پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

مئی و جون ۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

تحریک لبیک کے ساتھ ایک اَور معاہدہ

معاہدے سے متعلق بات کرنے سے پہلے اس پارٹی کا کچھ تاریخی پس منظر بیان کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔

اگست ۲۰۱۴ء میں مولوی خادم حسین رضوی نے تحریک لبیک یا رسول اللہ کی بنیاد رکھی جو بعد میں تحریک لبیک پاکستان بن گئی۔

نومبر ۲۰۱۷ء میں اس نے اسلام آباد کی طرف پہلا مارچ کیا جو کہ احمدیوں کو ووٹ کا حق دینے کے خلاف تھا۔ اس نے دارالحکومت کو مکمل بند کر دیا اورحکومت کےساتھ مزاحمت کے دوران کچھ افراد ہلاک بھی ہو گئے۔بعد ازاں ان کے ساتھ امن کا معاہدہ ہو گیا اور ایک وفاقی وزیر نے استعفیٰ دے دیا۔

اپریل ۲۰۱۸ء میں بارہ روزہ دھرنے کے بعد حکومت کو ان سے امن معاہدہ کرنا پڑا۔

مئی ۲۰۱۸ء میں وفاقی وزیر احسن اقبال پر تحریک لبیک کے ایک کارکن نے گولی چلائی جس سے وہ زخمی ہو گئے۔

جون ۲۰۱۸ء میں مولوی خادم حسین نے ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس دن اسلام آگیا اس دن مرزائیوں کے پاس صرف دو چیزوں کا اختیار ہو گا یا تو اسلام قبول کر لیں یا قتل ہونے کےلیے تیار رہیں۔

اکتوبر، نومبر ۲۰۱۸ء میں تحریک لبیک کے مظاہرین نے آسیہ بی بی کے توہین مذہب کے مقدمے میں رہائی اور ملک سے روانگی کے خلاف مظاہرے کیے اور خادم رضوی نے ایک ویڈیو میں کہا کہ جو بھی مرزائیوں کے دوست ہیں وہ ان کے ساتھ ہی ملک سے باہر بھاگ جائیں۔

۲۰۱۸ء کے آخر میں پیر افضل قادری نے خادم رضوی کے سامنے وہ باتیں کہیں جن کا تصور بہت مشکل ہے۔ اس نے سپریم کورٹ،آرمی چیف اور حکومت کے خلاف سخت زبان کا استعمال کیا۔اس نے سپریم کورٹ کے ججوں کو واجب القتل قرار دیتے ہوئے ان کے سیکیورٹی گارڈز سے اپیل کی کہ ان کو قتل کر دیں۔اور ساتھ ہی جرنیلوں سے استدعا کی کہ تمام مسلمان جرنیل آرمی چیف کے خلاف بغاوت کر دیں۔اس پر ان دونوں کو گرفتار کر لیا گیا لیکن بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے ان کو ضمانت پر رہا کر دیا۔

۲۰۲۰ء میں تحریک لبیک نے احمدی مساجد اور قبروں کی بے حرمتی میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا اور انتظامیہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئی۔

نومبر۲۰۲۰ء میں فرانسیسی میڈیا میں توہین آمیز کارٹون شائع ہونے کے بعد تحریک لبیک نے مظاہرہ کیا اور فرانسیسی سفارتکار کو ملک بدر کرنے اور فرانسیسی اشیاء کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا۔

۱۹؍ نومبر ۲۰۲۰ء کو خادم رضوی کی موت کے بعد اس کا بیٹا سعد رضوی اس کا جانشین بنا۔

جنوری سے اپریل ۲۰۲۱ء تک تحریک لبیک نے فرانسیسی سفارتکار کے خلاف مظاہرے کیے جن میں بہت سے پولیس والے زخمی ہوئے اور کئی ہلاک ہو گئے۔ حکومت نے ان پر پابندی عائد کردی لیکن پھر ان کے ساتھ امن کا معاہدہ کر لیا۔

اکتوبر ۲۰۲۱ء میں انہو ں نے ایک اور مظاہرہ کیا جس میں آٹھ پولیس والے ہلاک ہو گئے اور حکومت نے پھر ان کے ساتھ امن کا معاہدہ کیا اور پابندی ہٹا دی گئی۔

اگست ۲۰۲۲ء میں ایک احمدی کو ربوہ میں تحریک لبیک کے کارکن نے چاقو مار کر کھلے عام شہید کر دیا۔

ستمبر ۲۰۲۲ء میں تحریک لبیک کے مُلا نعیم قادری نے لوگوں سے اپیل کی کہ حاملہ احمدی خواتین کو نشانہ بنائیںتا وہ احمدی بچے پیدا ہی نہ کر سکیں۔

فروری ۲۰۲۳ء میں انس رضوی نامی تحریک لبیک کے ایک مُلا نے اپنے سامعین کو بتایا کہ صحابہ نے حضرت ابوبکرؓ کی قیادت میں جنگ یمامہ میں چھتیس ہزار مرزائی قتل کیے تھے۔حالانکہ یہ جنگ جماعت احمدیہ کے قیام سے بارہ سو سال پہلے ہوئی تھی۔

مئی ۲۰۲۳ء میں تحریک لبیک نے مہنگائی کےخلاف کراچی سے اسلام آباد تک پاکستان بچاؤ مارچ کیا۔

۱۸؍جون ۲۰۲۳ء کو حکومت نے اس متشدد گروہ کے ساتھ امن معاہدہ کیا۔اس وقت یہ مظاہرین سرائے عالمگیر پہنچ چکے تھے جو اسلام آباد سے صرف ستر کلومیٹر دور ہے۔اس وقت حکومت نے ان کے ساتھ بارہ نکاتی معاہدہ کیا اور زیادہ تر حصہ اس میں توہین مذہب کی شقوں کے حوالے سے تھا۔

۱۸؍جون ۲۰۲۳ء کو روزنامہ ڈان نے ان نکات کے حوالے سے کافی مواد شائع کیا تھا اس میں سے کچھ حصہ پیش خدمت ہے۔ڈان نے لکھا کہ حکومت نے تحریک لبیک کے ساتھ بارہ نکاتی معاہدے پر دستخط کر دیے اور ساتھ ہی تحریک لبیک پر پابندیوں میں نرمی اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ اس معاہدے پر حکومت کی طرف سے رانا ثناءاللہ اور ایاز صادق جبکہ تحریک لبیک کی طرف سےڈاکٹر محمد شفیق امینی اور غلام عباس فیضی نے دستخط کیے۔

معاہدے کےمطابق توہین کرنے والوں کے مقدموں کی سماعت تیزی کے ساتھ ہو گی اور پھر ان فیصلوں کے خلاف اپیلوں کا فیصلہ بھی سرعت کے ساتھ کیا جائے گا۔

توہین کے مقدمات سے نپٹنے والے اداروں کی طاقت کو بڑھایا جائے گا اورایف آئی اے کے تحت ایک کاؤنٹر بلاسفمی ونگ (counter blasphemy wing)(توہین سے نپٹنے کےلیے ادارہ )بنایا جائے۔

توہین کرنے والے پر توہین کی دفعات کے علاوہ دہشتگردی کی دفعات بھی لگائی جائیں گی۔

وزارت داخلہ تین دن کے اندر امریکہ میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے خط لکھے گی۔

حکومت تحریک لبیک کے سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر نشریا ت کی اجازت اور ان کے گرفتار کارکنان کو رہا کر ے گی۔

حکومت تحریک لبیک کو دہشتگرد تنظیم کی بجائے ایک سیاسی پارٹی قرار دے گی۔اور ساتھ ہی تحریک لبیک اُن تمام حقوق کی حقدار ہو گی جو تمام دوسری سیاسی پارٹیوں کو حاصل ہیں۔

تحریک لبیک کے تمام راہنما جن پر فورتھ شیڈیول لگایا گیا ہے ان کو اس لسٹ سے نکالا جائے گا اور ان کو ہر جگہ آنے جانے کی اجازت ہوگی۔

روس سے سستا تیل لانے اور ڈالر کے مقابل روپے کی قدر میں بہتری لانے کے اقدامات کرنےہوں گے۔

اردو کو بطور سرکاری زبان تمام سرکاری دفاتر میں لاگو کرنا ہوگا۔

پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک سے بے اعتنائی

روزنامہ ڈان۔۳؍جون ۲۰۲۳ء:پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن نے حکومت کو ایک خط لکھا اور متعلقہ امور پر کارروائی کرنےاور جواب دینے کا مطالبہ کیا۔ ڈان اخبار نے اس پر تبصرہ شائع کیا تھا جو درج ذیل ہے۔’’کوئی بھی احمدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر آواز نہیں اٹھا رہا‘‘۔بین الاقوامی انسانی حقوق کے ادارے نے احمدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے اس ماہ کے آخر تک ان الزامات کا جواب طلب کیا ہے کہ احمدیوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے جو کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت مذہب،رنگ،نسل اور ذات برادری کی تمیز کے بغیر ہر کسی کو میسر ہے۔

انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر کی جانب سے یہ خط جنیوا سوئٹزر لینڈ میں موجود مستقل پاکستانی مندوب کو دیا گیا۔ پاکستانی مندوب نے یہ خط اس ہفتے وزارت خارجہ کے حوالے کر دیا۔

انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر کو یہ رپورٹ ان کے خاص نمائندوں فرنانڈ ڈِی فارنیس،اِیرن خان، مارگریٹ سیٹرتھ ویٹ اورنزیلہ غنیہ نے دی۔اس خط میں پاکستانی مندوب کو مخاطب کر کے کہا گیا کہ آپ کی حکومت کے متعلق مسلسل یہ رپورٹیں سامنے آرہی ہیں کہ جماعت احمدیہ کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے، ان کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی جارہی ہیں، ان کے خلاف لوگوں کو تشدد پر اکسایا جارہا ہے۔ اور ساتھ ہی ان کی مساجدکو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

بین الاقوامی ایجنسی نے مطالبہ کیا کہ ان تمام الزامات کا سد باب کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں اور ان واقعات کے مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

ہائی کمشنر نے مزید کہا کہ احمدیوں کے خلاف مذہبی محرکات کے باعث ہونے والی نفرت انگیزی اور عدم برداشت کے واقعات اپنے عروج پر ہیں۔ہائی کمشنر نے مزید کہا کہ ہم پہلے بھی کئی مواقع پر پاکستان کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کروا چکے ہیں کہ احمدیوں کے خلاف متشدد رویہ کا سد باب کیا جائے لیکن باوجود بارہا توجہ دلانے کے جماعت احمدیہ کا تحفظ ہمہ وقت تنزلی کا شکار نظر آرہا ہے۔

پاکستان کی سول (Civil)سوسائٹی کی تنزّلی

زمانہ جدید کی قومی ریاستوں میں سول سوسائٹی کوایک اہم ستون مانا جاتا ہےاور اگر ریاست کے باقی ستون انحطاط کا شکار بھی ہوں تو صحت مند سول سوسائٹی ریاست کو واپس اپنی اصل حالت میں لے آنے کےلیے امید کی ایک کرن کا کردار ادا کرتی ہے۔مگر بد قسمتی سے پاکستان کی سول سوسائٹی نہ صرف یہ کہ صحت مند نہیں ہے بلکہ اس میں تنزّلی،انحطاط اور بوسیدگی کے آثار نمایاں ہیں۔اور ایسے میں وکلاء جیسی پڑھی لکھی برادری جو کہ سول سوسائٹی میں راہنما کا کردار ادا کرتی ہے وہ ہی اس کی ناگفتہ بہ حالت کو آشکار کرتی نظر آرہی ہے۔

انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کسی بھی اچھی ریاست کے دو نمایاں پہلو ہوتے ہیں۔ ریاست کے ہر ادارے میں احمدیوں کے ساتھ جو ناروا سلوک ہو رہا ہے وہ بھی صاف نظر آرہا ہے۔ایسے حالات میں وکلاء ہی ایسے لوگ ہیں جن سے توقع کی جاسکتی ہےکہ وہ حق اور سچ کا ساتھ دیں اور معاشرے کے مظلوم اور بنیادی حقوق سے محروم طبقات کے حق میں آواز بلند کریں۔لیکن نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ یہاں تو وکیل حکومت کو یہ کہتے ہوئےنظر آرہے ہیں کہ ان پر مزید ظلم کیا جائے۔

گذشتہ عید الاضحی کے موقع پر لاہور ہائی کورٹ، اسلام آباد اور سرگودھا بار ایسو سی ایشن نے حکومت کو یہ خط لکھے کہ عید الاضحی کے موقع پر احمدیوں کی مذہبی آزادی سلب کرتے ہوئے ان کو عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرنے کی اجازت نہ دی جائے اور ان کوقربانی سے روکا جائے۔

ان خطوط کا مضمون پڑھ کے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک فارغ وکیل جس کے پاس کوئی اَور کیس نہیں تھا اس نے اس کو تحریر کیا اور بار ایسو سی ایشنوں نے اس کو عین اسی طرح آگے انتظامیہ کو بھیج دیا۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان ایسوسی ایشنز کو اس وقت آرٹیکل ۲۰ بھول گیا جو پاکستان میں موجود ہر شخص کو اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

ان ایسوسی ایشنز نے ۱۹۸۵ء اور ۱۹۹۳ء کے عدالتی فیصلوں کے تو حوالے دیے لیکن ۲۰۲۲ء میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو عمداً نظر انداز کر دیا۔ جس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان نے فیصلہ دیا کہ احمدی اپنے گھروں اور اپنی عبادت گاہوں میں اپنے عقائد کے مطابق عمل کرنے کی آزادی رکھتے ہیں۔اور ان سے یہ حق نہیں چھینا جاسکتا۔ یہ بات ناقابل یقین ہے کہ یہ ایسوسی ایشنز جان بوجھ کر ایسی جہالت اور اغماض کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔

قوانین اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔اپارتھائیڈ قانون جو ساؤتھ افریقہ کے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ انتہائی بہیمانہ سلوک پر مبنی قانون تھا جب یہ واضح ہو گیا کہ یہ قانون برا ہے تو بہت سے وکیلوں نے واشگاف انداز میں اس کے خلاف آواز بلند کی۔تو یہ کیسے ممکن ہوا کہ لاہور، اسلام آباد اور سرگودھا کی بار ایسوسی ایشنوں نے اخلاقیات کی تمام حدوں کو عبور کر لیا۔کیسی بدقسمتی کی بات ہےکہ کسی نے بھی اس کے خلاف آواز بلند نہ کی۔

(مرتبہ: مہر محمد داؤد )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button