ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر۱۵۶)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

عیسائیوں کی کثرت اور مسلمانوں کی ہمّت

’’اگرچہ یہ سچی بات ہے کہ جب سے عیسائیوں کا قدم آیا ہے مسلمانوں نے اپنی طرف سے کمی نہیں کی اور کسی نہ کسی حد تک ان کا مقابلہ کرتے رہے ہیں اور کتابیں اور رسالے لکھتے رہے ہیں لیکن باوجود اس کے بھی ان کی جماعت بڑھتی ہی گئی یہانتک کہ اب شاید تیس لاکھ کے قریب مرتد ہو چکے ہیں اس لیے مَیں یقیناًسمجھتا ہوں کہ کسر صلیب جانکاہ دعاؤں پر موقوف ہے۔ دعا میں ایسی قوّت ہے کہ جیسے آسمان صاف ہو اور لوگ تضرّع وابتہال کے ساتھ دعا کریں تو آسمان پر بدلیاں سی نمودار ہوجاتی ہیں اوربارش ہونے لگتی ہے۔اسی طرح پر میں خوب جانتا ہوں کہ دعا اس باطل کو ہلاک کردے گی۔ اَور لوگوں کو تو غرض نہیں ہے کہ وہ دین کے لیے دعا کریں مگر میرے نزدیک بڑا چارہ دعا ہی ہے اور یہ بڑا خطرناک جنگ ہے جس میں جان جانے کا بھی خطرہ ہے ؎

اندریں وقت مصیبت چارۂ ما بیکساں

جز دعائے با مد ا د و گر یۂ ا سحار نیست

پھر ان دعاؤں کے لیے گوشہ نشینی کی بڑی ضرورت ہے۔کئی دفعہ یہ بھی خیال آیا ہے کہ باغ میں کوئی الگ مکان دعاؤں کے واسطے بنالیں۔‘‘

(ملفوظات جلد ششم صفحہ ۳۲۶-۳۲۷ ایڈیشن۱۹۸۴ء)

تفصیل :اس حصہ ملفوظات میں آمدہ فارسی شعر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے۔

اَنْدَرِیْں وَقْتِ مُصِیْبَتْ چَارَۂِ مَابِیْکَسَاں
جُزْدُعَائے بَامْدَاد و گِرْیَۂِ اَسْحَارْ نِیْست

ترجمہ: اس مصیبت کے وقت (ہم )غریبوں کا علاج سوائے صبح کی دعا اور سحری کے رونے کے اَور کچھ نہیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button