سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

مقدمہ ڈاک و متفرقات

(گذشتہ سے پیوستہ)قارئین کرام! یہ دلیل اور نظیر تھی اس بات کی کہ خدا پر توکّل کرنے والے اور اس کواپنا وکیل و کارسازسمجھنے والے کبھی رسوا ہوتے ہیں نہ شرمندہ۔ فنعم المولٰی و نعم الوکیل۔اور حضرت اقدس علیہ السلام کی سیرت وسوانح کاایک روشن ترین باب ہے کہ وہ انسان جس نے اپنی گذشتہ ساری عمرمیں کبھی جھوٹ نہیں بولا وہ آج اچانک اپنے خدا پر کیسے جھوٹ بول سکتاہے؟ نبی کی سوانح کایہ باب تاریخ انبیاء میں ہمیشہ اس کی سچائی کی ایک ناقابل تردیددلیل کے طورپرلیاگیاہے ۔ چنانچہ جب وہ خداکی طرف سے خداسے حکم پا کر کھڑاہوتاہے اور لوگ اس کوجھوٹا ،جھوٹا کہنا شروع کرتے ہیں تو وہ کہتاہے کہ فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ۔(یونس:۱۷)یہاں بھی حضرت اقدسؑ نے اپنی سوانح کے اسی باب اور اس باب کے اسی واقعہ کوبھی پیش فرمایاہے ۔چنانچہ جب مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب نے آپؑ کے دعویٰ کے بعد آپؑ پرجھوٹ بولنے کاالزام لگایاتو حضرت اقدسؑ نے آئینہ کمالات اسلام میں اس کاتفصیلی جواب عطا فرمایا ہے۔ آپؑ اس میں تحریرفرماتے ہیں :’’اگر آپ طالب حق بن کر میری سوانح زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ پرقطعی ثبوتوں سے یہ بات کھل سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ کذب کی ناپاکی سے مجھ کو محفوظ رکھتا رہا ہے یہاں تک کہ بعض وقت انگریزی عدالتوں میں میری جان اور عزت ایسے خطرہ میں پڑ گئی کہ بجز استعمال کذب اور کوئی صلاح کسی وکیل نے مجھ کو نہ دی لیکن اللہ جلّ شانہٗ کی توفیق سے میں سچ کیلئے اپنی جان اور عزت سے دست بردار ہوگیا۔ اور بسا اوقات مالی مقدمات میں محض سچ کیلئے میں نے بڑے بڑے نقصان اٹھائے اور بسا اوقات محض خدا تعالیٰ کے خوف سے اپنے والد اور اپنے بھائی کے برخلاف گواہی دی اور سچ کو ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ اس گاؤں میں اور نیز بٹالہ میں بھی میری ایک عمر گذر گئی ہے مگر کون ثابت کرسکتا ہے کہ کبھی میرے منہ سے جھوٹ نکلا ہے پھر جب میں نے محض لِلّٰہانسانوں پر جھوٹ بولنا ابتدا سے متروک رکھا اور بارہا اپنی جان اور مال کو صدق پر قربان کیا تو پھر میں خدا تعالیٰ پر کیوں جھوٹ بولتا۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد۵صفحہ ۲۸۹-۲۹۰)

مزیداسی جگہ فرماتے ہیں : ’’ اب ظاہر ہے کہ جس نے جھوٹ کو بھی ترک نہیں کیا وہ کیونکر خدا تعالیٰ کے آگے متقی ٹھہر سکتا ہے اور کیونکر اس سے کرامات صادر ہوسکتی ہیں۔ غرض اس طریق سے ہم دونوں کی حقیقت مخفی کھل جائے گی اور لوگ دیکھ لیں گے کہ کون میدان میں آتا ہے اور کون بموجب آیت کریم لھم البشرٰی اور حدیث نبویؐ اصدقکم حدیثًا کے صادق ثابت ہوتا ہے۔ مع ہٰذا ایک اور بات بھی ذریعہ آزمائش صادقین ہوجاتی ہے جس کو خدا تعالیٰ آپ ہی پیدا کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کبھی انسان کسی ایسی بلا میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اس وقت بجز کذب کے اور کوئی حیلہ رہائی اور کامیابی کا اس کو نظر نہیں آتا۔ تب اس وقت وہ آزمایا جاتا ہے کہ آیا اس کی سرشت میں صدق ہے یا کذب اور آیا اس نازک وقت میں اس کی زبان پر صدق جاری ہوتا ہے یا اپنی جان اور آبرو اور مال کا اندیشہ کر کے جھوٹ بولنے لگتا ہے۔ اس قسم کے نمونے اس عاجز کو کئی دفعہ پیش آئے ہیں جن کا مفصل بیان کرنا موجب تطویل ہے تاہم تین نمونے اس غرض سے پیش کرتا ہوں کہ اگر ان کے برابر بھی آپ کو کبھی آزمائش صدق کے مواقع پیش آئے ہیں تو آپ کو اللّٰہ جلّ شانہٗ کی قسم ہے کہ آپ ان کو معہ ثبوت ان کے ضرور شائع کریں تا معلوم ہو کہ آپ کا صرف دعویٰ نہیں بلکہ امتحان اور بلا کے شکنجہ میں بھی آکر آپ نے صدق نہیں توڑا۔

از انجملہ ایک یہ واقعہ ہے کہ میرے والد صاحب کے انتقال کے بعد مرزا اعظم بیگ صاحب لاہوری نے شرکاء ملکیت قادیان سے مجھ پر اور میرے بھائی مرحوم مرزا غلام قادر پر مقدمہ دخل ملکیت کا عدالت ضلع میں دائر کرا دیا اور میں بظاہر جانتا تھا کہ ان شرکاء کو ملکیت سے کچھ غرض نہیں کیونکہ وہ ایک گم گشتہ چیز تھی جو سکھوں کے وقت میں نابود ہوچکی تھی اور میرے والد صاحب نے تن تنہا مقدمات کر کے اس ملکیت اور دوسرے دیہات کے باز یافت کے لئے آٹھ ہزار کے قریب خرچ و خسارہ اٹھایا تھا جس میں وہ شرکاء ایک پیسہ کے بھی شریک نہیں تھے۔ سو اُن مقدمات کے اثناء میں جب میں نے فتح کے لئے دعا کی تو یہ الہام ہوا کہ اجیب کُل دعائک الّا فی شرکائک یعنی میں تیری ہریک دعا قبول کروں گا مگر شرکاء کے بارے میں نہیں۔ سو میں نے اس الہام کو پا کر اپنے بھائی اور تمام زن و مرد عزیزوں کو جمع کیا جو ان میں سے بعض اب تک زندہ ہیں اور کھول کر کہہ دیا کہ شرکاء کے ساتھ مقدمہ مت کرو یہ خلاف مرضی حق ہے مگر انہوں نے قبول نہ کیا اور آخر ناکام ہوئے لیکن میری طرف سے ہزارہا روپیہ کا نقصان اٹھانے کے لئے استقامت ظاہر ہوئی اس کے وہ سب جواب دشمن ہیں گواہ ہیں چونکہ تمام کاروبار زمینداری میرے بھائی کے ہاتھ میں تھا اس لئے میں نے بار بار اُن کو سمجھایا مگر انہوں نے نہ مانا اور آخر نقصان اٹھایا۔

ازانجملہ ایک یہ واقعہ ہے کہ تخمیناً پندرہ یا سولہ سال کا عرصہ گذرا ہوگا یا شاید اس سے کچھ زیادہ ہو کہ اِس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رلیارام تھا اور وہ وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں بھیجا اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا…

از انجملہ ایک نمونہ یہ ہے کہ میرے بیٹے سلطان احمد نے ایک ہندو پر بدیں بنیاد نالش کی کہ اس نے ہماری زمین پر مکان بنا لیا ہے اور مسماری مکان کا دعویٰ تھا اور ترتیب مقدمہ میں ایک امر خلاف واقعہ تھا جس کے ثبوت سے وہ مقدمہ ڈسمس ہونے کے لائق ٹھہرتا تھا اور مقدمہ کے ڈسمس ہونے کی حالت میں نہ صرف سلطان احمد کو بلکہ مجھ کو بھی نقصان تلف ملکیت اٹھانا پڑتا تھا۔ تب فریق مخالف نے موقعہ پاکر میری گواہی لکھا دی اور میں بٹالہ میں گیا اور بابو فتح الدین سب پوسٹ ماسٹر کے مکان پر جو تحصیل بٹالہ کے پاس ہے جا ٹھہرا۔ اور مقدمہ ایک ہندو منصف کے پاس تھا جس کا اب نام یاد نہیں رہا مگر ایک پاؤں سے وہ لنگڑا بھی تھا اس وقت سلطان احمد کا وکیل میرے پاس آیا کہ اب وقت پیشی مقدمہ ہے آپ کیا اظہار دیں گے۔ میں نے کہا کہ وہ اظہار دوں گا جو واقعی امر اور سچ ہے تب اس نے کہا کہ پھر آپ کے کچہری جانے کی کیا ضرورت ہے میں جاتا ہوں تا مقدمہ سے دستبردار ہو جاؤں سو وہ مقدمہ میں نے اپنے ہاتھوں سے محض رعایت صدق کی وجہ سے آپ خراب کیا اور راست گوئی کو ابتغاءً لمرضات اللّٰہ مقدم رکھ کر مالی نقصان کو ہیچ سمجھا۔ یہ آخری دو نمونے بھی بے ثبوت نہیں۔ پہلے واقعہ کا گواہ شیخ علی احمد وکیل گورداسپور اور سردار محمد حیات خان صاحب سی ایس آئی ہیں اور نیز مثل مقدمہ دفتر گورداسپورہ میں موجود ہوگی۔ اور دوسرے واقعہ کا گواہ بابو فتح الدین اور خود وکیل جس کا اس وقت مجھ کو نام یاد نہیں اور نیز وہ منصف جس کا ذکر کر چکا ہوں جو اب شاید لدھیانہ میں بدل گیا ہے۔ غالباً اس مقدمہ کو سات برس کے قریب گذرا ہوگا ہاں یاد آیا اس مقدمہ کا ایک گواہ نبی بخش پٹواری بٹالہ بھی ہے۔

اب اے حضرت شیخ صاحب! اگر آپ کے پاس بھی اس درجہ ابتلا کی کوئی نظیر ہو جس میں آپ کی جان اور آبرو اور مال راست گوئی کی حالت میں برباد ہوتا آپ کو دکھائی دیا ہو اور آپ نے سچ کو نہ چھوڑا ہو اور مال اور جان کی کچھ پرواہ نہ کی ہو تو لِلّٰہوہ واقعہ اپنا معہ اس کے کامل ثبوت کے پیش کیجئے ورنہ میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اس زمانہ کے اکثر مُلا اور مولویوں کی باتیں ہی باتیں ہیں۔ ورنہ ایک پیسہ پر ایمان بیچنے کو طیار ہیں کیونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ کے مولویوں کو بدترین خلائق بیان فرمایا ہے اورآپ کے مجدّد صاحب نواب صدیق حسن خان مرحوم حجج الکرامہ میں تسلیم کر چکے ہیں کہ وہ آخری زمانہ یہی زمانہ ہے۔ سو ایسے مولویوں کا زہد و تقویٰ بغیر ثبوت قبول کرنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کی تکذیب لازم آتی ہے۔سو آپ نظیر پیش کریں اور اگر پیش نہ کر سکیں تو ثابت ہوگا کہ آپ کے پاس صرف راست گوئی کا دعویٰ ہے مگر کوئی دعویٰ بے امتحان قبول کے لائق نہیں۔ اندرونی حال آپ کا خدا تعالیٰ کو معلوم ہوگا کہ آپ کبھی کذب اور افترا کی نجاست سے ملوث ہوئے یا نہیں۔ یا ان کو معلوم ہوگا جو آپ کے حالات سے واقف ہوں گے۔ جو شخص ابتلا کے وقت صادق نکلتا ہے اور سچ کو نہیں چھوڑتا۔ اس کے صدق پر مہر لگ جاتی ہے۔ اگر یہ مہر آپ کے پاس ہے تو پیش کریں ورنہ خدا تعالیٰ سے ڈریں ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کی پردہ دری کرے۔

آپ کی ان بے ہودہ اور حاسدانہ باتوں سے مجھ کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے کہ آپ لکھتے ہیں کہ تم مختاری اور مقدمہ بازی کا کام کرتے رہے ہو۔ آپ ان افتراؤں سے باز آجائیں آپ خوب جانتے ہیں کہ یہ عاجز ان پیشوں میں کبھی نہیں پڑا کہ دوسروں کے مقدمات عدالتوں میں کرتا پھرے۔ ہاں والد صاحب کے زمانہ میں اکثر وکلاء کی معرفت اپنی زمینداری کے مقدمات ہوتے تھے اور کبھی ضرورتاً مجھے آپ بھی جانا پڑتا تھا مگر آپ کا یہ خیال کہ وہ جھوٹے مقدمات ہوں گے ایک شیطنت کی بدبو سے بھرا ہوا ہے۔ کیا ہر یک نالش کرنے والا ضرور جھوٹا مقدمہ کرتا ہے یا ضرور جھوٹ ہی کہتا ہے۔

اے کج طبع شیخ خدا جانے تیری کس حالت میں موت ہوگی۔ کیا جو شخص اپنے حقوق کی حفاظت کیلئے یا اپنے حقوق کے طلب کیلئے عدالت میں مقدمہ کرتا ہے اس کو ضرور جھوٹ بولنا پڑتا ہے ہرگز نہیں۔ بلکہ جس کو خدا تعالیٰ نے قوت صدق عطا کی ہو اور سچ سے محبت رکھتا ہو وہ بالطبع دروغ سے نفرت رکھتا ہے اور جب کوئی دنیوی فائدہ جھوٹ بولنے پر ہی موقوف ہو تو اس فائدہ کو چھوڑ دیتا ہے۔ مگر افسوس کہ نجاست خوار انسان ہر یک انسان کو نجاست خوار ہی سمجھتا ہے۔ جھوٹ بولنے والے ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ بغیر جھوٹ بولنے کے عدالتوں میں مقدمہ نہیں کر سکتے۔ سو یہ قول ان کا اس حالت میں سچا ہے کہ جب ایک مقدمہ باز کسی حالت میں اپنے نقصان کا روادار نہ ہو اور خواہ مخواہ ہر یک مقدمہ میں کامیاب ہونا چاہے۔ مگر جو شخص صدق کو بہرحال مقدم رکھے وہ کیوں ایسا کرے گا جب کسی نے اپنا نقصان گوارا کرلیا تو پھر وہ کیوں کذب کا محتاج ہوگا۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۲۹۶-۳۰۲)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button