پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

جون اور جولائی ۲۰۲۳ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

پاکستان میں احمدیوں کی مذہبی آزادی بطور خاص قربانی کےمتعلق مزید کچھ تفصیل

جون۔جولائی ۲۰۲۳ء: ہماری جون ۲۰۲۳ء کی رپورٹ میں سب سے اہم خبر احمدیوں کو ان کے مذہبی عقائد پر عمل درآمد کر تے ہوئے عید الاضحی کے موقع پر قر بانی سے روکنا تھی۔کیونکہ یہ معاملہ جون کے اختتام پر رونما ہوا تھا اس لیے جولائی میں بھی ہمیں اس موضوع پر خبریں موصول ہوتی رہی ہیں۔یہاں ہم ان چند اضافی خبروں کو بھی شامل کریں گے۔ان میں سب سے اہم جماعت احمدیہ پاکستان کے مرکزی دفتر صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ تھا جو یوں ہے:

٭…احمدیوں کو عبادات سے روکنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے

٭…احمدیوں کے خلاف بے بنیاد مقدمات کا اندراج اور متعدد مقامات پر ہراساں کیا گیا ہے

٭… چار دیواری میں بھی احمدیوں کو مذہب پر عمل کرنے کی اجازت نہ دے کر سپریم کورٹ کے فیصلہ کی واضح خلاف ورزی کی گئی

(چناب نگر۔پ ر۔)عید الاضحی کے موقع پر احمدیوں کو قربانی کرنے سے زبردستی روکنے،احمدیوں کو ہراساں کرنے اور سرکاری انتظامیہ کی جانب سے ماورائے قانون اقدامات قابل افسوس اور شرمنا ک ہیں۔ سرکاری انتظامیہ کی جانب سے احمدیوں کے خلاف بے بنیاد مقدمات کے اندراج،احمدیوں سے زبردستی شورٹی بانڈز لینے اور قربانی کرنے سے روکنے کے اقدامات آئین پاکستان کے آرٹیکل ۲۰؍ اور جسٹس منصور علی شاہ صاحب اور جسٹس امین الدین خان صاحب پر مشتمل سپریم کورٹ کے دورکنی بینچ کے ۱۲؍ جنوری ۲۰۲۲ء کو دیے گئے فیصلے کی واضح خلاف ورزی ہیں۔ سپریم کورٹ نے Cr1.P.916-L/2021میں قرار دیا تھا کہ احمدی اپنی چار دیواری کے اندر مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی رکھتے ہیں۔ تاہم اس سا ل احمدیوں کو قربانی کرنے سے روکنے کے واقعات میں شدت محسوس کی گئی.

٭… احمدیوں کو قربانی کرنے سے روکنے کے لیے ۲۳؍ درخواستیں مختلف تھانوں میں دی گئیں۔

٭… پنجاب پولیس نے انتہا پسند عناصر کی خوشنودی کے لیے ۸۹؍ جگہوں پر احمدیوں کو ہراساں کیا کہ وہ قربانی نہ کریں۔

٭… چار مقامات پر عید کی نماز پڑھنے سے روک دیا۔

٭… احمدیوں کو مجبور کر کےزبردستی ۲۸؍ شورٹی بانڈز لیے گئے۔

٭… گجرات میں پولیس انسپکٹر نے مسجد میں اعلان کیا کہ جس نے اس عید پر قربانی کرنی ہے وہ پہلے مسلمان ہو۔

٭… مختلف اضلاع میں قربانی کرنے کی بنا پر ۱۳؍احمدیوں کے خلاف ۶؍مقدمات قائم کیے گئے اور ۷؍احمدیوں کو گرفتار کیا گیا۔

٭… ۱۰؍ جانور پولیس نے ناجائز طور پر اپنے قبضہ میں لے لیے۔

٭… پولیس نے ۵؍ احمدیوں کے گھروں کی غیر قانونی طور پر تلاشی لی اور گھروں سے گوشت اٹھا کے لے گئی۔

٭… ۱۱؍ مقامات پر شرپسندوں نے احمدیوں کو ہراساں کیا۔

ترجمان جماعت احمدیہ نے کہا ہے کہ مذہب کے مقدس نام کو استعمال کرتے ہوئے انتہا پسند عناصر اور ان کی پشت پناہ پولیس کی جانب سے احمدیوں کے انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات وطن عزیز کی جگ ہنسائی کا موجب بن رہے ہیں جبکہ حکومت عالمی برادری کو یہ درس دے رہی ہے کہ تمام مذاہب کا احترام کیا جائے اور شرارت کرنے والی متعصبانہ سوچ کو مسترد کیا جائے۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ احمدیوں کے خلاف قربانی کرنے کے حوالے سے درج بےبنیاد مقدمات کو ختم کرتے ہوئے معصوم احمدیوں کو فوری رہا کیا جائے اور احمدیوں کی مذہبی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔

ظلم و ستم کا جو یہ بازار گرم کیا جارہا ہے یہ تحریک لبیک پاکستان اور حکومتی اداروں کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے اور اس کو سوشل میڈیا پر مسلسل نشر کیا جا رہاہے۔ سِول سوسائٹی نے بھی اس بات کا نوٹس لیا ہے اور اس پر مختلف تبصرےکیے ہیں۔ ایسا ہی ایک تبصرہ ڈان اخبار نے بھی شائع کیا ہے۔

ڈان اخبار کا اداریہ یوں ہےکہ ’’پاکستان میں حکمران بارہا ہمیں دہشتگرد عناصر کو ختم کرنےاور معاشرے سے شدت پسندی کے رجحان کو مٹانے کی ضرورت کو عیاں کرتی نظر آتی ہے۔لیکن انہی کی ناک کے نیچے دہشتگردوں کی کارروائیاں ہمیں یہ سوال کرنے پر مجبور کرتی ہیں کہ حکومت کس حد تک ان مذہبی جنونیوں کے خلاف کارروائی کی خواہاں ہے۔اس مذہبی جنونیت کی حالیہ شکار جماعت احمدیہ ہے جو ایک لمبے عرصے سے ان شدت پسندوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار بنی ہوئی ہے۔تحریک لبیک نے سرائےعالمگیر میں احمدیہ عبادت گاہوں پر حملے کے لیے سوشل میڈیا پر تحریک چلا رکھی ہے۔ اس سے قبل انہوں نے جہلم میں احمدیہ عبادت گاہوں پر حملہ کیا تھا اور اس سے فروری میں کراچی میں انہوں احمدیہ عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا تھا۔

احمدیہ عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ تحریک لبیک نے ایک نئی تحریک کا اعلان کیا ہےجس کا مقصد جماعت احمدیہ کے افراد کو عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرنےسے روکنا ہے۔اس عمل نے بین الاقوامی طور پر سب کی توجہ پاکستان کی طرف مرکوز کر دی ہے جس کا ثبوت وہ خط ہے جو جنیوا سوئٹزرلینڈ میں پاکستان کے مستقل مندوب کو دیا گیا۔ جس کا مضمون یوں ہے کہ ہمیں جماعت احمدیہ کے خلاف ہونے والی متشددانہ کارروائیوں پر شدید تشویش ہے۔ خاص طور پر ان کی عبادت گاہوں پر منظم حملے کیے جانا۔یہ کوئی الگ واقعات نہیں ہیں۔جیسے قبضہ مافیہ نے کراچی میں ایک مندر کو مسمار کر دیا اور کچھ روز قبل کشمور میں ایک مندر پر حملہ کیا گیا۔ حکومت کو لب کشائی کی زحمت کے علاوہ عملی طور پرایسے اقدامت کرنے ہوں گے کہ جن سے ان اقلیتوں کو آئین میں دیے گئے حقوق محفوظ ہوں۔اگر ان شدت پسند گروہوں کو غیرمسلم اقلیتوں کو ہراساں کرنے سے نہ روکا گیا تو یہ گروہ مزید طاقتور ہوتے چلے جائیں گے اور ایک دن اتنےمضبوط ہو جائیں گے کہ حکمران کے سامنے آن کھڑے ہوں گے۔مزید برآں اگر یہ مذہبی غنڈے اسی طرح اقلیتوں کی عبادتگاہوں پر حملے کرتے رہے تو پاکستان کا دنیا کو سافٹ امیج(نرم مزاجی) دکھانے کا منصوبہ بھی ریت کے محل کی طرح پانی میں بہ جائے گا۔عالمی طور پر مزید پابندیوں سے بچنے کےلیے حکومت کو غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہو گا۔ ان شدت پسندوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے حکومت کی بچی کھچی طاقت بھی ہاتھ سے چلی جائے گی۔‘‘(ڈان اخبار ۲۸؍ جولائی ۲۰۲۳ء)

اسی طرح انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ احمدی بھی پاکستان کے شہری ہیں اور ان کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ان کے گھروں،قبرستانوں اور ان کے کاروباروں کے خلاف ضلعی انتظامیہ کی کھلی بدمعاشی کو ہرحال میں روکنا چاہیے۔کسی کو بھی کسی پاکستانی شہری کے خلاف متشددانہ کارروائیاں کرنے کا استثنا حاصل نہیں ہونا چاہیے۔

(مرتبہ: مہر محمد داؤد )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button