سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

شرف مکالمہ ومخاطبہ

(گذشتہ سے پیوستہ )یہی وہ محبت تھی کہ جس کے ساتھ آپ جوان ہوئے تھے۔اور اس جوانی کی عمر سے ہی خداتعالیٰ آپ سے ہمکلام ہوتاتھا اور رؤیائے صالحہ اور کشوف صحیحہ آپ کودکھائے جاتے جوفلق صبح کی طرح پورے ہوجاتے۔غیب کی خبروں پرمشمتل آپ کوپیش ازوقت بتلادیاجاتا۔

ستمبر۱۸۸۶ء میں آپؑ نے ایک کتاب سرمہ چشم آریہ شائع فرمائی اس میں ایک جگہ تحریرفرماتے ہیں :’’ اسی دنیا میں صاحبِ کشف پر ایسے ایسے اسرار ظاہر ہوتے ہیں کہ ان کی کُنہ کو سمجھنے میں بکلی عقل عاجز رہ جاتی ہے۔ بعض اوقات صاحب کشف صدہا کوسوں کے فاصلہ سے باوجود حائل ہونے بےشمار حجابوں کے ایک چیز کو صاف صاف دیکھ لیتا ہے بلکہ بعض اوقات عین بیداری میں باذنہٖ تعالیٰ اس کی آواز بھی سن لیتا ہے اور اس سے زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض اوقات وہ شخص بھی اس کی آواز سن لیتا ہے جس کی صورت اس پر منکشف ہوئی ہے۔ بعض اوقات صاحبِ کشف اپنے عالمِ کشف میں جو بیداری سے نہایت مشابہ ہے ارواح گزشتہ سے ملاقات کرتا ہے اور عام طور پر ملاقات ہریک نیک بخت روح یا بدبخت روح کے کشف قبور کے طور پر ہوسکتی ہے چنانچہ خود اس میں مؤلف رسالہ ہذا صاحب تجربہ ہے اور یہ امر ہندوؤں کے مسئلہ تناسخ کی بیخ کنی کرنے والا ہے اور سب سے تعجب کا یہ مقام ہے کہ بعض اوقات صاحب کشف اپنی توجہ اور قوت تاثیر سے ایک دوسرے شخص پر باوجود صدہا کوسوں کے فاصلہ کے باذنہٖ تعالیٰ عالم بیداری میں ظاہر ہوجاتا ہے حالانکہ اس کا وجود عنصری اپنے مقام سے جنبش نہیں کرتا اور عقل کے زور سے ایک چیز کا دو جگہ ہونا محال ہے سو وہ محال اس عالم ثالث میں ممکن الوقوع ہوجاتا ہے اسی طرح صدہا عجائبات کو عارف بچشم خود دیکھتا ہے اور ان کور باطنوں کے انکار سے تعجب پر تعجب کرتا ہے۔ جو اس عالم ثالث کے عجائبات سے قطعاً منکر ہیں۔ راقم رسالہ ہذا نے اس عالم ثالث کے عجائبات اور نادر مکاشفات کو قریب پانچ ہزار کے بچشم خود دیکھا اور اپنے ذاتی تجربہ سے مشاہدہ کیا اور اپنے نفس پر انہیں وارد ہوتے پایا ہے۔ اگر ان سب کی تفصیل لکھی جائے تو ایک بڑی بھاری کتاب تالیف ہوسکتی ہے۔‘‘(سرمہ چشم آریہ صفحہ ۱۳۰-۱۳۱، حاشیہ،روحانی خزائن جلد۲صفحہ ۱۷۸-۱۷۹، حاشیہ)

اس اقتباس کوپڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف اس قسم کے کشوف کی تعداد پانچ ہزارہے جن کاذکریہاں ہورہاہے۔رؤیاوالہامات اس کے علاوہ ہوں گے۔ اور اس کی تائیدمیں حضورؑ کی یہ تحریرہماری راہنمائی کرتی ہے۔

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’میرے پر ایسی رات کوئی کم گذرتی ہے جس میں مجھے یہ تسلی نہیں دی جاتی کہ میں تیرے ساتھ ہوں۔‘‘(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۸،روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۴۹)آئینہ کمالات اسلام میں تحریرفرماتے ہیں :’’ولما بلغت أشدعمری وبلغت اربعین سنۃ جاءتنی نسیم الوحی بِرَیَّا عنایات ربی لیزید معرفتی ویقینی ویرتفع حجبی و اکون من المستیقنین فأول ما فتح علی بابہ ھو الرؤیا الصالحۃ فکنت لا أریٰ رؤیا الاجاءت مثل فلق الصبح۔ و انی رأیت فی تلک الایام رؤیا صالحۃ صادقۃ قریبًامن ألفین او أ کثرمن ذالک۔ منہا محفوظۃ فی حافظتی وکثیر منہا نسیتہا۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵صفحہ۵۴۸)اورجب میں بلوغت کی پختہ عمرکوپہنچایعنی چالیس سال کو،تومیرے رب کی رحمتوں کی خوشبوؤں کولے کر وحی کی بادنسیم میرے پاس آئی جس سے میری معرفت اور میرایقین اور میرے سارے پردے اٹھ گئے اور میں یقین کرنے والوں میں سے ہوگیا۔اور اس کاسب سے پہلادروازہ جومجھ پرکھولاگیا وہ رؤیائے صالحہ تھے۔اور میں کوئی رؤیانہیں دیکھتاتھاکہ وہ روزروشن کی طرح پوری ہوجاتی تھی۔اوران دنوں میں مَیں نے کوئی دو ہزار سے بھی زیادہ رؤیائے صالحہ صادقہ دیکھے جن میں سے کچھ تومیرے حافظہ میں محفوظ ہیں اور ان میں سے اکثرمیں بھول گیاہوں۔

اوریہ سلسلۂ مکالمہ ومخاطبہ اس وقت بہت زیادہ بڑھ گیا اور زورشور سے شروع ہوگیا جب آپؑ کے والدماجدکی وفات ہوئی۔چنانچہ آپؑ تحریرفرماتے ہیں :’’ غرض میری زندگی قریب قریب چالیس برس کے زیرسایہ والد بزرگوارکے گزری۔ایک طرف ان کادنیاسے اٹھایاجاناتھا اورایک طرف بڑے زورشور سے سلسلہ مکالمات الٰہیہ مجھ سے شروع ہوا۔میں کچھ بیان نہیں کرسکتا کہ میراکون ساعمل تھا جس کی وجہ سے یہ عنایت الٰہی شامل حال ہوئی۔صرف اپنے اندریہ احساس کرتاہوں کہ فطرتاً میرے دل کوخداتعالیٰ کی طرف وفاداری کے ساتھ ایک کشش ہے جو کسی چیزکے روکنے سے رک نہیں سکتی۔‘‘(کتاب البریہ ،روحانی خزائن جلد۱۳صفحہ۱۹۵۔۱۹۶، حاشیہ)

ایک اَورجگہ حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شرف مکالمہ ومخاطبہ کی کثر ت کاذکرفرمایاہے جس میں اس کے سنہ کی تعیین کرنابھی کوئی مشکل نہیں رہتا۔آپؑ اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں: ’’دانیال نبی کی کتاب میں مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ وہی لکھا ہے جس میں خدا نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اور لکھا ہے کہ اس وقت بہت لوگ پاک کئے جائیں گے اور سفید کئے جائیں گے اور آزمائے جائیں گے لیکن شریر شرارت کرتے رہیں گے اور شریروں میں سے کوئی نہیں سمجھے گا پر دانشور سمجھیں گے اور جس وقت سے دائمی قربانی موقوف کی جائے گی اور مکروہ چیز جو خراب کرتی ہے قائم کی جائے گی ایک ہزار دو سو نوے۱۲۹۰ دن ہوں گے۔ مبارک وہ جو انتظار کرتا ہے اور ایک ہزار تین سو پینتیس۱۳۳۵ روز تک آتاہے۔‘‘اس پیشگوئی میں مسیح موعود کی خبر ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا۔ سو دانیال نبی نے اس کا یہ نشان دیا ہے کہ اس وقت سے جو یہود اپنی رسم قربانی سوختنی کو چھوڑ دیں گے اور بد چلنیوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔ ایک ہزار دو سو نوے سال ہونگے جب مسیح موعود ظاہر ہوگا سو اِس عاجز کے ظہور کا یہی وقت تھا کیونکہ میری کتاب براہین احمدیہ صرف چند سال بعد میرے مامور اور مبعوث ہونے کے چھپ کر شائع ہوئی ہے اور یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک بارہ سو نوے۱۲۹۰ ہجری میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ و مخاطبہ پا چکا تھا۔ پھر سات سال بعد کتاب براہین احمدیہ جس میں میرا دعویٰ مسطور ہے تالیف ہو کر شائع کی گئی جیسا کہ میری کتاب براہین احمدیہ کے سرورق پر یہ شعر لکھا ہوا ہے:

از بس کہ یہ مغفرت کا دِکھلاتی ہے راہ

تاریخ بھی یا غفور نکلی واہ واہ

سو دانیال نبی کی کتاب میں جو ظہور مسیح موعود کے لئے بارہ سو نوے۱۲۹۰ برس لکھے ہیں۔ اِس کتاب براہین احمدیہ میں جس میں میری طرف سے مامور اور منجانب اللہ ہونے کا اعلان ہے صرف سات برس اِس تاریخ سے زیادہ ہیں جن کی نسبت میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ اِن سات برس سے پہلے کا ہے یعنی بارہ سو نوے۱۲۹۰ کا۔ پھر آخری زمانہ اس مسیح موعود کا دانیال تیرہ سو پینتیس۱۳۳۵ برس لکھتا ہے۔ جو خدا تعالیٰ کے اس الہام سے مشابہ ہے جو میری عمر کی نسبت بیان فرمایا ہے اور یہ پیشگوئی ظنی نہیں ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ کی پیشگوئی جو مسیح موعود کے بارہ میں انجیل میں ہے اُس کا اِس سے توارد ہو گیا ہے اور وہ بھی یہی زمانہ مسیح موعود کا قرار دیتی ہے چنانچہ اس میں مسیح موعود کے زمانہ کی یہ علامتیں لکھی ہیں کہ اُن دنوں میں طاعون پڑے گی، زلزلے آئیں گے، لڑائیاں ہوں گی اور چاند اور سورج کا کسوف خسوف ہوگا۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ جس زمانہ کے آثار انجیل ظاہر کرتی ہے اُسی زمانہ کی دانیال بھی خبر دیتا ہے اور انجیل کی پیشگوئی دانیال کی پیشگوئی کو قوت دیتی ہے کیونکہ وہ سب باتیں اس زمانہ میں وقوع میں آگئیں ہیں اور ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کی وہ پیشگوئی جو بائبل میں سے استنباط کی گئی ہے اس کی مؤید ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود آدم کی تاریخ پیدائش سے چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوگا چنانچہ قمری حساب کے رُو سے جو اصل حساب اہل کتاب کا ہے میری ولادت چھٹے ہزار کے آخر میں تھی اور چھٹے ہزار کے آخر میں مسیح موعود کا پیدا ہونا ابتدا سے ارادۂِ الٰہی میں مقرر تھا۔ کیونکہ مسیح موعود خاتم الخلفاء ہے اور آخر کو اوّل سے مناسبت چاہئے۔ اور چونکہ حضرت آدم بھی چھٹے دن کے آخر میں پیدا کئے گئے ہیں اِس لئے بلحاظ مناسبت ضروری تھا کہ آخری خلیفہ جو آخری آدم ہے وہ بھی چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو۔ وجہ یہ کہ خدا کے سات دنوں میں سے ہر ایک دن ہزار برس کے برابر ہے جیسا کہ خود وہ فرماتا ہے اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (الحج:۴۸)اور احادیث صحیحہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود چھٹے ہزار میں پیدا ہوگا۔ اِسی لئے تمام اہل کشف مسیح موعود کا زمانہ قرار دینے میں چھٹے ہزار برس سے باہر نہیں گئے اور زیادہ سے زیادہ اُس کے ظہور کا وقت چودھویں صدی ہجری لکھاہے۔ اور اہل اسلام کے اہل کشف نے مسیح موعود کو جو آخری خلیفہ اور خاتم الخلفاء ہے صرف اِس بات میں ہی آدم سے مشابہ قرار نہیں دیا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں پیدا ہوا اور مسیح موعود چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوگا بلکہ اس بات میں بھی مشابہ قرار دیا ہے کہ آدم کی طرح وہ بھی جمعہ کے دن پیدا ہوگا اور اس کی پیدائش بھی توام کے طور پر ہوگی یعنی جیسا کہ آدم توام کے طور پر پیدا ہوا تھا پہلے آدم اور بعد میں حوّا۔ ایسا ہی مسیح موعود بھی توام کے طور پر پیدا ہوگا۔ سو الحمدللّٰہ والمنۃ کہ متصوفین کی اس پیشگوئی کا میں مصداق ہوں میں بھی جمعہ کے روز بوقت صبح توام پیدا ہوا تھا صرف یہ فرق ہوا کہ پہلے لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام جنت تھا۔ وہ چند روز کے بعد جنت میں چلی گئی اور بعد اس کے میں پیدا ہوا۔ ‘‘(حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۹۹۔۲۰۱،روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۰۷-۲۰۹)

مذکورہ بالااقتباس میں ۱۲۹۰؍ ہجری کاسنہ عیسوی ۱۸۷۳ء بنتاہے۔ مارچ ۱۸۷۳ء سے ہجری سنہ ۱۲۹۰ء شروع ہوتاہے۔

پھرتوگویاکلام والہام کایہ سلسلہ بارش کی طرح شروع ہوگیا۔جیساکہ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں : ’’ بعض دن ایسے گذرتے ہیں کہ الہامات الٰہی بارش کی طرح برستے ہیں۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۳۵۵)

اورپھرخداتعالیٰ نے آپؑ کوالہاماً بتلایاکہ ’’ اس زمانہ میں کوئی معرفت الٰہی اور کوئی محبت الٰہی تیری معرفت اور محبت کے برابرنہیں ‘‘(ضرورۃ الامام،روحانی خزائن جلد ۱۳صفحہ ۵۰۲)

ابھی ایک تفصیلی اقتباس چشمہ مسیحی سے لیاگیاتھا جس میں آپؑ فرماتے ہیں مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مَیں اپنے خدائے پاک کے یقینی اورقطعی مکالمہ سے مشرف ہوں اور قریباً ہر روز مشرف ہوتا ہوں۔

ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں :’’میں بار بار کہتا ہوں۔ اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھنا اور سچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحب کرامات بنا دیتا ہے۔ اور اسی کامل انسان پر علوم غیبیہ کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ اور دنیا میں کسی مذہب والا روحانی برکات میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ چنانچہ میں اس میں صاحب تجربہ ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام تمام مذہب مُردے ان کے خدا مُردے اور خود وہ تمام پیرو مُردے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہوجانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں ہرگز ممکن نہیں۔

اے نادانوں! تمہیں مردہ پرستی میں کیا مزہ ہے؟ اور مُردار کھانے میں کیا لذّت؟!!! آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے۔ اور کس قوم کے ساتھ ہے۔ وہ اسلام کے ساتھ ہے۔ اسلام اِس وقت موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا بول رہاہے۔ وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہوگیا۔ آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کررہا ہے۔ کیا تم میں سے کسی کو شوق نہیں؟ کہ اس بات کو پرکھے۔ پھر اگر حق کو پاوے تو قبول کر لیوے۔ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ کیا ایک مُردہ کفن میں لپیٹا ہوا۔ پھر کیا ہے؟ کیا ایک مشت خاک۔ کیا یہ مردہ خدا ہوسکتا ہے؟ کیا یہ تمہیں کچھ جواب دے سکتا ہے؟ ذرہ آؤ! ہاں! لعنت ہے تم پر اگر نہ آؤ۔ اور اس سڑے گلے مردہ کا میرے زندہ خدا کے ساتھ مقابلہ نہ کرو۔

دیکھو میں تمہیں کہتا ہوں کہ چالیس دن نہیں گذریں گے کہ وہ بعض آسمانی نشانوں سے تمہیں شرمندہ کرے گا۔ ناپاک ہیں وہ دل جو سچے ارادہ سے نہیں آزماتے۔ اور پھر انکار کرتے ہیں۔ اور پلید ہیں وہ طبیعتیں جو شرارت کی طرف جاتی ہیں نہ طلب حق کی طرف۔

او میرے مخالف مولویو! اگر تم میں شک ہو تو آؤ چند روز میری صحبت میں رہو۔ اگر خدا کے نشان نہ دیکھو تو مجھے پکڑو۔ اور جس طرح چاہو تکذیب سے پیش آؤ۔ میں اتمام حجت کرچکا۔ اب جب تک تم اس حجت کو نہ توڑ لو۔ تمہارے پاس کوئی جواب نہیں۔ خدا کے نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں۔ کیا تم میں سے کوئی نہیں جو سچا دل لے کر میرے پاس آوے۔ کیا ایک بھی نہیں۔

’’دنیا میں ایک نذیر آیا۔ پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زورآورحملوں سے اس کی سچائی ظاہرکردے گا۔‘‘(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۴۵-۳۴۷)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button