سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

قولنج زحیری کاخطرناک حملہ اور معجزانہ شفا

اسی زمانہ میں ایک بار بٹالہ اور قادیان میں قولنج زحیری کی وبا پھوٹ پڑی اور کئی اموات بھی اس سے ہوگئیں۔اسی بیماری کا نشانہ حضرت اقدسؑ بھی ہوئے۔ اور بیماری اس قدر خطرناک صورت اختیار کر گئی کہ بچنا مشکل لگتا تھا۔ عزیز و اقارب بھی آپؑ کی زندگی سے مایوس ہوگئے اور سمجھ لیاکہ آپ تھوڑی ہی دیرکے مہمان ہیں۔ لیکن خدائے حیّ وقیوم اپنی قدرت کاایک اَورنشان دکھاناچاہتاتھا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس نشان کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ایک مرتبہ میں سخت بیمار ہوا یہاں تک کہ تین مختلف وقتوں میں میرے وارثوں نے میرا آخری وقت سمجھ کر مسنون طریقہ پر مجھے تین مرتبہ سورہ یٰسین سنائی۔ جب تیسری مرتبہ سورہ یٰسین سنائی گئی تو میں دیکھتاتھا کہ بعض عزیز میرے جو اب وہ دنیا سے گذر بھی گئے دیواروں کے پیچھے بے اختیار روتے تھے۔ اور مجھے ایک قسم کا سخت قولنج تھا۔ اور بار بار دمبدم حاجت ہوکر خون آتا تھا۔ سولہ دن برابر ایسی حالت رہی۔ اور اسی بیماری میں میرے ساتھ ایک اور شخص بیمار ہوا تھا وہ آٹھویں دن راہی ملک بقا ہوگیا۔ حالانکہ اُس کے مرض کی شدت ایسی نہ تھی جیسی میری۔ جب بیماری کو سولھواں دن چڑھا تو اُس دن بکلّی حالاتِ یاس ظاہر ہوکر تیسری مرتبہ مجھے سورہ یٰسین سنائی گئی۔ اور تمام عزیزوں کے دِل میں یہ پختہ یقین تھا کہ آج شام تک یہ قبر میں ہوگا۔ تب ایسا ہوا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھلائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کرکے ایک دعا سکھلائی او ر وہ یہ ہے۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ۔ اور میرے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا کہ دریا کے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو ہاتھ ڈال اور یہ کلمات طیبہ پڑھ اور اپنے سینہ اور پشت سینہ اور دونوں ہاتھوں اور منہ پر اس کو پھیر کہ اِس سے تو شفا پائے گا۔ چنانچہ جلدی سے دریا کا پانی مع ریت منگوایا گیا او رمیں نے اسی طرح عمل کرنا شروع کیا جیسا کہ مجھے تعلیم دی تھی۔ اور اس وقت حالت یہ تھی کہ میرے ایک ایک بال سے آگ نکلتی تھی اور تمام بدن میں دردناک جلن تھی اور بے اختیار طبیعت اس بات کی طرف مائل تھی کہ اگر موت بھی ہو تو بہتر تا اِس حالت سے نجات ہو۔مگر جب وہ عمل شروع کیا تو مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ہر ایک دفعہ ان کلمات طیبہ کے پڑھنے اور پانی کو بدن پر پھیرنے سے میں محسوس کرتا تھا کہ وہ آگ اندر سے نکلتی جاتی ہے اور بجائے اس کے ٹھنڈک اور آرام پیدا ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ابھی اس پیالہ کا پانی ختم نہ ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بیماری بکلّی مجھے چھوڑ گئی۔ اور میں سولہ دن کے بعد رات کو تندرستی کے خواب سے سویا۔ جب صبح ہوئی تو مجھے یہ الہام ہوا وَاِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ۔ یعنی اگر تمہیں اِس نشان میں شک ہو جو شفا دے کر ہم نے دکھلایا تو تم اس کی نظیر کوئی اور شفا پیش کرو۔ یہ واقعہ ہے جس کی پچاس آدمی سے زیادہ لوگوں کو خبر ہے۔‘‘(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد۱۵صفحہ۲۰۸-۲۰۹)

ایک اور جگہ اس کا ذکرکرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:’’ایک مرتبہ میں ایسا سخت بیمار ہوا کہ میرا آخری وقت سمجھ کر مجھ کو مسنون طریقہ سے تین دفعہ سورۂ یٰسٓسنائی گئی اور میری زندگی سے سب مایوس ہو چکے تھے۔ اور بعض عزیز دیواروں کے پیچھے روتے تھے تب اللہ تعالیٰ نے الہاماً مجھے یہ دعا سکھلائی سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ اور القا ہوا کہ دریا کے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو ہاتھ ڈال اور یہ کلمات طیبہ پڑھ اور اپنے سینے اور پشت سینہ اور دونوں ہاتھوں اور منہ پر اس کو پھیر کہ تو اس سے شفا پائے گا چنانچہ اس پر عمل کیا گیا اور ابھی پیالہ ختم نہ ہونے پایا تھا کہ مجھے بکلّی صحت ہوگئی۔ پھر یہ الہام ہوا۔ وَاِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ یعنی اگر تمہیں اس نشان میں شک ہو جو ہم نے شفا دے کر دکھایا ہے تو تم اس کی نظیر پیش کرو۔‘‘(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ۵۸۵-۵۸۶)

حیات احمدؑ میں اس بیماری کے حوالہ سے تحریر ہے: ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی بعثت سے پہلے ایک مرتبہ قولنج زحیری ہوا اور اس عارضہ سے آپ ایسے بیمار ہوئے کہ کوئی امید جانبر ہونے کی باقی نہ تھی۔انہیں دنوں میں مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب کے والد شیخ رحیم بخش صاحب بٹالہ سے آپ کی عیادت کے لئے آئے اور انہوں نے آپ کی نازک حالت دیکھ کر یہ بھی کہا کہ آج کل یہ مرض وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے بٹالہ میں ابھی میں ایک جنازہ پڑھ کر آیا ہوں جو اسی مرض سے فوت ہوا۔یہاں قادیان میں بھی میاں محمد بخش حجام جو میاں فضل دین احمدی کا باپ تھا اسی مرض سے بیمار ہو کر آٹھویں دن فوت ہو گیا اس بیماری میں اﷲ تعالیٰ نے نہ صرف خارق عادت طور پر آپؑ کو اعجازی شفا دی بلکہ آپ ہی اس کی دوا بتائی اور دعا بھی تعلیم کی۔چنانچہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ یعنی اﷲ تعالیٰ پاک ہے اور اپنے محامد کے ساتھ ہے اﷲ تعالیٰ پاک اور برتر ہے۔اے اﷲ محمدؐ اور محمدؐ کی آل پر صلوٰۃ ہو۔یہ دعا الہاماً اسی وقت سکھائی گئی تھی‘‘(حیات احمد جلد او ل صفحہ۲۲۵)

حضرت اقدسؑ کی تحریرات اور مکتوبات سے معلوم ہوتاہے کہ اس عرصہ میں آپ نےمتعددمرتبہ گورداسپور،امرتسر،سیالکوٹ،لاہور،سم شریف اور کئی ایک اَورمقامات کابھی سفرفرمایا۔

قارئین کرام حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مقدس سوانح کایہ ایک عہدتھا جو آپ کی خلوت گوشہ نشینی کےباعث غارحرا کی مانندلوگوں کی نگاہوں سے بہت حدتک پوشیدہ تھا۔لیکن اب خدائی تقدیراس چاندکوطلوع کرنا چاہتی تھی۔

حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں :’’اگر اللہ کی رضا اور اُس کے احکام کی تعمیل میرا مقصد نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ مجھے تقریریں کرنی اور وعظ سنانا تو ایک طرف مَیں تو ہمیشہ خلوت ہی کو پسند کرتا ہوں اور تنہائی میں وہ لذت پاتا ہوں جس کو بیان نہیں کر سکتا۔ مگر کیا کروں بنی نوع کی ہمدردی کھینچ کھینچ کر باہر لے آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس نے مجھے تبلیغ پر مامور کیا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۹۹، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

براہین احمدیہ کی تصنیف اس کاپہلامرحلہ تھا۔ احمدعلیہ السلام سیرت وسوانح کی آئندہ اقساط براہین احمدیہ کی تیاری،طباعت و اشاعت اور اس کے مضامین پرمشتمل ہوگی۔ ان شاء اللہ العزیز

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button