مکتوب

مکتوب کینیڈا

(فرحان احمد حمزہ قریشی۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

(بابت ماہ نومبر۲۰۲۳ء)

۲۰۲۶ء میں ہجرت کرنے والوں پر حد بندی

اوائل نومبر میں کینیڈا کی حکومت نے اگلے دو سالوں میں ہجرت کر کے مستقل رہائشی(permanent resident) بننے والوں کی تعداد پر حد لگا دی اور اعلان کیا کہ ۲۰۲۶ء میں یہ تعداد حسبِ سابق پانچ لاکھ ہی رہے گی۔ اس سے قبل ۲۰۲۴ء اور ۲۰۲۵ء کے لیے بھی کم و بیش یہی تعداد رکھی گئی تھی۔

مستقل رہائشیوں کی تعداد کو نہ بڑھانے کا فیصلہ عوام کی رائے کی عکاسی کر رہا ہے۔ حالیہ رائے شماری کے مطابق کینیڈا کی عوام امیگریشن کے زیادہ حق میں نہیں ہیں خصوصاً اس لیے کہ مہاجرین کی آمد سے مہنگائی بڑھتی ہے اور مکانات کی قیمت متأثر ہوتی ہے۔

پچھلے چند سالوں سے کینیڈا میں مہاجرین کی کثرت اور مکانات کی تعمیر میں تاخیر اور دیگر مسائل کی وجہ سے مکانات کی قیمت بہت بڑھ گئی ہےاور بعض علاقوں میں مکانات ملنے ناممکن ہو گئے ہیں۔

کینیڈا کے وزیرِ امیگریشن مارک مِلر نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس حد بندی میں مکانات کے مسئلہ کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت زیادہ ماہر معماروں اور تعمیری کارکنوں کو بیرونِ ملک سے لانے کا ارادہ رکھتی ہے اور ساتھ ہی کہا کہ اب پہلے سے بڑھ کر عوام امیگریشن کو تنقیدی نظر سے دیکھ رہی ہے اور حکومت سے توقع رکھتی ہے کہ زیادہ منظم طور پر اس مسئلہ کو حل کرے گی۔

وزیر مِلر صاحب نے کہا کہ کینیڈا کو تقریباً ایک لاکھ تعمیری کارکنوں کی ضرورت ہے تا کہ مکانات کی کمی کو پورا کیا جا سکے اور اس وجہ سے گورنمنٹ ماہر مہاجرین کو یہاں لانا چاہتی ہے۔

وزارت امیگریشن نے یہ بھی کہا کہ پانچ لاکھ کی تعداد برقرار رکھنے سے نئے مستقل رہائشیوں کے کامیاب انضمام (integration) کو یقینی بنایا جا سکے گا۔ (بحوالہ اخبار ’’ دِی گلوب اینڈ میل‘‘، یکم نومبر ۲۰۲۳ء)

کینیڈا کے وزیرِ اعظم کے اسرائیل؍حماس جنگ کے متعلق بیانات

وسط نومبر میں امریکی شہر سان فرانسسکو میں بحرِاوقیانوس (Pacific Ocean) کے پاس واقع اقوام کے درمیان سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے APEC Summitکا انعقاد ہوا۔

اس سَمِٹ کے دوران کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے صحافیوں کو بیان دیا کہ ’’کینیڈا کو غزہ کے معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد پر بہت فکر ہے۔نہ صرف اس لیے کہ اس قدر موتوں کو دیکھ کر دل کو تکلیف ہوتی ہے بلکہ اس لیے بھی کہ فلسطینیوں پر جو تشدد کیا جا رہا ہے اس کے پیشِ نظر ایک محفوظ، قابلِ قبول اور آزاد اسرائیلی ریاست اور محفوظ، آزاد فلسطینی ریاست، ہر دو کے قیام کے امکانات ختم ہوتے جارہے ہیں۔ ‘‘

وزیر اعظم ٹروڈو نے اپنے سابقہ بیان کا تکرار بھی کیا کہ اسرائیل کو’’غایت درجہ پرہیز اختیار کرنا چاہیے‘‘اور عورتوں اور بچوں کے قتل سے رک جانا چاہیے۔ اس بیان کی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے سخت مذمت کی تاہم وزیراعظم ٹروڈو اپنے بیان پر قائم رہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس بات سے بھی پریشان ہیں کہ جذبات کی رو میں بعض کینیڈین ایک دوسرے پر غصےکا اظہار کررہے ہیں۔ مسلمانوں اور یہودیوں کے خلاف بعض جگہوں پر نفرت آمیز اور غیر قانونی کارروائیاں کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا ’’کینیڈا ایسا ملک نہیں ہے جہاں اس کے شہری ایک دوسرے سے خوفزدہ ہوں‘‘۔ (بحوالہ ’’دی گلوب اینڈ میل‘‘،۱۷؍ نومبر ۲۰۲۳ء )

پاکستانی نژاد فیملی کے قتل میں نوجوان کو کورٹ نے مجرم قرار دےدیا

جون ۲۰۲۱ء میں کینیڈا کے صوبہ انٹاریو کے شہر لندن میں ایک افسوس ناک سانحہ ہوا جس میں ایک نوجوان بنام نتھینیل ویلٹمین نے شام کے وقت چہل قدمی کرتے ہوئے ایک پاکستانی نژاد کینیڈین فیملی کو اپنی گاڑی تلے کچل دیا۔ موقع پر ہی اس فیملی کے چار افراد سلمان افضال (عمر ۴۶)، مدیحہ سلمان (عمر ۴۴)، طلعت افضال (عمر ۷۴) اوریمنیٰ افضال (عمر ۱۵) جاں بحق ہو گئے اور صرف ایک نو سالہ بچہ،فائز افضال، شدید زخمی حالت میں زندہ بچا۔ گویا نہایت بہیمانہ طریق سے اس خاندان کی تین نسلوں کو قتل کر دیا گیا۔

مجرم کو سزا دلوانے کے لیے یہ معاملہ کچھ عرصہ سے کورٹ میں زیر غور تھا اور بالآخر ۱۶؍ نومبر کو جیوری (jury) نے چھ گھنٹے کے غور و خوض کے بعد اس کو قانونی مجرم قرار دیا۔ کینیڈا کے قانون کے مطابق اس صورت میں جبکہ ملزم کو first-degreeقتل(یعنی ایسا قتل جوجان بوجھ کر پورے ہوش و حواس میں کیا جائے) کا مجرم قرار دیا جائے تو کم از کم ۲۵ سال قید کی سزا دی جاتی ہے۔

۲۲؍ سالہ نتھینیل سفید قوم پرستی کے عقائد کا حامی ہے اور کورٹ میں prosecution (استغاثہ) نے اس بات کو ثابت کرنا چاہا کہ نتھینیل نہ صرف قاتل بلکہ دہشت گرد بھی ہے۔ کینیڈا میں پہلی دفعہ کسی جیوری کے سامنے کامیابی سے ایک دہشت گرد کواستغاثہ نے first-degree قتل کا مجرم تسلیم کروایا ہے۔ (بحوالہ ’’بی بی سی اردو‘‘ نیز اخبار ’’دی گلوب اینڈ میل ‘‘ مورخہ ۱۷؍ نومبر۲۰۲۳ء)

پلاسٹک کی اشیا پر پابندی کے متعلق وفاقی عدالت کا فیصلہ

کچھ عرصے سے کینیڈا کی گورنمنٹ پلاسٹک کی بعض اشیا پر پابندیاں لگا رہی ہے تا کہ ان کے environment (ماحول) پر منفی اثر کا مقابلہ کیا جا سکے۔چنانچہ ۲۰۲۱ء میں گورنمنٹ نے single-use پلاسٹک پر پابندی کا اعلان کرتے ہوئے Environment Protection Act (ماحول کی حفاظت کا قانون) کا اجراکیا جس کے مطابق روز مرہ استعمال کی جانے والی پلاسٹک کی اشیا جو ایک دفعہ کے استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں اور جنہیں single-use پلاسٹک کہا جاتا ہے، کو toxic (زہریلا) قرار دیا گیا۔ ان اشیا میں شاپنگ بیگ، مشروبات کے لیے straws، پلاسٹک کے کانٹےاور چمچ وغیرہ شامل ہیں۔

اس قانون کے اجرا پر پلاسٹک صنعت کی بڑی کمپنیوں نے جن میں Dow Chemical اور Imperial Oil شامل ہیں، اعتراض کیا کہ ان تمام اشیاکو ناحق زہریلا کہا گیا ہے نیز دو صوبے البرٹا اورسسکیچوان نے کہا کہ اس قانون کے ذریعے صوبائی حکومت کے اختیارات پر وفاقی حکومت مداخلت کر رہی ہے۔

یہ معاملہ وفاقی عدالت کے سامنے رکھا گیا اور ۱۶؍ نومبر کو وفاقی جسٹس نے فیصلہ سنایا کہ حکومت کا پلاسٹک اشیاکو یکسر زہریلا قرار دینا نہ صرف دستورِ اساسی (constitution) کے خلاف ہے بلکہ نامناسب بھی ہے۔اس فیصلہ کے مطابق حکومت کو اس بات کا اختیار نہیں کہ تمام پلاسٹک اشیا کو زہریلا قرار دے بلکہ صرف پلاسٹک کی خاص اشیاکو زہریلا قرار دینا جائز ہو گا اور وہ بھی ایک معیّن regulation یا ضابطہ کے ذریعے۔

اس فیصلہ پر کینیڈا کےوزیرِ ماحولیات نے بیان دیا کہ ’’ ہماری حکومت وفاقی عدالت کے فیصلے پر اپیل دائر کرے گی اور ہم سب تراکیب کو جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پلاسٹک کی آلودگی کے خلاف جدوجہد میں آگے بڑھا جا سکے۔‘‘ (بحوالہ ’’سی بی سی نیوز‘‘ ۲۰؍ نومبر۲۰۲۳ء اور ’’دی گلوب اینڈ میل‘‘۱۶؍ نومبر۲۰۲۳ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button