خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 05؍ جنوری 2024ء

اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا معیار جذبہ اور نسبت کا ہے، مقدار کا نہیں

وقف جدید کے چھیاسٹھ ویں سال کے دوران جماعت ہائے احمدیہ عالمگیر کو ایک کروڑ 29؍ لاکھ 41؍ ہزار پاؤنڈ کی مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی۔ یہ وصولی گذشتہ سال کے مقابلے میں 7؍ لاکھ 18؍ ہزار پاؤنڈز زیادہ ہے

اسلامی تعلیم کو پھیلانے کے لیے قلم کا جہاد اور تبلیغ کا جہاد جاری ہے اور اس جہاد کے جاری رکھنے کے لیے بھی جان، مال، وقت، عزت کی قربانی کی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح اسلام کے ابتداء میں قربانیوں کی ضرورت تھی

دین کی اشاعت کے لیے قربانیاں ہی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا ذریعہ اور کامیاب تجارت ہیں

آج کل یہ مالی جہاد ہی ہے جو نفس کے جہاد کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔ انسان اپنی بہت سی خواہشات کو پس پشت ڈال کر دین کی ترقی کی خاطر قربانیاں دیتا ہے تو یہ نفس کا جہاد ہے

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہی ہیں جو دین کی خاطر مالی قربانی کرنے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ یہ شبنم کی طرح تھوڑی تھوڑی رقمیں بھی دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بےانتہا پھل لگاتا ہے

وہ لوگ جو پرانے بزرگوں کی اور صحابہؓ کی اولاد ہیں ہمیشہ اس بات کو سامنے رکھیں کہ آج اگر ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں تو ان لوگوں کی قربانیوں کی وجہ سے ہیں

کبھی یہ بات کسی کمزور احمدی کے دل میں بھی نہیں آنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نیک نیتی سے کی گئی قربانی کو نوازتا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے خزانے لامحدود ہیں۔ اس کو ہمارے چند پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ قربانیاں جو اللہ تعالیٰ مانگتا ہے یہ تو وہ ہمیں مزید فضلوں کا وارث بنانے کے لیے موقع میسر فرماتا ہے

آگ سے بچو خواہ آدھی کھجور ہی خرچ کرنے کی استطاعت ہو(الحدیث)

بخل سے بچو یہ بخل ہی ہے جس نے پہلی قوموں کو ہلاک کیا تھا (الحدیث)

وقف جدید کے چھیاسٹھ ویں(۶۶)سال کے دوران افرادِ جماعت کی طرف سے پیش کی جانے والی مالی قربانیوں کا تذکرہ اور سڑسٹھ ویں(۶۷)سال کے آغاز کا اعلان

مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مخلص احمدیوں، بالخصوص نومبائعین کی مالی قربانیوں کے ایمان افروز واقعات کا پُراثر بیان

فلسطین کے معصوم مسلمانوں کےلیے دعا کی مکرّر تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 05؍جنوری2024ء بمطابق 05؍ صلح 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ﴿۱۱﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَتُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَاَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۙ﴿۱۲﴾ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ وَیُدۡخِلۡکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُالۡعَظِیۡمُ ۙ﴿۱۳﴾ (الصّف آیات 11تا 13)

ان آیات کا ترجمہ ہے کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت پر مطلع کروں جو تمہیں ایک دردناک عذاب سے نجات دے گی؟ تم جواللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو اور اللہ کے راستے میں اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہو، یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کردے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں اور ایسے پاکیزہ گھروں میں بھی جو ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جیساکہ ایک جگہ فرمایا کہ میں بھی مسیح موسوی کے قدم پر بھیجا گیا ہوں اور جیساکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے رحم اور معافی کی تعلیم دی تھی میں بھی رحم اور بخشش اور صلح اور آشتی کی اسلامی تعلیم کے ساتھ مسیح محمدی کے طور پر بھیجا گیا ہوں اور مذہبی جنگوں کے خاتمہ کے لیے آیا ہوں اور یہ زمانہ اب قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت کا زمانہ ہے۔(ماخوذ از اربعین، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 344)

تلوار کے جہاد کا اب زمانہ نہیں ہے لیکن

اسلامی تعلیم کو پھیلانے کے لیے قلم کا جہاد اور تبلیغ کا جہاد جاری ہے اور اس جہاد کے جاری رکھنے کے لیے بھی جان، مال، وقت، عزت کی قربانی کی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح اسلام کے ابتدا میں قربانیوں کی ضرورت تھی۔

یہ زمانہ جبکہ معاشی برتری حاصل کرنے کے لیے دنیا میں انتہائی کوشش ہو رہی ہے۔ دین کو تو لوگ بھول بیٹھے ہیں، دنیا کی طرف رغبت زیادہ ہے۔ تجارتوں میں برتری اور دنیاوی آسائشوں کے حصول کے لیے دنیا اپنی توجہ انتہا تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسے میں

دین کی اشاعت کے لیے قربانیاں ہی اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا ذریعہ اور کامیاب تجارت ہیں

جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ یہی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے جو میں نے تلاوت کی ہیں۔ پس یہ زمانہ جو مسیح موعودؑ کا زمانہ ہے اس زمانے میں خاص طور پر مالی جہاد ایک اہم کام ہے اور اس سے پھر نفس کی قربانی کی بھی تحریص پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور قرب بھی حاصل ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مالی قربانی کی طرف قرآن کریم میں کئی جگہ توجہ دلائی ہے۔ ایک جگہ فرمایا کہ وَ مَا لَکُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ (الحدید: 11) اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب کچھ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔ وہ تمہیں دیتا ہے اور پھر جزا کے لیے تمہیں یہ کہتا ہے کہ اس کے راستے میں خرچ کرو۔پس اگر ایمان ہے، اگر اللہ تعالیٰ پر یقین ہے تو پھر اس کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے راستے میں قربانیاں کرو۔

پھر ایک جگہ تنبیہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہوَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ (البقرۃ : 196) اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ پس اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کے دیے ہوئے مال سے خرچ نہ کرنے والے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں۔

آج کل یہ مالی جہاد ہی ہے جو نفس کے جہاد کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔ انسان اپنی بہت سی خواہشات کو پس پشت ڈال کر دین کی ترقی کی خاطر قربانیاں دیتا ہے تو یہ نفس کا جہاد ہے

جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے اسے اور اس کی نسل کو بےشمار فضلوں کا وارث بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کا ادھار نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی تجارت کی خبر دی ہے جو دنیا اور آخرت کے فائدوں پر منتج ہے اور عذاب سے بچانے والی تجارت ہے۔ دنیاوی تجارتیں تو صرف دنیاوی فائدوں کے لیے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے کی ہوئی تجارت دنیا و آخرت دونوں کے انعامات کا مستحق بناتی ہے۔ جیساکہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کسی کا ادھار نہیں رکھتا۔ نیک نیتی سے اس کی راہ میں کی گئی قربانی کو وہ کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثۡبِیۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ کَمَثَلِ جَنَّۃٍۭ بِرَبۡوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُکُلَہَا ضِعۡفَیۡنِ فَاِنۡ لَّمۡ یُصِبۡہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ۔ (البقرۃ : 266) اور ان لوگوں کی مثال جو اپنے اموال اللہ کی رضا چاہتے ہوئے اور اپنے نفوس میں سے بعض کوثبات دینے کے لیے خرچ کرتے ہیں ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو اور اسے تیز بارش پہنچے تو وہ بڑھ چڑھ کر اپنا پھل لائے، اور اگر اسے تیز بارش نہ پہنچے تو شبنم ہی بہت ہے۔ اور اللہ اس پر جو تم کرتے ہو گہری نظر رکھنے والا ہے۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہی ہیں جو دین کی خاطر مالی قربانی کرنے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ یہ شبنم کی طرح تھوڑی تھوڑی رقمیں بھی دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بے انتہا پھل لگاتا ہے۔

جماعتی ترقیات اسی کی گواہ ہیں۔ غریب لوگ ہیں جو معمولی سی قربانی کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ بےانتہا پھل لگاتا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ خاص طور پر غریب احمدی اور تھوڑے وسائل رکھنے والے احمدی زیادہ قربانی کرتے ہیں۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ میں وقتاً فوقتاً بیان کرتا بھی رہتا ہوں۔ آج بھی بیان کروں گا۔

یہ مثالیں زیادہ آسودہ حال احمدیوں کو اس طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئیں کہ وہ دیکھیں کہ ان کے معیار کیا ہیں۔ غریب احمدی تو جب اپنی مالی قربانی کرتا ہے تو وہ اپنے نفس کا اور اپنی جان کا جہاد کر رہا ہوتا ہے۔

افریقہ میں قربانی کرنے والے بےشمار ایسے احمدی ہیں، پاکستان میں ایسے ہیں، ہندوستان میں بھی ایسے ہیں جو اپنی روٹی قربان کر کے، بھوکا رہ کر مالی قربانی کرتے ہیں۔ اپنی یا اپنے بچوں کی بیماری کی صورت میں دوائیوں پر خرچ کرنے کی بجائے چندے کی ادائیگی کو ترجیح دیتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ ان کی اس قربانی کو بغیر نوازے نہیں چھوڑتا بلکہ بسا اوقات وہ اتنی جلدی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے اور یہ بات ان کے لیے ازدیاد ایمان کا باعث بنتی ہے۔ پس

کبھی یہ بات کسی کمزور احمدی کے دل میں بھی نہیں آنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نیک نیتی سے کی گئی قربانی کو نوازتا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے خزانے لامحدود ہیں۔ اس کو ہمارے چند پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ قربانیاں جو اللہ تعالیٰ مانگتا ہے یہ تو وہ ہمیں مزید فضلوں کا وارث بنانے کے لیے موقع میسر فرماتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت میں یہ قربانی کی روح ایسی پیدا کی ہے کہ آپؑ کے زمانے سے لے کر آج تک یہ نظارے ہمیں نظر آتے ہیں کہ افراد جماعت اپنی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر جماعتی ضروریات کے لیے اپنی قربانیاں پیش کرتے ہیں اور یہی ترقی کرنے والی قوموں کا طریقہ ہے اور اسی سے اللہ تعالیٰ پھر فضل بھی فرماتا ہے۔یہ ماننے والے اس بات کا ادراک رکھنے والے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

آگ سے بچو خواہ آدھی کھجور ہی خرچ کرنے کی استطاعت ہو۔

(صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب اتقوا النار و لو بشق تمرۃ حدیث 1417)

بےشک آدھی کھجور دینے کی ہی تمہاری توفیق ہے تو دوجس سے آگ سے بچو۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ

بخل سے بچو۔ یہ بخل ہی ہے جس نے پہلی قوموں کو ہلاک کیا تھا۔

(سنن ابی داؤد کتاب الزکاۃ باب فی الشحّ حدیث 1698)

صحابہؓ کا تو یہ حال تھا کہ کہتے ہیں کہ جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مالی تحریک ہوتی تھی ہم بازار جاتے تھے، مزدوری کرتے تھے اور تھوڑی سی بھی کوئی مزدوری ملتی تھی تو وہ کمائی لا کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیتے تھے۔

(صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب اتقوا النار و لو بشق تمرۃ حدیث 1416)

ایسی ہی قربانی کرنے والے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے غلامِ صادق کو بھی عطا فرمائے ہیں۔ ان کی بےشمار مثالیں ہیں۔ تاریخ میں ایسے بھائیوں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے ایسی قربانیاں کیں کہ حیرت ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ان کا ذکر فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’میں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیر الدین اور امام الدین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں وہ تینوں غریب بھائی بھی جو شاید تین آنہ یا چار آنہ روز مزدوری کرتے ہیں سرگرمی سے ماہواری چندہ میں شریک ہیں۔ ان کے دوست میاں عبدالعزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ باوجود قلت معاش کے ایک دن سو روپیہ دے گیا کہ میں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہو جائے۔ وہ سو روپیہ شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہو گا مگر للّٰہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا۔‘‘

(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد11صفحہ 313-314 بقیہ حاشیہ)

پس جماعت کی تاریخ میں ان قربانی کرنےو الوں کے نام محفوظ ہیں۔ یہ لوگ جو خدا کی رضا حاصل کرنے کا ایک خاص جوش رکھتے تھے خواہ انہوں نے معمولی قربانیاں کیں یا زیادہ، ان کا نام مسیح موعودؑ کے مشن کے مددگاروں میں شامل ہو گیا، تاریخ نے محفوظ کر لیا۔ ایک اَور بزرگ کا بھی ذکر کر دوں۔ یہ معذور اور غریب تھے ان کا نام حافظ معین الدین صاحب تھا۔ ان کی طبیعت میں بڑا جوش تھا کہ وہ سلسلہ کی خدمت کریں، اس کے لیے قربانی کریں حالانکہ بڑی تنگی میں گزارہ کرتے تھے اور بوجہ معذوری کے ان کا کوئی کام بھی نہیں تھا۔ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا پرانا خادم سمجھ کر کچھ تحفہ دے دیا کرتے تھے لیکن حافظ صاحب کا یہ اصول تھا کہ وہ اس طرح کی رقم جو تحفے کے طور پر انہیں ملتی تھی کبھی اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ نہیں کرتے تھے بلکہ اس کو سلسلہ کی خدمت کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر دیا کرتے تھے اور کبھی کوئی ایسی تحریک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے نہیں ہوئی جس میں انہوں نے حصہ نہ لیا ہو۔ چاہے وہ ایک پیسہ ڈال کر حصہ لیتے لیکن حصہ ضرور لیتے۔ اب ایک پیسہ اس زمانے میں ایک penny کے برابر آپ سمجھ لیں لیکن بہرحال حصہ لیتے۔ ان کے حالات کے مطابق یہ معمولی قربانی بھی غیر معمولی قربانی تھی اور بعض دفعہ یہ بھی ہوتا تھا کہ حافظ صاحب بھوکے رہ کر بھی یہ خدمت کیا کرتے تھے۔

(ماخوذ از اصحابِ احمد جلد13صفحہ 293)

یہ لوگ تھے جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے، سب کچھ قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ ان لوگوں کی قربانیوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے پیار کی نظر سے دیکھا اور وہ پھل لگائے جو آج ان کی نسلیں بھی کھا رہی ہیں۔ پس

وہ لوگ جو ان پرانے بزرگوں کی اور صحابہ کی اولاد ہیں ہمیشہ اس بات کو سامنے رکھیں کہ آج اگر ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں تو ان لوگوں کی قربانیوں کی وجہ سے ہیں۔

جن کو اللہ تعالیٰ نے کشائش عطا فرمائی ہے انہیں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کیا سلسلہ کی خدمت کے لیے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے ان کے قربانیوں کے معیار اس سوچ کے ساتھ بڑھ رہے ہیں جو ان کے بزرگوں کی سوچیں تھیں۔ آج بھی جماعت احمدیہ میں غریبوں کی اکثریت ہے جو قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرتی ہے۔ پس جو جماعت میں کمائی کے بلند معیار پر ہیں انہیں اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اخلاص سے کی گئی قربانی کی قدرکرتے ہیں جیساکہ

ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ایک درہم ایک لاکھ درہم کے مقابلے میں آج سبقت لے گیا۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ کس طرح؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص کے پاس دو درہم تھے، اس نے ایک درہم کی قربانی کر دی اور ایک دوسرے شخص کے پاس بےشمار دولت اور جائیداد تھی، اس میں سے اس نے ایک لاکھ درہم کی قربانی کی۔

(سنن النسائی کتاب الزکاۃ باب جھد المقل حدیث 2528)

بظاہر یہ ایک لاکھ درہم بہت بڑی رقم ہے لیکن اس غریب کی قربانی کے جذبے کے مقابلے میں اس ایک لاکھ درہم کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں تھی۔ پس

اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا معیار جذبے اور نسبت کا ہے، مقدار کا نہیں۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ جماعت غریبوں سے چندے لیتی ہے۔ بعض لوگ مجھے بعض دفعہ ایسے بھی لکھ دیتے ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ یہ لوگ اصل میں دل میں خِسّت رکھتے ہیں۔ ان کی اپنی دنیاوی ترجیحات ہیں اور اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کا نام لیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی اکثریت آج ایسی ہے کہ قربانی کرنے والی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کی قربانیوں کو سامنے رکھتے ہوئے خود بھی قربانی کرنا چاہتے ہیں اور بغیر کہے کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کے مخلصین کی قربانیوں پر عمل کرتے ہوئے آج بھی ایسی مثالیں ہیں جو ہمیں نظر آتی ہیں۔ جیساکہ میں نے کہا رپورٹس میں ذکر ہوتا ہے۔ مَیں بیان کرتا بھی رہتا ہوں۔ حیرت انگیز طور پر مالی قربانی کرتے ہیں۔ افریقہ کے دُور دراز ممالک میں رہنے والے مخلصین جو دنیا میں اشاعت اسلام اور دین کے غلبہ کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مددگار اور معاون بننا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کو اپنے سامنے رکھ کر قربانیاں کرتے ہیں جس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ

’’تمہارے لیے ممکن نہیں ہے کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا سے بھی۔ صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو۔ پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے

اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے۔ پس جو شخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 497 )

یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے۔ آج بھی ہم اس کے نظارے دیکھتے ہیں کہ کس طرح لوگوں نے خدا کی راہ میں دیا اور کس طرح فوری خدا نے انہیں لوٹا دیا۔ ایک ہی جگہ، ایک ہی ماحول میں کام کرنے والے ہیں لیکن احمدی کے مال میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرماتا ہے اور دوسرے کو وہ برکت نہیں ملتی اور یہ باتیں پھر ان کے ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا ان مخلصین کی چندمثالیں پیش کرتا ہوں۔

ریپبلک آف سینٹرل افریقہ

میں وُدَمْبَالا (Vdambala) ایک جگہ ہے۔ وہاں ایک نومبائع عیسیٰ صاحب ہیں۔ کہتے ہیں میں نے نو مہینے پہلے بیعت کی تھی اور 2016ء سے میرے پاس ایک پلاٹ تھا جو میں نے گھر بنانے کے لیے خریدا تھا لیکن رقم نہیں اکٹھی ہو رہی تھی کہ گھر بنا سکوں۔ جماعت میں مَیں شامل ہوا ہوں۔ چندے کی اہمیت اور برکات کے بارے میں سنتا رہا۔ جو بھی خدا کی راہ میں تھوڑی سی قربانی کر سکتا تھا کرتا تھا اور یہی سنتا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے کام آسان کرتا ہے اور اموال و نفوس میں ترقی بھی دیتا ہے۔ بہرحال کہتے ہیں میرے دل میں خیال آیا کہ جب ہم غیراحمدی تھے تو ہم نے ایک دفعہ بھی خدا کی راہ میں چندہ نہیں دیا اور نہ ہی اس بارے میں ہمیں کسی نے تحریک کی تو کہتے ہیں اب تحریک ہوئی۔ نومبائعین سے عموماً تحریک جدید اور وقف جدید کے چندوں کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ مجھے کہا گیا تو میں نے وقف جدید میں پندرہ سو سیفا ادا کر دیا اور خدا تعالیٰ نے اس کا اجر اس طرح دیا کہ ایک دوست نے گھر کے لیے دس ہزار اینٹیں بنانے کی پیشکش کر دی اور پھر اینٹیں بنوا بھی دیں۔ وہاں خود بنائی جاتی ہیں۔ سیمنٹ سے بلاک بنائے جاتے ہیں۔ اس طرح گھر کی تعمیر شروع ہو گئی جس کا کئی سال سے انتظار تھا اور پھر گھر مکمل بھی ہوگیا۔ یہ کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا ہے ورنہ میرے اندر تو یہ طاقت نہیں تھی اور میرے لیے ناممکن تھا۔

قزاقستان

سابقہ روسی ممالک میں سے ایک سٹیٹ ہے۔ وہاں ایک دوست داورین صاحب کہتے ہیں۔ چند دن قبل مجھے معلم صاحب کا پیغام ملا کہ اس سال آپ کی اہلیہ کا وقفِ جدید کا چندہ بہت کم ہے اور لسٹ کے آخر میں ہے۔ اگر ممکن ہو تو کم از کم پانچ ہزار تنگے (Tenge)ادا کر دیں۔ میں نے سوچا کہ اس وقت میری اہلیہ امید سے ہے۔ اس کا آپریشن بھی ہونا ہے بہتر ہے کہ میں پندرہ ہزار تنگے ادا کر دوں۔ جیسے ہی میں نے رقم بھیجی۔ تقریباً بیس منٹ کے بعد مجھے سکول کی طرف سے اطلاع ملی کہ چونکہ میں ایک یتیم کی کفالت بھی کرتا ہوں اور میرے بچے بھی زیادہ ہیں اس لیے وہاں کی حکومت نے مجھے ایک لاکھ تنگے ادا کیے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح میرے لیے تو یہ ایمان کا باعث بنا کہ اللہ تعالیٰ نے فوری طور پر مجھے لوٹا دیا۔

پھر

قرغیزستان

ایک اَور سٹیٹ ہے۔ وہاں کے ایک دوست عُرمت صاحب ہیں۔ گولڈ مائن میں کام کرتے ہیں اور چھ مہینےکے بعد چندہ ادا کرتے رہتے تھے۔ جب گذشتہ سال انہوں نے دوسری ششماہی کا چندہ ادا کیا تو شرح سے زائد چھ ہزار قرغیز سُم (Kyrgyzstani som)ان کی جو کرنسی ہے وہ اس میں ادا کردی۔ پوچھنے پہ کہنے لگے کہ چونکہ پوری دنیامیں مہنگائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے جماعتی اخراجات میں بھی زیادتی ہوئی ہو گی اس لیے میں شرح سے بڑھا کر اپنا چندہ ادا کر رہا ہوں۔ اس سال بھی انہوں نے جب پہلی ششماہی کا چندہ ادا کیا تو مزید چھ ہزار سُم بڑھا کر چندہ ادا کیا۔ اس طرح تقریباً انہوں نے چالیس فیصد سے زائد چندہ ادا کر دیا۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی رضا چاہنے کی مثالیں ہیں۔ کسی نے ان کو تحریک نہیں کی لیکن ضرورتوں کے پیش نظر خود ہی انہوں نے کوشش کی کہ میں بڑھ چڑھ کر ادا کروں۔

لوگ کہتے ہیں کیوں مانگتے ہو؟ ہم نہیں مانگتے۔

ہم تو اللہ تعالیٰ کا پیغام آگے پہنچاتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں قربانیاں کرو۔

فلپائن

ایک اَور ملک، دُور دراز کا علاقہ، وہاں کے مبلغ کہتے ہیں کہ خدام الاحمدیہ کے صدر نے بیان کیا کہ میں نے وعدہ کے مطابق وقفِ جدید کی ادائیگی تو کر دی تھی لیکن مالی سال ختم ہو رہا تھا۔ دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وعدے سے بڑھ کر ادائیگی کرنی چاہیے۔ چنانچہ میں نے اپنے مرحوم والد، والدہ اور سسر کے نام پر بھی ایک ہزار پیسو (peso)چندہ وقف جدید کی ادائیگی کر دی۔ ان دنوں میں مقامی میونسپلٹی کے دفتر میں رسک ریڈکشن مینیجر (risk reduction manager)کے طور پر کانٹریکٹ پر کام کر رہا تھا۔ نئے سال کی چھٹیوں کے بعد جیسے ہی کام پہ گیا تو مقامی میئر نے میری نوکری پکی کر دی اور میری تنخواہ بھی دگنی کر دی جبکہ میں گذشتہ چار سال سے کنٹریکٹ پہ کام کر رہا تھا اور بار بار درخواست کے باوجود بھی میری نوکری پکی نہیں ہوتی تھی۔ اب کہتے ہیں مجھے یہی یقین ہے کہ یہ جو قربانی میں نے کی ہے اسی کا ثمر ہے اور یقیناً خدا تعالیٰ ہمارے وہم و گمان سے بھی بڑھ کر دینے والا ہے۔

کیمرون

افریقہ کا ایک ملک ہے۔ وہاں کے مربی کہتے ہیں کہ ایک نوجوان یوسف صاحب ہیں۔ انہوں نے احمدیت قبول کی ہے۔ غریب آدمی ہیں۔ موٹر سائیکل پر سواریاں اٹھاتے ہیں۔ محمد یوسف صاحب کہتے ہیں کہ جب سے میں نے احمدیت قبول کی ہے اور مربی کے کہنے پر تھوڑا بہت چندہ دینا شروع کیا ہے میرے حالات بدلنے شروع ہو گئے ہیں۔ میرا دل بہت مطمئن ہے اور میری زندگی میں چیزیں آسان ہو گئی ہیں۔

اصل چیز دل کا اطمینان ہے۔

کہتے ہیں چندہ دینے سے میرا دل بھی مطمئن ہے۔ میں نے اب ارادہ کیا ہے کہ صرف وقفِ جدید نہیں بلکہ تمام ضروری چندوں میں حصہ لوں گا کیونکہ اس میں میرے لیے اور میری فیملی کے لیے برکت ہے۔ یہ امام مہدی علیہ السلام کی برکت ہے کہ مجھے روحانی سکون ملا ہے اور میں بہت خوش اور مطمئن ہوں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ مددگار پیداکرتا ہے۔

تنزانیہ

مشرقی افریقہ کا ایک ملک ہے۔ رُوُومَا (Ruvuma) ریجن کے ایک نوجوان ملاوے صاحب ہیں۔ کہتے ہیں میری عمر ستائیس سال ہے۔ میں نے چندے کی بہت برکات دیکھی ہیں۔ کھیتی باڑی کرتا ہوں۔ کہتے ہیں اس سال وقف جدید کے چندے کی ادائیگی کرنے کی نیت سے میں نے اپنی فصل متعلقہ ادارے میں جلدی جمع کرا دی اور جو فصل ہوئی اس کو حکومت کو بیچ دیا۔ کہتے ہیں اگرمیں کچھ دن اَور انتظار کرتا تو ممکن تھا کہ میری فصل کی زیادہ قیمت مل جاتی لیکن میں چندہ نہ ادا کر سکتا۔ وقت گزر جانا تھا۔ بہرحال کہتے ہیں کہ میں نے جب ادارے سے رابطہ کیا تو ان دنوں کسانوں کو جو فصل کی قیمت مل رہی تھی اس سے مجھے زیادہ قیمت مل گئی جس سے میں نے چندہ وقف جدید ادا کر دیا۔ اس ادارے نے کہا کہ لوگ اپنی فصل روک لیتے ہیں تاکہ انہیں زیادہ قیمت ملے۔ تمہاری ایمانداری کا انعام ملا ہے۔ کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری نیت کا پھل دیا ہے تا کہ میں بآسانی اس کی راہ میں قربانی کر سکوں۔

قرغیزستان

سے ایک دوست ہیں رَوْزَا مَامَتْ (Rozamamat) صاحب۔ چندہ وقفِ جدید کے بارے میں ہی کہتے ہیں کہ یہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس سے میرا تعارف بھی بہت دلچسپ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں جماعتِ احمدیہ سے متعارف ہوا تو میں نے مبلغ سے پوچھا کہ جماعت کے سارے اخراجات کون ادا کرتا ہے؟ انہوں نے مجھے تفصیل بتائی کہ جماعت کے کیاکام ہیں۔ خلافت کا نظام ہے۔ پھر مختلف تحریکات ہیں۔ وقف جدید اور دوسری مالی قربانیاں ہیں۔ ان کے بارے میں بتایا۔ تو کہتے ہیں اس سے پہلے میں نے اس قسم کے مالی نظام کے بارے میں نہ کبھی دیکھا تھا نہ سنا تھا۔ میں نے پہلی بار نظام کی یہ باتیں سنی تھیں۔ پھر میں نےحضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دَور میں بیعت کرنے کے بعد ہر مہینے چندہ دینا شروع کر دیا اور ساری زندگی چندے کی بے انتہا برکات دیکھیں۔ جماعت میں شامل ہونے سے پہلے میں اپنی فیملی کے ساتھ کرائے کے فلیٹ میں رہتا تھا۔ ہم بڑی مشکل کی زندگی گزار رہے تھے۔ مختلف جگہوں پر کام کیا۔ کسمپرسی کی حالت تھی۔ نہ جائیداد تھی نہ مستقل آمد تھی۔ چندے کی برکات سے الحمدللہ اب میں نے ایک پورا گھر تعمیر کر لیا ہے۔ اس وقت میرا روزگار مستقل نوعیت کا ہے۔ کام بھی مشکل نہیں اور تنخواہ بھی اچھی ہے۔ یہ سب چندے کی بدولت اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہے۔

ٹوگو

مغربی افریقہ کا ایک ملک ہے۔ وہاں کے مبلغ انچارج کہتے ہیں کہ ایک احمدی خاتون کے پاس چندہ وقفِ جدید کی رقم موجود نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے گھر کے استعمال کے لیے سبزی اگائی ہوئی تھی۔ چنانچہ وہ سبزی بازار میں بیچ کر اپنا خدا سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا اور وقفِ جدید کا چندہ ادا کر دیا۔ بڑی معمولی سی چیز تھی۔ یہ وہی مثالیں ہیں جو صحابہؓ بازار میں جا کے کام کرتے تھے یا حافظ صاحب جو بھی تحفہ ملتا وہ دے دیا کرتے تھے۔

اسی طرح ایک ممبر حمزہ صاحب کے پاس وقفِ جدید کا چندہ دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ ان کے پاس اپنی مرغیاں تھیں۔ انہوں نے نو مرغیاں بیچ کے چندہ ادا کر دیا۔ یہ غریب لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر قربانی کرتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو پرانے بزرگوں کی یاد بھی تازہ کرتے ہیں۔

انڈونیشیا

کے ایک دوست ایمان ہدایت صاحب ہیں۔ کہتے ہیں میں پیدائشی احمدی ہوں۔ پہلے تو میں صرف ایک ممبر کے طور پر ہی چندہ ادا کیا کرتا تھا۔ ایک عادت پڑ گئی تھی کہ احمدی ہوں، چندہ دینا ہے۔ تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کی قربانیوں میں حصہ نہیں لیتا تھا۔ اس پر میرے تمام بھائیوں نے دونوں تحریکات کے حوالے سے مجھے توجہ دلائی کہ صرف جماعتِ احمدیہ کا ممبر ہونے کی وجہ سےچندہ نہیں دیتے بلکہ ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لیے مالی قربانی میں حصہ لیتے ہیں۔ کہتے ہیں چنانچہ میرے اندر بھی تحریکِ جدید اور وقفِ جدید میں حصہ لینے میں دلچسپی پیدا ہوئی اور میں نے دونوں تحریکات میں مالی قربانی شروع کر دی اور ان میں حصہ لینے کے بعد میں نے اپنی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی محسوس کی۔ میں خود کو اللہ تعالیٰ کے قریب محسوس کرتا ہوں۔ مجھے جماعتی ذمہ داری بھی دے دی گئی ہے۔ اسی طرح رزق کے معاملے میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا قول کہ اگر تم چل کر میرے قریب آؤ گے تو میں تمہارے پاس دوڑ کے آؤں گا اس کو میں نے چندے کی برکت سے پورے ہوتے دیکھا۔

میلبرن

آسٹریلیا سے ایک دوست اپنا واقعہ لکھتے ہیں کہ وقفِ جدید کے مالی سال کے اختتام سے چند ہفتے قبل تحریک کی گئی کہ جو لوگ مالی طور پر مستحکم ہیں وہ وقفِ جدید میں کم از کم پانچ ہزار ڈالر کی ادائیگی کریں۔ کہتے ہیں میں نے وقفِ جدید کے لیے چار ہزار ڈالر ادا کیے تھے۔ میرے پاس پانچ ہزار ڈالر نہیں تھے لیکن میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ مجھے وقفِ جدید کے لیے پانچ ہزار ڈالر کی قربانی پیش کرنی چاہیے۔ چنانچہ جمعہ سے واپسی پر میں نے دعا کرنی شروع کی۔ اب یہ اچھے حالات میں تھے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں تھا۔ ایک لگن تھی، خواہش تھی۔ ان کو دعا کی طرف تحریک پیدا ہوئی تو کہتے ہیں: میں نے دعا کی۔ مَیں بزنس کرتا ہوں۔ چھوٹا موٹا بزنس ہے۔ ایک روز میں آفس میں تھوڑی دیر کے بریک کے لیے باہر نکلا اور یہ دعا بھی کرتا رہا کہ میں اس چندے میں کس طرح حصہ ڈالوں؟ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے۔ کہتے ہیں جب میں دفتر میں واپس آیا تو میرا بزنس پارٹنر جو کہ عیسائی ہے میرے دفتر میں آیا اور دروازہ بند کر دیا اور بڑی خوشی سے ہاتھ ملایا اور کہا کہ ایک بڑی خبر ہے۔ مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہنے لگا کہ ایک نئے کاروبار کے لیے ایک گاہک نے سیٹ اپ کی درخواست کی ہے اور اس کی فیس تیس ہزار ہے جس میں سے پندرہ پندرہ ہزار ہم دونوں کے حصہ میں آئیں گے۔ کہتے ہیں میں نے فوراً سمجھ لیا کہ میری دعا قبول ہو گئی ہے۔ میں نے اپنے بزنس پارٹنر کو بتایا کہ میں کیا دعا کر رہا تھا اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کی اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا کا جواب دیا ہے۔ اس پر وہ پارٹنر بھی کہنے لگاکہ چیریٹی کے لیے پانچ ہزار ڈالر کی رقم بہت زیادہ ہے۔ پھر کہنے لگا تمہاری دعا کی وجہ سے مجھے بھی یہ فائدہ ہوا ہے اس لیے میں بھی حصہ ڈالوں گا۔ یہ رقم تو تم نے ادا کرنی ہے اس میں سے آدھی رقم میں ادا کروں گا۔ لیکن میں نے اسے کہا کہ اَور بھی کئی خیراتی کام ہیں جن میں وہ حصہ ڈال سکتا ہے۔ یہ پانچ ہزار تو وقفِ جدید کا ہے۔ یہ تو میں نے خود ہی دینا ہے۔بہرحال اللہ تعالیٰ نے میری دعا اور خواہش کو قبول کرتے ہوئے مجھ پہ احسان فرمایا۔

فجی

بھی ایک دُور دراز کا علاقہ ہے۔ وہاں نومبائع ظینل بیگ صاحب ہیں۔ دو تین سال قبل انہوں نے بیعت کی ہے۔ ابتدائی طور پر جب ان کو تحریکات میں شامل کیا گیا تو معمولی رقم کا وعدہ تھا۔ پھر کچھ عرصہ بعد چندہ عام میں بھی شامل کیا گیا اور نظام کی اہمیت کا بھی ان کو پتہ لگا لیکن اس سال میرے خطبات سن کے موصوف نے از خود ہی اپنے وعدے جو ہیں تحریکِ جدید وقفِ جدید میں بڑھا دیے اور دس گنا اضافہ کر دیا اور ادائیگی بھی کر دی۔ پھر چندہ عام کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ہفتہ وار انکم پر چندہ عام کی بھی 16/1 کی شرح کے مطابق ادائیگی کا وعدہ کیا اور باقاعدگی سے ہر ہفتہ اپنی تنخواہ سے تمام چندہ جات کی ادائیگی آ کے کر جاتے تھے۔ یہ نومبائع بیان کرتے ہیں کہ جب سے میں نے چندہ میں اضافہ کیا ہے مجھے ملازمت میں ترقی ملی ہے اور کہتے ہیں جنوری 2024ء سے تنخواہ میں مزید اضافہ ہو جائے گا ان شاء اللہ۔ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے چندے کی برکت جاننی ہے تو وہ مجھ سے پوچھے۔

مائیکرو نیشیا

کے مبلغ ہیںسرجیل صاحب۔ کہتے ہیں یہاں ایک نومبائع سائمن صاحب ہیں مالی قربانی کے حوالے سے ان کو توجہ دلائی گئی اور بتایا گیا کہ یہ چندہ ہم خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لیے دیتے ہیں۔ کوئی ٹیکس نہیں ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کو ایک قرضہ حسنہ قرار دیا ہے۔ اس پر موصوف نے ہر ہفتہ چندہ دینا شروع کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد کہنے لگے کہ

پہلے جب میں گرجا میں جاتا اور پیسے دیتا تو زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑا لیکن جب سے میں نے جماعت میں آ کے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی شروع کی ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے ذریعہ سے میری ضروریات پوری کر دیتا ہے کہ میں حیران رہ جاتا ہوں۔

بعض اوقات پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اچانک کوئی آ جاتا ہے اور پیسے پکڑا دیتا ہے۔ کبھی کھانے کی کمی ہوتی ہے تو گھر بیٹھے ہی اللہ تعالیٰ کسی کے ذریعہ ضرورت پوری کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سائمن صاحب اپنی استعداد سے بڑھ کر مالی قربانی کرتے ہیں۔

تنزانیہ

کے امیر صاحب کہتے ہیں کہ ایک دوست بشیر صاحب نے وقفِ جدید میں اپنا اور اپنی فیملی کا چالیس ہزار شلنگ چندہ ادا کیا۔ ان کی اہلیہ نے دریافت کیا کہ گھر کے حالات اتنے اچھے نہیں ہیں پھر بھی اتنی بڑی رقم چندے میں کیوں دے دی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ فکر نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں مالی قربانی کرنے والے کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ وہ ضرور اسے بڑھا کر لوٹائے گا۔ چنانچہ چند دن میں ہی انہیں دو تین مختلف ذرائع سے ایسا کام مل گیا کہ نہ صرف چندے میں ادا کی گئی رقم واپس آ گئی بلکہ اس سے زیادہ آمد ہوئی۔ کہتے ہیں کہ مجھے تو اس سے پہلے بھی ادراک تھا لیکن میری اہلیہ نے بھی اب اپنی آنکھوں کے سامنے چندے کی برکات مشاہدہ کر لیں اور اس کا بھی ایمان بڑھا۔

جرمنی

کے نیشنل سیکرٹری وقفِ جدید کہتے ہیں۔ جماعت مائنز(Mainz)کے ایک طالب علم نے حکومتی ادارے کو وظیفہ کی درخواست دی۔ پڑھائی کے لیے کچھ رقم چاہیے تھی اور بتایا کہ میرا سمسٹر شروع ہونے والا ہے اور رقم کم ہے۔ دوسری طرف وقفِ جدید کا سال بھی ختم ہو رہا تھا اور اپنے اور فیملی کے وعدہ جات کی ادائیگی کرنی تھی۔ ان کو امید تھی کہ جس کی درخواست دی ہوئی تھی وہاں سے وظیفہ کی رقم مل جائے گی۔ لیکن بہرحال مجھے وہاں حکومتی ادارے کی طرف سے انکار ہو گیا۔ جو رقم پاس تھی وہ انہوں نے اللہ پر توکّل کرتے ہوئے چندے میں دے دی۔ اس کے بعد سمسٹر مکمل کیا۔ اچھے نمبروں سے اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیاب فرمایا اور متعلقہ ادارے کی طرف سے بھی پہلے تو انکار ہوا تھا اور پھر اچانک ایک رقم چار ہزاریورو کے برابر ان کے اکاؤنٹ میں آ گئی۔ پھر یہ کہتے ہیں میرا تو یہی ایمان ہے کہ یہ قربانی کی وجہ ہے۔

انڈیا

کی ایک جگہ ساونت واڑی ہے۔ وہاں کے ایک احمدی سراج صاحب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے مالی قربانی کی برکات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ وقفِ جدید کے چندے کووڈ کی بیماری کی وجہ سے بقایا رہ گئے تھے۔ دو تین سال سے موصوف کے باغات کی لکڑیاں بارش کے پانی سے ضائع ہو رہی تھیں۔ جس خریدار نے لینے کا وعدہ کیا تھا اور جو رقم طے ہوئی تھی اس کی ادائیگی نہیں کر رہا تھا۔ بہرحال موصوف خریدار ڈھونڈتے رہے، کوئی نہیں مل رہا تھا۔ موصوف کہتے ہیں کہ جب انسپکٹر وقفِ جدید آئے اور وقفِ جدید کے چندے کا مطالبہ کیا تو موصوف نے دو ہزار روپے فوری نکال کے ادا کر دیے۔ کہتے ہیں کہ دو دن کے اندر اندر جو خریدار قیمت طے کرنے کے باوجود سامان نہیں لے رہا تھا اچانک آ کر بیس ہزار روپے دے کر سارا مال لے گیا اور یہ کہتے ہیں میرا تو یہی ایمان ہے کہ چندے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے دو ہزار کو بڑھا کر بیس ہزار مجھے واپس لوٹا دیا ورنہ جو سامان برسوں سے ضائع ہو رہا تھا وہ آگے بھی ضائع ہو سکتا تھا۔

کینیڈا

کی ایک لجنہ ممبر ہیں۔کہتی ہیں کہ جنوری کے پہلے ہفتے میں جب میں نے وقفِ جدید کا نئے سال کا اعلان کیا تو ان کو بھی خواہش پیدا ہوئی کہ اپنا اور اپنے بچوں کا چندہ ادا کریں۔ جب بینک کی صورتحال دیکھی تو وہاں تو کچھ بھی نہیں تھا۔ بہرحال کہتی ہیں میں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ غیب سے میرے لیے بھی ایسے سامان پیدا کر دے کہ چندہ ادا کر سکوں۔ پھر چند دن کے بعد بینک اکاؤنٹ میں دیکھا تو اس میں تین سو ڈالر کے برابر رقم تھی اور وہی تھی جو میں اپنے اور اپنے مرحومین کی طرف سے چندے میں دینا چاہتی تھی اور میں نے فوری طور پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے چندے میں ادائیگی کر دی۔

پھر ایک اَور خاتون ہیں۔

یہ بھی کینیڈا کی ہیں۔

انہوں نے اپنا وعدہ بڑھا کر ساری ادائیگی کر دی تو اگلے دن ہی ان کو ٹیکس ڈیپارٹمنٹ سے، ریونیو ڈیپارٹمنٹ سے زائد رقم کا چیک واپس آ گیا اور وہ سات سو پچاس ڈالر کی رقم تھی۔ کہتی ہیں یہ اتنی ہی رقم تھی جومیں نے ادا کی تھی۔

تنزانیہ

کی ایک نومبائع خاتون آمنہ صاحبہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ احمدیت قبول کی تو میں نے احمدیت میں ایک الگ نظام دیکھا جو دوسرے مسلمانوں سے مختلف تھا۔ مالی نظام میں ہر چندے کی رسید دی جاتی ہے اور جگہ کہیں نہیں ملتی۔ کہتی ہیں کہ نومبر میں معلم صاحب نے خطبہ جمعہ دیا اور چندہ وقفِ جدید کے بارے میں تحریک کی۔ میرے پاس جتنے پیسے تھے میں نے چندے میں دے دیے۔ میرے گھر کے حالات بہتر نہیں تھے۔ بیٹی امید سے تھی، ہسپتال لے کے جانے کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔ گھر پہنچی تو رات عشاء کے بعد مجھے ایک شخص کا فون آیا۔ اس نے مجھ سے دو سال سے کچھ رقم قرض لی ہوئی تھی اور رابطہ نہیں کر رہا تھا اور میں بھول چکی تھی کہ اب یہ واپس نہیں ہو گی۔ تو بہرحال اس نے فون کیا، معافی مانگی اور وجوہات بتا کے دو ہزار کی رقم واپس کر دی۔ کہتی ہیں کہ میں نے جو مالی قربانی اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کے کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے وہاں میری وہ مدد فرمائی اور اس کے بعد پھر ان کو فوری طور پر بیٹی کو بھی ہسپتال لے جانے کی ضرورت پڑی اور اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ اس طرح اس کا علاج بھی ہو گیا۔

اللہ تعالیٰ نئے آنے والوں میں بھی یہ سوچ پیدا فرما رہا ہے کہ مال اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور یہ سوچ صرف ایک احمدی میں ہی پائی جاتی ہے۔

نائیجر

ایک اَور ملک ہے۔ آج کل وہاں حالات بھی کافی خراب ہیں۔ معلم صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے مَارَادِی ریجن کے ایک گاؤں کا دورہ کیا۔چندے کی تحریک کی۔ لوگوں نے حسب استطاعت وقفِ جدید میں حصہ لیا۔ ایک غیر احمدی وہاں کہنے لگا کہ آپ ہمارے گاؤں کے غریب لوگوں سے رقم وصول کر رہے ہیں جبکہ آپ کو بخوبی علم ہے کہ ملک کے معاشی حالات انتہائی خراب ہیں اور دیگر اسلامی تنظیمیں تو لوگوں کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر آ رہی ہیں اور آپ ان سے مانگ رہے ہیں۔ معلم صاحب کہتے ہیں کہ اس سے قبل کہ میں کچھ جواب دیتا اس گاؤں کے ایک احمدی کھڑے ہو گئے۔ بڑے جوش سے کہنے لگے کہ دیگر اسلامی جماعتیں آتی ہیں۔ ٹھیک ہے کوئی فلاحی مدد کر دیتی ہوں گی لیکن کیا کسی اسلامی تنظیم نے ہمیں اسلام کے بارے میں کچھ سکھایا ہے؟ وہ فلاحی کام تو شاید کر کے چلے جاتے ہیں لیکن جماعت احمدیہ ہمیں دین سکھاتی ہے اور یہاں یہ معلم صاحب ہمارے سے رقم وصول کرنے نہیں آئے بلکہ ہمیں مالی قربانی کے اس جذبہ کی ترغیب دلانے آئے ہیں جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے پیش کی ہے جس کے ذریعہ ہم دنیا ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی اجر حاصل کر سکیں گے۔ تو یہ ادراک ان میں قبول احمدیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے قربانی ضروری ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل بھی بہت ہوتے ہیں۔ بہرحال یہ سن کر وہ غیر احمدی دوست خاموش ہو گئے۔

پس کیسے کیسے خوبصورت مخلصین دنیا کے ہر کونے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عطا فرمائے ہیں۔ یہ ایک لمبی فہرست ہے۔ میرے لیے مشکل تھا کہ کس کا ذکر آج چھوڑوں اور کس کا کروں؟ بےشمار ایسے واقعات تھے۔ بہرحال وقت کے مطابق میں نہیں لے سکا لیکن جو بھی میں نے چھوڑے ہیں ان کے بھی اخلاص و وفا میں کوئی کمی نہیں۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے یہ قربانیاں دی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بھی قرض نہیں رکھتا بلکہ ان کی قربانیوں کو قبول فرما کر اسے ان کے ایمان میں اضافہ کا ذریعہ بناتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:’’میرے پیارے دوستو! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے اور ایک سچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لیے مجھے عطا کی گئی ہے۔ اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذریّت کو نہایت ضرور ت ہے۔ سو میں اس لئے مستعد کھڑا ہوں کہ آپ لوگ اپنے اموالِ طیبہ سے اپنے دینی مہمات کے لیے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت و طاقت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدم نہ سمجھے اور پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے ان علوم اور برکات کو ایشیا اور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خدا تعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ 516)

پس ان مالی قربانیوں کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ذریعہ سے اشاعتِ اسلام کا جو کام ہونا تھا وہ ہو رہا ہے۔ افریقہ کے رہنے والے غریب اور کم وسائل رکھنے والے احمدی باوجود اپنی قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ تبلیغِ اسلام اور اشاعتِ اسلام کے کام کو اپنے ملکوں میں بھی اعلیٰ رنگ میں سرانجام دے سکیں۔ اس لیے یورپ اور امریکہ وغیرہ ممالک جو امیر ممالک ہیں ان کے چندہ وقفِ جدید کی رقم کا بیشتر حصہ ان غریب ممالک میں سلسلہ کی ترقی کے کاموں میں خرچ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کے ایمان اور یقین اور اموال و نفوس میں برکت ڈالے جو کسی بھی رنگ میں جماعت کے لیے قربانی کرتے ہیں اور ہر وقت اس کے لیے تیار رہتے ہیں۔

اس وقت وقفِ جدید کے نئے سال کے اعلان کے ساتھ میں دنیا کے ممالک کی قربانیوں کے کچھ جائزے بھی پیش کروں گا

جو عموماً روایت ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقفِ جدید کا چھیاسٹھواں (66واں)سال ختم ہوا اور ستاسٹھواں (67واں) سال شروع ہو گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ عالمگیر نے دوران سال ایک کروڑ 29؍ لاکھ 41؍ ہزار پاؤنڈز کی مالی قربانی پیش کی ہے یعنی تقریباً تیرہ ملین پاؤنڈ۔ یہ وصولی گذشتہ سال سے سات لاکھ اٹھارہ ہزار پاؤنڈز زیادہ ہے۔

برطانیہ کی اس سال مجموعی وصولی کے لحاظ سے پہلی پوزیشن ہے،

پھر کینیڈا ہے۔ کینیڈا نے بھی اچھا اضافہ کیاہے اور انہوں نے شاملین میں اضافہ زیادہ کیا ہے۔ یہ ان کی اس سال بہت بڑی خوبی ہے۔ پھر جرمنی ہے نمبر تین۔ پھر نمبر چار امریکہ، پاکستان، بھارت، آسٹریلیا، مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے، انڈونیشیا ہے، مڈل ایسٹ کی پھر جماعت ہے۔ بیلجیم ہے۔

افریقہ کی جماعتوں میں

نمبر ایک پہ ماریشس ہے۔ پھر گھانا ہے۔ برکینا فاسو ہے۔ برکینا فاسو کے حالانکہ حالات بھی کافی خراب ہیں لیکن باوجود اس کے پھر بھی افریقہ میں تیسری پوزیشن ہے۔ تنزانیہ ہے۔ نائیجیریا ہے۔ لائبیریا۔ پھر گیمبیا۔ مالی۔ یوگنڈا۔ سیرالیون۔

شاملین کی تعداد

اللہ کے فضل سے اس سال 44؍ ہزار نئے مخلصین شامل ہوئے ہیں

اور 15؍ لاکھ 50؍ ہزار ان کی تعداد ہے۔

شاملین میں اس اضافے کے لیے جو کوشش کی ہے اس میں کینیڈا نمبر ایک پہ ہے۔ پھر تنزانیہ۔ پھر کیمرون۔ پھر گیمبیا۔ نائیجیریا۔ گنی بساؤ اور کونگو کنشاسا۔

وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کی جودس بڑی جماعتیں

ہیں ان میں فارنہم (Farnham) نمبر ایک پہ ہے۔ پھر ووسٹر پارک (Worcester Park)۔ پھر وال سال(Walsall)۔ پھر آلڈر شاٹ ساؤتھ (Aldershot South)۔ پھر اسلام آباد۔ پھرجلنگھم(Gillingham)۔ ایش (Ash)۔چیم ساؤتھ (Cheam South)۔ یول (Ewell) اور ہنسلو ساؤتھ۔

ریجنز

جو ہیں ان میں بیت الفتوح پہلے نمبر ایک پہ۔ پھر اسلام آباد ریجن۔ پھر مڈلینڈز(Midlands)۔ مسجد فضل پھر بیت الاحسان۔

دفتر اطفال

کے لحاظ سے پہلی دس جماعتیں ہیں آلڈر شاٹ ساؤتھ(Aldershot South)۔ فارنہم (Farnham)۔ پھر آلڈر شاٹ نارتھ(Aldershot North) ایش(Ash)۔ اسلام آباد۔ روہیمپٹن ویل (Roehampton Vale)۔ ساؤتھ چیم۔ مانچسٹر نارتھ۔ برمنگھم ویسٹ۔ بریڈفورڈ ساؤتھ۔

اور چھوٹی جماعتوں میں سپن ویلی۔ کیتھلی۔ نارتھ ویلز۔ نارتھ ہیمپٹن۔سوانزی۔

کینیڈا کی امارتیں

جو ہیں ان میں نمبر ایک پہ وان۔ پھر کیلگری (Calgary)۔ پھر پیس ولیج(Peace Village)۔ پھر وینکوور(Vancouver)۔ پھر بریمپٹن ویسٹ(Brampton West)۔اور پھر ٹورانٹو۔

ان کی دس بڑی جماعتیں

ملٹن ایسٹ(Milton East)۔ ملٹن ویسٹ(Milton West)۔ ہملٹن۔ ایڈمنٹن ویسٹ۔ ڈرہم ویسٹ(Durham West)۔ آٹوا ویسٹ(Ottawa West)۔رجائنا(Regina)۔ انسفل(Innisfil)۔ ایبٹس فورڈ(Abbotsford)۔ نیوفاؤنڈلینڈ(Newfoundland)ہیں۔

دفتر اطفال

میں جو امارتیں ہیں وان (Vaughan)نمبر ایک پہ۔ پھر پیس ولیج (Peace Village)۔ ٹوارنٹو ویسٹ (Toronto West)۔ وینکوور(Vancouver)۔ کیلگری(Calgary) اور مسس ساگا (Mississauga)۔

دفتر اطفال میں ڈرہم ویسٹ (Durham West) جماعتوں میں پہلے نمبر پہ ہے۔ پھر ملٹن ویسٹ(Milton-West)۔ حدیقہ احمد۔ مونٹریال ویسٹ(Montreal West)۔ ہملٹن ماؤنٹین(Hamilton Mountain)۔

جرمنی کی امارتیں

جو ہیں ان میں ہیمبرگ (Hamburg) نمبر ایک پہ۔ پھر فرینکفرٹ (Frankfurt)۔ ویزبادن (Wiesbaden)۔ گروس گیراؤ (Gross Gerau)۔ریڈ شٹڈ (Riedstadt)۔

اور ان کی جو پہلی دس جماعتیں

ہیں ان میں رویڈرمارک(Rödermark)۔ روڈگاؤ(Rodgau)۔ نیدا(Nidda)۔ فریڈبرگ(Friedberg)۔ فلورس ہائم(Florsheim)۔ نوئس (Neuss)۔ مائنز(Mainz)۔ مہدی آباد۔ اوسنابروک۔ برلن اور کوبلنز(Koblenz)۔

دفتر اطفال

میں من ہائم نمبر ایک پہ۔ پھر ڈیٹسن باخ۔ ہیسن ساؤتھ ویسٹ(Hessen South West)۔ رائن لینڈ فالز(Rheinland -Pfalz)۔ ویسٹ فالن۔

امریکہ کی دس جماعتیں

یہ ہیں۔ نمبر ایک پہ لاس اینجلس (Los Angeles)۔ پھر میری لینڈ(Maryland)۔ نارتھ ورجینیا۔ سیئٹل (Seattle)۔ سیلیکون ویلی(Silicon Valley)۔ بوسٹن (Boston)۔ آسٹن(Aston)۔ اوش کوش۔ مینیسوٹا (Minnesota) اور پورٹ لینڈ۔

دفتر اطفال

میں سیئٹل (Seattle)۔ لاس اینجلس (Los Angeles)۔ میری لینڈ (Maryland)۔ ساؤتھ ورجینیا۔ کلیو لینڈ (Cleveland)۔ آسٹن(Aston)۔ سیلیکون ویلی (Silicon Valley)۔اوش کوش۔ انڈیانا (Indiana)۔ زائن(Zion)۔

پاکستان

میں جو پہلی پوزیشن ہے ان میں

اوّل لاہور۔ دوم ربوہ۔ سوم کراچی

اور جو اضلاع کی پوزیشن بالغان میں ہے۔ اسلام آباد یہ مَیں نے پہلے جماعتوں میں شہروں کے حساب سے بتایا تھا اور اضلاع کے لحاظ سے بھی اسلام آباد نمبر ایک پہ ہے۔ پھر فیصل آباد۔گوجرانوالہ۔گجرات۔ سرگودھا۔ عمرکوٹ۔ ملتان۔ حیدرآباد۔ میرپور خاص۔ ڈیرہ غازی خان۔

دفتر اطفال

کی تین بڑی جماعتیں جو ہیں وہ لاہور نمبر ایک پہ۔ ربوہ نمبر دو پہ۔ کراچی نمبر تین۔

دفترا طفال میں اضلاع کی پوزیشن ہے اسلام آباد نمبر ایک۔پھر فیصل آباد۔ نارووال۔ سرگودھا۔ عمرکوٹ۔ گوجرانوالہ۔ میر پور خاص۔ گجرات۔ حیدرآباد۔ شیخوپورہ۔

پاکستان میں باوجود کرنسی کی قیمت بہت زیادہ گرنے کے اللہ کے فضل سے انہوں نے بہت زیادہ اضافہ کیا ہے اور بڑی قربانی کی ہے۔

بھارت کے دس صوبہ جات

جو ہیں ان میں نمبر ایک پہ کیرالہ۔ پھر تامل ناڈو۔ جموں کشمیر۔ تلنگانہ۔ کرناٹکہ۔ اڑیشہ۔ پنجاب۔ ویسٹ بنگال۔ دہلی۔ مہاراشٹرا۔

اور وصولی کے لحاظ سے دس جماعتیں

جو ہیں ان میں حیدر آباد نمبر ایک۔ کوئمباٹور۔ قادیان۔ کالی کٹ۔ منجیری۔ بنگلور۔ ملیا پلیالم (Melapalayam)۔ کولکتہ۔ کیرولائی اور کیرنگ۔

آسٹریلیا

میں بالغان کی جماعتیں جو ہیں ان میں ملبرن لانگ وارن(Melbourne Langwarrin)۔ کاسل ہل (Castle Hill)۔ مارسڈن پارک(Marsden Park)۔ لوگن ایسٹ(Logan East)۔ میلبورن بیرک(Melbourne Berwick)۔ پینرتھ (Penrith)۔ پرتھ(Perth)۔ میلبورن کلائیڈ (Melbourne Clyde)۔ پیراماٹا (Parramatta)۔ ایڈیلیڈ ویسٹ(Adelaide West)۔

اللہ تعالیٰ ان سب کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے۔

فلسطین کے لیے تو مَیں دعا کی تحریک کرتا ہی رہتا ہوں

اب بھی ان کو یاد رکھیں۔

اپنے اپنے حلقۂ احباب میں ان کے حق میں آواز بھی اٹھاتے رہیں۔

لوگوں کو بتاتے بھی رہیں خاص طور پر سیاستدانوں کو۔ پہلے بھی میں نے کہا تھا۔ اسرائیل کی حکومت تو اپنے ظلموں سے باز آنے والی نہیں لگتی بلکہ اب تو انہوں نے فوجیوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ 2024ء کا سال بھی جنگ کا سال ہے۔

اللہ تعالیٰ فلسطینیوں پر رحم فرمائے۔ اس سے اب یہ بھی کہا جانے لگ گیا ہے کہ ریجن میں بھی جنگ پھیلنے کا خطرہ ہے اور پھر عالمی جنگ بھی ہو سکتی ہے۔

بیروت کے ارد گرد بھی انہوں نے بمباری شروع کر دی ہے۔ اب یہ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ گو بظاہر امریکہ کی حکومت ان کو یہی کہہ رہی ہے کہ اپنی جنگ کو محدود کرو لیکن یہ صرف الفاظ ہی لگتے ہیں۔ دبی ہوئی ان کی آوازیں ہیں۔ اصل منصوبہ تو ان کا یہی لگتا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کر دیا جائے اور اس زمین پر پھر قبضہ کر لیں۔

اللہ تعالیٰ فلسطینیوں پر رحم فرمائے اور مسلمانوں پر بھی رحم فرمائے۔ ان کو بھی عقل اور سمجھ دے اور یہ اس طرف بھی غور کریں کہ زمانے کے امام کی آواز کو بھی سنیں اور اس کو مانیں۔

٭…٭…٭

الفضل انٹرنیشنل ۲۶؍ جنوری ۲۰۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button