ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر۱۵۸)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

فرمایا: ’’کھانسی جب شدت سے ہوتی ہے تو بعض وقت دَم رُکنے لگتا ہے اور ایسا معلوم ہو تا ہے کہ جان کندن کی سی حالت ہے۔چنانچہ اس شدت کھانسی میں مجھے اللہ تعالیٰ کی غناء ذاتی کا خیال گذرا اور میں سمجھتا تھا کہ اب گویا موت کا وقت قریب ہے۔اس وقت الہام ہوا۔

اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَالۡفَتۡحُ۔وَرَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا(سورۃالنصر:۲-۳)

اس کے یہ معنے سمجھائے گئے کہ ایساخیال اس وقت غلط ہے بلکہ اس وقت جب اِذَاجَآءَنَصۡرُاللّٰہِ وَالۡفَتۡحُکا نظارہ دیکھ لو۔اس وقت تو کوچ ضروری ہو جاتا ہے۔سب کے لیے یہی اصول ہے کہ جب وہ کام جس کے لیے اس کو بھیجا جاتا ہے۔ختم ہو جاتا ہے تو پھر وہ رُخصت ہو تا ہے۔

ہر کسے رابہر کارے ساختند

تو سچ ہے مگر سب آ دمی ا پنے اپنے کام اور غرض سے جس کے لیے وہ آئے ہیں واقف نہیں ہوتے۔بعض کا اتنا ہی کام ہو تا ہے کہ چوپایوں کی طرح کھاپی لینا وہ سمجھتے ہیں کہ اتنا گوشت کھانا ہے۔اس قدر کپڑا پہننا ہے وغیرہ اور کسی بات کی ان کو پروااور فکر ہی نہیں ہوتی۔ایسے آدمی جب پکڑے جاتے ہیں تو پھر یک دفعہ ہی اُن کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔لیکن جو لوگ خدمتِ دین میں مصروف ہوں اُن کے ساتھ نرمی کی جاتی ہے اس وقت تک کہ جب تک وہ اس کام اور خدمت کو پورا نہ کر لیں۔‘‘(ملفوظات جلد ششم صفحہ ۳۲۹، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

تفصیل :اس حصہ ملفوظات میں فارسی کی یہ ضرب المثل آئی ہے۔’’ہَرْ کَسِےْ رَابَہْرِ کَارِےْ سَاخْتَنْد‘‘یعنی ہر شخص کو کسی نہ کسی کام کے لیے پیداکیا گیاہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button