہے۔ حضرت ابوبکر ؓنے اس وقت یہ سوچا ۔کہتے ہیں میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک شخص تھا جس کومیں نہیں پہچان سکا حالانکہ میں اس شخص کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب تھا اور وہ اتنا تیز چل رہا تھا کہ میں اتنا تیز نہ چل سکتا تھا تودیکھا کہ وہ شخص ابوعُبَیدہ بن جَرَّاح ؓتھے۔یعنی دو بندے یہ تھے۔ حضرت طلحہ ؓبھی وہاں تھے اور عُبَیدہ بن جَرَّاحؓ بھی تھے، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا۔ آپؐ کا نچلا رباعی دانت، سامنے والے دو دانتوں اور نوکیلے دانت کے درمیان والا دانت ٹوٹ چکا تھا اور چہرہ زخمی تھا۔ آپؐ کے رخسار مبارک میں خَود کی کڑیاں دھنس چکی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم دونوں اپنے ساتھی کی مدد کرو۔اس سے آپؐ کی مراد طلحہ تھی اور ان کا خون بہت بہ رہا تھا۔ حضرت طلحہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے بہت زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بجائے یہ کہنے کے کہ مجھے دیکھو فرمایا کہ طلحہ کو جاکے دیکھو۔ ہم نے ان کو رہنے دیا اور میں آگے بڑھا یعنی حضرت طلحہ ؓکی طرف توجہ نہیں دی بلکہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف توجہ دی تا کہ خَود کی کڑیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے نکال سکیں۔ اس پر حضرت ابوعُبَیدہؓ نے کہا کہ میں آپ کو اپنے حق کی قسم دیتا ہوں کہ آپ اسے میرے لیے چھوڑ دیں۔ پس میں نے ان کو چھوڑ دیا۔ حضرت ابوعُبَیدہؓ کی درخواست پر کہ میں نکالوں گا یہ کڑیاں آپ پیچھے ہٹ گئے۔ حضرت ابوعُبَیدہؓ نے ناپسند کیا کہ ان کڑیوں کو ہاتھ سے کھینچ کر نکالیں اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچے تو انہوں نے ان کڑیوں کو اپنے منہ سے نکالنے کی کوشش کی اور ایک کڑی کو نکالا تو کڑی کے ساتھ ان کا اپنا سامنے کا دانت بھی ٹوٹ گیا۔ پھر دوسری کڑی نکالنے کے لیے مَیں آگے بڑھا کہ مَیں بھی ایسا ہی کروں جیسا انہوں نے کیا ہے۔ حضرت ابوبکر ؓکہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ مَیں بھی اسی طرح دوسری کڑی نکالنے کی کوشش کرتا ہوں تو حضرت ابوعُبَیدہؓ نے پھر کہا کہ مَیں آپ کو اپنے حق کی قسم دیتا ہوں کہ آپ اسے میرے لیے چھوڑ دیں۔ یعنی دوسری کڑی بھی مَیں ہی نکالوں گا،آپ نہیں۔ انہوں نے حضرت ابوبکر ؓکو کہا تھا تو پھر وہ پیچھے ہٹ گئے۔ پھر انہوں نے ویسے ہی کیا جیسے پہلے کیا تھا۔ ابوعُبَیدہ ؓکا سامنے کا دوسرا دانت بھی کڑی کے ساتھ ٹوٹ گیا اور حضرت ابوبکر ؓیہ فرمایا کرتے تھے کہ ابوعُبَیدہؓ سامنے کے ٹوٹے ہوئے دانتوں والے لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔

پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاج معالجہ سے فارغ ہو کر طلحہؓ کے پاس آئے۔ وہ ایک گڑھے میں تھے تو دیکھا کہ ان کے جسم پر نیزے، تلوار اور تیروں کے کم و بیش ستّر زخم تھے اور ان کی انگلی بھی کٹی ہوئی تھی تو ہم نے ان کی مرہم پٹی کی۔

(سبل الہدیٰ جلد 4 صفحہ 199-200 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

( لغات الحدیث زیر لفظ رَبَاعِی )

حضرت ابوعُبَیدہؓ کے علاوہ حضرت عُقْبَہ بن وَہْبؓ اور حضرت ابوبکر ؓکے بارے میں بھی روایت ملتی ہے کہ انہوں نے یہ کڑیاں نکالیں۔

(شرح زرقانی جلد 2صفحہ 425 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

لیکن بہرحال پہلی روایت زیادہ بہتر ہے۔

ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے دو کڑیاں جب نکالی گئیں تو خون ایسے بہنے لگا جیسے بھرے ہوئے مشکیزے سے پانی نکلتا ہے۔ مالک بن سِنَانؓ خون کو اپنے منہ سے چوسنے لگے۔ آپؐ نے ان کو کہا کہ کیا تُو خون پی رہا ہے؟ اس نے کہا کہ جی ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس کے خون کو میرا خون چھو گیا اس کو آگ نہیں چھوئے گی۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 200 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

یہ ’’سبل الھدیٰ والرشاد‘‘ کی روایت ہے لیکن لگتا ہے کہ یہ روایت قابل غور ہے۔ ان کی بعض روایتیں محلِّ نظر ہیں۔ بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے کہاں تک یہ صحیح ہے کیونکہ اگر خون اس طرح چوسیں تو اس طرح خون رُکنے کے بجائے ان سے اَور زیادہ خون نکلتا ہے اور زیادہ کمزوری پیدا ہوتی ہے۔ بہرحال میرا خیال ہےکہ اگلی روایات میں اس کا جواب بھی آ جاتا ہے۔اس لیے یہ روایت اتنی ثقہ نہیں ہے۔

غزوہ ٔاُحد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو زخم لگے اس حوالے سے بخاری کی روایت ہے کہ حضرت سہل بن سعدؓ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم کی بابت پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے پوچھتے ہو تو اللہ کی قسم! میں خوب جانتا ہوں ، سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے ہے یعنی وہ نظارہ کہ کون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زخم دھو رہا تھا اور کون پانی ڈال رہا تھا اور کیا دوا لگائی گئی تھی۔ حضرت سہلؓ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہؓ زخم دھو رہی تھیں اور حضرت علیؓ ڈھال میں سے پانی ڈال رہے تھے جب حضرت فاطمہؓ نے دیکھا کہ پانی خون کو اَور نکال رہا ہے تو انہوں نے بوری کا ایک ٹکڑہ لیا اور اس کو جلایا اور اس کو ساتھ چپکا دیا۔اس سے خون رک گیا اور اس دن آپؐ کے سامنے والا دانت بھی ٹوٹ گیا تھا اور آپؐ کا چہرہ زخمی ہو گیا تھا اور آپؐ کا خَود آپؐ کے سر پر ٹوٹ گیا تھا۔

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب ما اصاب النبیﷺ من الجَرَّاح یوم اُحد حدیث 4075)

یہاں خون کو بند کرنے اور دھونے کا ذکر ہے،چوسنے کا تو کوئی ذکر نہیں۔ یہی روایت بخاری کی جو ہے یہی صحیح ہے۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹی کے دہانے تک پہنچے تو علی بن ابی طالبؓ مِھْرَاسکے پانی سے اپنی ڈھال بھر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ مِھْرَاس: جبل اُحد میں جن چھوٹے بڑے گڑھوں میں بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے انہی گڑھوں کا نام مِھْرَاسہے۔ مِھْرَاس کے معنی میں یہ لکھا ہوا ہے۔ یہ جگہ اس مقام کے قریب ہے جہاں حضرت حمزہؓ شہید ہوئے تھے تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پی لیں لیکن اس کی بدبو کی وجہ سے آپؐ نے اس کو نہیں پیا اور اپنے چہرے سے خون کو دھو لیا اور اپنے سر پر ڈالا اور فرمایا:

اللہ تعالیٰ اس شخص پر سخت غضبناک ہوتا ہے جو اس کے نبی کے چہرے کو زخمی کر دے۔

محمد بن مسلمہ ؓعورتوں سے پانی مانگنے گئے۔ ان کے پاس پانی نہیں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت پیاس لگی ہوئی تھی تو محمد بن مسلمہ ؓایک چشمے پر گئے اور وہاں سے میٹھا پانی لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پانی پی کر ان کو خیر کی دعا دی۔ طبرانی میں سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور اُحد کے دن زخمی ہو گیا اور آپؐ کے دندان مبارک شہید ہو گئے اور خَود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر ٹوٹ گیا تھا۔ جب مشرکین چلے گئے تو عورتیں صحابہ کرامؓ کے پاس آئیں۔ان میں فاطمہ ؓبھی تھیں۔ وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملیں تو ان کو چمٹ گئیں اور آپؐ کے زخم دھونے لگیں اور علیؓ ڈھال کے ذریعہ پانی بہاتے تھے لیکن خون زیادہ بہ رہا تھا تو حضرت فاطمہ ؓنے چٹائی کا کچھ حصہ جلا کر راکھ بنا لی اور اس سے زخم کی ٹکور کی یہاں تک کہ وہ زخم کے ساتھ مل گئی اور خون رک گیا۔

(سبل الہدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ 209۔210دارالکتب العلمیۃ بیروت)

(سیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ322 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

(فرہنگ سیرت صفحہ 290 زوار اکیڈمی کراچی)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے خون ٹپک رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنا خون پونچھتے جاتے تھے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ شَجُّوْا نَبِیَّھُمْ وَكَسَرُوْا رَبَاعِيَتَهٗ وَهُوَ يَدْعُوْهُمْ إِلَى اللّٰهِ۔ وہ قوم کیسے کامیاب ہو سکتی ہے جس نے اپنے نبی کو زخمی کیا اور اس کا رباعی دانت توڑ ڈالا جبکہ وہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہے۔

(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد6صفحہ251 دار السلام)

ان شاء اللہ باقی آئندہ۔

فلسطین کے لیے میں دعا کے لیے کہتا رہتا ہوں۔

اب مسلمان ملکوں کا یہ حال ہو گیا ہے کہ بجائے اس کے کہ اکٹھے ہو کے فلسطین کو بچانے کی فکر کریں خود مسلمانوں نے لڑنا شروع کر دیا ہے اور پاکستان اور ایران میں بھی اب سنا ہے چپقلش شروع ہو گئی ہے۔ انہوں نے ایک دوسرے پہ بم بھی مارے ہیں۔ تو یہ خطرناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ان مسلمان ملکوں کو، لیڈروں کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے۔ ان کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ حقیقت میں ان کو اپنے مقصد کو سمجھنے کی توفیق دے اور ایک امّتِ واحدہ بننے والے ہوں۔

نماز کے بعد

مَیں دو جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ جنازہ غائب۔

ایک ہے

سید مولود احمد صاحب ابن سید داؤد مظفر شاہ صاحب کا

جو گذشتہ دنوں چھہتر76سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سیّدہ ام طاہر صاحبہؓ کے نواسے اور صاحبزادی امةالحکیم صاحبہ اور سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے بیٹے تھے۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ میرے خالہ زاد بھی تھے اور میری اہلیہ کے بڑے بھائی تھے۔

ان کے دادا سید محمود اللہ شاہ صاحب تھے جو سید عبدالستار شاہ صاحبؓ کے بیٹے تھے۔ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ میں تقویٰ اور طہارت بڑا انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ ان میں بڑی عاجزی اور انکساری تھی اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں وہ بہت بڑھے ہوئے تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ان کے بارے میں، عبدالستار شاہ صاحبؓ کے بارے میں ایک روایت درج کی ہے۔ کہتے ہیں انہوں نے مجھے خود بیان کیا ہے۔ یعنی ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ نے حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ کو خود بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّلؓ بہت زیادہ بیمار ہو گئے اور یہ اس زمانے کی بات ہے جب وہ حضورؑ کے مکان میں رہتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بکروں کا صدقہ دیا۔ ڈاکٹر صاحبؓ کہتے ہیں کہ میں بھی وہاں موجود تھا۔ میں رات کو حضرت خلیفہ اوّلؓ کے پاس رہا اور دوا پلاتا رہا۔ صبح جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تو حضرت خلیفہ اوّلؓ نے عرض کیا کہ حضور! ڈاکٹر صاحب ساری رات میرے پاس بیدار رہے اور دوا وغیرہ اہتمام سےپلاتے رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بات پر بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے کہ

ہم کو بھی ان پر رشک آتا ہے۔ یہ بہشتی کنبہ ہے

اور یہ الفاظ چند بار حضرت مسیح موعودؑنے فرمائے۔ حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحبؓ کے بارے میں بار بار فرمائے۔

(ماخوذ از سیرت المہدی جلد1حصہ سوم صفحہ545 روایت نمبر 563)

سید مولود شاہ صاحب نے ربوہ سے تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کیا۔ ایف ایس سی کی۔پھر ان کو لاہور میں انجنیئرنگ یونیورسٹی کالج میں داخلہ ملا اور مکینیکل انجنیئرنگ میں ڈگری حاصل کی۔ پاکستان میں بھی مختلف کمپنیوں میں کام کیا۔ پھر چند سال نائیجیریا میں بھی ایک کمپنی میں بطور انجنیئر کام کرنے گئے تھے اور وہاں کام کیا اور اللہ کے فضل سے اچھی زندگی گزاری۔

ان کا نکاح حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے جب پڑھایا تھاتو اس میں حضرت خلیفةالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جو خطبہ دیا وہ یہ تھا کہ ازدواجی رشتے درخت کے پیوند کی مانند ہوتے ہیں جنہیں شروع میں بڑا سنبھال کے رکھنا پڑتا ہے۔

یہ بعض پرانے خطبات نکاح مَیں اس لیے پڑھ دیتا ہوں کہ بہت سارے لوگ سوال کرتے ہیں کہ کس طرح ہم اچھے رشتے نبھا سکتے ہیں؟ تو یہ ہدایتیں ہیں، انہیں سامنے رکھیں ۔مختصر ہوتی ہیں۔اس لیے بعض دفعہ میں خطبہ میں بیان کر دیتا ہوں اور بعض دفعہ نکاحوں میں یہ سابقہ خلفاء کی ہدایات بھی دے دیتا ہوں۔

بہرحال آپؒ فرماتے ہیں کہ جنہیں شروع میں ہی بڑا سنبھال کے رکھنا پڑتا ہے۔

قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق اس پیوند کو قول سدید کے دھاگے سے باندھنا پڑتا ہے۔ یعنی بالکل سچائی ،کامل سچائی کے دھاگے سے باندھنا پڑتا ہے تب جا کر اس کی حفاظت ہوتی ہے۔

اور اس کی ذمہ داری نہ صرف ہر دو میاں اور بیوی پر بلکہ ان کے خاندانوں پر، ان کے ماحول پر، بلکہ ان کے دوستوں پر بھی عائد ہوتی ہے ۔کیونکہ بہت سی خرابیاں بدظنیوں کے نتیجہ میں یا چغلیوں کے نتیجہ میں یا بے صبری کے نتیجہ میں یا طیش کے نتیجہ میں پیدا ہو جاتی ہیں اور اس کو روکنے کے لیے قول سدید ایک بہت ہی مضبوط دھاگہ ہے۔

پھر آپؒ نے فرمایا کہ خدا کرے کہ جس نکاح کا میں اس وقت اعلان کر رہا ہوں وہ ہر دو خاندانوں کے لیے بابرکت ہو۔ پھر جماعت کے لیے بابرکت ہو۔ انسانیت کے لیے بابرکت ہو۔ خادم دین نسل اس میں سے پیدا ہو۔پھر آپؒ نے فرمایا کہ رشتہ میری چھوٹی ہمشیرہ امة الحکیم اور سید داؤد مظفر شاہ کے بیٹے سید مولود احمد کا ہے جو ڈاکٹر سید غلام مجتبیٰ کی بیٹی لبنیٰ شاہوارسے طے پا رہا ہے۔ پھر ڈاکٹر صاحب کے بارے میں بھی آپؒ نے فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب ان ابتدائی ڈاکٹروں میں سے ہیں جنہوں نے مغربی افریقہ میں بطور واقف ڈاکٹر کام کیا اور ان کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے بہت شفا بخشی۔بڑے کامیاب سرجن کے طور پر وہ پہلے غانا میں کام کرتے رہے پھر کچھ عرصہ کے بعد انہیں نائیجیریا بھیجا گیا، وہاں بھی انہوں نے اپنا عارضی وقف پورا کیا۔پھر دل کے عارضہ میں بیمار ہو گئے اس وجہ سے واپس لوٹناپڑا ۔پھر حضرت خلیفہ ثالثؒ نے انہیں دعا بھی دی کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت سے رکھے اور ان کو توفیق دے کہ وہ دوبارہ افریقہ جائیں۔اور یہ دعا بھی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ اس کے بعد بھی وہ گئے اور ایک لمبا عرصہ دوبارہ وہاں افریقہ میں انہیں خدمت کی توفیق ملی۔پھر حضرت خلیفہ ثالثؒ نے یہ دعا بھی کی کہ اللہ تعالیٰ سید مولود احمد کو بھی خدمت دین کی توفیق دے ۔اور اپنے طور پر جو طوعی خدمت یہ کرسکتے تھے انہوں نے اس کے بعد کی۔

(ماخوذ از خطبات ناصر جلد دہم صفحہ656-657 خطبہ نکاح 25؍نومبر1977ء)

ان کے بیٹے سید سعود احمد کہتے ہیں کہ میرے والد شروع سے ہی نمازوں کے پابند، فجر کی نماز کے بعد تلاوت کرنے والے بلکہ مجھے پتہ ہے تہجد گزار بھی تھے۔ کہتے ہیں ان کی تلاوت بھی بڑی اچھی آواز میں تھی۔پھر کہتے ہیں رات کو سونے سے پہلے ہمیں پرانے بزرگوں کے قصے اور واقعات سناتے تھے۔ چندوں میں باقاعدہ تھے اور ہمیں بھی چندوں میں باقاعدہ رہنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ جیب خرچ بھی دیتے تو کہتے پہلے چندہ دے کے آؤ۔ عیدی ملتی تو اس میں بھی کہتے چندہ دیا کرو۔ ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ فائل بنائی ہوئی تھی۔ اسی طرح جب بچوں کی بھی وصیت کروائی تو ان کی بھی فائل بنائی۔ اپنا ریکارڈ بھی رکھا اور ہر چندہ خود clearکرتے تھے۔ رمضان کے روزوں کے علاوہ شوال کے روزے بھی رکھنے والے تھے۔ قرآن کریم کے دو دَور مکمل کرتے اور تیسرے دَور کو رمضان میںختم کرنے کی کوشش کرتے۔

پھر انہوں نے یہ لکھا ہے کہ بڑے کھرے انسان تھے۔بہت شفاف طبیعت کے مالک،سیدھے، صاف گو تھے۔ بہت ملنسار تھے۔کسی سےپرانا تعلق ہوتا یا نیا، خود رابطہ رکھتے اور کسی نہ کسی بہانے حال پوچھتے رہتے۔ چھوٹا ہو یا بڑا سب سے حسن سلوک سے پیش آتے۔ اپنے دل میں کبھی کسی کے بارے میں کینہ نہیں رکھا۔ تعصب نہیں تھا۔ کوئی جتنی مرضی زیادتی کر جاتا لیکن آپ ہمیشہ حسن خلق سے پیش آتے تھے۔ اگر کوئی بڑی زیادتی کر جاتا تو خود جا کر اس سے تعلق بناتے

اوریہ باتیں صرف بیٹے نے نہیں لکھیں بلکہ مَیں نے بھی دیکھا ہے کہ حقیقت میں یہ خوبیاں ان میں موجود تھیں۔ میرا بھی یہی مشاہدہ ہے اور بہت سے تعزیت کرنے والے لوگوں نے بھی جو ان سے واقف تھے، یہ لکھا ہے کہ واقعی یہ خوبیاں ان میں موجود تھیں۔

پھر بیٹے نے ہی یہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہیں باہر سفر پہ گئے تو ان کے لیے ایک کھلونا تحفہ لائے جس کو انہوں نے کھول کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں کہا کہ میں نے تمہیں تحفہ دیا ہے۔ تم نے اس کے ٹکڑے کر دیے ہیں؟ تو کہنے لگے کہ میں ابھی جوڑ دیتا ہوں اور پھر اس کو حضرت مصلح موعودؓ کے سامنے جوڑ بھی دیا۔تو حضرت مصلح موعودؓ نے ان کی والدہ کو کہا کہ اس کو انجنیئر بنانا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی یہ بات بھی پوری ہوئی۔ بعد میں وہ انجنیئر بن بھی گئے اور بڑے اچھے انجنیئر تھے۔

پھر حضرت مصلح موعودؓ کی ایک نصیحت جو ساروں کے لیے بڑی کام والی ہے اس کو بیان کردیتا ہوں۔

ایک مرتبہ حضرت مصلح موعودؓ اپنے فارم جو سندھ میں تھا وہاں زمینوں پر گئے ہوئے تھے۔یہ بھی ان دنوں میں وہیں تھے۔ یہ بھی اپنے والد کے ہمراہ حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ ہی زمینوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ جب حضرت مصلح موعودؓ دورہ کر رہے تھے تو یہ بھی ان کے ساتھ ساتھ تھے۔ تو اس وقت غالباً آموں کے پھل کا سیزن تھا اور ٹھیکیدار نے باغ میں پھل توڑ کے نیچے رکھے ہوئے تھے۔ باغ کا جو ٹھیکہ ہے وہ دے دیا جاتا ہے، بیچ دیا جاتا ہے اور پھر وہ پھل ٹھیکیدار کا ہوتا ہے۔ کچھ جنس اس میں سے مالک کے لیے لی جاتی ہے لیکن بہرحال اس نے اپنا پھل توڑ کے رکھا ہوا تھا۔ یہ بچے تھے انہوں نے اس میں سے ایک آم اٹھا لیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے کہا کہ واپس رکھ کے آؤ۔ یہ اب تمہاری ملکیت نہیں۔ یہ ٹھیکیدار کی ملکیت ہے۔

تو حضرت مصلح موعودؓ کی تربیت کے یہ بھی انداز تھے۔ اب یہ کہہ سکتے تھے کہ ہاں جنس ہمیں ملتی ہے اس میں سے نکل جائے گا کوئی ہرج نہیں لیکن نہیں! اپنے نواسے کی آپؓ نے اس طرح تربیت کی۔

پھر سید مولود کی بیٹی عزیزہ ماریہ کہتی ہیں کہ قرآن کریم اور روحانی خزائن اور ملفوظات کا مسلسل مطالعہ رکھتے تھے۔

اسی طرح مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ تفسیر کبیر جو ہے اس کا بھی مطالعہ تھا اور بڑا گہرا علم تھا۔ لوگوں میں بیٹھ کے اپنے علم کو ظاہر نہیں کرتے تھے لیکن اگر کوئی پوچھے ،کہیں بات ہو، مسئلہ ہو ،تو بڑے اچھے حوالے دیتے تھے۔ اَوروں نے بھی مجھے یہ لکھا ہے۔

دینی اور دنیاوی اعتبار سے کہتی ہیں جب بھی ہم کوئی مسئلہ پوچھتے تو اچھا حل بتاتے تھے۔ دعاؤں کی طرف توجہ کرنے کی تلقین کرتے اور بس یہی کہتے کہ تم دعا کرو اور پھر معاملہ اللہ پہ چھوڑ دو۔

اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی بیوی بچوں کی حفاظت کرے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔

ان کے ایک بھائی سید صہیب ہیں، انہوں نے بھی یہی لکھا ہے کہ بڑی خوبی یہ تھی کہ غمی یا خوشی کا موقع ہو ہمیشہ یہ مبارکباد دینے میں پہل کرنے والے تھے۔ اگر مریض ہو تو عیادت کرنے میں سب سے پہلے آتے تھے۔

حنیف محمود صاحب مربی سلسلہ ہیں۔ یہ لکھتے ہیں: اسلام آباد سے ان سے تعارف ہوا۔ سادہ، سفید پوش، خاموش طبع ،درویش اور فرشتہ صفت انسان تھےاور واقفین زندگی، خاص طور پر مربیان کرام کا بہت احترام کرتے تھے۔ ربوہ آئے تو یہاں بھی اس تعلق کو نبھایا جو اسلام آباد سے قائم ہوا تھا۔ اکثر تلاش کر کے مسجد میں ملتے تھے اور کہتے ہیں جب بھی ان کو دعا کے لیے کہو تو دعا کے بعد اس کا حال احوال بھی پوچھا کرتے تھے کہ پھر کیا بنا؟

اللہ تعالیٰ یہ نیکیاں جیساکہ میں نے کہا ہے ان کے بچوںمیں بھی جاری رکھے۔

دوسرا جنازہ جس کو پڑھانا ہے ان کا ذکر یہ ہے کہ وہ

مکرم اکمید آگ محمد صاحب ہیں۔

یہ صدر جماعت مہدی آباد ڈوری ریجن برکینا فاسو کے ہیں۔ گذشتہ دنوں پینسٹھ 65سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ان کے پسماندگان میں دو بیویاں اور دس بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔

مشنری انچارج صاحب لکھتے ہیں بڑے چاک و چوبند تھے ۔گذشتہ دنوں مَیں وہاں ڈوری میں گیا تھا۔ شہداء کی فیملیوں کو ان کے گھروں میں خود سیٹ کر رہے تھے۔ جماعت نے شہداء کی فیملیوں کو نئے گھر بنا کے دیے ہیں، وہاں ان کو سیٹ کر رہے تھے اور پھر دو دن بعد ہی اپنے گھر گئے اور وہاں بیہوش ہو کے گر پڑے۔ شدید ہارٹ اٹیک ہوا اور پھر ان کی وفات ہو گئی۔

1999ء میں احمدیت قبول کرنے کی ان کو سعادت ملی اور احمدی ہونے کے بعد الحاج ابراہیم بدیگا (Bidiga) صاحب کے پاس مہدی آباد منتقل ہو گئے اور الحاج ابراہیم بدیگا (Bidiga) صاحب کے ساتھ قریبی دیہات میں تبلیغ کے لیے بھی جاتے تھے۔ تبلیغ کے نتیجہ میں بہت سی جماعتیں انہوں نے قائم کیں۔ محکمہ جنگلات میں فارسٹ گارڈ کے نمائندے کے طور پر گورنمنٹ ملازم تھے۔ وہاں دہشت گردی کی وجہ سے فارغ ہوگئے۔ فصل کی کٹائی ہوتی، تمام احباب سے اپنی فصل سے زکوٰة کا حصہ الگ کرواتے اور سب کی زکوٰة کا حساب بنا کر سیکرٹری مال کو دیتے، رسید کٹواتے۔ پانچ سال بطور صدر جماعت مہدی آباد خدمت کی توفیق بھی ملی۔ نرم اور دھیمے مزاج کے آدمی تھے۔ کبھی غصہ نہیں کرتے تھے۔ جب 11؍جنوری 23ء کو مہدی آباد میں دہشتگردوں نے حملہ کیا تو اس دن یہ مغرب کی نماز ادا کر کے گھر جا چکے تھے۔ اس واقعہ کے بعد افراد جماعت میں بہت خوف و ہراس تھا اور شہادتوں کی وجہ سے لوگ بہت نڈھال بھی تھے۔ آپ نے ان کو بہت حوصلہ دیا۔اور پھر دوبارہ جب مَیں نے ان کو کہا کہ مہدی آباد کے لوگوں کو ڈوری شہر منتقل کر دیںتو آپ نے بڑی جانفشانی سے یہ سارے کام کیے۔ لوگوں کو حوصلہ دلایا اور آباد کاری دلوائی۔ تمام احباب جماعت کو اپنی نگرانی میں ڈوری منتقل کرنے کے انتظامات کیے اور پھر وفات تک ان سب شہداء کے خاندانوں کی ضروریات کا خیال رکھتے رہے۔

رانا فاروق صاحب ڈوری کے مبلغ ہیں۔ کہتے ہیں کہ نماز فجر کے بعد روزانہ تمام شہداء کی فیملیوں کے پاس سلام کرنے جاتے۔ خیریت دریافت کرتے۔ ان کا کوئی مسئلہ ہوتا تو فوری حل کرنے کی کوشش کرتے۔ کہتے ہیں کہ اس وقت ڈوری میں مختلف جماعتوں کے آٹھ سو کے قریب متاثرین لوگ ہیں جو وہاں قیام پذیر ہیں۔ ان سب کا خیال رکھتے۔ ہر وقت ان کی خدمت کے لیے تیار رہتے۔ نمازوں میں بڑے باقاعدہ، نظام جماعت سے مکمل تعاون کرنے والے اور دوسروں کو اس کی تلقین بھی کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے، ان کی اولاد کو بھی، لواحقین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

الفضل انٹرنیشنل ۹؍ فروری ۲۰۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button