مکتوب

مکتوب سویڈن

(آغا یحیٰ خان۔ مبلغ انچارج سویڈن)

سکینڈے نیوین ممالک میں سویڈن جغرافیا ئی لحاظ سے مرکزی مقام اور اہمیت کا حامل ہے جو نورڈک (Nordic) ممالک میں رقبہ کے اعتبار سے سب سے بڑا اور یورپ کا پانچواں بڑا ملک شمار ہوتا ہے۔

سویڈن کی آبادی دس اعشاریہ بیالیس (۱۰.۴۲) ملین ہے۔

قریباً تمام سکینڈے نیوین ممالک میں ہی اسلام دشمنی کے اظہار کے لیے گاہے بگاہے کچھ آوازیں اٹھتی رہتی ہیں اور پھر وقتی طور پر دب جاتی ہیں،لیکن کچھ عرصہ سے سویڈن میں خاص طور پر کچھ لوگ کبھی قرآن جلاوٴ مہم کی صورت میں اور کبھی مسجدیں گراوٴ کی مہم کی صورت میں اس کے لیے سرگرمی دکھا رہے ہیں۔

سویڈن ایک جمہوری ملک ہے تاہم اکثریت عوام کا اور سرکاری مذہب بھی عیسائیت ہے۔ اس ملک میں آٹھ بڑی سیاسی پارٹیاں پارلیمنٹ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور ان کے علاوہ بھی کچھ غیر معروف سیاسی پارٹیاں ہیں جوکچھ نمائندگی تو رکھتی ہیں تاہم کوئی خاص کردار ادا نہیں کر پاتیں۔

دائیں بازو کی ایک سیاسی پارٹی جس کا نام Sverigedemokraterna (سویڈش ڈیموکریٹس) ہے۔اپنے متشددانہ بیانات اور خیالات کے سہارے گذشتہ چند سالوں میں بہت مقبولیت حاصل کر رہی ہے اور اس وقت سویڈن کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی بن کے سامنے آگئی ہے۔

پارٹی کی اصلیت

اس پارٹی کی بنیاد ۱۹۸۸ء میں رکھی گئی تھی اور اس نے امیگریشن اور قومیت پرستی جیسے نعروں کی بدولت لوگوں کی توجہ حاصل کی ہے۔ بنیادی اور ابتدائی طور پر دائیں بازو اور قومیت پرستی کے نظریات پر بنیاد رکھنے کے باوجود اس پارٹی نے گذشتہ برسوں میں خود کو انتہا پسند تنظیموں سے الگ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ بنیادی طور پر ان کا نعرہ انتہاپسندی ہی کا ہے۔یہ پارٹی امیگریشن پالیسیوں میں شدید سختی کی وکالت کرنے کے لیے معروف ہے اور وقتاً فوقتاً سویڈش معاشرے پر کثیر الثقافتی چھاپ کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ان پر غیر ملکیوں سے نفرت اور نسل پرستی کو فروغ دینے کا الزام بھی ہے۔

شدت پسندانہ رویے اور نظریات رکھنے کے باوجود سویڈش ڈیموکریٹس ۲۰۱۰ء میں سویڈش پارلیمنٹ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے، جس سے ملک کے سیاسی منظر نامے میں ایک اہم تبدیلی آئی۔

اس پارٹی نے ایک چھوٹی سی پارٹی کے طور پر شروعات کی تھی لیکن سویڈن میں داخل ہونے والے تارکین وطن یا مہاجرین کی کثرت سے آمد کے بعد آہستہ آہستہ اس پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔

اغراض و مقاصد

اس پارٹی کا اوّلین مقصد سویڈن میں داخل ہونے والے غیر ملکی اور تارکین وطن کی تعداد کو محدود کرنا اور سویڈن میں موجود مسلمانوں کو اسلامی اقدار چھوڑ کر سویڈش اقدار اپنانے پر مجبور کرنا ہے۔

مسلمانوں کے بارے میں نقطہ نظر

سویڈن میں خصوصاً مسلم آبادی کے بارے میں سویڈش ڈیموکریٹس کا نقطہ نظر بہت ناقدانہ اور اسلام دشمنی کا برملا اظہار کرتا ہے۔

اس پارٹی نے خصوصیت سے ’’اسلام ازم‘‘ اور ’’اسلامسٹ ‘‘کے الفاظ کا کثرت سے استعمال کرتے ہوئے کچھ ایسے واقعات کو ہوا دے کر سویڈش عوام میں نفرت کی آگ پھیلانے کی کوشش کو انتہا تک پہنچایا ہے۔اور ان کے بعض ارکان نے اسلام کے حوالے سے متنازعہ اور جارحانہ بیانات بھی دیے ہیں اور عمومی سویڈش عوام کے جذبات کو اسلام کے خلاف ابھارنے کی کوشش میں صبح و شام مصروف رہتے ہیں۔

مختلف اسلام دشمن بیانات

اس پارٹی کے تمام کارکن ہی اپنے دائرے میں اسلام دشمنی کو فروغ دینے کے لیے منافرانہ بیانات جاری کرتے ہی رہتے ہیں تاہم پارٹی کےلیڈر جمی اوکسن (Jimmie Åkesson) نے حال ہی میں اپنی تقاریر میں برملا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہماری [سویڈش] شناخت خطرے میں ہے کیونکہ ہم نے دوسرے ممالک سے بہت زیادہ لوگوں (تارکین وطن) کو اپنے ساتھ لے لیا ہے۔‘‘پھر ایک اَور جگہ اس قدر غیر محتاط الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ’’ دوسری جنگ عظیم کے بعد اسلام سویڈن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔‘‘

https://www.aftonbladet.se/debatt/a/VRx8zd/akesson-muslimerna-ar-vart-storsta-utlandska-hot

جمی اوکسن کی ایک اور نفرت انگیز تقریر

پارٹی کے راہنما، جمی آکسن نے نومبر ۲۰۲۳ء میں ایک تقریر کی جس میں انہوں نے مساجد کی تمام نئی تعمیرات کو روکنے اور اسلامائزیشن میں اہم کردار ادا کرنے والی موجودہ مساجد کو ختم کرنےاور گرا دینے کے بارے میں بات کی۔

ان کی تقریر حماس اور اسرائیل کے درمیان تنازع کے بارے میں جاری بحث سے متاثر تھی۔ پارٹی لیڈر نے سویڈن میں بڑھتےہوئے ’’اسلامسٹ‘‘خیالات کی طرف اشارہ کیا۔

جمی اوکسن (پارٹی لیڈر)کہتا ہے: ’’ یہ میری پختہ اور دیانتدارانہ رائے ہے کہ سویڈن میں اسلام پسندوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ‘‘انہوں نے سویڈن کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی سوشل ڈیموکریٹس پر بھی اسلام دوست ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا: ’’بدقسمتی سے، سویڈن کی سب سے بڑی پارٹی، سوشل ڈیموکریٹس کی طرف سے یہ(کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہیں) موقف واضح نہیں ہے۔ سوشل ڈیموکریٹس بھی سویڈن میں ’’اسلامسٹ‘‘تحریک کا ایک فعال حصہ ہیں۔‘‘

اسی طرح اسلام دشمنی میں یہ بھی واشگاف الفاظ میں کہہ گئے کہ ’’ہمیں ایسی تمام مساجد کو گرا دینا چاہیے جو اینٹی سیمیٹزم (antisemitism)خیالات اور سویڈش معاشرے سے متعلق غلط خیالات پھیلانے کا موجب بن رہی ہیں۔مناروں، گنبدوں اور آدھے چاند کے نشان یا دوسرے کسی بھی نشان جو اسلام کی علامت کو ظاہر کرے اسے مکمل طور پر منہدم کر دیا جائے۔‘‘

(https://www.aftonbladet.se/nyheter/a/0QadvB/jimmie-akesson-riv-moskeer)

’’Fråga en Muslim‘‘ مہم

Sverigedemokraterna کی اشتعال انگیز اور تفرقہ انگیز بیان بازی کے سویڈش معاشرے پر ہونے والے بد اثرات کے خطرہ کے پیش نظر جماعت احمدیہ سویڈن نے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اسلام کے دفاع کے لیے سب سے پہلے قدم اٹھایا۔ملکی اخبارات اور میڈیا میں اس نفرت انگیز بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ کے بیان فرمودہ مساجد کی تعمیر کے مقاصد بیان کیے۔جس کے نتیجے میں اخباری نمائندگان نے بھی ملک میں موجود چاروں مبلغین جماعت احمدیہ سے فرداً فرداً رابطہ کر کے انٹرویوز کیے۔دو مبلغین کے تفصیلی انٹرویو شائع بھی ہوئے اور ایک مبلغ کا ڈیبیٹ آرٹیکل (debate article) بھی اخبار میں شائع ہوا۔ اسی طرح ایک مبلغ کا ریڈیو اور ٹی وی پہ بھی انٹرویو نشر ہوا۔ الحمد للہ

اس خبر کے نشر ہونے سے قبل ہی چاروں مبلغین نے سویڈن کے ایک مخصوص علاقے کے چھ بڑے شہروں میں چھ دن کے لیے تبلیغی دورے کا پروگرام بنایا تھا، لیکن جمی اوکسن کے اس بیان کے فوراً بعد پولیس کی اجازت سے ان تمام چھ شہروں میں پہلے سے شروع کی گئی مہم ’’Fråga en Muslim‘‘ (ایک مسلمان سے پوچھیں) کے ساتھ ایک زبردست جوابی کارروائی کی۔

اس تبلیغی دورے کے اوّلین مقاصد میں اسلام کے بارے میں بڑھتی ہوئی غلط فہمیوں کو دور کرنا اور افہام و تفہیم کی فضا کو فروغ دینے کے لیے کمیونٹیز(communities)کے ساتھ ایک دوستانہ پُل تعمیر کرنا تھا اور اس خلیج کو پاٹنا تھا جو Sverigedemokraterna جیسی پارٹیوں کے ان تفرقہ انگیز بیانات کے ذریعہ پیدا ہو رہی تھی۔

میڈیا کوریج

اس تبلیغی دورے کے ذریعہ حاصل ہونے والی میڈیا کوریج میں آن لائن آرٹیکلز بارہ، اخبارات میں شائع: گیارہ، ٹی وی : دو، ریڈیو : دو ٹوئٹر، فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا اس کے علاوہ ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہر شہر کے حکومتی اور مذہبی نمائندگان سے الگ الگ ملاقاتیں کیں،جن میں شہر کے میئر اور ان کی کابینہ اور شہر کے بڑے پادری شامل تھے۔ اسی طرح ہر ریجن کے پولیس چیف سے ملاقات کی۔ان تمام بااثر شخصیات نے جماعت احمدیہ مسلمہ کے اس اقدام کو بہت سراہا اور ہمیشہ کی طرح دفاع اسلام میں صف اوّل پہ جماعت احمدیہ کو کھڑے دیکھنے کا برملا اظہار کیا۔ الحمد للہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button